[تحریر: لال خان]
دھرنے کے خاتمے اور کینیڈا واپسی کے درمیانی وقفے میں مولوی طاہر القادری نے ایبٹ آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ’’ہزارہ‘‘ صوبہ بنانے کا وعدہ کر ڈالا ہے۔ اس صوبے کا مطالبہ پچھلے چند سالوں میں ابھرا ہے اور اس سلسلے میں کراچی سے اٹھنے والی سب سے بلند آواز زیادہ حیران کن نہیں ہے۔ اسی طرح بہاولپور اور سرائیکی صوبے بنانے کا شور بھی پچھلے کچھ عرصے سے شدت اختیار کر گیا ہے۔ سندھ کو مزید کئی صوبوں میں تقسیم کرنے کی بات نئے تنازعات کو جنم دے رہی ہے اور بازار سیاست میں سرگرم قوم پرست جماعتیں خوب گرج رہی ہیں۔ بلوچستان میں بھی الگ پشتون صوبہ بنانے کی بازگشت کبھی کبھار سنائی دیتی ہے۔
اس ملک کی مالیاتی سیاست کا شاید ہی کوئی رجحان یا پارٹی ایسی ہو جس نے مذہب، جمہویت، لبرل ازم اور سیکولرازم کی طرح صوبائی جوڑ توڑ کو اپنے سیاسی اور معاشی مفادت کے لئے استعمال نہ کیا ہو۔ 23 اکتوبر کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں ایم کیو ایم کے رکن کامران اختر نے ایک طویل عرصے کے بعد مہاجر صوبے کا نعرہ دوبارہ لگا دیا ہے۔ اپنی تقریر میں موصوف نے فرمایا کہ ’’سندھ کے اردو بولنے والے لوگ تعصب اور استحصال کا شکار ہیں لہٰذا ہم ان کے لئے ایک علیحدہ صوبہ بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘ اس بیان کے فوراً بعد مختلف قوم پرست جماعتوں نے حسب روایت عام ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ کچھ ہی دنوں بعد ایم کیو ایم نے خورشید شاہ کی جانب سے مبینہ طور پر لفظ ’’مہاجر‘‘ کی تضحیک کے خلاف سندھ بھر میں یوم سوگ منایا۔ مہاجر صوبے کا مطالبہ 1990ء کی دہائی سے چلا آرہا ہے۔ کراچی کے جریدے نیوز لائن میں اکتوبر 1996ء میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں یہ نعرہ شائع کیا گیا تھا کہ ’’سندھ میں ہوگا کیسے گزارہ، آدھا ہمارا، آدھا تمہارا۔ ‘‘ اب بات تھوڑی آگے بڑھ چکی ہے اور ایم کیو ایم کے سینئر رہنما بابر غوری کے بقول ’’سندھ کو دو نہیں بلکہ تین صوبوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
سطحی سیاست اور لفاظی سے آگے بڑھ کر مسئلہ کو گہرائی میں جانچنے کی کوشش کی جائے تو اس بیماری کی تشخیص کی جاسکتی ہے جو اس ملک کی معیشت کو لاحق ہے اور نئے صوبوں کا جھگڑا جس کی علامات میں سے ایک ہے۔ پچھلے 67 سالوں میں اس ملک کے محنت کشوں کے معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ قومی، لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تفریق اور منافرتوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ لیکن ان چھ دہائیوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے محنت کش طبقے نے جب بھی طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر سماجی اور معاشی ذلت کے خلاف بغاوت کی ہے تو رنگ، نسل اور مذہب کے تمام تر فرسودہ تعصبات سماجی منظر نامے سے غائب ہو گئے ہیں اور انقلابی تحریکیں جب پسپا ہوئی ہیں تو رد انقلاب اور رجعت کے تھپیڑوں نے ماضی کے ان تعصبات کو زیادہ وحشت سے سماج اور سیاست پر مسلط کیا ہے۔
اس مظہر کی سب سے واضح مثال 1960ء کی دہائی کے اواخر میں ملک کے طول و ارض میں ابھرنے والی انقلابی تحریک کے عروج و زوال میں ملتی ہے۔ یہ تحریک اگرچہ راولپنڈی میں، مظاہرے میں شریک ایک طالب علم کی پولیس کی گولی سے ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھی تھی لیکن اس کا دباؤ تب نقطہ عروج پر پہنچا جب کراچی (پاکستان کے صنعتی پرولتاریہ کا گڑھ) کے محنت کش اور نوجوان میدان عمل میں اتر آئے۔ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح کراچی کے محنت کش عوام رنگ، نسل، مذہب اور فرقے کے ہر تعصب کو رد کرتے ہوئے اس نظام کے خلاف صف آرا ہوگئے تھے جس نے ان کی زندگیوں کو ذلت اور محرومی میں غرق کر رکھاتھا۔ صرف ایک تفریق باقی بچی تھی، استحصال کرنے والے اور استحصال سہنے والے کی تفریق، ظالم اور مظلوم کی تفریق… طبقے کی تفریق۔
پیپلز پارٹی کا ابھار 1968-69ء کی انقلابی تحریک کے نتیجے میں ہوا تھا لیکن 1972ء کے بعدجب تحریک نے پسپائی اختیار کی تو محنت کشوں کی یکجہتی ٹوٹنے لگی۔ انقلاب کے ہاتھوں گہری چوٹ کھانے والے حکمران طبقات اپنی معاشی اور سیاسی حاکمیت کو قائم رکھنے کے لئے نسلی اور لسانی سیاست کو پھر سے سماج پر مسلط کرنے لگے۔ ضیا الحق کے اقتدار پر شب خون کے بعد ’’تقسیم کرکے حکومت کرو‘‘ کی پالیسی زیادہ خونخوار شکل اختیار کر گئی۔ رجعتی آمریت کے تحفظ کے لئے لسانی اور فرقہ وارانہ گروہوں کو ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھایا گیا۔ انقلابی تحریک کی پسپائی سے محنت کش عوام میں پھیلنے والی بدگمانی اور مایوسی کی کیفیت میں اشتراکی جدوجہد پر انفرادی مفادات غالب آنے لگے۔ بیگانگی کی اس کیفیت میں برادری، قومیت، فرقے یا لسانی کمیونٹی میں پناہ تلاش کرنے کا رجحان بڑھنے لگا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بعد میںآنے والی پیپلز پارٹی قیادت نے بھی کبھی پاکستانی قوم پرستی کی لفاظی کی تو کبھی اپنے لسانی اور فرقہ وارانہ پس منظر کو استعمال کرتے ہوئے ’’پاور پالیٹکس‘‘ کے جوڑ توڑ کئے۔ تنگ نظر قوم پرستی، لسانیت اور فرقے کی سیاست جہاں کچلے ہوئے طبقات کو تقسیم در تقسیم کرتی ہے وہاں ان منافرتوں کو استعمال کرتے ہوئے کئی دولت مند افراد اپنے مالی مفادات کو آگے بڑھاتے ہیں اور حکمران طبقے کا حصہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
1947ء کے خونی بٹوارے کے سیاسی، نظریاتی اور معاشی مقاصد کو ’’معاملے کی نزاکت‘‘ کے پیش نظر ایک طرف رکھ کر بھی جائزہ لیا تو بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہجرت کر کے پاکستان آنے والے ایک کروڑ سے زائد افراد کئی دہائیوں بعد بھی اس ملک کے سماج میں ضم نہیں ہو پائے۔ پاکستانی سرمایہ داری اور ریاست، یہاں بسنے والوں کو ثقافتی اور علاقائی طور پر ہم آہنگ کر کے ایک یکجا قوم تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں۔ یکجا قوم اور قومی ریاست کی تشکیل کا یہ فریضہ سرمایہ داری نے صنعتی انقلاب کے ذریعے یورپ اور کچھ دوسرے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بخوبی انجام دیا تھا۔ لیکن اس ملک کا حکمران طبقہ ’’آزادانہ‘‘ حیثیت سے تاریخ کے منظر نامے پر تب نمودار ہوا جب یہ نظام تاریخی طور پر متروک ہو چکا تھا۔ دوسرے سابقہ نوآبادیاتی ممالک کی طرح یہاں کی نحیف سرمایہ داری ایک مستحکم معاشرہ اور یکجا قوم تشکیل دینے سے قاصر تھی۔ نتیجتاً نہ صرف 67 سال پرانے زخم اب تک رس رہے ہیں بلکہ قو م اور لسانیت کی تقسیم زیادہ گہری ہوتی چلی جارہی ہے، یہ تعصبات نسل در نسل معصوم انسانوں کا لہو بہاتے چلے جارہے ہیں۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت کراچی کی آبادی تین لاکھ تھی جو آج دو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پختونخواہ، پنجاب اور بلوچستان سے کراچی کی طرف بڑے پیمانے کی ہجرت اس نظام کی نامرادی کا ہی نتیجہ ہے جو ان خطوں میں صنعتکاری کر پایا ہے نہ ہی یہاں کے باسیوں کو باعزت روزگاردینے کے قابل ہے۔ کراچی میں آج درجنوں قومی اور لسانی گروہ آباد ہیں۔ اسی طرح نئے وطن میں بہتر مستقبل کی آس لئے یوپی، سی پی، بہار، گجرات اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے آنے والوں کے خواب بہت پہلے ہی چکنا چور ہو چکے ہیں۔ ’’مہاجر قومی مومنٹ‘‘ کے نام سے ابھرنے والی ایم کیو ایم کی اقتدار میں بیس سالہ شراکت کے باوجود بھی مہاجروں کے حالات بدسے بدتر ہی ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم کی کم ہوتی ہوئی مقبولیت پارٹی کے داخلی انتشار کی اہم وجہ ہے۔ ایم کیو ایم کے رد عمل میں زور پکڑنے والی سندھی قوم پرست جماعتیں کبھی وسیع تر سماجی بنیادیں حاصل ہی نہیں کر پائیں لیکن آبادیوں کی اکھاڑ پچھاڑ نے سندھی اور دوسری مظلوم قومیتوں میں قومی محرومی اور استحصال کے جذبات کو بہرحال ہوا دی ہے۔
صوبے توڑنے اور نئے صوبے یا انتظامی یونٹ بنانے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ یہ ریاستی اور انتظامی ڈھانچے جن معاشی بنیادوں پر کھڑے ہونگے وہ کب کی کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ اس معاشی نظام میں سماجی ترقی کی گنجائش ہے نہ صلاحیت۔ 1968-69ء کی میراث، طبقاتی جڑت اور انقلابی بغاوت کے ذریعے لسانی منافرت کے خاتمے کا راستہ آج بھی دکھا رہی ہے۔ جبر، استحصال اور نفرت کے نظام سے نجات کا یہ راستہ معاشی خوشحالی اور سماجی ہم آہنگی پر مبنی ایک ایسے سماج کی طرف جاتا ہے جہاں ماضی کے تعصبات انسانی نفسیات اور سماجی شعور پر سے ہمیشہ کے لئے مٹ جائیں گے۔
متعلقہ: