رپورٹ؛فرہاد کیانی:-
10مارچ کی صبح 10بجے لاہور شہر کے ایوان اقبال کے دروازے پاکستان کے مارکس وادیوں کے استقبال کیلئے کھلتے چلے گئے۔اس بار کانگریس کیلئے شریک ہونے والوں کی تعداد پچھلی سبھی کانگریسوں سے زیادہ رہی۔ 2600سے زائد انقلابیوں نے ہال میں موجود سبھی نشستوں کو ناکافی کرکے رکھ دیا اوربے شمار ساتھیوں کو ہال کی سیڑھیوں پر ہی بیٹھنا پڑا۔یوں یہ ایک تاریخ ساز کانگریس ثابت ہوئی۔
یہ انتہائی کامیاب کانگریس انتہائی حوصلہ شکن صورتحال کے باوجود ہوئی جس نے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہواہے ۔ضروریات زندگی کی قیمتوں میں روزبروز شدیدترین اضافوں اور معیار زندگی پر دن بدن کے تابڑ توڑ حملوں کی وجہ سے غربت اور بیروزگاری کی شرح اور سطح میں بڑھوتری نے جو عمعمی کیفیت پیدا کی ہوئی ہے ،اس کی بدولت کئی کامریڈزکو کانگریس میں شمولیت سے محروم رکھا۔
لاہور میں ہونے والی اس کانگریس میں شرکت کیلئے انتہائی دوردراز سے بھی وفود نے شرکت کی مثال کے طور بلوچستان سے آنے والے مندوب مسلسل تیس گھنٹے کے طویل سفر طے کر کے پہنچے ۔اور پھریہ بھی ہے کہ پاکستان میں سفر کسی طور بھی یورپ کی طرح آسان نہیں۔پاکستان کے سفری ذرائع جس حالت اور کیفیت میں ہے وہ انتہائی ناگفتہ بہ ہے ۔ریلوے کی تو یہ صورت بن چکی ہے کہ کسی مسافر کو یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ وقت پر اپنی منزل پر پہنچ پائے گا۔یا یہ بھی کہ وہ پہنچ بھی پائے گا کہ نہیں!یوں صورتحال انتہائی ہولناک ہوچکی ہے ۔ریلوے دوسری طرف ریل کے کرائے بھی پچھلے سال سے دوگنا کر دیے گئے ہیں۔ یوں اس قسم کی صورتحال نے کانگریس کی تیاری اور انتظامات کے بجٹ کو بھی سخت متاثر کیا۔ان جاں بلب معاشی سختیوں کے علاوہ بلوچستان اور وزیرستان میں جاری جنگی صورتحال نے بھی صورتحال کو گھمبیر بنایاہے کہ جہاں عالمی مارکسی رحجان کی جڑیں مضبوطی سے پھل پھول رہی ہیں۔سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ ریلوے کی ہڑتال کے باعث بھی کئی علاقوں سے کانگریس کی تیاری کا عمل متاثرہوا۔لیکن پھر یہ مسئلہ بھی جلد حل ہوا اور کامریڈز سرخ جھنڈوں اور پر جوش جذبوں کے ساتھ کانگریس میں شرکت کیلئے روانہ ہوئے۔یوں سارے پاکستان سے ساتھی کانگریس میں شرکت کیلئے پہنچے ۔پشاور ،ایبٹ آباد،بنوں ،ڈیرہ اسماعیل خان،راولپنڈی،اسلام آباد،شمالی وجنوبی وزیرستان،سیالکوٹ،گوجرانوالہ،گجرات،فیصل آباد، قصور، جھنگ، چنیوٹ،ملتان، لیّہ، ڈیرہ غازی خان، جامپور، راجن پور،بہاولپور،رحیم یار خان، صادق آباد، میر پور خاص،حیدرآباد،لاڑکانہ،کراچی،بدین،ٹھٹھہ،قلات،خضدار،کوئٹہ،راولا کوٹ،مظفر آباد،کوٹلی،جنڈسمیت کئی دوسرے شہروں اور قصبات سے کامریڈز شریک ہوئے۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کانگریس کا معیار اور شعار بہت بلند تھا۔کانگریس کے شرکا کو تین کیٹیگریوں میں تقسیم کیاگیا جن میں ڈیلیگیٹ ،ممبر اور وزٹرشامل تھے۔ملک میں جاری سیکورٹی کی نازک صورتحال کے باعث کانگریس کی سیکورٹی کو بھی سخت رکھا گیا اور اندر جانے کیلئے سیکورٹی کا خصوصی اہتمام تھا۔کامریڈز کی ایک ٹیم اس کیلئے چوکس اور متحرک رہی۔
پرولتاریہ کانگریس
پچھلے سالوں کی طرح سے اس سال بھی کانگریس میں سماج کی مختلف پرتیں کانگریس میں شریک ہوئیں۔ان میں محنت کش، طلبہ و طالبات، کسان،ٹریڈ یونین لیڈرز،سیاسی کارکنوں،غرض ہر رنگ نسل قومیت اور زبان کے حامل مردوزن،نوجوان و بزرگ اس میں شریک ہوئے ۔ اور یہ سب کے سب طبقاتی جدوجہد کے پرچم تلے جمع ہوئے ۔ طبقاتی کمپوزیشن کانگریس کا طرہ امتیاز رہی اور ورکروں کی بھاری تعداد نے کانگریس کے رنگ وروپ کو جلا بخش دی ۔ریلوے،ایر لائن،سٹیل ملز،بینکوں،آئل سیکٹر،واپڈا،آبپاشی، واسا،گیس، ٹیکسٹائل،کیمیکلز،پورٹ اینڈ شپنگ،فارماسوٹیکلز،ٹیلی کمیونیکیشن اوردیگر صنعتی اداروں کے کارکن کانگریس میں شریک ہوئے۔علاوہ ازیں ڈاکٹرز،نرسز،صحافی،پروفیسرز،اساتذہ کے ساتھ ساتھ یونی لیورز،کوکا کولا،نیسلے اور ہونڈا کے ورکرز بھی کانگریس میں موجود تھے ۔
طالبعلموں کی بھی بڑی تعداد کانگریس کا سنگھار بنی رہی۔پنجاب یونیورسٹی،سندھ یونیورسٹی،چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ،شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور، اردویونیورسٹی کراچی،بہاالدین زکریا یونیورسٹی،بلوچستان یونیورسٹی،اے جے کے یونیورسٹی مظفر آباد،اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور،نمل کے علاوہ خضدار،ٹیکسلا،کوہاٹ لاہور اور سندھ کی انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے طلبہ،زرعی یونیورسٹی فیصل آباد،سرحد یونیورسٹی،گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان،گورنمنٹ کالج لاہور،ایف سی کالج لاہور،نیشنل کالج آف آرٹس لاہور،لمز لاہور سمیت پاکستان کے کئی اور شہروں کے تعلیمی اداروں کے طلبہ کانگریس میں شریک ہوئے۔قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے کچھ ارکان بھی کانگریس میں موجود تھے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کئی سرکردہ رہنما بھی شریک ہوئے۔معروف ٹیلی ویژن میزبان قاضی سعید اور پاکستان کے معروف گائیک جواد احمد بھی کانگریس کے شرکا میں تھے۔پاکستان سے اتنی بڑی تعداد میں کامریڈوں کی شرکت کے علاوہ انٹرنیشنل مندوبین بھی کانگریس میں شرکت کیلئے خاص طورپر آئے ہوئے تھے جن میں انٹرنیشنل سیکرٹریٹ کے وفدکے علاوہ ہالینڈ،برطانیہ ،بلجیم اور جرمنیسے بھی مندوب شریک تھے۔بدقسمتی سے افغانستان سے سات کامریڈز کو امریکی فوجیوں کے قتل کے بعد پاکستان آنے سے روک دیاگیا اور وہ شریک نہیں ہوسکے۔ امید تھی کہ بھارت سے بھی ایک وفد شریک ہوتا جس میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ایک رکن اسمبلی بھی تھے لیکن افسرشاہی نے انہیں ویزا جاری کرنے سے انکار کر دیا۔
پہلا سیشن؛عالمی تناظر
کانگریس کے رسمی آغاز سے پہلے کامریڈز نے اپنے تیار کردہ انقلابی گیت اور شاعری پیش کی۔کانگریس کا باقاعدہ آغاز کامریڈ رؤف خان نے کیا۔کانگریس کیلئے چار بنیادی دستاویزات اتاری گئی تھیں جنہیں پاکستان بھر کے ریجنز میں برانچوں کی سطح تک تقسیم کیاگیا اور مباحث شروع کئے گئے۔ان میں عالمی تناظر پر مجوزہ دستاویز (جو کہ عالمی کانگریس پر بھی پیش کیا جائے گا)،پاکستان تناظر،تنظیم اور پاکستان سوشلسٹ انقلاب کے بعد شامل تھے۔ انٹرنیشنل سیکرٹریٹ سے کامریڈ ایلن وڈزنے پہلے سیشن میں لیڈ آف دی ۔اپنی اس جاندار وفکر انگیز بات کے دوران کامریڈ نے عالمی صورتحال پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور اس کا مارکسی تجزیہ و تناظر شرکا کے سامنے پیش کیا ۔کامریڈ نے واضح کیا کہ پچھلے سال کے دوران کس طرح اور کس طرز سے ساری کیفیت یکدم ویکسر بدل کے رہ گئی ہے۔کامریڈ نے واقعات وحالات کی نفاست ونزاکت کو باریک بینی کے ساتھ بیان کیاکہ کیسے وہ ایک دوسرے سے جڑے اور ایک دوسرے کو متاثر کرتے چلے جارہے ہیں۔کامریڈ نے عرب انقلاب کی حرارت کی اور اس کے تغیرات واثرات پر سیر حاصل گفتگو رکھی۔کامریڈ نے واضح کیا کہ یہ انقلاب ابھی جاری وساری ہے۔عوام ہمیشہ زندگی کے تجربات سے لازمی اسباق سیکھا کرتے ہیں اور وہ اس وقت کئی تلخ تجربات اور سخت اسباق سیکھتے چلے جارہے ہیں۔جوش وجذبے اور جمہوریت بارے خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں سے سرشار عرب انقلاب کو یہ احساس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ تبدیلی کے باوجود کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔سرمایہ دارانہ نظام کے ہوتے ہوئے کسی ایک بنیادی مسئلے کا حل ممکن ہی نہیں ہے۔ایک فیصلہ کن تبدیلی اب بھی درکار ہے جس کیلئے جدوجہد جاری رکھنی کرنی ہوگی۔
کامریڈ ایلن وڈز نے سامراجیوں کی ایران بارے منافقت کو سخت آڑے ہاتھوں لیا اور پیشین گوئی کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرنے سے باز نہیں رہے گا ،باوجودیکہ اوبامہ انتظامیہ اس کی خواہشمند نہیں ہے۔کیونکہ اس سے ان کو شدید خطرات اور اندیشے وابستہ ہیں۔اگر ایران اس کے رد عمل میں آبنائے ہرمز کو بند کرتا ہے تو امریکہ کو اس جنگ میں مداخلت کرنا ہوگی ۔اس کے بعد سارے مشرق وسطی سمیت ساری اسلامی دنیا کے اندر ایک پرتشدد رد عمل بھڑک اٹھے گا۔کہیں پر بھی کوئی امریکی سفارتخانہ سلامت نہیں رہ سکے گا۔یہ کیفیت عرب انقلاب کو ایک نئی جہت اور شکتی فراہم کرنے کا موجب بنے گی۔اور جو پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے ابھر کے سامنے آئے گا۔مشرق وسطی میں ایک نئی جنگ تیل کی قیمتوں کو آگ لگا دے گی۔اور جو سرمایہ داری کی کمزور بحالی کی کمر توڑ کے رکھ دے گی۔اور1973جیسے بلکہ اس سے بھی شدید بحران کو جنم دے گی۔جس کا نتیجہ بحرانوں ،جنگوں ،انقلابات و رد انقلابات کی شکل میں سامنے آئے گا۔
یورپ کا ذکر کرتے ہوئے ایلن نے کہا کہ اپنے تمام تر منصوبوں اور امیدوں کے باوجود یورپ کا حکمران طبقہ کوئی ایک مسئلہ حل اور ختم کرنے میں کا میاب نہیں ہوسکاہے۔معیار زندگی میں انتہائی تکلیف دہ کٹوتیوں کے بعد بھی یونان کسی طور اپنے قرضے ادا نہیں کر پائے گا اور اسے ڈیفالٹ کرنا پڑے گا۔اس کے نتیجے میں ڈیفالٹ کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا جو کہ آئرلینڈ،پرتگا ل اور سپین کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔لیکن سب سے تشویشناک معاملہ اٹلی کا ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ اتنا بڑا ہے کہ یہ ناکام نہیں ہوسکتا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ اتنا ہی بڑا ہے کہ اسے بچایا بھی نہیں جا سکتا ہے ۔آخر میں کامریڈ نے دنیا بھر میں طبقاتی کشمکش کے تیزتر ہونے کی صورتحال پر بات رکھی اور کہا کہ کس طرح مصر کے انقلاب نے یورپ اور امریکہ کے محنت کشوں پر اثرات مرتب کئے ہیں۔یہ ابھی محض ابتدا ہے لیکن عالمی انقلاب کی شروعات کا مرحلہ ہمارے سامنے آچکاہے ۔کامریڈ کی لیڈ آف پر کانگریس کے سبھی شرکا ء نے انتہائی گرمجوشی کے ساتھ تالیاں بجا کے داد دی۔
اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا جس میں شرکا نے ایران ،روس،وینزویلا اور شام سمیت کئی امور پر سوالات پوچھے ۔جن کا کامریڈ ایلن نے انتہائی گرمجوشی اور صراحت کے ساتھ جواب دیا۔کامریڈ نے ان الفاظ پر اختتام کیا ’’آپ نے دیکھا مصر اور تیونس میں کیا ہوا!بہت ہی جلد جب ایک سیاہ رات ڈھلے گی تب پاکستان میں بھی ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے جیسا کہ1968.69ء میں ہواتھا۔لیکن اس بار ہمارے پاس ایک لازمی آلہ موجود ہوگا؛ایک انقلابی تنظیم،ایک انقلابی قیادت جوکہ اس انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرے گی‘‘۔
ان الفاظ پر شرکاء نے دل کھول کر سرگرم انداز میں تالیاں بجائیں اور سار اہال انقلابی نعروں کے ساتھ گونج اٹھا۔
اس کے بعد شرکا سے کانگریس کیلئے فنڈز کی اپیل رکھی گئی جس کا انتہائی پرجوش جواب سامنے آیا اور 18590روپے جمع ہوئے۔شدید تر معاشی مشکلات ،بیروزگاری کی بدترین شرح اور کم تر اجرتوں کی کیفیت میں یہ ایک بڑی شراکت ہے۔جبکہ کامریڈ کانگریس میں شمولیت کیلئے اور اخراجات بھی کرچکے ہوئے تھے۔
دوسرا سیشن ؛پاکستان تناظر
اس سیشن میں کامریڈ پارس جان نے بات رکھی۔یہ ایک انتہائی ولولہ انگیز اور جاندار لیڈ آف تھی۔جس میں کامریڈ نے پاکستان کی ریاست کو درپیش شدیدبحران کی تفصیلات سامنے رکھیں اور جو کئی سنجیدہ تضادات اور خلفشار کو جنم دیتا چلا جارہاہے۔بورژوازی،حکومت اور فوج کے مابین کئی اختلافات اور دھڑے بندیاں پیداہوچکی اور ہورہی ہیں۔امریکی سامراجی مداخلت اس انتشاروخلفشار کو مزیدبڑھاوادیتی چلی جارہی ہے۔کامریڈ پارس نے بلوچستان میں جاری فوجی جارحیت کی شدید مذمت کی اور کہا کہ وہاں اس وقت دو پراکسی جنگیں لڑی جارہی ہیں۔ْایک جنگ چین اور امریکہ کے مابین بلوچستان کے وسیع معدنیاتی وسائل پر قبضے کیلئے اور دوسری ایران اور سعودی عرب کے مابین جنگ جو کہ شیعہ وہابی تنازعے کو ہوا دینے کیلئے۔یہ سب طاقتیں قومی مسئلے کو بھی اپنے اپنے مذموم ومخصوص مقاصد کیلئے استعمال کرتی چلی آرہی ہیں۔ہر شدید مسئلے کی تہہ میں معاشی بحران کارفرما اور سرگرم ہے۔معیشت ریکارڈ سطح تک منہدم ہوچکی ہے اور جس کے نتیجے میں نہ صرف عام لوگوں کی زندگیاں جہنم بن چکی ہیں بلکہ صنعتیں بھی تیزی سے بند ہوتی چلی جارہی ہیں۔غربت،فیکٹریوں کی بندش،بیروزگاری اور مہنگائی میں مسلسل اضافے انسانی دکھوں اور المیوں میں اضافے کو بڑھاتے چلے جارہے ہیں۔اور زندگی ایک جبر مسلسل میں ڈھلتی جارہی ہے۔جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
اس کیفیت کو مزید اذیت ناک بنانے میں پٹرول اوربجلی کی قیمتوں میں یکم مارچ سے ہونے والااضافہ اہم کرداراداکرے گا۔اور یہ سب پیپلز پارٹی کی ھکومت کے دوران ہورہاہے۔جس سے لوگوں کے معیار زندگی مزید پست اور پسماندہ ہوجائیں گے۔اس ساری صورتحال میں بنیادپرستی کا سرطان اورقوم پرستی کا تعصب سماج کے کرب اور عذاب کی شدت کو اور بھی ناقابل برداشت کرتا چلا جارہاہے۔جس کی وجہ سے بلوچستان میں ایک خانہ جنگی کی حالت پیداہوچکی ہے۔اور جہاں امریکی و چینی وسامراج ،گیس اور دیگر معدنیات پر اپنے اپنے تسلط کیلئے ایک پراکسی جنگ کو فروغ دیتے چلے آرہے ہیں۔کشمیر کا معاملہ ابھی تک حل طلب چلا آرہاہے۔پختونستان میں ایک جنگ و جارحیت مسلط ہے جس میں بے شمار افرادڈرون حملوں میں مارے جاچکے ہیں۔کراچی شہر کو فاشسٹ ایم کیو ایم ،غنڈہ گروپوں اور مذہبی انتہاپسندوں کی باہمی خونریزی عرصے سے خون میں نہلاتی آرہی ہے۔اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی ہے جس سے وابستہ لوگوں کی خوش فہمیاں وحشیانہ طورپر قتل ہوتی جارہی ہیں۔اور لوگوں کو کوئی متبادل بھی نظر نہیں آرہاہے۔کامریڈپارس نے ریلوے کے وزیر کے بہیمانہ بیان کا ذکر کیا جس میں اس نے کہا کہ’’ہمیں ریلوے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ایسے کئی ملک ہیں جو ریلوے کے بغیر چل رہے ہیں ‘‘۔جس پر کانگریس میں شریک ورکروں نے شرم شرم کے نعرے بلند کئے۔
سیاسی بحران عوام کے اندر اضطراب اورغم وغصے کو بڑھاتا چلا جارہاہے۔اور جو کسی بھی وقت ایک دھماکے کی طرح پھٹ سکتاہے۔محنت کشوں اور نوجوانوں کی باشعور پرتوں میں طبقاتی شعور تیزی سے بلند اور گہرا ہوتا جارہاہے۔
ا س کے بعد بلوچستان سے کامریڈ نہال خان نے بحث کو کھولا۔مشترکہ لیکن نابرابر سماجی ترقی کے قانون کی وضاحت کرتے ہوئے کامریڈ نے کہا کہ جرمنی جیسے ملکوں کی دوبارہ سے اکائی پیداواری قوتوں کی ترقی کی وجہ سے ممکن ہوئی جو کہ سرمایہ داری کے عروج کے دوران موجود تھی۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں بورژوازی کسی طور بھی پیداواری قوتوں کو مستحکم کرنے سے قاصر رہی ہے۔چنانچہ یہاں بورژوازی زورزبردستی کے طور طریقوں سے ملک کو چلانے کی کوشش کرتی چلی آرہی ہے ۔اور اسی وجہ سے یہ بدترین قومیتی استحصال کو اپنا شعار بنائے چلی آرہی ہے۔کامریڈ نے کہا کہ امریکی قرارداد، بلوچستان کی قومی جدوجہد کی ریڈیکلائزیشن پر حملہ ہے۔پاکستانی فوجی انہی ہتھیاروں سے بلوچوں کا قتل کررہی ہے کہ جو امریکہ نے اسے طالبان کے خلاف استعمال کرنے کیلئے فراہم کئے ہوئے ہیں۔لیکن جہاں قوم پرست لیڈرواضح نظریات سے محروم ہوں وہاں سامراج اور حکمران طبقات کیلئے قومی مسئلے کو اپنے مقاصد کے تحت استعمال کرنا آسان ہوجاتاہے اور یہی بلوچستان میں ہورہاہے۔بلوچستان کے لوگوں کو افغان جنگ کیلئے لقمہ ء تر بنایاجا رہاہے۔نوجوانوں کو ریڈیکلائزیشن سے روکنے کیلئے حکمران طبقات اب بنیاد پرستی کے زہر کو استعمال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔لیکن ہم بھی مارکسزم اور لینن ازم کے نظریات پر ابھی تک ڈتے ہوئے اور لگے ہوئے ہیں۔سرمایہ داری اور سامراجیت کے خلاف ہم محنت کش طبقے کی یکجہتی اور جدوجہد کیلئے سرگرم ہیں اور ہمارے نظریات اور تناظر کی بازگشت قوم پرستوں میں موثر طورپر موجود ہے ۔پہاڑوں کے گوریلے ہمارے لٹریچر کو دلچسپی اور دلجمعی سے پڑھ رہے ہیں۔
کامریڈ ریحانہ جو کہ خواتین کے کام کی نگران بھی ہیں،نے پاکستان میں خواتین کے استحصال کو سخت تنقید کا نشانہ بنایااور خاص طورپرغیرت کے نام پر خواتین کے بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کی۔پختونخواہ،پشاور سے پاکستان ریلوے کے قائد کامریڈ فضل قادر نیکہا کہ2007ء میں ہم ایک آمریت کے قہرتلے تھے۔جبکہ اب ہم ایک جمہوریت کے سائے تلے جی رہے ہیں۔جوکہ آمریت سے بھی کہیں زیادہ بھیانک اور بدتر ثابت ہوچکی ہے۔ریلوے،پی آئی اے،سٹیل کی صنعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت اور آمریت ایک ہی سکے (سرمایہ داری)کے دو رخ ہیں جو کہ کھوٹا ہو چکاہے۔ پاکستان ایک ایسی بس ہے جسے کوئی پتہ نہیں کہ بس کو کہاں لے کر جانا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ ڈرائیورکے حواس کھو چکے اور اس بس کے ٹائربھی پھٹ چکے ہیں۔
اس کے بعد کامریڈ حیدر عباس گردیزی نے بحث میں حصہ لیا جو پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر ہیں۔کامریڈ نے کہا کہ ڈاکٹر لال خان اکثر کہتے ہیں کہ ماضی کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہوا کرتا۔شاید میں ماضی کی نمائندگی کررہاہوں،لیکن میں یہاں مستقبل سے جڑنے آیاہوں۔ 1968ء میں ایک نوجوان طالبعلم تھا لیکن اب میں فخر سے کہہ سکتاہوں کہ آج میں درست پلیٹ فارم پر موجود ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ میں عالمی مارکسی رحجان کے ساتھ ہوں۔
کراچی سے سٹیل ورکر کامریڈ ہردل کمار نے کہا کہ کراچی میں ملاؤں نے مدرسوں کے طلبا ء کو جمع کرکے نعرے لگوائے ’’سوشلزم مردہ باد ،کمیونزم مردہ باد،سرمایہ دانہ نظام مردہ باد‘‘۔کامریڈ نے کہا کہ جب ہم اپنی فیکٹری میں گرم فولاد پر پانی ڈالتے ہیں تو یہ بھاپ بن کر اڑ جاتاہے۔پاکستا ن میں بھی جب انقلاب کا لوہا تپ کر سفید ہوگا تو ملاء ایسے ہی بھاپ بن کے ہوا ہو جائیں گے ۔بلوچستان شعلوں میں جل رہاہے ۔جلاؤ کے دوران کچھ اشیا راکھ ہوجاتی اور کچھ کندن بن جاتی ہیں ۔بلوچستان کے اندر بھی پرولتاریہ کی قوتیں پک کر فولاد بننے کے عمل میں ہیں۔
راولپنڈی سے ایک طالبعلم لیڈر آصف رشید نے کہا کہ کالجوں اور درسگاہوں میں سوشلزم کے نظریات کی طرف رغبت کی ایک نئی لہر چل پڑی ہے ۔پاکستان پیپلز پارٹی ڈیرہ غازی خان کے رہنما رؤف خان نے کہا کہ ملا ء جس دنیا کی بات کرتے ہیں وہ یا تو کہیں زمین کے نیچے کی دنیا ہے یا پھر کسی آسمان کے اوپر کی کوئی دنیا۔ہم سوشلسٹ ،ہر نسل ہر قوم ہر زبان ہر مذہب ہر خطے کے محنت کشوں کی اکائی اور یکجہتی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔
فلم اور موسیقی کے معروف نام جواد احمد نے حیران کر دینے والے انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ میں اب کی بار گانے کیلئے نہیں بلکہ سننے کیلئے آیا ہوں ۔مجھے اکثروبیشتر گانے کیلئے بلایاجاتاہے ۔لیکن آج صرف سننے کیلئے یہاں موجود ہوں ۔اس کے باوجود بہت سے دوست اصرار کر رہے ہیں کہ میں گاؤں۔اس کے بعد کامریڈ نے اپنا ہی تیار کردہ مزدوروں کے بین الاقوامی ترانے کا ترجمہ سنایا۔کانگریس کے سبھی شرکا نے کھڑے ہوکر کامریڈ کے ساتھ ترانہ گایا۔پہلے دن کی بحث کو سمیٹتے ہوئے بھرپور تالیوں میں کامریڈ لال خان نے جدوجہد کی سب سے پہلی کانگریس کا ذکر کیا جس میں چند ایک تارک الوطن کامریڈز ہی شریک ہوئے تھے۔اب صورتحال بڑی حد تک تبدیل ہوچکی ہے۔نہ صرف مقدار میں بلکہ معیار میں بھی نمایاں فرق سامنے آچکاہے۔اعتماد اور بلند حوصلگی کی ا یک نئی روح بیدار ہوچکی ہے۔اور یہی عالمی مارکسی رحجان کی بڑھوتری اور عالمی انقلاب کی فتح کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔
ان آخری شاندار کلمات کے بعد کانگریس کا پہلا دن مکمل ہوا۔اس کے بعد سبھی کامریڈز تین حصوں میں تقسیم ہوگئے اور ٹریڈیونین ،یوتھ اورخواتین کے کام کے حوالے سے کمیشنز میں شریک ہوئے۔