[رپورٹ: گلگت بلتستان سٹوڈنٹس کونسل]
مورخہ 24 اپریل بروز جمعرات لاہور پریس کلب کے سامنے گلگت بلتستان سٹوڈنٹس کونسل کے زیر اہتمام گلگت بلتستان میں گندم پر سبسڈی کے خاتمے کے خلاف احتجاج کرنیوالے لاکھوں مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے میں ترقی پسند طلبہ تنظیموں کے نمائندگان نے بھرپور شرکت کی۔ ریاست پاکستان سے الحاق کے 66 سال گزرنے کے باوجودبھی گلگت بلتستان کے عوام صحت، تعلیم، روزگار جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ لیکن موجودہ حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو دور کی اصلاحات کے نتیجے میں گلگت بلتستان کے عوام کوگندم پر ملنے والی سبسڈی کا بھی خاتمہ کردیا ہے جس کے بعد خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں گلگت بلتستان کے عوام حکمرانوں کی جانب سے پیدا کئے جانے والے نسلی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تفرقات سے بالاتر ہوکر تمام اضلاع میں دھرنوں کا آغاز کردیا ہے۔
لاہور میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی کے عہدہ داران نے نو نکاتی ایجنڈے پر فوری عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ ایڈووکیٹ آصف مرتضیٰ نے اس موقع پر کہا کہ روٹی، کپڑا اور مکان ہر انسان کا بنیادی حق ہے، مسلم لیگ نواز کی وفاقی حکومت نے گندم پر سبسڈی ختم کر کے اپنا طبقاتی کردار بالکل واضح کردیا ہے، حکومت جب تک اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتی تب تک احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ گلگت بلتستان سٹوڈنٹ کونسل پنجاب یونیورسٹی کے صدر فقیر شاہ دانیال نے وفاقی حکومت کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ روزگار اور علاج تو دور کی بات موجودہ حکمران تو عوام کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔ حید سلطان ایڈووکیٹ، ایڈووکیٹ عدنان نگری، ایڈووکیٹ اکبر حسین، عامرالدین، ذاکر حسین، ہدایت داریلی نے اپنی تقریروں میں کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو نسلی اور مذہبی تعصبات کی بنیادپر تقسیم کر کے استحصال جاری رکھنے کی پالیسی بے نقاب ہوچکی ہے اور اس خطے کے عوام ان تفرقات سے بالاتر ہوکر اپنے حقوق کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ گلگت بلتستان ینگ میڈیکوز (GBYM) کے صدر عاطف علی نے گلگت بلتستان کی کٹھ پتلی حکومت کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں جاری حالیہ مظاہرے اور دھرنے اس بات کی واضح علامت ہیں کہ عوام شعوری طور پر بیدار ہورہے ہیں، انہوں نے کہا کہ اس تحریک کو ملک کی تمام مظلوم قومیتوں کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جوڑ کر ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (YDA) سروسز ہسپتال کے سینئر وائس صدر ڈاکٹر فرحان گوہر نے کہا کہ نام نہادآزادی کے 66سالوں میں اس خطے کے عوام کی حالت بد سے بدتر ہی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع نا پید ہوتے جارہے ہیں اور حریص حکمرانوں نے گندم کی سبسڈی کا خاتمہ کرکے اپنا مکروہ چہرہ خود ہی بے نقاب کر دیا ہے، گندم کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے بھوک مزید بڑھے گی اور اس بھوک سے مرنے والے نہ سنی ہیں نہ شیعہ، بلکہ ان کا مذہب صرف غربت ہے۔ ڈاکٹر فرحان نے کہا کہ موجودہ گلے سڑے نظام اور اس کے رکھوالوں کے پاس عوام کو دینے کے لئے بھوک اور ننگ کے سوا کچھ نہیں ہے اور گلگت بلتستان میں جاری دھرنے ایک طبقاتی جنگ کا آغاز ہیں جس کے معرکے آنے والے دنوں میں پورے ملک میں لڑے جائیں گے۔ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) پجار کے آرگنائزر کامریڈ
ظریف رند نے اپنے خطاب میں کہا کہ بلوچستان کے محنت کش عوام اور نوجوان گلگت بلتستان میں جاری احتجاج کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا پورے ملک کے مظلوم عوام طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر ہی حکمرانوں کی بربریت اور معاشی حملوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
گلگت بلتستان عوامی ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
گندم کی فی بوری قیمت 2009ء کی سطح، یعنی 820 روپے پر برقرار رکھی جائے۔
مٹی کے تیل، اشیائے خوردونوش اور پی آئی اے کے کرایوں میں سبسڈی کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔
گلگت بلتستان کے ہسپتالوں میں تمام ادویات اور علاج مفت فراہم کیا جائے۔
لوڈ شیڈنگ کا فوری خاتمہ کیا جائے اور تمام پاور ہاؤسز کو فوری فنکشنل کیا جائے۔