کشمیر کی توہین

اداریہ جدوجہد:-

اتوار 26 اکتوبر کو لندن میں کشمیر پر بھارتی قبضے کیخلاف ہونے والے ’’ملین مارچ‘‘ سے پیشتر ہندوستان کی انتہا پسند وزیر خارجہ سشما سوراج نے اس مارچ کو رکوانے کی بے پناہ سفارتی کوششیں کیں۔ ہندوستانی حکومت نے برطانوی حکومت کے اس مارچ کرنے کی اجازت دینے پر اعتراضات بھیجے اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ ایک حوالے سے برطانیہ کو ہندوستانی حکمرانوں نے معاشی دھمکی دینے کی بھی کوششیں کی تھیں۔ ہندوستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر ورندر پال نے حال ہی میں لندن کی ایک بزنس میٹنگ میں برطانوی حکومت کے اس اجازت نامے پر نہ صرف اعتراضات اٹھائے تھے بلکہ دبے لفظوں میں ایسا کرنے پر تنبیہ بھی کی تھی۔ اس اہم کاروباری اجلاس میں برطانیہ کا وزیر تجارت ونس کیبل بھی موجود تھا۔ صر ف اس ایک واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کی سرکار اکھنڈ بھارت اور ہندوستانی حکمرانوں کے سامراجی غاصب عزائم میں جنون کی حد تک مبتلا ہے۔ بی جے پی کی موجودہ حکومت ہر طرح سے سرتوڑ کوششیں کررہی ہے کہ کسی طرح ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں کم ازکم اتنی نشستیں حاصل کرسکے جس سے اس کو چاہے مخلوط حکومت میں ہی شراکت ملے لیکن ایک مرتبہ کشمیر کی صوبائی سرکار میں شامل تو ہوجائے۔ سرحدوں پر جھڑپیں اور کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ دونوں ممالک کا میڈیا جارحیت کو مزید ابھار کر قومی اور مذہبی شاونزم کو ہوا دے رہا ہے اور مودی شیوسینا اور آر ایس ایس کو یہ باور کروا رہا کہ وہ بڑا ہی ہندو جنونی ہے۔ گو اس کے پیچھے مقاصد کچھ اور ہی ہیں۔ نریندر مودی نے دیوالی کشمیر میں منائی اور ایک میڈیا مہم کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کشمیر’’بھارت‘‘ کا اٹوٹ انگ‘‘ ہے۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں ، سرکار بی جے پی کو ہویا کانگریس کی ہندوستان کی گلی سڑی سرمایہ دارانہ ریاست اور ’’را‘‘ کی پالیسیاں ضرور لاگو کی جاتی ہیں۔ پچھلے 67 سال سے کشمیر کے بھارتی مقبوضہ حصے میں اس ریاست نے جبر اور ظلم کی انتہا کررکھی ہے۔ کشمیری عوام کو بے دردی سے کچلا جارہا ہے جس سے نسل در نسل کشمیر کے عوام کی اکثریت اس استعمار کے خلاف شدید نفرت اور مزاحمت کرتی چلی آئی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود کشمیر کے حکمران طبقات کے بہت سے حصے اس استعمار سے سمجھوتا کرچکے ہیں۔ اس کی حکومتی اور ریاستی رٹ کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کو عوام پر مسلط کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب آزادئ کشمیر کی تحریک اور جدوجہد کے ساتھ بھی بہت زیادتیاں ہوئی ہیں۔ اسکی قیادت کبھی ترقی پسندانہ قوم پرستی کا نام لیتی تھی جسکی وجہ سے عوام کی دلی حمایت بھی اس کو حاصل تھی۔ مقبول بٹ جیسے لیڈروں کی نسل میں سرمایہ داری کے خاتمے کی بات کی جاتی تھی اور سوشلسٹ کشمیر کے نعرے بھی گونجتے تھے۔ کیونکہ ان تحریکوں کی قیادتوں میں کم از کم اتنا ادراک ضرور تھا کہ قومی محکومی کے ساتھ ساتھ کشمیر کے عوام کی بھاری اکثریت معاشی اور سماجی محکومی اور استحصال کا شکار تھی۔ لیکن پھر عالمی علاقائی حالات کے بدلنے ‘ نظریات کی عدم پختگی اور سرمائے کی مداخلت سے کشمیری قوم پرست لیڈر تنگ نظر قوم پرستی پر زوال پذیر ہوگئے اور انہوں نے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کشمیر کی ایک ’’یونائٹیڈ سٹیٹس‘‘ بنانے کاراستہ اپنایا جس سے ان کی حمایت بہت کمزور ہوگئی اور کشمیر کی اس جدوجہد آزادی میں ایک خلا پیدا ہوگیا۔ جسے اسلامی بنیاد پرستی سے پر کروانے کی کوششیں کی گئیں۔ آج حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے عوام کا کشمیر کے لیڈروں سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ قوم پرستوں سے لے کر اسلامی بنیاد پرستوں تک کوئی بھی ایک ایسا لیڈر یا پارٹی نہیں جوکہ کشمیر کے عوام کی حقیقی نمائندگی کا دعویٰ کرسکے۔ کشمیر میں1987ء سے چلنے والی تحریک جس کو کشمیری انتفادہ بھی کہا جاتا ہے نے دہلی کے حکمران ایوانوں کو لرزا کے رکھ دیا تھا۔ لیکن ٹھوس نظریاتی اور مارکسی قیادت کے فقدان نے اس انتفادہ کا خون کردیا۔ لیکن دوسری جانب پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں بھی حالات کوئی بھارتی مقبوضہ کشمیر سے زیادہ بہتر نہیں ہیں۔ یہاں کے باسیوں کے حالاتِ زندگی بھی اس آزادکشمیر میں بد سے بد تر ہی ہوتے چلے گئے ہیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان، تعلیم علاج اور روزگار کے فقدان کی اذیت یہاں کی بھی وہی ہے۔ جبر کے انداز بدل گئے ہیں۔ اس خطے میں پاکستانی ریاست نے آغاز سے ہی انتہائی گہرا تسلط قائم رکھا اور کشمیر کے ان سیاسی راہنماؤں، جنہوں نے ایک خود مختار اور آزاد کشمیر کی بات کی تھی، کو بیڑیوں میں جکڑ کے رکھا۔ وہ مسلسل سرکاری ایجنسیوں کے پیچھے کا شکار رہے۔ کچھ انکی اپنی نظریاتی کمزوریاں بھی تھیں جنکی وجہ سے وہ عوام کی بڑی حمایت حاصل نہیں کرسکے۔ پاکستانی ریاست کے اس شدید کنٹرول میں صرف وہ سیاسی پارٹیاں ابھر سکیں جن کی تابعداری اسلام آباد کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ دوسری جانب کنٹرول لائن کے اس پار پاکستانی ریاست و سیاست میں کشمیر کے قومی مسئلہ کو پوری طرح مذہبی غلاف میں لپیٹ کر رکھ دیا گیااور اس پار کشمیری قوم کو برداریوں میں تقسیم کرکے ساری سیاست کو برادری اور ٹھیکیداری کی سیاست بنا دیا گیا۔ لیکن پھر مسئلہ کشمیر کو پاکستان نے بے پناہ عسکری اخراجات اور سرکاری میڈیا کیمپئین کے تسلسل کے ذریعے خارجہ پالیسی کی بنیاد بنادیا۔ بھارتی او ر پاکستانی حکمرانوں نے اس مسئلہ کو جس طرح داخلی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا ہے اس کی کم ہی مثالیں ملتی ہیں۔ اس برصغیر کے ڈیڑھ ارب باسیوں کو کشمیر کے اس تنازعے میں جکڑ کر بھوک‘ ننگ ‘ غربت اور افلاس کی کھائی میں سسکایا جاتا رہا ہے۔ بھارتی عسکری اشرافیہ نے کشمیر کے نام پر ہندوستان کے عوام کا ا س سے بھی زیادہ خون چوسا ہے جتنا کہ سرحد پار عوام کو مفلس بنا کر فوجی طاقت اور اسلحہ کا کاروبار کیا گیا ہے۔ اب نریندر مودی نے 70 ارب ڈالر کا ’’دفاعی‘‘ بل پیش کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
پہلے ہی بھارت اور پاکستان اسلحہ اور انسانی بربادی کے آلات پر رقوم خرچ کرنے والے پہلے دس ممالک میں آتے ہیں۔ جبکہ تعلیم اور علاج کے شعبوں میں سب سے آخری نمبروں پر ہیں۔ لیکن اگر ہندوستان میں عام کشمیری رسوا ہورہے ہیں تو پاکستانی کنٹرول میں کشمیر کے محنت کش بھی روزی روٹی کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔
برطانوی سامراج نے اگر اس ’’ملین مارچ‘‘ کی اجازت دی ہے تو جہاں اسکی دوسری ظاہری تاویلیں پیش کی جارہی ہیں وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی سامراج نے براہِ راست حاکمیت کے خاتمے کے وقت اس مسئلہ کو خطے پر ایک زخم کی صورت میں چھوڑا تھا تاکہ یہ رستا رہے اور اس تنازعے کے گرد جو تناؤ، دشمنی اور کشیدگی رہے گی اس سے جنم لینے والے عدمِ استحکام کے ذریعے نہ صرف سامراجیوں کی بلواسطہ حاکمیت قائم رہے گی بلکہ ان کے اسلحے کی صنعت بھی بھرپور منافع حاصل کرتی رہے گی۔ پاکستان اور ہندوستان کے حکمرانوں نے بھی اس تناؤ سے اپنی تجوریوں کو بے پناہ دولت سے ٹھونسا ہے۔
لیکن مودی سرکار کی زہریلی اور اشتعال انگیز جارحیت درحقیقت اس کی طاقت نہیں بلکہ ہندوستان کی کھوکھلی زوال پذیر معیشت کی کمزوری کے باوجود بڑھتے ہوئے سامراجی عزائم کی شدیدہوس کی غمازی کرتی ہے۔ اس سے سوائے خونریزی، تباہی اور بربادی کے کچھ اور انجام نہیں ہونے والا۔ اس مسئلہ پر پاکستان کی کمزوری اس کی معیشت کی بدحالی اور سیاسی و ریاستی انتشار کی وجہ سے ہے جو اس ملین مارچ میں بھی نظر آیا ہے جہاں بلاول بھٹو زرداری پر تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے حملہ کرنے کا واقعہ رونما ہوا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کے اس کھلواڑ اور خونی ناٹک میں برباد تو لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کے محنت کش عوام ہی ہورہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر عوام کبھی ہندوستان کبھی پاکستان اور کبھی دور دراز کے ممالک میں محرومی اور غربت سے تنگ آکر بھٹکتے پھر تے ہیں۔ پھر پاکستان میں کونسا امن وآشتی، خوشحالی اور ترقی کا دور دورہ ہے جہاں کے عوام ہر طرف ذلت اور رسوائی کا شکار ہیں۔ بھارت کے سوا ارب باسیوں کی بھاری اکثریت کی حالت پاکستان کے عوام سے بھی بدتر ہے۔ امن اور جنگ کے اس کھیل میں کشمیر کے مسئلہ کو کبھی گرم اور کبھی ٹھنڈے برنر پر رکھ کر یہ حکمران کب تک لوٹتے رہیں گے۔ انکی لڑائیا ں بھی اپنی ہیں دوستیاں بھی اپنی ہیں ‘ سارے ناٹک عوام کو بے سد ھ کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ لیکن کشمیر کے دونوں اطراف اب نئی نسل ماضی کی نسلوں کے تجربات سے اسباق حاصل کرکے سماجی اور معاشی مسائل کو اولیت دیتے ہوئے بار بار ان اصل ایشوز پر تحریکیں ابھاررہی ہے۔ یہ تحریک ابھر پڑی تو پھر نہ کنٹرول لائن رہے گی اور نہ ہی پاکستان اور بھارت کے محنت کش اور نوجوان اس آسیب میں مبتلا رہیں گے۔ طبقاتی بنیادوں پر اس تحریک کی سوشلسٹ فتح نہ صرف کشمیر کی آزادی کو یقینی بنائے گی بلکہ پورے برصغیر کے عوام کو ان عذابوں سے چھٹکارا دلوا کر رہے گی۔