[تحریر: عمر رشید]
پاکستان ٹیکسٹائل مصنوعات برآمدکرنے والا ایشیاء کا آٹھواں بڑا ملک ہے۔ چین اورانڈیا کے بعد دھاگہ بنانے والا تیسرا اور کپاس پیدا کرنیوالا چوتھا بڑا ملک ہے اور یہ صنعت ملکی مجموعی پیداوار میں 8.5 فیصد ہے‘ ہنر مند اور غیر ہنر مند مزدوروں کو روزگاردینے والی دوسری بڑی صنعت ہے 15 ملین مزدوراس صنعت سے وابستہ ہیں جوتقریباََ ورک فورس کا 30 فیصد بنتا ہے۔ 1221 جیننگ (Ginning) یونٹس، 124 بڑے اور425 چھوٹے سپننگ (Spinning) یونٹس ہیں۔ امریکہ 3 فیصد ٹیکسٹائل مصنوعات پاکستان سے درآمد کرتا ہے۔ برآمدات میں 67 فیصد تک حصہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا رہا ہے جو 2008ء میں 55 فیصدہوگیا ہے جسکی بڑی وجہ توانائی کا بحران ہے۔ ٹیکسٹائل مصنوعات کی سالانہ برآمدات کی مالیت 10.62 بلین ڈالرہے۔
اگرہم اس صنعت کے پیداواری عمل پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہرسطح پرمحنت کشوں کا شدید استحصال ہو رہا ہے۔ کپاس کاشت کرنیوالے چھوٹے زمیندار، کھیت مزدور، کپاس چننے والی محنت کش خواتین، ادویات کا سپرے کرنے والے مزدوران سب کی محنت اورخون پسینے کی کمائی ٹھیکیدار، جاگیردار، آڑھتی، تاجر اور زرعی ادویات کی ملٹی نیشنل کمپنیاں، بینک، سیڈ مافیا، کھادبنانے والے فیکٹریاں لوٹ لیتی ہیں۔
جننگ (Ginning) فیکٹریوں میں روئی اوربیج الگ کیے جاتے ہیں۔روئی کی گانٹھیں بنائی جاتی ہیں یہاں بھی 12 سے 14 گھنٹے کی مشقت پرمزدوروں کوسانس برقراررکھنے کیلئے 10 ہزارماہانہ اجرت دی جاتی ہے اور باقی کی اجرت سرمایہ دارمنافع کی شکل میں اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔
روئی کی گھانٹھیں سپننگ (Spinning) یونٹس میں لائی جاتی ہیںیہاں بھی غریب خواتین اوربچوں سے بہت کم اجرت پردھاگہ بنوایاجاتاہے۔ دھاگے کی بڑی بڑی چرخیاں پاورلومزسیکٹرمیں آجاتی ہیں جہاں مزدوروں کوکپڑے کی مقدار کے حساب سے اجرت دی جاتی ہے مثلاََاگرایک تکنیکی طور پرپست پاورلومزد یسی پر 24 گھنٹے میں 65 میٹرکپڑا تیار ہوتا ہے تومزدورکوصرف 200 روپے اجرت دی جاتی ہے جوکہ ٹھیکیداراورمالک مل کرطے کرتے ہیں، 65 میٹرکپڑے کی قیمت معیارکے حوالے سے ہوتی ہے لیکن اوسطََ 6500 روپے بنتی ہے، جبکہ جدید یا شٹل پاورلوم پر 250 میٹر کپڑا 24 گھنٹوں میں تیارہوتاہے۔ شٹل لومز پر کاریگروں کو ماہانہ 12 ہزار روپے اجرت پر رکھا جاتا ہے، بیروزگارمزدوروں کے جمِ غفیر میں زندہ رہنے کی کشمکش میں مبتلامزدور 18 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں اورایک مزدورایک وقت میں 10 سے 12 لومزکی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ کام کی شدت اورمشینوں کی تعداد اور رفتار سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مزدوراوراسکے خاندان کا کیا حشر کیا جا رہا ہے۔ آج مالک صرف مزدورکوزندہ رہنے کیلئے اجرت دے رہا ہے اس کے بیوی بچوں کے لیے نہیں۔ کپڑے کے تاجرمنڈی میں بولیاں لگاتے ہیں اورکچھ بڑے سرمایہ دار سارے کپڑے پراجارہ قائم کر لیتے ہیں مثلاََابراہیم فیبرکس کااس وقت مکمل اجارہ ہے جوکہ دھاگے کی قیمت کاتعین کرتے ہیں۔رنگنے کیلئے کپڑابڑی ٹیکسٹائل ملوں میں جاتاہے جہاں کسی بھی یونین سازی سے محروم ٹھیکے پرلیبرکام کرنے پرمجبورہے۔رنگنے اورپیکنگ کے بعداعلی معیارکی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمدکرکے مال بنایاجاتاہے باقی پاکستان میں کھپایا جاتاہے۔ ہم دیکھتے ہیں کے اس سارے عمل میں وہ مزدورجواس کپڑے کوتیارکرنے میں اپناحصہ ڈالتاہے،محنت کرتاہے خودان کپڑوں سے محروم ہے۔ایک مزدورسے انٹرویوپرمعلوم ہواکہ وہ اپنے بیوی بچوں کوعیدکے روزبھی کپڑے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔
ہڑپہ کے لوگ بھی کپاس کاشت کرتے تھے، کاتتے، بنتے اوراس کا کپڑا بناتے تھے 4 ہزارسال پرانی تہذیب گواہ ہے کہ جغرافیائی اورگرم علاقے کی وجہ سے یہاں کپاس کاشت ہوتی تھی۔اس تہذیب میں کوئی چیٹھروں میں ملبوس نظرنہ آتاتھاکیونکہ اشتراکی نظام کیوجہ سے اشیاء بیچنے کیلئے نہیں بلکہ استعمال کیلئے پیداکی جاتی تھیں۔آج ہمیں ہندوستان،بنگلہ دیش اورپاکستان میں کروڑوں انسان جو اس صنعت سے وابستہ ہیں،اس پیداواری عمل کاحصہ ہیں، کپڑوں سے محروم انکے ننگے جسم دیکھ سکتے ہیں کیونکہ آج اس نظامِ زرمیں انسان چھوٹا اور حقیر ہے جبکہ اشیاء بڑی اورمقدس ہیں۔ اشیاء کے جبرنے انسان کوغلام بنادیا ہے۔
اس نظامِ معیشت میں تدبیرنہیں تخریب ہے، فلاح نہیں بربادی ہے، انسانیت نہیں درندگی ہے، تہذیب نہیں وحشت ہے، امن نہیں جنگ ہے،اجتماعیت کی بجائے انفرادی بقاء کی کشمکش ہے،مسرت نہیں بیگانگی ہے،خالق مالک نہیں بلکہ محرومی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہے،خون پینے والے کیڑوں کی طرح سرمایہ دار،جاگیرداراوران کے گماشتے مزدور کی محنت پرنہ صرف پلتے ہیں بلکہ حاکم ہیں،تقدیروں کافیصلہ کرتے ہیں زندگیوں سے کھلواڑکرتے ہیں۔لیکن ظلم کی ایک حدہوتی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی حالات ناقابلِ برداشت ہوئے ہیں تواس کے چلانے والے غلاموں نے بغاوتیں کی ہیں اوراس مروجہ سماجی نظام کوتاریخ کے قبرستان میں دفن کیاہے،سرمایہ داری انسانیت کامقدرنہیں ہے ۔پوری دنیا میں اجرتی غلاموں کی دیوہیکل فوج انگڑائی لے رہی ہے، بیدارہورہی ہے۔
شرح منافع کی نہ ختم ہونے والی ہوس،جان لیوامقابلہ بازی، پیداوارکی طوائف الملوکی، اجتماعی پیداواری عمل اورذاتی ملکیت کے تضادسے جنم لینے والے بحران پیداوارکواورذرائع پیداوار کوبیکاراورگلنے سڑنے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں۔یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کی خصوصیات اورناگزیر نتائج ہیں۔ یہ نظام جنس اوربازارکے ان دیکھے، پرتشدد قوانین کے تابع انسانیت کو روندتا ہوا انسانی وقار کی دھجیاں اڑاتا ہوا بے سمت بے ہنگم رواں دواں ہے۔
فریڈرک اینگلز نے کہا تھا کہ دنیا کو آزاد کرانے کا تاریخی کام جدید مزدور طبقے کے حصہ میں آیا ہے۔ مزدور طبقے کو کام کے حالات اوراس کی نوعیت، اس کی تاریخی ذمہ داری کا شعور دیتے ہیں جو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ جبر و استحصال کا خاتمہ ہے۔