[تحریر: جان پیٹرسن، عمران کامیانہ]
1948ء میں مشہور انقلابی مصنف جارج اورویل نے اپنا شہرہ آفاق ناول ’’1984‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔ طنز پر مبنی یہ ناول ایک ایسی فرضی ریاست کے گرد گھومتا ہے جہاں ہر وزارت کا نام اس کے کام سے الٹ ہے، مثلاً وزارت جنگ کا نام وزارت محبت۔ آج امریکہ کی سامراجی ریاست اسی خیالی سلطنت کا حقیقی روپ معلوم ہوتی ہے۔
سی آئی اے کے جبر و تشدد پر امریکی سینیٹ کی حالیہ رپورٹ سٹیفن کنگ کی کسی ڈراؤنی کہانی سے کم نہیں ہے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد نازی جرمنی کے جنگی مجرموں نے بھی ایسے ہی ہولناک انکشافات کئے تھے۔ ایک ایسے ملک کی ریاست، رونگٹے کھڑے کر دینے والے انسانیت سوز مظالم میں ملوث ہے جو دنیا کو ’’آزادی کا اعلانیہ‘‘ (Declaration of Independence) دینے کا دعویدار ہے۔ یہ رپورٹ ’’لبرل بورژوازی‘‘ اور ’’سول سوسائٹی‘‘ کے ان خواتین و حضرات کا موثر تریاک بھی ہے جو ابھی تک امریکی ’’جمہوریت‘‘، ’’انسانی حقوق‘‘ اور ’’آزادی‘‘ کے گن گاتے ہیں۔ یہ کوئی ’’کمیونسٹ پراپیگنڈا‘‘ نہیں ہے بلکہ سامراج نے اپنی وحشت کا اقرار خود کیا ہے۔
’’دہشت کے خلاف جنگ‘‘ کے مالیاتی حقائق اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے ہیں۔ لینن کے بقول ’’ہولناک جنگ ہولناک حد تک منافع بخش بھی ہوتی ہے۔‘‘ 2001ء میں جارج ڈبلیو بش، ڈک چینی اور ڈونلڈ رمزفیلڈ کی طرف سے شروع کئے گئے جنگی کاروبار میں اسلحہ سازی، ملٹری ٹھیکوں اور تیل کی صنعت سے وابستہ سرمایہ داروں نے ہزاروں ارب ڈالر کمائے۔ ۔ بلیک واٹر جیسی کرائے کے فوجی مہیا کرنے والی کمپنیوں کو منافعوں سے لبریز ٹھیکے دئیے گئے، وہ بھی کسی بولی کے بغیر۔ امریکی جرنیلوں، سیاستدانوں اور ریاستی بیوروکریسی نے بھی کمیشن اور کک بیکس میں خوب مال بنایا۔’’جنگ کی نجکاری‘‘ کا مظہر پہلی بار بڑے پیمانے پر دیکھنے کو ملاجس میں جنگی قیدیوں پر جبر و تشدد کے ذریعے ’’پوچھ کچھ‘‘ کا کام بھی ٹھیکے پر نجی شعبے کو دے دیا گیا۔نیو یارک ٹائمز کے مطابق ’’تفتیشی ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ 2002ء میں ایک ایسے شخص کو بنایا گیا جس کے بارے میں سی آئی اے کے انسپکٹر جنرل نے تنبیہہ کی تھی کہ وہ 1980ء کی دہائی میں لاطینی امریکہ میں تفتیش کے لئے غیر انسانی طریقے استعمال کرتا رہا ہے…(تفتیش کے )اس پروگرام سے ماہرین نفسیات بھی 1800ڈالر روزانہ کے حساب سے کماتے رہے۔ ڈاکٹر مچل اور ڈاکٹر جیسن نے 2005ء میں اپنی کمپنی کھول لی جسے سی آئی اے نے پورے پروگرام کا ہی ٹھیکہ دے دیا۔ سی آئی اے نے اس کمپنی کو آٹھ کروڑ ڈالر ادا کئے۔ تفتیشی ٹیموں میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا جو خود نفسیاتی مریض تھے اور جن پر جنسی جرائم کے الزامات تھے۔‘‘
جنگ کی منافع بخش صنعت کی وحشت اور بربریت کی یہ صرف ایک جھلک ہے۔ سی آئی اے نے COBALT اور Salt Pit جیسے خفیہ ناموں سے قائم کی گئی اذیت گاہوں میں انسانیت کے خلاف بدترین جرائم کا ارتکاب کیا۔ جن ملزمان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ان کی اکثریت بے گناہ تھی۔سی آئی اے ’’تفتیش‘‘ کے لئے ایسے طریقہ کار استعمال کرتی ہے جن کے بارے سن کر بھی انسان لرز اٹھتا ہے۔ ان میں سر فہرست Waterboarding ہے جس میں انسان کے چہرے پر کپڑا باندھ کر اس پر مسلسل پانی ٹپکایا جاتا ہے اور ہر لمحہ دم گھٹنے کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح کرسی سے باندھ کر سر پر قطرہ قطرہ پانی ٹپکایا جاتا ہے اورکچھ دیر کے بعد پانی کا ہر قطرہ ہتھوڑے کی طرح سر پر برستا ہے۔ برہنہ کر کے تذلیل، یخ ٹھنڈے پانی میں پھینکنا، خوراک یا پینے کا پانی نہ دینا، اذیت ناک پوزیشن میں کھڑا رکھنایا بٹھانا، آنکھوں میں مسلسل چمکدار روشنی مارنا، گرج دار میوزک مسلسل سنانا، کئی دن تک سونے نہ دینا، جسم پر سگریٹ بجھانا، بیت الخلاکی سہولت سے محروم رکھنا اور ایسے درجنوں دوسرے طریقہ کار استعمال کئے جاتے ہیں۔ حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قیدیوں کو دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں کہ ان کے اہل خانہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا یا ان کے گلے کاٹ دئیے جائیں گے۔ ایک ایسے قیدی کا تذکرہ بھی ہے جسے ٹھنڈ سے مرنے کے لئے برہنہ حالت میں یخ بستہ تہہ خانے میں چھوڑ دیا گیا۔ نازی جرمنی کی یاد تازہ کردینے والی اس ’’تفتیش‘‘ سے مطلوبہ نتائج بہرحال برآمد نہیں ہوئے اور اسامہ بن لادن سے متعلق کوئی شواہد نہیں مل پائے۔ اس سلسلے میں ’’فرنٹ لائن اتحادی‘‘ریاست کا ایک دھڑا ہی امریکی سامراج کے کام آیا!
یاد رہے کہ امریکہ کے ’’ہوم لینڈ سیکیورٹی‘‘ کے چیف نے 2009ء میں واضح کر دیا تھا کہ ’’انٹیلی جنس کمیٹیوں، کانگریس اور سینیٹ کا ہر رکن اس تفتیشی پروگرام سے مکمل طور پر آگاہ ہے۔ یہ سی آئی اے کا نہیں بلکہ امریکی صدر اور امریکی ریاست کا پروگرام ہے۔‘‘ کئی سالوں تک ’’جمہوریت‘‘ کے ایوانوں میں بیٹھے امریکی حکمران طبقے کے گماشتے خاموش تماشائی بنے رہے اور اب یہ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد بے خبر اور معصوم ہونے کا ناٹک کررہے ہیں۔
یہ بربریت طالبان یا داعش نے نہیں بلکہ دنیا بھر میں ’’انسانی حقوق‘‘ کی ٹھیکیداری کرنے والی ریاست نے اپنے ’’شہریوں کی حفاظت‘‘کے نام پر ڈھائی ہے۔ یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے اور جب تک سامراج اور اس کے نظام کو پاش پاش نہیں کیا جاتا، جاری رہے گا۔ اس رپورٹ سے امریکی عوام کو بھی پتا چلے گا کہ دنیا بھر میں امریکہ جھنڈے کو نفرت کی علامت کیوں سمجھا جاتا ہے۔ گوانتا نامو میں دہشت گردی کے مقدمات کے چیف پراسیکیوٹر نے خود اعتراف کیا ہے کہ امریکہ کی ساکھ کو پہنچے والے نقصان کا ازالہ کرنے میں دہائیاں لگیں گی۔
امریکی سامراج ہمیشہ جھوٹ اور مبالغہ آرائی کی بنیاد پر وحشت کا بازار گرم کرتا آیا ہے۔ 9/11 کے کسی ہائی جیکر کا تعلق افغانستان سے نہیں تھا لیکن واقعہ کے فوراً بعد اس ملک پر فوج کشی کر دی گئی۔ القاعدہ اور صدام حسین کے درمیان کوئی رابط اور تعلق نہ تھا، خفیہ رپوٹوں میں ’’بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں‘‘ کے کوئی شواہد نہیں ملے لیکن عراق کو تاراج کردیا گیا۔عراق اور افغانستان میں دس لاکھ سے زائد بے گناہ انسان اب تک لقمہ اجل بن چکے ہیں، اس سے کہیں زیادہ تعداد ان پناہ گزینوں کی ہے جن کے گھر اجڑ گئے اور زندگیاں برباد ہوگئیں۔ ان جنگوں میں ہزاروں امریکی فوجی بھی ہلاک ہوئے جبکہ لاکھوں عمر بھر کے لئے اپاہج یا نفسیاتی مریض بن گئے۔ یہ امریکی جوان بھی زیادہ تر غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے جنہیں غربت اور بیروزگاری نے سامراجی جنگ کا ایندھن بنا ڈالا۔
اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے میں ’’ جمہوریت‘‘ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ عرصہ پہلے تیار ہوجانے والی چھ ہزار صفحات کی یہ رپورٹ امریکی سینیٹ میں بیٹھے ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندگان نے کانگریس کے حالیہ وسط مدتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی سے شکست کھانے کے بعد شائع کی ہے تاکہ 2016ء کے عام انتخابات کے لئے اپنی پوزیشن مستحکم کی جاسکی۔یہ سب سرمایہ دارانہ معیشت کے گہرے بحران کے باعث امریکی حکمران طبقے کی بڑھتی ہوئی آپسی چپقلش کا شاخسانہ ہے۔ حکمرانی کا نظام جب زوال پزیر ہو تو حکمران طبقے کے داخلی تضادات نا گزیر طور پر سر اٹھاتے ہیں۔ 1853ء سے امریکی سیاست پر حاوی ان دونوں جماعتوں کا اختلاف سرمایہ داری پر نہیں بلکہ اسے چلانے کے طریقوں پر ہے۔ آخری تجزئیے میں دونوں پارٹیاں حکمران طبقے کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ لوٹ مار کے گرد جنم دینے والے یہ سیاسی اختلافات آنے والے دنوں میں بڑھیں گے، دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف کئی سکینڈل کھولیں گی لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت کے لئے بازاری سیاست کے یہ تمام جگادری ہمیشہ یکجا نظر آئیں گے۔
ڈیموکریٹک پارٹی دراصل امریکی سامراج کا ’’جھاڑو‘‘ ہے جس کا کام ریپبلکن پارٹی کا ڈالا ہوا گند صاف کرنا ہے۔ ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے پر برسر اقتدار آنے والے باراک اوباما نے بھی گوانتا نامو جیل کوختم نہیں کیا ہے۔ ایڈورڈ سنوڈن نے امریکی شہریوں کی جاسوسی کے جس پروگرام (NSA) کا بھانڈا پھوڑا تھا وہ بدستور چل رہا ہے۔ اوباما نے بش کے ڈرون پروگرام کو نہ صرف جاری رکھا ہے بلکہ مزید وسیع کیا ہے۔حالیہ رپورٹ میں انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث جن افراد کا ذکر ہے ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا ۔ یہی سرمایہ دارانہ جمہوریت کی ’’تبدیلی‘‘ ہے۔
یہ رپورٹ اس ’’امریکی خواب‘‘ (American Dream) کو چکنا چور کرے گی جو سامراجی ریاست عرصہ دراز سے اپنے عوام کو دکھا رہی ہے۔ یہ تلخ حقائق امریکی عوام پر اس جبر، وحشت اور ڈاکہ زنی کو آشکار کریں گے جس کا بازار امریکہ کے خوانخوار حکمران طبقے نے ’’حب الوطنی‘‘ کے نام پر دنیا بھر میں گرم کر رکھا ہے۔ سامراجیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی خوفناک حقیقت کا یہ ادراک امریکہ میں طبقاتی جدوجہد کو نئی شکتی دے گا!
متعلقہ: