[تحریر: راہول]
ہم ایک ایسے پرانتشار دور میں رہ رہے ہیں جہاں سماج میں ہر طرف ناامیدی اور مایوسی اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوششوں میں لگی ہیں، سماج کی ہر پرت میں اپنی زندگی کو سہل بنانے کی آرزو ہے، خاص طور پر نوجوان نسل میں خواہشات کا ایک ایسا پہاڑ ان کے ذہنوں پر طاری ہے کہ جن کو پورا کرنے کے لئے اکثریت اپنی جوانیاں اسی کشمکش میں گزار دیتیں ہیں۔ وقت اور حالات کا ایک ایسا جبر ہم پر آن پڑا ہے کہ ماضی میں گردانی گئی انسان کی بنیادی ضروریات بھی آج ایک عیاشی بن چکی ہیں کہ جن کی تگ و دو میں نسل انسانی کی اکثریت اپنی ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ رہی ہے۔ روشن مستقبل اور اچھی زندگی تو دور کی بات موجودہ عہد میں انسان اپنی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہوچکا ہے، سماج آج ایسے کتنے ہی سلگتے مسائل سے دو چار ہے جن میں بیروزگاری آج کی نسل کے لئے بین الاقوامی طور پر سرفہرست ہے۔ روزگار کے مسئلے کو لے کر کتنے ہی نوجوانوں کو یہ کہہ کر حقارت سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ روزگار کے قابل نہیں ہیں اسی لئے بیروزگار ہیں۔ لیکن حقیقت میں بیروزگاری کی اصل وجوہات کیا ہیں اور سرمایہ داری میں یہ کس طرح نہ صرف یہ بڑھتی ہے بلکہ یہ موجودہ نظام کا ایک ناگزیر نتیجہ ہے اس بات کو اپنی تحریروں میں نہ صرف عظیم انقلابی کارل مارکس اور اینگلز نے بہت اعلیٰ طریقے سے سمجھایا ہے بلک اس غلاظت کے خلاف کس طرح لڑا جاسکتا ہے اسے بھی بیان کیا ہے۔
سرمایہ داری کی شروعات میں بڑے پیمانے پر سماج کی افرادی قوت کو روزگار مہیا کیا گیا اور اسی کی بنیاد پر آج تک موجودہ نظام نے ترقی کی، لازمی طور پر یہ سرمایہ داری کے لئے ضروری بھی تھا کہ وہ آبادی کی اکثریت کو ایک اچھا معیار زندگی دے اور اسی کی بنیاد پر موجودہ نظام نے اپنی رفتار پکڑی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے سماج ترقی کرتا گیا ویسے ویسے پیداواری ذرائع چند ہاتھوں میں محدود ہوتے گئے اور چونکہ سرمایہ داری میں پیداوار کا مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل کے بجائے شرح منافع میں زیادہ اضافہ ہوتا ہے ٰلہٰذا اس کے نتیجے میں جدید ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد انسانوں کی جگہ مشینوں پر انحصار کیا گیا جس کے نتیجے میں منڈی میں اجرت کی شرح کم ہوتی گئی، ساتھ ہی ساتھ یہ سرمایہ داروں کے لئے لازمی بھی تھا کہ وہ اپنے منافعوں کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لئے لوگوں کو کم سے کم اجرت پر رکھیں اور محنت کش طبقے کے پاس چونکہ سوا ئے منڈی میں اپنی قوت محنت کو فروخت کرنے کے اور کچھ بھی نہیں لہٰذا سرمایہ داروں نے اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی محنت کو کم سے کم داموں میں خریدا اور بل آخر اپنی منافعے کی ہوس کو روزانہ پورا کرنے کے لئے سرمایہ داروں کے لئے یہ لازمی ہوتا گیا کہ وہ منڈی میں مقابلے کی نفسیات کو جنم دیں تاکہ ہر وقت اس مقابلے کی آ ڑ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بیروزگار رکھا جاسکے اور بیروزگاروں کی ایک ایسی کھیپ ہر وقت تیار رہے کہ جس سے سستی اجرت پر ان کی قوت محنت کو خریدا جاسکے۔ اسی بنیاد پر چلتے اس نظام نے نہ صرف محنت کشوں کا دہرا استحصال کیا بلکہ انہیں ایک نقطے پر آکر اپنی ہی محنت اور پیدا کردہ اجناس سے بیگانہ کردیا۔
پچھلی کچھ دہائیوں میں یورپ اور امریکہ کے لوگوں کی زندگیاں یہاں کے لوگوں کے لئے مثالی ہوا کرتیں تھیں، لیکن کچھ سالوں سے یا خاص طور پر 2008ء کے معاشی بحران کے بعد سے پوری دنیا بیروزگاری کی جس آگ میں جل رہی ہے اس کے شعلوں سے دنیا کا کوئی بھی خطہ محفوظ نہیں۔ امریکہ سے یورپ اور مشرقی وسطیٰ سے افریقہ تک ہرخطے کو بیروزگاری اور غربت نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔اقوام متحدہ کے اعداد شمار کے مطابق دنیا میں 2008ء سے پہلے کے دس سالوں میں بیروزگاروں کی تعداد 120 ملین تھی جوکہ اس بحران کے بعد 2009ء میں 198 ملین تک پہنچ چکی ہے اور اس وقت یہ مزید بڑھ کر کئی گنا اضافے کے ساتھ جاری ہے۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو میں بیروزگاری کے لئے مارکس اور اینگلز نے لکھا تھا کہ’’ بورژوازی اب کسی طور پر بھی سماج کو چلانے کے لئے نااہل ہوچکی ہے اور اب یہ سماج کے اوپر براجمان رہنے کے اپنے برتر قانون کے ہر جواز سے محروم ہوچکی ہے۔ یہ حکمرانی کے قابل نہیں ہے کیونکہ یہ اپنے غلاموں کو اس کی غلامی کی حالت میں بھی زندہ رہنے کی یقین دہانی کرانے کے بھی قابل نہیں رہی۔ یہ اس قابل بھی نہیں رہی کہ یہ اپنے غلاموں کو اتنا بھی کھلا سکے کہ وہ ڈوبنے سے بچ سکیں، چہ جائیکہ اس کا غلام اسے کھلاتا پلاتا رہے، انسانی سماج اس بورژوازی کے تحت زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘ کمیونسٹ مینی فیسٹو کے یہ الفاظ جس وقت لکھے گئے تھے آج شاید اس سے کئی گناہ زیادہ سچ ہیں۔ مارکس نے لازمی طور پر سرمایہ داری کا ایک درست تجزیہ کیا تھا اور اسی کی بنیاد پر مارکسزم نہ صرف آج تک سچا ہے بلکہ یہ ہی وہ واحد قوت ہے جو استحصال سے لیس اس نظام کے خاتمے کا ایک درست راستہ بھی بتاتا ہے۔
بین الاقوامی طور پر بیروزگاری کے اس عالم میں اگر پاکستان جیسے نیم سرمایہ دار اور پسماندہ ممالک کا جائزہ لیا جائے تو سرمایہ داری کی حالیہ کیفیت نے نہ صرف یہاں کی سستی لیبر کا استحصال کیا ہے بلکہ سماج میں غیر ہموار ترقی نے اس قدر بگاڑ پیدا کردیا ہے کہ جس کی بدولت آج کئی اقسام کی دشواریاں پیدا ہوچکی ہیں۔ پاکستان کا شمار جہاں دنیا میں ہتھیار خریدنے اور کرپشن کی فہرستوں میں سب سے آگے ہوتا ہے وہاں تعلیم، صحت اور روزگار کے معاملے میں صورتحال بالکل نفی میں ہے یعنی کے آخری کے نمبروں میں۔ ایک طرف ملک آج دہشت گردی سے جل رہا ہے اور دوسری طرف معاشی دہشت گردی بھی تیزی سے جاری و ساری ہے۔ ملک کی ایک بڑی تعداد کا بیروزگار ہونا نہ صرف ان لاکھوں خاندانوں کے لئے مشکلات پیدا کرتا ہے بلکہ مجموعی طور پر ریاست کی معیشت پراثرانداز ہوتا ہے، موجودہ دور میں پاکستان کی معاشی صورتحال کی خرابی کی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ اکثریت آبادی کا روزگار سے محروم ہونا بھی ہے۔ پاکستان میں ہر سال تقریبا20لاکھ لوگ محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں جن کے لئے اس ریاست کے پاس کسی قسم کا کوئی مستقبل نہیں ہے، اسی بیروزگاری کے عالم میں پانچ لاکھ کے لگ بھگ لوگ ہر سال بیرون ملک کا رخ کرتے ہیں جبکہ صرف 2005-08ء کے دوران تقریبا 27 لاکھ لوگ بیرون ملک جانے پر مجبور ہوئے ہیں، بیرون ملک جانے والے ان پاکستانیوں میں 90 فیصد تقریبا وہ لوگ ہیں جو کہ لیبر ویزا پر جاتے ہیں جہاں وہ اپنی مہنگی محنت کو سستے د اموں نیلام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، اس تمام تر صورتحال میں پاکستان کے فیڈrل بیورو آف لیبر اسٹیٹسٹک کے رواں سال کے جاری کردہ اعدادوشمار ناصرف حیران کن ہیں بلکہ بہت مزاحیہ بھی ہیں کہ جن کے مطابق ملک میں بیروزگاری پچھلے سال کی نسبت اب کم ہوچکی ہے، رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بیروزگاروں کی جو شرح 2013ء کی آخری سہ ماہی میں 6.3 فیصد تھی وہ اب 2014ء کی پہلی سہ ماہی میں کم ہوکر 6 فیصد ہوچکی ہے۔ 19۔24 سال تک کی عمر کے افراد میں یہ تعداد 11.3 فیصد تک ہے جبکہ 20۔34 سال والوں کے درمیان یہ شرح 10 فیصد یا اس سے تجاوز کرچکی ہے، اسی سروے کے مطابق (جس میں تقریبا 35,488 گھرانوں کی صورتحال کو دیکھا گیا) شہری علاقوں میں بیروزگاری کی شرح 8.8 جبکہ دیہی علاقوں میں 5.1 فیصد تک ہے، ملکی آبادی کا خزانہ یعنی کے گریجوایٹ نوجوانوں میں یہ شرح اب 11.7 فیصد سے تیزی سے تجاوز کرتی جارہی ہے اور شہری عورتوں میں یہ شرح 21 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ان تمام تر اعداد پر بھروسہ کرنا شاید تھوڑا مشکل ہے، دراصل پورے جنوبی ایشیا کے ہی سرکاری اعداد پر بھروسہ کرلینے سے پہلے کچھ تحقیق لازمی طور پر کر لینی چاہیے، چونکہ پاکستان سمیت انڈیا، بھوٹان، سری لنکا اور بنگلادیش سمیت سبھی ممالک میں سرکاری بیروزگاری کے اعداد کے معاملے میں جھوٹ بولنا دراصل انکا اس سنگین مسئلے پر توجہ کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ دراصل موجودہ ’’وطن عزیز‘‘ نے بیروزگاری کو ماپنے کے اپنے ہی پیرائے بنائے ہوئے ہیں جن کے مطابق ایک کوڑی کمانے والا فرد بھی روزگار میں شمار کیا جاتا ہے، جبکہ یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی، جبکہ حکومتی مراعات چھینی جارہی ہیں، یہ معاشی پیرائے پاکستان سے نسبت بہتر ہیں۔
غیر سرکاری اعدادوں میں گزشتہ سال پاکستان اکنامک واچ (PEW) نے کچھ اعداد شمار جاری کئے تھے جن کے مطابق پاکستان کی کل لیبر فورس (6.36 کروڑ) کانصف بیروزگار ہے جو تقریباً تین کروڑ اٹھارہ لاکھ افراد بنتے ہیں۔ 80 فیصد برسر روزگار لوگ اپنے روزگار سے خوش نہیں ہیں جبکہ دس میں سے ہر چھٹا نوجوان اپنی صلاحیت سے کم کام کرنے پر مجبور ہے، خواتین میں یہ شرح 78.3 فیصد ہے۔سرکاری اور غیر سرکاری اعداد سے حکمرانوں کے جاری کردہ نتیجوں کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کا تقریبا 45 فیصد روزگار زراعت سے وابستہ ہے، اور حکومتی اعداد میں بھی اسی لئے دیہی علاقوں میں بیروزگاری کی شرح کو کم بتایا جاتا ہے، حکومتی اعداد کے مطابق زراعت پر ایک گھر سے وابستہ زمین پر مدد کرنے والے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں سمیت سبھی کو روزگار کے زمرے میں لایا جاتا ہے جبکہ اگر اس اعداد کو سہی کروایا جائے تو بیروزگاروں کی ایک بڑی تعداد ہمیں دیہی علاقوں سے مل سکتی ہے۔ اسی طرح تقریبا 25 فیصد روزگار گارمنٹ فیکٹریز سے منسلک ہے جہاں انتہائی کم اجرت پر لوگوں کا منٹوں اور سیکنڈوں کے حساب سے استحصال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح پاور سیکٹر اور دوسرے شعبوں کے بھی اعداد کو زیر بحث لایا جاسکتا ہے جن کے ذریعے تمام سیکٹرز میں ’’با روزگار‘‘ افراد کی بیروزگاری کو عیاں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن فیڈرل بیورو آف لیبر اسٹیٹسٹک کی رپورٹ میں ایک کروڑ 72 لاکھ 51 ہزار لوگوں کو جہاں گھریلوں ملازم گردانہ گیا ہے وہاں ایک بڑی ہی دلچسپ گیٹیگری ’Others‘ کی بنائی گئی ہے کہ جن لوگوں کا حکومت کے پاس کسی قسم کا کوئی حوالہ نہیں ہے، ان افراد کی تعداد ویسے تو سرکار کے مطابق 45 لاکھ 81 ہزار ہے لیکن حقیقت میں یہ ہی ایک کیٹیگری ہے جو کہ ملک کا رہا سہا روزگار پیدا کرتی ہے، اس طرح کے لوگ جو کہ تقریبا 80 فیصد تک ہوسکتے ہیں وہ آج ملک میں موجود کتنی ہی غلاظتوں کے ہتھے چڑھ چکے ہیں۔ ہر نوجوان کو جو کسی جرائم پیشہ کام میں ملوث ہو اسے لوگ ہمیشہ حقارت سے تو دیکھتے ہیں لیکن مسائل کی اصل جڑ پر نظر دوڑانے سے پہلے ہی کسی بھی ملزم کو اپنے آپ سے مجرم قرار دے دیتے ہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی میں بھی اسی قسم کے نوجوانوں کو اکثر اپنا نشانا بنایا جاتا ہے جو حالات سے تنگ آکر کسی بھی حد پر جانے کو تیا ر ہوتے ہیں دہشتگردی سے لیکر جرائم کی تمام تر وارداتوں کے پیچھے بھی کسی نہ کسی حد تک ایسی ہی بیروزگاری کا عنصر شامل ہے، ارسطو نے کہا تھا کہ ’’ غربت جب انقلاب پیدا نہیں کرسکتی تو وہ جرائم پیدا کرتی ہے۔ ‘‘ اور حقیقت میں دیکھا جائے تو جب انسان کے پیٹ میں روٹی نہیں ہوتی تو وہ کسی قسم کی اخلاقیات یا سماجی دائرہ کار میں نہیں رہ سکتا اور اسی لئے جب اکثریتی آبادی روزگار سے محروم ہوتے ہوتے غربت اور بھوک کی انتہاؤں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو تو وہ کوئی اور راستہ نہ ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کی جھولی کا سہارہ لیتے ہیں جہاں انہیں دو وقت کے کھانے کے ساتھ ساتھ باقی چیزوں کا بھی آسرا دیا جاتاہے۔ اسی قسم کے کئی سارے دوسرے مسئلوں سے بھی آج یہ ملک سلگ رہا ہے۔
پاکستان کا موجودہ حکمران طبقہ اس قدر خصی ہوچکا ہے کہ وہ روزگار تو کیا، کسی بھی مسئلے کو اب حل کرنا ہی نہیں چاہتا، غربت، لاعلاجی، بیروزگاری اور دوسرے مسائل کو تسلیم کرنے کے بجائے انہیں پچھلی حکومت کی نااہلی کا یا پھر ان کا بویا کاٹنے کا جواز فراہم کرتے ہیں، ایسے ہی بھاشنوں سے ہماری پوری تاریخ بھری پڑی ہے۔ لیکن نوجوانوں کو ہمیشہ رسوا اور مایوس رکھنے کی حکمرانوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی آج پاکستان میں بیروزگاروں کی ایک ایسی فوج تیار ہوچکی ہے جو اپنے اوپر ہونے والی اس معاشی دہشتگردی کے خلاف لڑنے کو تیار ہے، سرمایہ داری کا اپنا پیدا کیا ہوا ہتھیار اب اسی کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار بن چکا ہے، سرمائے کہ اس گھن چکر کو اب نئی نوجوان نسل نے سمجھنا شروع کردیا ہے، ایک ایسے نظام میں جہاں محنت کشوں کو اپنی ہی پیدا کردہ چیز کو دوبارہ خرید کر اپنا استحصال کروانا پڑتا ہو، ایسے نظام کو برداشت کرنا اب محنت کشوں کے لئے ایک سزا بنتی جارہی ہے، سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اب ایک ایسی نسل آج جوان ہوچکی ہے جو اسٹالنزم کی غلاظتوں سے پاک ہے، وہ نہ ہی انقلاب کی نوعیت پر کنفیوز ہے اور نہ ہی کسی مایوسی نے اسے اپنی لپیٹ میں لیا ہے، وہ اگر چاہتے ہیں تو ایک ایسا معاشرہ کہ جس میں ان کے خوابوں کی تعبیر ہوسکے، انہیں جینے کا حق مل سکے، روزگار سمیت تمام تر بنیادی سہولتوں کے لئے انہیں در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ ایک ایسے نظام کی جستجو لیے جلد ہی اس نظام کے خلاف نوجو ان نسل میدان عمل میں آئے گی، حکمرانوں کی طرف سے ماضی میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی انہی تحریکوں کے خوف تلے ہر وقت کبھی مذہب کے نام تو کبھی قوم کے نام پرانہیں تقسیم کرنے کی سازشیں کی گئیں لیکن ماضی میں اٹھنے والی ایسی کتنی ہی بغاوتوں نے اس بات کو ثابت کیا کہ سالوں سے قائم بادشاہتوں کو بھی للکارا جاسکتا ہے اور انہیں ٹھوکر مارکر بھگایا جاسکتا ہے۔ اسی قسم کا کوئی ایک واقعہ پورے سماج کو ہلانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اگر پاکستان میں آنے والے دنوں میں اس تحریک کو ایک منظم انداز میں آگے لیجایا گیا تو وہ حقیقی بنیادوں پر اپنے لئے ایک ایسامعاشی نظام ضرور چنے گی جہاں بھوک، افلاس، غربت، لاعلاجی، محرومی اور بیروزگاری سمیت تمام تر سماجی برائیوں کا خاتمہ کر کے اپنے لئے ایک نئی دنیاقائم کی جاسکے۔