پاکستان: بربادیوں کی داستان

[تحریر: آدم پال]
عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں سے لے کر حکمرانوں کے بیرون ملک کے دوروں سمیت بہت سے نان ایشوز عوام کے شعور پر جبراًمسلط کرنے کی سر توڑ کوششوں کے باوجود زندگی کی تلخ حقیقتیں ہر روز محنت کش عوام کے صبر اور حوصلے کا امتحان لیتی ہیں۔ خواہ اخباروں کی سرخیوں اور نمایاں صفحات پر جگہ نہ ملے اور ٹی وی کے نیوز بلیٹن میں حقیقی مسائل پر مبنی خبروں کو دبایا جائے لیکن اس کے باوجود سلگتے ہوئے مسائل سماج کی تہوں میں نہ صرف موجود ہیں بلکے وقتاً فوقتاً چنگاریاں بن کر ابھر تے رہتے ہیں۔ گیس کی بد ترین لوڈ شیڈنگ، بیروزگاری اور مہنگائی کو خواہ حکمرانوں کا وظیفہ خوار میڈیا کتنا ہی دبائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ شدید سردی میں محنت کش عوام ٹھنڈے چولہوں اور پیٹ کی آگ کے احتجاج سے برسر پیکار ہیں۔
حکمران عوام سے جتنا بھی جھوٹ بول لیں اور انہیں معاشی ترقی اور مسائل کے حل کے جتنے مرضی سپنے دکھا دیں روز مرہ زندگی کی الم ناک حقیقتیں ان کے خلاف نفرت میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہیں۔ وزیر اعظم کے حالیہ دورہ چین کی مبینہ کامیابی سے لے کر آئی ایم ایف سے ’کامیاب‘ مذاکرات کے اعلان کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ملک کی معیشت بدترین بحران کا شکار ہے اور محنت کش عوام کے خون کے قطرے نچوڑے جا رہے ہیں۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے اشاروں پر چلنے والے اس نظام میں بہتری کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ آنے والا ہر دن مزید بربادی اور تباہی لائے گا۔ مزید براں اس تباہی اور بربادی کا سارا بوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر ڈالا جائے گا جبکہ سرمایہ داروں اور تمام دولت مند افراد کے خزانے بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔
اطلاعات کے مطابق چین سے ہونے والے حالیہ معاہدوں کے مطابق چینی کمپنیاں آئندہ چھ سال میں پاکستان میں 45.6 ارب ڈالر کی سرمایہ کریں گی۔ اس میں سے 33.8 ارب ڈالر توانائی کے شعبے میں صرف ہوں گے جبکہ دیگر 11.8 ارب ڈالر انفرااسٹرکچر کے منصوبے پر خرچ کیے جائیں گے۔ یہ رقم چینی بینکوں کی جانب سے چینی کمپنیوں کو دی جائے گی۔ گو کہ چین کی معیشت کے حجم اور پوری دنیا میں اس کی سرمایہ کاری کے اعتبار سے یہ اتنی بڑی رقم نہیں لیکن پاکستان کی معیشت کے حجم کے اعتبار سے یہ بہت بڑی سرمایہ کاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران طبقات میں اس سرمایہ کاری میں حصہ داری اور لوٹ مار پر پہلے ہی تضادات ابھر رہے ہیں اور وہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام کی لگام چینی حکمران طبقے کو تھمانے کے لیے اپنی گماشتگی کا زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا اس سرمایہ کاری سے پاکستان کی معیشت کے مسائل حل ہو سکیں گے؟
اگراعداد و شمار کو دیکھیں اور حالیہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری دنیا میں جہاں بھی گئی ہے وہاں غربت، محرومی اور ذلت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ سرمایہ داری کے عالمگیر بحران کے دوران کسی بھی بیرونی سرمایہ کاری کا مقصد اس ملک کے انفرا اسٹرکچر کی بہتری یا بیروزگاری میں کمی نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد سرمایہ کاروں کے منافعوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی گزشتہ عرصے میں ہونے والی تمام سرمایہ کاری یہاں کے محنت کشوں کو لوٹنے کا باعث بنی ہے۔ اس سرمایہ کاری کے بعد عوام اور انفرااسٹرکچر کی حالت پہلے سے بدترہو چکی ہے جبکہ سرمایہ کاروں کے منافعے کئی گنا بڑھے ہیں۔ بجلی کے شعبے میں ہونے والی سرمایہ کاری ایک واضح مثال ہے جہاں لوڈ شیڈنگ میں اضافے کے ساتھ ساتھ صنعت تباہ ہوئی ہے اور بیروزگاری بڑھی ہے وہاں بجلی کا انفرااسڑکچر بھی تباہ ہوا ہے اور ملکی معیشت بھی۔ اس کے بعد یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ چین پاکستان کا دوست ملک ہے اور ان دو ممالک کی دوستی ہمالیہ سے بھی بلند ہے، اس کے علاوہ چین کو خطے میں اثر ورسوخ کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔ یہ دلیل بھی انتہائی منافقانہ سفارتکاری کے ایک جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ نندی پور پاور پلانٹ میں اربوں روپے کی کرپشن پاک چین دوستی کی روشن مثال ہے جہاں عوام کی لوٹی ہوئی دولت سے اربوں روپے خرچ کر کے بھی پلانٹ ابھی تک بند پڑا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران افریقہ میں ہونے والی چینی سرمایہ کاری کی کرپشن کی کہانیاں بھی زبان زد عام ہیں۔ ایک واقعہ میں چین نے ڈی آر کانگوکی حکومت سے معاہدہ کیا کہ وہ ان کے ملک سے اپنی مرضی سے تانبا اور کوبالٹ نکالیں گے جبکہ اس کے بدلے اس افریقی ملک میں 6.5 ارب ڈالر کی لاگت سے سڑکیں، سکول، ہسپتال بنائے جائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق یہ معاہدہ کرنے پر اس ملک کے حکمرانوں کو 35 کروڑ ڈالر ’’دستخط کرنے کا بونس‘‘ کی مد میں خفیہ طور پر ادا کیے گئے۔
اسی قسم کے سنہرے مستقبل کے وعدوں میں لپٹے ظلم اور استحصال پر مبنی معاہدے پاکستانی حکمرانوں سے بھی کیے جا رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق حالیہ پاک چین معاہدوں کے تحت سرمایہ کاری کی مد میں دی جانے والی رقم کا 70 فیصد مشینری اور پلانٹس کی خریدار ی کی مد میں واپس چین چلا جائے گا جبکہ ان معاہدوں میں ایک بہت بڑا حصہ پاکستان کو قرضوں کی شکل میں دیا جائے گا جس کو سود سمیت اتارنے کے لیے اگلی کئی نسلوں کو لوٹا جاتا رہے گا۔ اسی طرح جس طرح آئی پی پی کی بجلی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے بعد یہاں آنے والی رقم سے کئی گنا زیادہ رقم اب باہر کے بینکوں میں جا رہی ہے، اسی طرح چینی سرمایہ کاری کے نتیجے میں اگر کوئی منصوبہ پایۂ تکمیل تک پہنچتا بھی ہے تو اس سے ہونے والے منافع چینی یا دیگر غیر ملکی بینکوں کا رخ کریں گے جس کے نتیجے میں پاکستان کاخسارہ تیزی سے بڑھے گا۔ ابھی تک پاکستانی معیشت بیرونی ممالک میں رہنے والے محنت کشوں کی بھیجی ہوئی رقوم سے یہ خسارہ پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اگر اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہوتی ہے تو اس کے بعد ہونے والا خسارہ پورا کرنا اس نحیف معیشت کے لیے انتہائی مشکل ہو گا۔ اس کے لیے ان حکمرانوں کے پاس واحد حل غیر ملکی قرضوں کا حصول ہے۔ دوسرے معنوں میں قرضوں کا پھندا زیادہ سخت ہو تاجائے گا۔
لیکن ان تمام خدشات کے باوجود اس مجوزہ سرمایہ کاری کا حقیقت کا روپ دھارنا بھی اتنا آسان نہیں۔ جس طرح پاکستان کے حکمران بر سر پیکار مختلف عالمی سامراجی قوتوں کی گماشتگی کر رہے ہیں اس سے یہ ملک ان سامراجی طاقتوں کے لیے کھیل کا میدان بنا ہوا ہے جہاں عوام کی بربادی پر اپنے سامراجی مفادات کے لیے موت کا رقص برپا کیا جاتا ہے جس میں سے یہاں کے حکمران طبقے کے مختلف حصے اپنا اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ بلوچستان میں گوادر کی بندر گاہ سے لے کر دیگر معدنیات میں چین کے سامراجی مفادات نے وہاں پہلے ہی آگ اور خون کا ایک کھیل رچا رکھا ہے جس میں امریکی سامراج سمیت دیگر سامراجی قوتیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے بر سر پیکار ہیں۔ اسی طرح تھر میں کوئلے کے ذخائر کی دریافت اس ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت وہاں رہنے والوں کے لیے ترقی اور خوشحالی کی بجائے اذیت، موت اور ذلت کا پیغام ہے۔
آئی ایم ایف سے مذاکرات کا نتیجہ بھی عوام پر مزید معاشی بوجھ کی صورت میں ہی نکلا ہے۔ قرضے کی 1.1 ارب ڈالر کی قسط کے اجرا کو دسمبر تک کی کارکردگی کی بنا پر جاری کرنے کے اعلان کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف نے پاکستانی حکومت کو بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزیداضافے کا بھی حکم دیا ہے۔ پاکستانی معیشت دانوں کے جھوٹ کے انبار سے پہلے عالمی مالیاتی ادارے کی کمزوری پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضوں میں اضافہ خوش آئند ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جولائی سے اکتوبر تک نجی شعبے کو 4.8 ارب روپے کے قرضے دیے گئے جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران 32 ارب روپے کے قرضے دیے گئے تھے۔ چند سال پہلے تک یہ عدد سینکڑوں ارب روپے میں ہوتا تھا۔ اس سے آئی ایم ایف کی رپورٹ کا مصنوعی پن اور جھوٹ بھی نظر آتا ہے جو حکومت کو جھوٹے دلاسے دے کر اپنے قرضوں کی سود سمیت ریکوری کرنا چاہتا ہے۔
آئی ایم ایف نے حکومت کو انتباہ بھی کیا ہے کہ روپے کی مصنوعی بنیادوں پر حقیقی سے زیادہ قدر نقصان دہ ہو گی۔ حکومت کو پہلے بھی تنبیہ کی گئی تھی کہ روپے کی قدر میں اضافے کے باعث برآمدات کم ہو رہی ہیں اور ٹیکسوں کی مد میں آمدنی بھی گر رہی ہے۔ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق جن میں جھوٹ کی ملاوٹ بدرجہ اتم موجود ہے گزشتہ سال جولائی سے دسمبر میں برآمدات میں3.1 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا جبکہ اس سال جنوری سے مارچ کے دوران یہ اضافہ 1.4 فیصد ہے اور اپریل سے جون تک منفی 1.7 فیصد۔ اسی طرح غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کے امکان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں پر بھی وزارت خزانہ کی سرزنش کی گئی ہے جو اس وقت 577 ارب روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ پی ایس او کو آئی پی پی کی جانب سے 238 ارب بھی ادا کیے جانے باقی ہیں۔ موجودہ حکومت نے آتے ہی اس گردشی قرضے کو ختم کرنے کا نعرہ بلند کیا تھا اور محنت کش عوام کے پیسے سرمایہ داروں اور وزیروں کی جیب میں ڈالنے کے لیے فوری طور پر اربوں روپے کی ادائیگی کر دی گئی تھی۔ گزشتہ سال 480 ارب روپے ادا کرنے کے باوجود لوڈ شیڈنگ میں کمی نہیں آئی۔ بجلی کی قیمت میں بھی ہوشربااضافے کے باوجود گردشی قرضہ اپنی جگہ پر موجود ہے اور آئی ایم ایف اس کی جلد از جلد ادائیگی پر زور ڈال رہا ہے۔ اسی طرح بجلی چوری کے خاتمے کا شور مچانے والے بجلی چور، گیس چور اور ٹیکس چور حکمرانوں کے دور میں بجلی کے بلوں کی مد میں ریکوری کا تناسب 90 فیصد ہو گیا ہے جو پچھلی حکومت کے دور میں 94 فیصد تھا۔ اس عذاب سے عوام صرف اس وقت ہی نجات حاصل کر سکتے ہیں جب منافع خوری کے نظام کو ختم کر دیا جائے اور حکمران طبقات کی تمام دولت ایک انقلاب کے ذریعے عوام کے جمہوری کنٹرول میں آجائے۔
آئی ایم ایف نے GIDC (گیس انفرااسٹرکچر ڈیویلپمنٹ محصول) کے ذریعے بھی پیسے اکٹھے کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے جس کے نتیجے میں گیس کی قیمت میں 23 فیصد اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کا دباؤ ہے کہ اس مد میں عوام سے 145 ارب روپے اکٹھے کیے جائیں جبکہ ابھی تک صرف 7.5 ارب روپے اکٹھے ہوئے ہیں۔ یہ سب اقدامات ایسی صورتحال میں کئے جانے کا امکان ہے جب حکومت عالمی سطح پر تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے مستفید ہو رہی ہے کیونکہ یہ گراوٹ عام خریدار کو منتقل نہیں کی جا رہی۔ بجلی کے بلوں میں بھی تیل کی وصول کی جانے والی قیمت میں کمی نہیں کی جا رہی جس سے حکومت کی آمدن تو بڑھ رہی ہے لیکن عوام کی اذیت بڑھ رہی ہے۔ اس بحران زدہ معیشت میں براجمان خزانے کے پہرے دار عوام سے مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں۔ بجٹ خسارے اور جی ڈی پی کی گروتھ ریٹ کے متعلق حکومت کے اعداد و شمارے مذاق بن چکے ہیں۔ بہت سے بورژوا معیشت دانوں کے مطابق حقیقی شرح ترقی 3.3 فیصد کے لگ بھگ ہے جو حکومتی دعوؤں سے کہیں زیادہ کم ہے۔ اسی طرح بجٹ خسارے کے اعداد و شمار بھی مکمل جھوٹ پر مبنی ہیں اور موجودہ مالی سال کے اہداف حاصل نہیں کیے جا سکیں گے اور اس کے لیے پھر پہلے سے بڑے پیمانے پر منافقانہ بیان بازی کی جائے گی۔
اس سے ایک بات تو واضح ہے ملکی معیشت میں عوام کے پیسوں کا حساب رکھنے والے نہ صرف بد عنوان ہیں بلکہ اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں کے قرضے اور سود ادا کرتے کرتے محنت کش عوام ظلم کی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کے پاس ان مسائل کا حل موجود نہیں۔ تحریک انصاف کے جلسوں میں موجودہ حکومت پر الزامات تو لگائے جار ہے ہیں اور ان کی کرپشن بھی سامنے لائی جا رہی ہے لیکن ان کے پاس بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت عالمی مالیاتی نظام کی غلامی کرنے کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ بلکہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت پہلے ہی ان اداروں کی اطاعت کا طوق پہنے عوام کی جمع پونجی لوٹنے میں مصروف ہے۔ اس مخلوط حکومت کے ارکان کے اختلافات کی بنیاد پالیسیوں یا نظریات کا فرق نہیں بلکہ لوٹ مار کے حصے میں کمی کا غم ہے۔ عمران خان بھی اس سرمایہ دارانہ نظام کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے تا کہ وہ اور اس کے حواری اس لوٹ مار میں اپنا حصہ وصول کر سکیں۔ دیگر سیاسی پارٹیوں کے مسلسل اقتدار میں رہنے کے بعد اسے ایک ایسے متبادل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو عوام کے سارے مسائل کرے گا۔ لیکن خود عمران خان بھی خیرات کی بیساکھیوں پر چل کر سیاست کے میدان میں پہنچا ہے۔ اس کے سب سے بڑے فلاحی کارنامے کی نظریاتی اساس کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس نظریے کے مطابق بد ترین سرمایہ داروں اور ظالم ترین جاگیر داروں کے بچے کھچے نوالوں سے غریبوں کو علاج کی سہولت دی جاتی ہے۔ یعنی علاج محنت کشوں کو حق کے طور پر نہیں بلکہ بھیک کے طور پر دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سماج میں تمام دولت محنت کش پیدا کرتے ہیں جبکہ حکمران طبقات اس محنت کو لوٹ کر اپنی پر تعیش زندگی کا سامان کرتے ہیں۔ اس دولت کے حقدار صرف محنت کش ہیں اور یہ حق انہیں اس نظام میں نہیں مل سکتا۔
یہ حق حاصل کرنے کے لیے انہیں اس نظام اور اس کے تمام اداروں کو چیلنج کرنا ہوگا۔ سب سے بڑھ کر ان حکمران طبقات کی پرودہ اس ریاست کو چیلنج کرنا ہوگا۔ اپنے داخلی انتشار کے باعث یہ ریاست پہلے ہی شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ جہاں اس ریاست کا سپہ سالا ر امریکی سامراج سے ہدایات لینے کے لیے ان کی دہلیز پر سر نگوں ہے وہیں اس کی عدالتیں اور دیگر اداروں کی بد عنوانی عوام کی اذیتوں میں اضافہ کر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے کا پورا نظام گل سڑ چکا ہے اور اس کا تعفن اور غلاظت پورے سماج کو پراگندہ کر رہا ہے۔ اس کی مکمل جراحی کیے بغیر کوئی حل ممکن نہیں۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے لوٹ مار کے اس استحصالی نظام کو اکھاڑا جا سکتا ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے چنگل سے آزادی کے ساتھ ساتھ امریکہ، چین اور تمام سامراجی طاقتوں کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہاں کے عوام کو نوچنے والے حکمرانوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے اور یہاں پیدا ہونے والی تمام دولت عوام کی صحت، تعلیم اور فلاح و بہبود پر خرچ کر کے اس خطے کو جنت ارضی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ:

پاکستانی معیشت اور سرمائے کا گھن چکر

عوامی بغاوت کا تناظر؟

پاک چین معاشی راہداریاں: ہمالیہ سے بلند دوستی یا لوٹ مارکے نئے راستے؟

اعداد و شمار کا گورکھ دھندا

بلیک ہول