[تحریر: مارزیا ڈی لوکا، مترجم: منیر عصری]
وکٹر جارا ایک مقبول سنگیت کار تھا۔ جو چلّی کے محنت کش عوام کو انقلابی سرگرمی پر اُبھا رتا تھا۔ پنوشے کی بغاوت کے دوسرے دن اُسے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اور رائفل کے بٹ مار مار کر اس کے ہاتھ توڑ دئیے گئے۔ جلاد صفت سزاکار اُس کا تمسخر اُڑاتے ہوئے پوچھتے تھے کیا تم اب بھی گٹار بجا سکتے ہو؟ جواب میں وکٹر انہیں اعتماد سے گھورتااور VENCEREMOS (ہم جیتیں گے) کے مصرعے الاپنا شروع کر دیتا۔ اس مضمون میں مارزیا ڈی لوکا نےَ وکٹر جارا کی کارکردگی پر روشنی ڈالی ہے۔ اور بتایا ہے کہ کس طرح چلّی کے عوام کی پھیلتی ہوئی انقلابی تحریک کے ہم قدم اُس نے بھی اپنا کردار ادا کیا تھا۔
ستمبر 1973ء میں آگسٹو پنوشے نے فوجی کُو کر کے سلواڈور آلندے کی پاپولر یونٹی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ اس شب خون کی سالگرہ وکٹر جارا کے قتل کی بھی سالگرہ ہے۔چلّی کا یہ انقلابی تجربہ، خاص طور پر بورژوا جمہوریت پسندوں کے فریبوں اور سیاست کی غیر جانبدارانہ روش کی بنا پر ناکام ہوا۔ ہر غلطی کا منبع مندرجہ ذیل وجوہات میں دیکھا جا سکتا ہے:
1۔ انقلاب کے سفرکی رفتار کو کم کرنے کے باعث
2۔ نام نہاد اعتدال پسند طاقتوں سے کسی معاہدے پر پہنچ جانے کی کوشش تاکہ بورژوازی کی تشفی خاطر ہو جائے۔ نیز اعلیٰ افسران کی پرت پر اعتماد کرنا۔ لینن نے اپنی کتاب ریاست اور انقلاب میں اس کی وضاحت کی ہے کہ بورژوا ریاست حکمران طبقے کی کاسہ لیس ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ حقیقت سمجھنے کی کوشش نہ کی گئی۔ بظاہر رسمی طاقت آلاندے کے ہاتھوں میں تھی۔ لیکن اصل قوت پر بورژوازی کی گرفت تھی۔ریاست کے بنیادی متحرک عوامی ابلاغ کے ذرائع ریڈیو، ٹی وی، اخبار اسکی ملکیت میں تھے۔ بہرحال عوام کے انقلابی اُبال سے پیدا ہونے والے چلّی کے تجربے نے لوگوں میں وسیع تر ولولہ پیدا کیا۔ اُن کی خود آگہی، طبقاتی شعور اور اپنی اجتماعی قوت کے احساس نے رنگ دکھایاکہ عوام نے مستقبل کی تعمیر کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے۔ اس انقلابی لہرنے ان کی توانائیوں کو انسانی علم کے ہر شعبے میں فعال کر دیا۔
چلّی میں یہ بیداری اپنے ساتھ شامل اتنا کچھ لائی جو شاید کسی اور انقلاب کیساتھ نہ آیا ہو گا۔ یہاں آرٹ، تھیٹر، رقص، موسیقی اور شاعری کو فروغ ہوا۔اسی لیے آمریت کے تھپیڑوں میں ہزاروں مزدوروں، یونین کارکنوں اور بائیں بازو کے سپاہیوں کے ساتھ آرٹسٹوں کی ایک پوری نسل نے بھی بھاری قیمت ادا کی۔ وہ اپنے منفرد انداز سے اپنی تخلیقات کے بل بوتے پر محض انقلاب کے مبصر ہی نہیں بلکہ سپاہی بن کر انقلاب کی جدوجہد میں سرگرم رہے۔بہت ہی منفرد گروہ دیواروں پر نقش ونگار بنانے والے فنکاروں کا تھا۔ خاص طور پر بریگیڈاریمونا پارا (B.R.P) گروپ جس نے اپنا نام 1946ء میں عوامی انقلاب میں قتل ہونے والے ایک سرگرم کمیونسٹ نوجوان کے نام پر رکھا تھا۔بلند اور نمایاں ترین دیواروں کو فتح کرنے کے لیے ان گروہوں نے پُر رونق علاقوں اور BARRIOS ALTOS جیسے امرا کے محلوں میں اپنا کام دکھایا۔ ان نقش گروں نے ملک بھر میں حقیقی جنگ کی تنظیم کرنا تھی۔ یہاں تک کہ پاپولر یونٹی گورنمنٹ کے دور میں ان انقلاب رنگ نقاشیوں سے سینٹیاگو اور دوسرے شہروں کے کونے کھدرے اور چاردیواریاں رنگین ہوگئیں۔ آلاندے گورنمنٹ کی مدد کرنے کے پیغامات اور شبیہیں، جو معاشرے کی نہایت فروتن پرتوں کی زندگی اور اُمیدوں کی عکاسی کرتی تھیں۔ انقلابی عمل کے دوران میں NUEVA CANCION CHILENA اپنے بلند تر درجات تک پہنچ گیا۔ دراصل اس کی ترقی 1960ء میں NUEVA CANCION LATINO AMERICANA کے نہایت عام دھارے کی شکل میں شروع ہوئی۔ چلّی میں اس کی روح رواں وائیولیٹا پارا(Violetta Parra) تھی۔ جس کی غیرمعمولی فنکارانہ قدروقیمت صرف اُس کی موت کے بعد پہچانی گئی۔ اُس نے عوامی روایات کی بازیافت اور مقبول عام موسیقی کی قدروقیمت متعین کرنے میں اولین قدم اُٹھایا۔ اس حُبُ الوطنی اور قومی کلچرل جڑوں پر زور دینے کی بازیافتہ غنائی روایت کا نیشنلزم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ زیادہ واضح حقائق یہ تھے کہ سماجی مسائل جن پر اصل زور تھا ان عناصر کے ساتھ ملکر سامراج دشمنی کے لیے زیادہ بامعنی ہو جاتے تھے۔
شمالی امریکی کمرشل موسیقی سے متاثر ہوکر چلّی کے مقابل بیوپاریوں نے یا تو اسکی نقل کی یا سیاحوں کی دلچسپی کیلئے خوبصورت پوسٹ کارڈوں کی صورت ملک کے متعلق غیر حقیقی کہانیوں کی دہرائی کی جس کے آسمان نیلے اور زمینی مناظر خوشگوار تھے۔ اس طرح اُنہوں نے غربت کی حقیقی صورتحال کو پس پشت ڈال دیا جس کے ہاتھوں لوگ کراہ رہے تھے۔ بہرحال اُنکی اپنی ثقافت کی بازیافت نے اُنکی تہذیب اور شمالی امریکی کلچر کی برتری کے گہرے تضادات کی طرف راہنمائی کی۔ جو بذات خود بھی سامراج کی نہایت عامیانہ سیاست اور معاشی جبر کا دوسرا نتیجہ تھی۔ اس بنا پر NUEVA CANCION CHILEANA نے حقیقتاً ان شکلوں کی پیش بینی کی جو چلّی کے تمام تر انقلابی تجربے کے دوران نمودار ہونا تھیں۔ اس طرز نو کو موسیقی کی روایت اسی ڈھنگ سے بنایا جا سکتا تھا کہ سامراج کا منکر ہوا جائے اور اثرات کے لحاظ سے یہ گیت سنگیت شاہ مخالف اور انقلابی ہو۔اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں تھی کہ یہ روش انقلاب کے دوران غیر معمولی کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ یہاں کے سماجی حالات کو دیکھتے ہوئے 1960ء کے دوسرے نصف میں 1970ء کے صدارتی انتخاب میں آ لاندے کی کامیابی کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ وائیو لیٹا پارانے 1967ء میں خودکُشی کر لی اور میدان اب آرٹسٹوں کے ایک نئے طائفہ کے لیئے چھوڑ گئی۔ جو انہی سالوں میں ظہور میں آیا تھا اور اس کے اکٹھ پینا (De Los Parra) کلب میں ہوتے تھے، جو ڈی لاس پارا اینجل اور ازابیل کی کوششوں سے وجود میں آئے۔ وہ وائیولیٹا پارا کا بیٹا اور بیٹی تھے اور موسیقار بھی۔پینا جو 1965ء میں وجود میں آئی، ایک غیر رسمی جگہ تھی۔ تہذیبی حلقے کی قسم کی چیز، جہاں سرکاری ذرائع ابلاغ کے دائرہ کار سے باہر کے فنکار جمع ہو کر اپنے ہنر کی نمائش کر سکتے تھے۔ پینا کلب نے شروع میں نئی فنکارانہ لہر اور مزدوروں کی تحریک میں ابھی جو کمزور سا رشتہ تھا اسے اجاگر کیا۔ نیز تھوڑی تعداد میں چیدہ چیدہ عوام کے لیے یہ کام جاری رکھا۔ 1960ء کے اختتام پر قبل ازوقت انقلاب کے اُبال کی تحریک کی ترقی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ تحریک دوسری کلبوں کی تخلیقات کے لیے مثالی بن گئی۔اور بہت سے ترقی پسند آرٹسٹوں کے لیے جست کے تختے کا کام دیتی رہی۔ ان ہی میں ایک اہم آرٹسٹ، تھیٹر ڈائریکٹر، موسیقار اور گیت کار وکٹرجارا تھا۔ عوامی طبقے کا فرد جس نے تھیٹر سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور ابتدا میں جو اشعار اُس نے تخلیق کیے اُن میں اس ضرورت کو واضح طور پر دھیان میں رکھا کہ دُنیا میں پھیلے ہوئے استحصال، محرومی اور غربت کی صورتحال جس میں زیادہ تر آبادی گرفتار تھی، سامنے لائے اور انسانی بدحالی کی ترجمانی کرے۔اس مسلسل اور واضح نصب العین کے لیے وکٹر جارا نے نہ صرف ماضی قریب کے حالات سے خوشہ چینی کی بلکہ خستہ حال اور خوار و زبوں لوگوں سے میل جول رکھا۔وقتاً فوقتاً و ہ اپنے گاؤں اور دوسرے دیہاتوں میں جاتا۔اور سینٹیاگو کے اردگرد کچی آبادیوں میں پھرتا رہتا۔اس نے کچھ سوانحی گیت لکھے۔ جن میں چلی کے کسانوں کی بھرپور ترجمانی ہوتی ہے۔ اُس کی نظمیں جیسے:
La luna siemre es muy linda
ٰٰٓٓیاد آتی ہے مجھے اپنے ابا کی صورت
جیسے اک گڑھا سا دیوار پہ کھودا ہوا ہو
جامہ اُس کا سدا مٹی سے اٹا رہتا تھا
اور میری اماں کو کاموں میں پناہ ملتی تھی
دُکھ بہت سہتی تھی اور چیختی بھی رہتی تھی
نیزوہ مفلسی کو اس طرح ڈرا دیتے تھے
جیسے وہ اپنے مصائب کو نگل ہی لیں گے
ڈوب کر پہنچے ہوئے ولیوں کی تمثالوں میں۔۔
یا اُسکی نظم El arado ہے:
ہل کی ہتھی تھامی میں نے مضبوطی سے
اس کا پھالا گاڑ رہا ہوں دھرتی میں
ایسا کشٹ کیا ہے میں نے سالوں تک
ابھی تلک جو تھکا نہیں ہوں محنت سے
تتلیاں اُڑتی ہیں اور جھینگر گاتے ہیں
جلد میری سورج کے نیچے جھلستی جائے
سورج میرے اُوپر اُوپر چمکتا جائے
میرا گرم پسینہ گرے سیاروں پر
جیسے جیسے کھیت کی تہیں اُلٹتا جاؤں۔۔
یہاں اُسکی زندگی بھر کی ساتھی بیوی، جون جارا، اسکی جمالیاتی بے چینی کو بیان کرتی ہے۔ ’’اُس کے گیتوں کی بہار، نادار لوگوں کیساتھ گہری شناسائی رکھتی تھی۔ سماجی ناانصافی کے بارے میں بھرپور آگہی اور اسکی وجوہات اور ایک مضبوط اراد ہ کہ ایسی ناانصافی کی نفی کرنا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اس ناگزیریت پر زور دیتاکہ اپنی ہر کوشش سے حالات کو تبدیل کیا جائے۔‘‘ حقیقتاً بیچارے بچے اس کے گیتوں کا اہم موضوع ہوتے ہیں، جیسا کہ:
چاند مل کے پانی میں، شہر بھر میں بہتا ہے
پُل کے نیچے اک بچہ، خواب دیکھے اُڑنے کا
شہر اُسکو پھانستا ہے، دھات کے کٹہرے میں
بچہ بوڑھا ہونے پر اتنا بھی نہ جانے گا
کھیل کس کو کہتے ہیں
اور بہت سے تم جیسے، جب پناہ نہ پائیں گے
ہو رہیں گے آوارہ،
پیار کرنا آساں ہے، جیب میں اگر پیسہ ہو،
دن کو غم کدہ جانو، تم پہ گر غریبی ہے
1960ء کی دہائی کے اختتام تک اس کے گیت نمایاں طور پر سیاسی ہو گئے اور پھر سے ہوش میں آنے کی تہذیبی لہر کے مسائل اور مقاصد کیساتھ منسلک ہو گئے۔انہیں سالوں میں وکٹر نے لکھا:
’’امریکی سامراج موسیقی کے ذریعۂ ابلاغ بنانے کو پورے طور پر سمجھتا ہے۔ اس لیے وہ ہمارے نوجوانوں کے گلے میں ہر قسم کی کمرشل بکواس ٹھونس دیتا ہے۔اپنی پیشہ ورانہ زیرکی سے اُس نے خاص اقدامات کیے ہیں جیسے نام نہاد مزاحمتی موسیقی کو ’جنس بازاری‘ بنا دیا، اور مزاحمتی موسیقی کے ہیولے تخلیق کیے، جو اُنہی اصولوں کی فرمانبرداری کرتے ہیں جن کی اطاعت عام بت کرتے ہیں۔ وہ کچھ دیر کے لیے مقابلہ کرتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں۔ اس دوران میں وہ نوجوانوں کے لیے بغاوت کو غیر جانبدار بنانے کے لیے میسر آ سکتے ہیں۔ اُس بغاوت کا رنگ پختہ نہیں ہوتا۔احتجاجی گیت کی اصطلاح اب زیادہ موثر نہیں رہی کیونکہ یہ مبہم اور فرسودہ ہو چکی ہے۔جہاں تک میرا تعلق ہے میں انقلابی شاعری کو ترجیح دیتا ہوں۔‘‘
1968ء کے آغاز میں یونیورسٹی اصلاحات کی تحریک پھوٹ پڑی۔ جس میں مطالبہ کیا گیاکہ مزدوروں اور کسانوں کے بیٹوں اور بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی دی جائے۔جسکے نتیجے میں بہت سی اُلجھنیں آ پڑیں، جنہیں سُلجھاتے ہوئے خزاں کا آخر ہو گیا۔ اس تحریک میں N.C.C کو طلباء میں نہایت پختہ کار سامعین ملے۔ یہی ربط بعد میں طلبا اور مزدوروں میں اتحاد کا باعث بنا۔یہی تحریکیں ترسیل کا ذریعہ بنیں اور انہیں کی بنا پر این سی سی محنت کش طبقے تک نفوذ کر گئی۔
چلّی کے محنت کشوں میں فنکارانہ اور کلچرل سرگرمیوں کو فروغ دینے کی روایت پہلے سے موجود تھی۔ یہ رسم بیسویں صدی کے آغاز میں شروع ہوئی تھی۔ اس کی جڑیں بہت گہری تھیں۔جب مزدوروں کے انقلابی عمل کے باپ لوئی ایمیلیو ریکے بیرن نے محنت کشوں کی شاعری، موسیقی اور تھیٹر کے پھیلاؤکو رائج کیا تھا۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلاکہ 1968ء میں نوجوان کمیونسٹوں نے ’’ریکارڈ لیبل ‘‘ کا بدل تخلیق کیا جو (D.I.C.A.P) کہلایا۔ جس کی بنا پر گیتوں کی اشاعت کی اجازت مل گئی۔ ورنہ انکی منڈی میں تقسیم ہونے کی نوبت کبھی نہ آتی۔ D.I.C.A.P کا شکریہ کہ جارا نے اپنے البم ریکارڈ کئے اور چھپوائے۔ جیسے اسکی البم Pongo en tus manos abiertas اور Preguntas por Puerto Montt۔
پیورٹومونٹ ایک شہر تھاجہاں مارچ 1969ء میں چار ہزار بے گھر کسانوں نے کیچڑ بھری بنجر زمین کے ایک ٹکڑے پر قبضہ کر لیا۔ یہ جائیداد علاقے کے ایک نہایت طاقتور گھرانے کی ملکیت تھی۔ یہ کسان ایک مدت تک گورنمنٹ کے وعدوں پر اور اس امید پر کہ ان کے سر پر بھی چھت کا سایہ ہو گا انتظار کرتے کرتے تھک ہار چکے تھے۔ اکانوے خاندانوں نے اس اقدام کے ذریعے کوشش کی کہ حکام بالا کی توجہ اس طرف مبذول کرائیں۔اور انہیں مجبور کریں کہ وہ ان کے مسئلے کا حتمی حل نکالیں۔ لیکن اس کا جواب ہوم منسٹر پیریز زوجووک نے قتل عام کے حکم کی صورت میں دیا۔ جس کے نتیجے میں ساٹھ کسان بُری طرح زخمی ہوئے اور دس جان کی بازی ہار گئے۔سات سال کا ایک بچہ بھی آنسو گیس کے گولوں سے دم گھٹ کر چل بسا۔ اس قتل عام سے عوام میں غم و غصے کی لہر پھیل گئی۔اور لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ تمام کے تمام ایک ہی بار ایڈو آرڈوفری کی مسیحی جمہوری حکومت کے بارے میں اپنے خوشگوار اور مثبت تصورات کو موقوف کر دیں۔ جس نے بائیں بازو کے نعرے اور طرز عمل کو اپنا کر یہ الیکشن جیتے تھے۔ نیز اُس نے جتنی اصلاحات کرنے کا وعدہ کیا تھا اُن میں سے ایک بھی پوری نہیں کی تھی۔سینٹیاگومیں پولیس اور طلبا کے درمیان شدید ٹکراؤ ہوئے۔ اور ایک بڑا مظاہرہ بھی کیا گیا۔جس میں وکٹر جارا نے اپنی نظم Preguntas por Puerto Montt پڑھی:
میں تمہیں پوچھنے کو آیا ہوں
تم سبھوں سے اُس آدمی کے لیے
ہاں وہی شخص جو ہوا تنہا
اور ہوا قتل کچھ بھی جانے بغیر
کس خطا کے سبب وہ مارا گیا
اُ س کے سینے پر گولیاں لگ کر
چھلنی چھلنی معمہ چھوڑ گئیں
اُس کا جھگڑا تھا اپنے حق کے لیے
اہل نخوت سے اپنے رہنے کو
ایک ٹکڑ ا زمیں کا مانگا تھا
حکم جس نے دیا کہ گولی چلاؤ
وہ بھی اک سیاہ بخت زیرک تھا
گرچہ وہ جانتا تھا پہلوتہی
ٹال جاتا تو اور بھی ڈھب تھے
قتل و غارت تھا بزدلانہ عمل۔۔۔
پیور ٹو مونٹ او پیورٹومونٹ
سنگدل شیراو پیورٹومونٹ
تم کو اسکی سزا بھگتنا ہے
پیریز زو جووک بتاؤ
کاہے کو ان نہتے لوگوں کو
گولیوں کی زباں میں جواب دیا
خونی پیریز اب تمھارا ضمیر
اوڑھ کر کفن دفن ہوگیا ہے
اور دکّن کی ساری برساتیں
تیرے ہاتھوں کودھو نہیں سکتیں۔۔
اس زمانے میں وکٹر جارا کمیونسٹ پارٹی کا سرگرم رکن تھا۔ اور اسی تحریک کے لیے دوسرے آرٹسٹوں کے ساتھ ملکر پاپولر یونٹی کے حق میں ایک لمبی مدت تک سنگیت منڈلی کر چکا تھا۔ یہ وہ دورانیہ تھا جس میں اُس نے آہستہ آہستہ محسو س کیا کہ اُسے خود کو مزدورتحریک کے قریب تر لانے کی ضرورت ہے۔اُس نے نغمہ و سرور کے پروگرام منظم کرنااور انہیں فیکٹریوں میں مزدور یونین کے جلسوں میں پیش کرنا شروع کر دیا۔ا طرح موسیقی کی تالیں انقلاب کا ایک ہتھیار ثابت ہوئیں۔ یہ ہتھیار ایسا تھا جو عوام کی ملکیت میں تھا۔جس نے محنت کشوں کے مطالبات کی طاقت کو زیادہ واضح کیا۔ حتی کہ وہ قیادت کا نشان بن گیا۔
یہ حالات تھے جن میں Plegaria a un labrador… لکھی گئی۔اس نظم میں جارا کسانوں سے التجا کرتا ہے کہ ایک صاف ستھرا معاشرہ حاصل کرنے اور اسکی تعمیر کرنے کے لیے کی جانے والی تگ ودو میں شامل ہوں۔چلی میں تمام اراضی ابھی تک چند ایک مالکان کے قبضہ میں تھی۔اور کسانوں کی ایک بڑی تعداد بدترین مفلسی میں رہتی تھی۔یہ لوگ روائتی طور پر کیتھولک تھے۔فیکٹری مزدوروں کی بے چینی اور شدت احساس کے برعکس کسانوں کا رجحان غیر مدافعانہ تھا۔وہ اپنے باطنی حوالے کے لیے مسیحی جمہوریت (جسکا اُوپر ذکر ہوا ہے)کو زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔اور جھکاؤ رکھتے تھے۔نوجوانی میں وکٹر جارا بھی کیتھولک عمل کے لیے سرگرم رکن رہا تھا۔اور پادری کا پیشہ اپنانے کی غرض سے دو سال تک اس ادارے کا پیروکار بھی رہا۔وہ وضاحت کرتا ہے کہ ’’پلی گاریارے ان لبرے ڈور‘‘ میں میں نے عبادت اور جدوجہد کی دعوت کو ایک توازن میں رکھا۔میں اپنے لوگوں کا باطنی ماحول جانتا ہوں کہ ان میں زیادہ تر مذہبی عقائد سے نہایت گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ میں اجتماعیت سے کام لیتا ہوں جو ان دیوانوں سے عہدہ برآہ ہونے کا بہتر طریقہ ہے۔ صورت یہ تھی کہ عبادت میں خدا کی بجائے تمام کسان برادری کو مخاطب کیا جاتا تھا۔ ’’ ہمیں اُن لوگوں سے نجات دلاؤجو ہم مصیبت کے ماروں پر چھائے ہوئے ہیں‘‘، ’’جنگ میں ہمیں اپنی طاقت اور حوصلہ دو‘‘ اور ’’تمہیں اسکا صلہ اسی دھرتی پر مل جائے گا۔‘‘
ستمبر 1970 ء میں سلواڈور آلاندے نے صدارتی الیکشن جیت لیا۔ جاراکی بیوی نے لکھا:
’’ایسے لگتا تھا جیسے ہم بند دروازے پر بار بار دستک دیتے رہے ہوں اور یہ دروازہ اچانک کُھل گیا ہو۔اور ہم نے خود کو دوسری طرف پایا ہو۔آزادی کے گھر میں۔ ہم ہچکچارہے تھے۔ یہ سب حیران کن تھا۔ ہمیں نئے حالات کا خوگر ہونے کیلیے تھوڑا وقت لگا۔ایک لمبی مدت تک احتجاج اور لعنت ملامت کرنے کے نتیجے میں کوئی ایسی شئے مل جائے جسکی تقریب منائی جا سکے اور لاتعداد کاموں کی بھرمار جنہیں انجام دینا تھا ہمارے حواس باختہ کرنے کے لیے کافی تھی‘‘۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ بہت سے دوسرے آرٹسٹوں کی موسیقی اور وکٹر جارا کا سنگیت بھی ایک مختصر مدت کے لیے بحران کا شکار کیوں ہوا۔ اپنے کم کامیاب نغموں کی روشنی میں وہ ان مشکلات کی وضاحت کرتا ہے:
’’اس کامیابی اور ان مشترکہ خیالات کے اتصال نے آرٹسٹوں کے دل میں یہ مشکل سوال جگا دیاہے کہ اب کیا کیا جائے۔وہ چیز جو پہلے قدرتی اُٹھان کی صورت میں وارد ہوتی تھی۔ اب اسے لازمی طور پر منظم اور سوچا سمجھا عمل ہونا چاہیے۔یہ کہنا بے فائدہ ہوگاکہ لوگ کلچر سے متعلق ہر شئے پر فدا ہوتے ہیں۔ ضروری یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے لیے آلات موسیقی مہیا کیے جائیں تا کہ وہ خود تخلیق کار بن جائیں۔ اب راگ رنگ ہر ایک کے بس کی بات ہے۔‘‘
ان بنیادی مشکلات پر قابو پانے کے لیے وکٹر جارا نے Abre la ventana جیسے گیت لکھے۔جن میں اس نے ماریا کی ہمت بڑھاتے ہوئے کہا کہ اب گھر کی کھڑکیوں کو کھول دو اور سورج کو اندر آنے دو کہ سخت ترین لمحات گزر گئے ہیں۔ اب آخر کار اُسکی آنکھیں روشنی سے اور ہاتھ شہد سے بھرے جا سکتے ہیں۔ ماریا اُن تمام پسماندہ لوگوں کی علامت تھی جو معاشرے میں بستے چلے آئے تھے۔شروع میں انکے لیے معاشرے میں ہوتی ہوئی سوشل تبدیلیوں میں حصہ لینا اور عملی قدم اُٹھانا مشکل تھا۔پاپولر یونٹی گورنمنٹ نے جسکا دور اب شروع ہو چکا تھا۔ کئی ایسے اقدامات کیے جنہوں نے چلّی کے لوگوں کو فوری راحتیں بہم پہنچائیں۔نہایت ناگزیر اصلاحات جیسے کہ زمینی بندوبست، ملک بھر کی بنیادی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے کے ساتھ ساتھ کلچر پھیلانے کی تجاویز کو بھی بجا مقام دیا گیا۔ ان میں’’ آرٹ سب کے لیے۔‘‘ موسیقی کے باقاعدگی سے منظم کیے جانے والے اجتماع، رقص اور تھیٹر کی تقریبات سینٹیاگو کے اردگرد بسنے والی محنت کش آبادیوں میں رچ بس گئے۔یہ سرگرمیاں اس لیے اہم تھیں کہ ان سے کلچر اور آرٹ اسطرح پھیلتا تھاکہ محض اشرافیہ کا مشغلہ نہ رہ جائے۔بلکہ سب کے لیے ہو۔البتہ ان سرگرمیوں میں ایک خاص رنگ موجود تھا۔ان میں حتی الامکان لوگوں کے لیے اب بھی پدری عناصر موجود تھے۔جو نئے زمانے کے فنکاروں اور دانشوروں کے لیے مثالی حیثیت رکھتے تھے۔ دوسری طرف وکٹر جارا کا خیال تھا کہ پُرکھوں کے اثرات سے بچنا چاہیے۔اور اس روش پر وہ ہمیشہ تنقید کرتا تھا۔آرٹسٹوں کو مخاُطب کرتے ہوئے اُس نے لکھا:
’’ہم جس جگہ بھی کوئی پروگرام کریں ہمیں تخلیقی گروہ منظم کرنے چاہییں اور انہیں اجازت دینی چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کریں۔یہ ہم ہیں جنہوں نے عام فنکاروں کو فنی معیار تک لانا ہے نہ کہ ہم خود جھکتے ہوئے اُن کی سطح پر آجائیں۔ہمارے لیے مشکل مرحلہ انہیں وہ کچھ دینے پر مشتمل ہے جو اُن ہی کا ہے، دوسرے لفظوں میں اُن کی ثقافتی بنیادیں اور ایسے ذرائع جن سے وہ اپنے ثقافتی اظہار بیان سے اپنی فنی پیاس بجھا سکیں جیسے ہم نے الیکشن کی مہم کے دنوں میں دیکھا۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ چلّی کے عوام جنہوں نے سوشلسٹ معاشرے کے قیام کے لیے دل و جان سے تہیہ کر رکھا تھا۔ وہ آرٹ کے میدان میں کوئی بڑا کردار چاہتے تھے۔اس انتہائی تخلیقی جوش نے بھی وکٹر جارا کو متاثر کیا۔کام کی بہتات تھی جسے دنوں میں نمٹانا تھا، اور وقت بہت تھوڑا۔ ’’سوشلسٹ معاشرے کی تشکیل کرنے کے لیے ہمارے پاس یہ حیران کن موقع ہے۔ہم اسے ضائع نہیں کر سکتے۔۔۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا یہ ممکن ہے، دنیا کی نظریں ہم پہ لگی ہوئی ہیں۔‘‘
تاریخ میں پہلی بار ایک بورژوا جمہوری اصولوں کے تحت منتخب شدہ حکومت کے ہاتھوں انقلاب برپا ہو رہا تھا۔بہت سوں کو یہ ’’سوشلزم کی طرف پُر امن شاہراہ‘‘ ممکن دکھائی دے رہی تھی۔ انہیں غلط فہمی تھی کہ قانونی طور پر منتخب شدہ حکومت کے ایما پر بورژوازی اپنے ہاتھوں سے طاقت کی باگ ڈور چھوڑنا قبول کر لے گی۔حقیقت یہ ہے کہ وکٹر جارا پر وہ خطرات پہلے ہی واضح ہو چکے تھے۔جو بورژوازی کی اغراض کو خطرہ ہونے کی صورت میں وہ کرنے کی اہل تھی۔ چلّی کی حکمران جماعت اُسکی انقلابی نظموں پر 1960ء سے ہی نظر رکھے ہوئے تھی۔نجات اورP.P.P.M کی مشہور کامیابی نے اُس کے خلاف دھمکیوں اور دباؤ کا تانتا باندھ دیا۔یہ بھی سچ ہے کہ ایک کنسرٹ کے موقع پر امیروں کے بچوں کے اسکول میں وہ جسمانی طور پر زخمی ہوا۔
آلاندے کی صدارت کے دوران میں پریس پر، جس کا 70 فیصد ابھی تک بورژوازی کے قبضے میں تھا، انہوں نے نہایت شدید رد انقلابی مہم کا آغاز کر دیا۔ ہر قسم کے بہتان کا رخ وکٹر جاراکی طرف تھا۔ اُس پر یہ تہمت بھی لگی کہ وہ بچوں میں جنسی کشش محسوس کرتا ہے۔ اس سے اُن کا مقصد چلّی کے عوام کے محبوب آرٹسٹ کو بدنام کرنا تھا۔ بہر حال یہ مہم اپنے مقصد میں ناکام ہو گئی۔اور وکٹر جارا نے ملکی سطح پر اعلان کیا کہ یہ حملہ میرے خیال میں پاپولر یونٹی اور میری پارٹی (کمیونسٹ پارٹی) کے خلاف بالواسطہ سازش تھی۔یہ اس حقیقت کا جواب تھاکہ میری نظموں نے اپنا ٹھیک ٹھیک اثر دکھایا تھا۔ اس تمام کھلواڑ کا یہ اثر ہواکہ جارا اپنے گیتوں کو جاری رکھنے کے ارادے میں اور پختہ ہو گیا۔
1972 ء کی سردیوں میں اُسکی البم La poblacion جاری ہوئی۔ جس میں اُس کی دلی خواہش کااظہار ملتا ہے۔کہ وہ سماج کو جانچ پرکھ کر معاشرے کی افتادہ پرتوں کی دائمی تربیت جاری رکھنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ اور لوگ بھی اُسکی منشا کے مطابق آرٹ میں حصہ لیں۔ایک دوست کی دعوت پر جو ایک غریبانہ قصبے میں رہتا تھا وہ بہت سے جھونپڑوں میں تین ہفتوں کے لیے ٹھہرا۔ان میں ایک گاؤں Nogales بھی تھا۔ جہاں وکٹر جارا اور ہرمنڈا ڈی لا وکٹوریا رہا کرتے تھے۔اُس نے یہاں کے باسیوں کی کہانیاں اور ماحول کی ہئیتوں کو ریکارڈ کر لیا، البم میں کچھ ریکارڈنگز اور گیت ان کہانیوں سے متاثر ہو کر لکھے گئے۔ وکٹر جارا نے اس البم میں پہلی بار گیتوں کو تھیٹر کی تکنیک سے یکجا کر دیا۔خا ص طور پرLuchin میں ایک خوبصورت گیت، جھونپڑوں میں رہنے والے بچوں میں سے ایک کے متعلق ہے۔ دوسرے گیت میں ایک گاؤں کی کہانی ہے۔ جسکا نام ہرمنڈا کے نام پر رکھا گیا تھا۔ یہ نوزائیدہ بچی زمین کے ایک قبضے کے موقعے پر گولی لگنے سے اپنی ماں کی بانہوں میں مر گئی۔
وہ ہر منڈا ڈی لا وکٹوریہ
گُل ہوئی جسکو وقت ہی نہ ملا
زندگی میں اُجالا کرنے کا
وہ گئی قصرِ شان تک سیدھی
لے کے سینے پہ گولیوں کے زخم۔۔
وکٹر جارا کے تمام گیتوں کا ذکر بہت طویل ہو جائے گا۔ ان سب میں گہری انسانی، سماجی اور سیاسی بصیرت ملتی ہے۔ یہ اس کا مستقل نقطہ نظر تھا۔ جو اُسکی ہر گفتگو، انداز اور تخلیق سے نمایاں ہوتا تھا۔ اُس کی ذاتی زندگی اُس کے مشاغل سے کہاں تک میل کھاتی تھی اس کی حقیقت اُسکے ان دو گیتوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ دونوں اُن وقفوں میں لکھے گئے جب بغاوت کی دھمکی اور رد انقلاب، خلاف ورزیوں کی مداخلت نے واضح کر دیا کہ مستقبل قریب میں کیا ہونے والا ہے۔ Vientos del puebloاورManifiesto: اولالذکر گیت میں ایک دوسرے عوامی آرٹسٹ میگوایل ہرننڈیز، سپین سول وار کے سپاہی اور شاعر کا اثر ہے:
بُلا رہی ہیں مجھے آندھیاں سی لوگوں کی
اُٹھا رہی ہیں مجھے آندھیاں عوام کے ساتھ
بکھیرتی ہیں میرے دل کولاکھ تنکوں میں
مرے حلق سے بھی یہ تیز تر گزرتی ہیں
یہی وجہ ہے کہ شاعر کو لوگ چاہتے ہیں
سنیں گے، موت نہ جب تک مجھے تباہ کر دے
اور میں لوگوں کی ڈگر پر ہو لوں
ہاں بے شک ابھی، ہمیشہ تک۔۔
Manifiesto جو وکٹر جارا نے اپنی موت سے تھوڑے دن پہلے لکھا۔اور اس کے انتقال کے بعد سامنے آیا، یہ اُس کا عہد نامہ جدید تصور کیا جاتا ہے۔ یہ وکٹر جارا کے نظریات کے لحاظ سے اپنے اثرات میں کسی انقلابی فنکارکے لیے منشور کا درجہ رکھتا ہے:
میں نہیں گاتا شوقیہ نغمے
نہ کہ میری صدا سریلی ہے
میرے گانے کا ایک مقصد ہے
جب بھی میری گٹار گونجے
ذرا احساس دے، دلیلیں دے
اس میں کندہ زمین کا دل ہے
پنکھ ہیں اس کے فاختہ جیسے
اور مقدس ہے پانیوں کی سی
اس کے غم اور خوشی میں برکت ہے
میرے جذبے نے مُدعا پایا
وائیو لیٹا کی خواہشوں جیسا
محنتی ہے بہت مری یہ گٹار
اس سے آئے پیار کی خوشبو
پر یہ امرا کے منہ نہیں لگتی
بلکہ ایسا کبھی نہیں ہو گا
زینہ زینہ بنا کے میرا گیت
ہم ستاروں تلک بھی جائیں گے
گیت کے معنی واضح ہوتے ہیں
جب یہ فنکار کی نسوں میں بھی
پھڑپھڑاتا ہے پنچھیوں کی طرح
اہل فن گاتے گاتے مر جائے
سچے دل سے الاپنے والا
گیت میرا بری ہے لالچ سے
نہ یہ وقتی داد مانگتا ہے
نہ کوئی غیر ملکی مشہوری
یہ تو اس تنگ مُلک کی خاطر
اور اس سرزمین کے اندر تک
اپنے تت کی بوائی کرتا ہے
جس جگہ ساری چیزیں ٹھہرتی ہیں
دو گھڑی سُکھ کی سانس لینے کو
اور جہاں شروع ہوتی ہے ہر شئے
گیت کا وار کاری چاہیے ہے
یہ رہے گا سدا گل تر سا۔۔۔
آخر دنوں میں وکٹر جارا ایک منصوبے میں مصروف تھا۔ جس میں اُس نے آخری کوشش کے طور پر ’’پاپولر آرٹ‘‘ کو اپنے تصور کے مطابق ایک تھیٹر اور میوزک شو کی عملی شکل دے دی۔ان میں لوگوں نے کام کیا۔ اور اپنی بپتا سنانے کے لیے سٹیج کو بہتر پایا۔ پہلا اورکامیاب تجربہ 1972ء میں ہوا۔ جب چلی کی کمیونسٹ پارٹی کی 50ویں سالگرہ منائی جا رہی تھی۔ اس تقریب پر اُس نے درجنوں آرٹسٹ مزدوروں اور کسانوں کو ہدایات دیں جنہوں نے چلی کی محنت کش تحریک کی تاریخ، یعنی اپنی تاریخ فنکارانہ طور پر رقم کی تھی۔وکٹر جارا مقامی آرٹسٹوں کو اپنے ساتھ شامل کرتے ہوئے اس منصوبے کو چلّی کے ہر علاقے میں لیجانے کی کوشش کررہا تھا۔ اس پروگرام سے ہر ایک پر واقعی واضح ہو جاتا کہ لوگوں کو اگر سازوسامان دے دیا جائے تو وہ اس کلچرل تجربے میں سرگرمی سے حصہ لینے کے اہل ہیں۔
مگر اُس کا یہ منصوبہ تکمیل پذیر نہ ہو سکا۔ CUT (ملک بھر میں اہم یونین) نے قطعی طور پر حکم دیا کہ فوجی کُو کی صورت میں ہر ایک کو اپنے کام کی جگہ پر پہنچنا ہو گا۔ تا کہ حفاظت ہو سکے۔اسکے لیے دو ستمبر کو وکٹر جارا ایک لمحہ ضائع کئے بغیر یو۔ٹی پہنچ گیا۔عوام الناس، اگرچہ نہتے کر دیے گئے تھے، اس خیال پر چل پڑے کہ متحدہ دفاع کی تجویز اور ضرورت پڑنے پر ہتھیار مہیا کر دیئے جائیں گے۔لیکن ان میں سے کوئی ضرورت بھی پوری نہ ہوئی۔
دوسری کام کی جگہوں کی طرح وہ جو یو ٹی کا دفاع کر رہے تھے اُن پر فوجی حملہ ہوا۔ وہ جانفشانی سے مزاحمت کرنے کے بعد قید ہو گئے۔یا وہیں ڈھیر کر دیے گئے۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بغاوت کے پہلے چند دنوں میں بیس سے تیس ہزار لوگوں کو قیدی بنا کر قتل کر دیا گیا۔ یہ مزدوروں کے خلاف طبقاتی انتقام تھا۔جو منظم انداز میں جاری رکھا گیا۔ان لوگوں کو قید کر کے پہلا کام یہ کرتے کہ اُنکے ہاتھوں کا معائنہ کیا جاتاوہ کھردرے ہیں یا نہیں۔ جسکے ہاتھ کھردرے ہوتے اُسے فیکٹری مزدور سمجھا جاتا۔اور فیکٹری مزدور ہونا گویا مارکسسٹ ہونے کے برابر تھا۔یہ تھی وہ کمک جو انقلاب لانے کے لیے محنت کش طبقے کو ملی۔یہی وجہ تھی کہ وکٹر جارا جو محنت کش طبقے میں سے تھا اور لوگوں کو اپنے انقلابی گیتوں سے آزادی کا بھر پور شعور دیتا رہا تھا۔ اُس سے بھی نفرت کا وہی سلوک کیا گیا اور دوسرے ہزاروں لوگوں کے ساتھ اُسے بھی ایس ڈی چلّی کے سٹیڈیم میں بند کر دیا گیا۔اُس کی شناخت ہوئی تو اُسے ہاتھوں سے معذور کر دیا گیا۔تاکہ وہ اپنے مزدور ساتھیوں کے لیے پھر کبھی گٹار نہ بجا سکے۔تشدد جھیلنے اور قتل ہونے سے پہلے اُس نے اتنا اہتمام ضرور کیا کہ اپنے آخری اشعار ایک قیدی ساتھی کے حوالے کر گیا:
ہم ہیں یاں پنج ہزار ذی انفاس
شہر کے اتنے چھوٹے حصے میں
ہم یہاں پر ہیں پورے پنج ہزار
اور تعجب ہے سوچ کر مجھ کو
ہم اگر سب ملیں تو کتنے ہوں؟
سارے شہروں کے سب علاقوں کے
صرف اس چھوٹی سی جگہ پر بھی
میل ہے دس ہزار ہاتھوں کا
جو زمینوں میں بیج بوتے ہیں
جھوم اُٹھیں کارخانے چلنے کو
لاکھ انسانیت نے دیکھی ہے
بھوک، سردی، مشقت اور دہشت
جبر اخلاقی، خوف، پاگل پن
چھ ساتھی تو کھو دیے ہم نے
جیسے تاروں بھرے خلاؤں میں
اک مرا، دوسرے کو پیٹا گیا
ایسا پیٹا کہ میں نہ مان کے دوں
بندے کو اس طرح بھی مارتے ہیں
باقی کے چار جی سے چاہتے تھے
اپنی وحشت کا خاتمہ کرنا
اک خلاپہ جھپٹتا پھرتا تھا
دوسرا سر دیوار سے مارے
ہاں مگر موت گھورتی تھی انہیں
ہول کی کیسی کیسی صورتوں کو
فاشزم ڈھونڈ کر نکالتی ہے
وہ تجاویز ایسی دیتے ہیں
جیسے یہ ضابطہ ہو مانا ہوا
جب چُھری کی زبان بولتے ہیں
انہیں بے معنی کچھ نہیں لگتا
(سنگ پہ بار کیا اصولوں کا)
خون بہانا تو اُن کا تمغہ ہے
قتل و غارت بڑی جواں مردی
اے خدا ہے یہی تیرا یہ جہاں
جسکی تخلیق کی تھی محنت سے
جسکی خاطر تو سات دن کے لیے
اک تحیر میں محو کار رہا
چار دیواروں کے حصار میں تو
صرف تھوڑے سے لوگ رہتے ہیں
اس جگہ کی ترقی کیا ہو گی
یہ تو آہستگی سے چاہے گی
زیادہ سے زیادہ موت کی صحبت۔۔
پھر اچانک شعور جاگتا ہے
دیکھتا ہے کہ اس بہاؤ میں
دل کی دھڑکن سی چیز عنقا ہے
نبض چلتی ہے تو مشینوں کی
اور پھر ملٹری دکھاتی ہے
دائیوں جیسے سپاٹ سے چہرے
دیکھنے میں بہت مٹھاس بھرے
میکسیکو، کیوبا، دُنیا کو
اس سفاکی پہ رونا چاہیے ہے
ہم یہاں دس ہزار ہاتھوں سے
کر نہیں سکتے کوئی پیداوار
ہم سے سارے ملک میں کتنے ہیں
صدر وہ مہرباں غریبوں کا
صدر کے خون کا وار گونجے گا
بڑھ کے بموں، مشین گنوں سے
پہلی ہڑتال اس لیے ہو گی
پھر سے آواز ہم اُٹھائیں گے
کتنا مشکل ہے گیت گانا مجھے
جب کھڑا وحشتوں پہ روتا ہوں
ہیبتیں جن میں رہ رہا ہوں میں
ہیبتیں جن میں مر رہا ہوں میں
خود کو میں دیکھنے کو لامحدود
بیچ ڈھیروں بہت سے لمحوں کے
جن میں خاموشیاںیا چنگھاڑیں
میرے نغموں کی انتہا ہو گی
آجکل جو دکھائی دیتا ہے
یہ کبھی بھی نہ میں نے دیکھا تھا
جتنا محسوس کر لیا میں نے
اور جو محسوس کر رہا ہوں میں
جنم دے گا عظیم لمحے کو۔۔۔
اس سانحہ کے انتالیس سال بعد فوج کے آٹھ ریٹائرڈ افسروں پر الزام لگا کہ اُنہوں نے وکٹر جارا کو قتل کیا۔ سپاہیوں میں سے ایک نے اقرار کیا کہ اُس نے Barrientos اور دوسروں کو دیکھا کہ وہ جارا کو پیٹ رہے تھے اور تشدد کر رہے تھے۔ آخر کار جب جارا ہتھکڑیوں میں جکڑا کھڑا تھا۔ توBarrientos نے اُسکی گردن میں گولی ماری۔ تب دوسرے افسران نے بھی فائرنگ کی۔ یہ حقیقت ہے کہ جاراکے جسم پر چالیس گولیاں لگیں تھیں۔ مرنے کے بعد اُسے ایک گلی میں پھینک دیا گیا۔
وکٹر جارا اور ہزاروں دوسرے افراد کے لیے جو اُس کے ساتھ قتل ہوئے۔ اصلی انصاف آخر کار اسی صورت میں مل سکتا ہے۔ جب اُن کے چلّی کو ایک سوشلسٹ ریاست دیکھنے کا خواب پورا ہو جائے اور چلّی میں سوشلزم کا بول بالا ہو۔