درندگی کا راج

[تحریر: لال خان]
چند ہفتے قبل لاہور میں اسلامی بنیاد پرستوں کے قاتلانہ حملے میں بال بال بچ جانے والے صحافی اور تجزیہ نگار رضا رومی نے جمعرات 8 مئی کو اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا ہے کہ ’’میں مذمت، ’’شدید مذمت‘‘، ’’قابل مذمت‘‘، ’’تشویش‘‘ اور ’’المناک‘‘ جیسے کراہت آمیز الفاظ کی بیماری سے تنگ آگیا ہوں۔ یہ الفاظ کھوئی ہوئی زندگیوں کو واپس نہیں لاسکتے۔ ‘‘ رضا رومی کی یہ پکار ایک مخصوص حادثے کے رد عمل سے کہیں بڑھ کر اس بیمار معاشرے پر منڈلاتی بربریت کی عکاس ہے۔ 6 مئی کو ملتان میں انسانی حقوق کمیشن کے علمبردار راشد رحمان کا قتل سماج کو لاحق مذہبی جنون کی بیماری میں آتی ہوئی شدت کی واضح علامت ہے۔ مقتول کا ’’جرم‘‘ توہین رسالت کے ایک ملزم کی پیروی تھا۔ استغاثہ کے وکیلوں اور گواہوں نے انہیں بھری عدالت میں قتل کی پیشگی دھمکیاں دی تھیں۔ راشد رحمان کے قتل سے ان کے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ ساتھ ہر ذی شعور انسان کو صدمہ پہنچا ہے۔ بنیاد پرستی اور مذہبی جنون کی یہ آگ اس سے قبل سلمان تاثیر سے لے کر شہباز بھٹی تک، کئی مشہور شخصیات سمیت ہزاروں بے گناہ انسانوں کو نگل چکی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اس نوعیت کے قتل اب ایک معمول بن چکے ہیں۔

مقتول راشد رحمان

ایسے ہر اندوہناک واقعے کے بعد ’’سیکولر پارٹیاں‘‘ قراردادیں پیش کرتی ہیں، سول سوسائٹی کے فیشن ایبل خواتین و حضرات پوش علاقوں کے چوراہوں پر موم بتیاں جلاتے ہیں، مغربی امداد پر چلنے والی این جی اوز ’’عالمی برادری‘‘ (جس کا کوئی وجود سرے سے موجود نہیں ہے) سے مدد طلب کرتی نظر آتی ہیں، اقوام متحدہ جیسی سامراج کی گماشتہ تنظیموں سے ’’مداخلت‘‘ کی اپیل کی جاتی ہے، آہ و بکا ہوتی اورعدالتوں سے رجوع کیا جاتا ہے۔ کچھ ہی دن میں یہ رونا دھونا ختم ہوجاتا ہے اور شغل سوسائٹی اپنی روز مرہ کی زندگی میں مگن ہوجاتی ہے۔
اس سول سوسائٹی کے نفسیاتی مسائل بھی بہت پیچیدہ ہیں۔ سب سے پہلے تو انہیں آئین اور قانون کی پاسداری کا بہت شوق ہے۔ یہی وہی قانون ہے جس میں ’’ناموس رسالت‘‘ سے لے کر ’’حدود آرڈیننس‘‘ جیسی شقیں موجود ہیں۔ یہ قوانین ضیاالحق کی خونخوار آمریت نے97فیصد مسلمان آبادی کے اس ملک کو مزید ’’مسلمان‘‘ کرنے کے لئے ٹھونسے تھے۔ اس کے بعد سوشلزم سے منحرف ہوکر ’’سیکولر‘‘ بن جانے والی پیپلز پارٹی کو کئی بار جمہوری اقتدار ملااورمشرف جیسے لبرل آمر بھی آئے، لیکن ان قوانین کا خاتمہ تو بہت دور کی بات، کوئی حکومت ان کے خلاف آواز بھی بلند نہیں کرسکی۔ ایک عورت دو مرتبہ اس ملک کی وزیر اعظم بنی لیکن خواتین کے خلاف جابرانہ قوانین بدستور موجود رہے۔ الٹا اس عورت نے خود تسبیح پکڑ کر پیروں فقیروں سے رجوع کرنا شروع کردیااور اپنے والد کی جماعت کے بنیادی منشور کو کوڑا دان میں ڈال کر بچوں کا دودھ چھیننے والی مارگریٹ تھیچر جیسی چڑیل کے سحر میں گرفتار ہوگئی۔ یہ وہی مارگریٹ تھیچر ہے جس نے امریکی سامراج کی ایما پر ضیا الحق آمریت کی مکمل اور غیر مشروط پناہی کی تھی اور اکتوبر 1981ء میں دورہ پاکستان کے دوران افغان بارڈر پر جاکر سوویت یونین کے خلاف ’’جہاد‘‘ کرنے والے ’’مجاہدین‘‘ سے اللہ اکبر کے نعرے لگوائے تھے۔
سول سوسائٹی کو ’’جمہوریت‘‘ کا بھی بہت شوق ہے، ایسی جمہوریت جس میں ضیاالحق کے سیاسی جانشین دو نہیں بلکہ تین مرتبہ اقتدار میں آچکے ہیں۔ وہ جمہوریت جس میں پولیس کے ناکے دوگنا ہوجاتے ہیں اور تھانیدار کا ’’چھتر‘‘ آمریت کی ہی رفتار سے چلتا ہے۔ ’’جمہوریت‘‘، جس میں ہر قسم کے ثقافتی معیار اور اخلاقی اقدار سے عاری نودولتیے، فراڈئیے، سرمایہ دار اور جاگیر دار ہی اسمبلیوں میں پہنچ سکتے ہیں اور جو غریبوں کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھیننے کے درپے ہے۔ جو جمہوریت بنیادی ضروریات زندگی کو عوام کی وسیع اکثریت کی پہنچ سے دور کر کے جینے کا حق بھی چھین رہی ہے وہ ’’انسانی حقوق‘‘ کی ضمانت کیا دے گی؟
’’عدلیہ بحالی‘‘کی تحریک اس سول سوسائٹی کا طرہ امتیاز سمجھی جاتی ہے۔ عدلیہ ایسی ’’بحال‘‘ ہوئی کہ عتیقہ اوڑو کی دو بوتلوں پر ’’از خود نوٹس‘‘ لئے جانے لگے لیکن لال مسجد کے دہشت گردوں کوسر عام دندنانے اور زہر اگلنے کے لئے چھوڑ دیاگیا۔ غریب ’’توہین رسالت‘‘ کے الزام میں پھانسی گھاٹ تک پہنچ جاتا ہے یا اس سے پہلے ہی گولی سے اڑا دیا جاتا ہے لیکن ذاتی دشمنی یا پراپرٹی وغیرہ کے چکر میں جھوٹا الزام لگانے والے اس عدلیہ کی گرفت سے آزاد ہیں۔ اس عدلیہ نے اپنی بحالی اور ’’آزادی‘‘ کے بعد گزشتہ چھ سالوں میں کتنے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے؟
انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کرنے والے افراد یقیناًقابل تحسین ہیں لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے یہ شور شرابا جتنا بڑھ رہا ہے انسانی حقوق کی پامالی میں اسی قدر شدت آرہی ہے۔ بعض اوقات زمینی حقائق کو تسلیم کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کا حکمران طبقہ ایک جدید صنعتی اور ترقی یافتہ معاشرہ تعمیر کرنے میں نہ صرف ناکام رہا ہے بلکہ پسماندگی اور جہالت کو بڑھاوا دے کر عوام کے استحصال کے لئے استعمال کررہا ہے۔ اس ملک میں مذہبی جنون اور فرقہ واریت کو دانستہ طور پر فروغ دیا گیا ہے اور آج بھی دیا جارہا ہے۔ اس عمل میں میڈیا سمیت ریاست کا ہر ستون ملوث ہے۔ سر عام دوسرے فرقوں اور اقلیتیوں کے خلاف زہر اگلنے والوں کو ریاست اور سیاست میں اعلیٰ مقام دئیے جارہے ہیں جبکہ ذرائع ابلاغ ان ملاؤں کی تشہیر میں مصروف ہیں۔
دوسری طرف درمیانہ طبقہ اور سول سوسائٹی اسلامی بنیاد پرستوں کا راج قائم ہونے کے خوف سے خود بھی کانپ رہے ہیں اور عوام کو بھی ڈرا رہے ہیں۔ ماضی میں بائیں بازو سے وابستہ رہنے والے یہ خواتین و حضرات سوشلزم سے انحراف کر کے نظریاتی طور پر دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ ان کے پاس حقیقت کا ادراک کرکے ٹھوس تناظر اور لائحہ عمل تخلیق کرنے کا کوئی فلسفہ نہیں ہے۔ انہیں محنت کش طبقے پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔ درمیانہ طبقہ اپنے نفسیاتی ہیجان اور لاابالی پن کی وجہ سے چاہتا ہے کہ محنت کش عوام ان کی فرمائش پر انقلابی تحریک برپا کر دیں۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو خود سے جعلی اور مصنوعی تحریکیں چلانے کی کوشش کی جاتی ہے جن کے ناکام ہونے پر محنت کشوں پر لعن طعن شروع کردی جاتی ہے۔
اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی بنیاد پرستوں کو عوام نے کبھی 5 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں دئیے۔ آج سماج پر مذہبی رجعت کا غلبہ تحریک کے عارضی ٹھہراؤ سے جنم لینے والے سماجی تعفن کا نتیجہ ہے۔ بائیں بازو کے انہدام سے جنم لینے والے سیاسی خلا کو بنیاد پرستی نے سطحی اور مصنوعی طور پر، پُر کیا ہے۔ تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ محنت کش عوام کی تحریکیں ماضی کی ان تاریک قوتوں کا نام نشان مٹا دیتی ہیں۔ 1968-69ء میں محنت کشوں کا سیلاب جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں کو تنکوں کی طرح بہا لے گیا تھا۔ اس وقت نہ امریکی ڈالر کام آئے تھے نہ ہی ریاستی حمایت۔ حکمرانوں نے 1970ء کے جن انتخابات کواسلام اور کفر کی لڑائی بنا کر پیش کیا تھا ان میں پیپلز پارٹی نے فتح حاصل کی تھی۔ عوام کے علاوہ پاکستانی فوج کے 58 فیصد سپاہیوں اور نوجوان افسران نے سوشلزم کو ووٹ دیا تھا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ بھٹو جس رجحان سے لڑ کر اقتدار میں آیا تھا بعد میں اسی سے مصالحت کی کوشش کرنے لگاجس سے مرتی ہوئی ملائیت کو نئی زندگی ملی۔ عوام نے بھٹو کو شراب پر پابندی اور کفر کے ’’جمہوری فتوے‘‘ لگانے، ’’اسلامی بم‘‘ بنانے، مودودی سے ’’مذاکرات‘‘ یا اسلامی سربراہی کانفرنس کے نام پر درندہ صفت اور رجعتی عرب بادشاہوں کے ساتھ اتحاد کرنے کے لئے ووٹ نہیں دئیے تھے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ منشور اور ’’روٹی، کپڑا، مکان ‘‘ کے نعرے کی حمایت کی تھی۔ جب وعدے وفا نہ ہوئے تو محنت کش اور انقلابی نوجوان بدظن ہوگئے۔ پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف چلنے والی ملاؤں کی PNA تحریک اور بعد ازاں ضیاالحق کے شب خون کو امریکی سامراج کی مکمل آشیر آباد حاصل تھی۔ اسلامی بنیاد پرستی کے عفریت کو جنم دینے والے سامراج کو ’’روشن خیال‘‘ یا ’’کم تر برائی‘‘ قرار دیتے ہوئے کسی بہتری کی امید رکھنا محض خود فریبی ہی نہیں بلکہ محنت کش عوام کے ساتھ دھوکہ دہی کے مترادف ہے۔

ضیاالحق نے آئین اور قانون کو اس حد تک بگاڑ دیا ہے کہ کسی انقلابی تبدیلی کے بغیر ان دستاویزات کو رجعتی شقوں سے پاک کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس طبقاتی سماج میں انصاف مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں غریب پھنس جاتا ہے لیکن امیر اور طاقتور اسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ دولت اور پیسے سے ملنے والا انصاف بذات خود سب سے بڑی ناانصافی ہے۔ اس صورتحال میں بنیاد پرست اور مذہبی جنونی راشد رحمان جیسے نفیس لوگوں کو قتل کرتے رہیں گے۔ کالا دھن انہیں قانون کے جال سے نکالتا رہے گا۔ یہ فاشزم کی ہی ایک شکل ہے۔ معاشرے کو سرمایہ دارانہ فسطائیت کے اس چنگل سے آزاد کروانے کے لئے اس نظام کو ہی اکھاڑنا ہوگا، ورنہ یہ درندگی سماج کو بربریت کی کھائی میں دھکیل دے گی۔

متعلقہ:
قدامت پرستی کا جبر