روپے کا جعلی ابھار

[تحریر: لال خان]
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت 107 سے کم ہوکر 99 پر آجانے کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا ’معاشی معجزہ‘ قرار دیا جارہا ہے۔ میڈیا پر شادیانے بجائے جارہے ہیں اور نواز لیگ کی حکومت اسے معیشت میں بہتری کے ثبوت کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ کرنسی کی شرح تبادلہ اور سٹاک مارکیٹ کے اعشاریے عام طور پر پر انتشار ہوتے ہیں اور ان کے اتار چڑھاؤ کا انحصار زیادہ تر سٹہ بازی پر ہوتا ہے۔ ایسے اعداد وشمار معیشت کی حقیقی صورتحال کا اظہار بمشکل ہی کرتے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ روپے کی مضبوطی کی بجائے ڈالر کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ امریکی معیشت کا بڑھتا ہوا عدم استحکام اور چینی معیشت کی گرتی ہوئی شرح نمو ہے، نہ کہ پاکستان کی لنگڑی اور مفلوج معیشت کی صحت یابی۔ حالیہ دنوں میں امریکی ڈالر کی قیمت یورو، جاپانی ین اور نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور کینیڈا کے ڈالر کے مقابلے میں بھی کم ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے روپے کو مستحکم رکھنے کے لئے ڈالر کی زخیرہ اندوزی اور سٹہ بازی کو روکنے کے لئے کچھ سخت انتظامی اقدامات کئے ہیں جنہیں زیادہ عرصہ برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے۔

روپے کی قدر میں اضافے کی ایک اور وجہ ایک ’’برادر اسلامی ممالک‘‘ سے ملنے والی ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد بھی ہے۔ اسحاق ڈار نے اس ملک کا نام ظاہر کرنے سے معذرت کی تھی تاہم آج یہ خبر کھل کر سامنے آگئی ہے کہ سعودی عرب نے نواز شریف کی ’’ذاتی ضمانت‘‘پر ڈیڑھ ارب ڈالر کا قرضہ دیا ہے۔ شام کی خانہ جنگی اور پچھلے دنوں سعودی وفد کی پاکستان آمد کے پس منظر میں صورتحال کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ شام میں سرگرم سعودی عرب کے حمایت یافتہ مذہبی جنونیوں کو پاکستان کی جانب سے اسلحے کی ممکنہ فراہمی کی خبریں بھی عالمی میڈیا پر گردش کرہی ہیں۔ اس ملک کے عوام پہلے ہی مختلف عالمی اور علاقائی طاقتوں کی پراکسی جنگوں کا ایندھن بن رہے ہیں۔ پاکستانی ریاست اگر سعودی آقاؤں کے حکم پر شام میں مداخلت بڑھاتی ہے تو دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری مزید شدت اختیار کر جائے گی۔
مشرف حکومت کے بعد سے روپیہ مسلسل زوال کا شکار رہا ہے۔ اگر کرنسی کی قیمت ہی معاشی کارکردگی کا معیار ہے تو پرویز مشرف اور شوکت عزیز آٹھ سال تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کو 60پر برقرار رکھنے کے لئے داد کے مستحق ہیں۔ مشرف دور میں معاشی شرح نمو چھ فیصد سے زائد تھی اور پیداوار، زراعت اور سروسز کے شعبے میں بھی بڑھوتری ہوتی رہی۔ یاد رہے کہ نواز شریف کے پچھلے دور حکومت (1996-99) کے دوران بھی اسحاق ڈار ہی وزیر خزانہ تھے۔ 1999ء میں مشرف کے برسر اقتدار آنے سے پہلے زرمبادلہ کے زخائر ختم ہوچکے تھے اور معیشت کا جنازہ تقریباً نکل ہی چکا تھا۔ علاوہ ازیں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر مشرف دور میں ہونے والی معاشی نمو کے ثمرات عوام کے وسیع حصے تک کبھی بھی نہیں پہنچ پائے۔ امیر اور درمیانے طبقے کی انتہائی قلیل سی پرت اس ترقی سے شاید فیض یاب ہوئی ہو لیکن دوسری طرف اوسطاً دس ہزار لوگ روزانہ خط غربت سے نیچے گرتے رہے۔
نواز لیگ کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد جس تیزی سے افراط زر اور مہنگائی میں اضافہ کیا ہے اس سے غربت میں اضافے کی شرح میں تیزی آئی ہے۔ اوپر سے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے معیشت میں بہتری اور ترقی کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ ٹیلی وژن پروگراموں اور اخباری کالموں میں کئی بورژوا معیشت دان ثابت کرچکے ہیں معاشی ترقی کے دعوے حکومتی معیشت دانوں کی جانب سے اعداد و شمار کی ہیر پھیر کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ فسکل، بجٹ اور تجارتی خسارہ تاریخی طور پر اپنی بلند ترین سطح کو چھو رہا ہے۔ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق سماجی ترقی کے منصوبوں پر اخراجات میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ماضی کے وزرائے خزانہ کی طرح اسحاق ڈار بھی اس حقیقت پر پردہ ڈال رہے ہیں کہ ملک کی کل معیشت کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ بے ضابطہ یا ’’کالی معیشت‘‘ پر مبنی ہے جو کہ نہ تو ریاست کے حساب یا کنٹرول میں ہے اور نہ ہی اس پر ٹیکس لگایا جاسکتا ہے۔ یہ کالی معیشت 9 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے جبکہ سرکاری یا قانونی معیشت کی شرح نمو 2 یا 3 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ دو تہائی سے زیادہ روزگار اسی کالی معیشت سے وابستہ ہیں جن کی اکثریت ماہانہ کنٹریکٹ یا دہاڑی کی نوکریوں پر مشتمل ہے اور جہاں سرکاری طور پر آٹھ ہزار ماہانہ اجرت کے قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہی وہ غیر قانونی اور کالی معیشت ہے جس نے وقتی طور پر پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بجایا ہوا ہے۔ اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو صنعتی نمو اور سرمایہ کاری مسلسل کم ہو رہی ہے، بجلی اور گیس کے بحران سے کاروباری سرگرمی سکڑتی جارہی ہے، بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے، زراعت کا شعبہ مسلسل بحران میں ہے، افراط زر قوت خرید کو ختم کرتا چلا جارہا ہے، مزدور اور کسان کی حالت روز بروز ابتر ہوتی جارہی ہے۔
ماضی میں ہونے والی نجکاری سے پیدا ہوانے والے خساروں کو پورا کرنے کے لئے موجودہ حکومت مزید سرکاری اداروں کی جابرانہ نجکاری کرنے کے لئے پر تول رہی ہے۔ 1990ء کے بعد سے توانائی، بینکنگ، ٹیلی کمیونی کیشن اور دوسرے شعبوں میں کی جانی والی نجکاری کے عذاب آج تک عوام بھگت رہے ہیں۔ سامراجی مالیاتی اداروں کے حکم پر شروع کی جانے والی نجکاری کی پالیسی نے اس ملک میں بدعنوانی اور لوٹ مار کا ایک نیا باب رقم کیا ہے۔ ماضی میں حکمرانوں نے عوام کے پیسے اور محنت کشوں کے خون پسینے سے تعمیر ہونے والی سرکاری اداروں کو باپ کی جاگیر سمجھ کر کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کیا اور اربوں روپے کمیشن کی مد میں خورد برد کئے۔ نجی پاور کمپنیوں سے شرمناک شرائط پر معاہدے کئے گئے۔ آج تک ان IPPs کو پیدا کی گئی بجلی کی مقدار کی بجائے کل پیداواری صلاحیت کے حساب سے ادائیگی کی جارہی ہے۔ PTCL خریدنے والی ایک ’’برادر‘‘ ملک کی کمپنی نے نجکاری کے آٹھ سال بعد بھی طے شدہ رقم ادا نہیں کی ہے جبکہ اس رقم سے کئی گنا زیادہ سرمایہ منافعوں کی شکل میں ملک سے باہر منتقل کیا جاچکا ہے۔
اس بار بھی نجکاری کا عمل ماضی سے مختلف نہیں ہوگا۔ PIA اور سٹیل مل جیسے دیوہیکل ریاستی اداروں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے بیچا جائے گا۔ جعلی کمپنیوں اور ناموں کے ذریعے حکومت میں بیٹھ کر بیچنے والی ہی انہیں خرید لیں گے۔ لاکھوں لوگ بیروزگارہوجائیں گے۔ جن کے پاس روزگار بچے گا ان کے سر پہ بھی بے روزگاری کی تلوار مسلسل لٹکتی رہے گی۔ معاشی عدم استحکام اور کسی بھی وقت نوکری سے نکالے جانے کے خوف کو استعمال کرتے ہوئے اجرتیں، پینشن اور دوسری سہولیات میں مزید کمی کی جائے گی۔ محنت کش عوام کو ان تمام تر عذابوں میں مبتلا کرنے کے بعد بھی نجکاری سے ریاستی قرضوں اور خساروں میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوگا۔ قیمتی اثاثے بیچنے کے بعد درحقیقت ریاست پہلے سے زیادہ غریب ہوجائے گی۔
موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کراچی سٹاک ایکسچینج اوپر جبکہ حقیقی معیشت نیچے کی جانب گامزن ہے۔ روپے کی ’’مضبوطی‘‘ کا بھی یہی حساب ہے۔ روپے کی قدر میں یہ اضافہ نہ تو دیرپا ہے اور نہ ہی اس سے مفلوج معیشت صحت یاب ہوسکتی ہے۔ اگر معاشی شرح نمو میں تھوڑا بہت اضافہ ہوتا ہے تو بھی عوام کی حالت میں کوئی بہتری آنے والی نہیں ہے۔ آج کے عہد میں سرمایہ کاری Labor Intensive نہیں ہے اور بیرونی سرمایہ نیا روزگار پیدا نہیں کرسکتا۔ اسی طرح انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر چین اور دوسری سامراجی قوتوں کی سرمایہ کاری کا مقصد لوٹ مار میں اضافے سے ہٹ کر کچھ نہیں ہوگا۔ سامراجی قرضوں پر سود کی ادائیگی، دفاع اور بڑے پیمانے کی بدعنوانی کے بعد ریاست کے پاس تعلیم، علاج، رہائش اور دوسرے سماجی شعبوں اور سہولیات پر خرچ کرنے کے لئے کچھ بچتا ہی نہیں ہے۔ سرمائے کے نظام میں سرمایہ حکومت کرتا ہے اور سرمایہ دار کبھی اپنے آپ پر ٹیکس نہیں لگا سکتے ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ آج انسانیت سرمایہ داری کے نامیاتی بحران کی اذیت سے دوچار ہے۔ اپنے حتمی زوال کے عہد میں اس نظام کی وحشت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ محنت کش عوام کب تک اس نظام میں مصائب کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو برداشت کریں گے؟ تمام سیاسی راستے بند کردئیے گئے ہیں اور سیاسی افق پر موجود کوئی بھی جماعت نجات کا راستہ مہیا کرنے سے قاصر ہے۔ سطح کے نیچے لاوا پک رہا ہے۔ یہ جتنی دیر تک پکے گا، دھماکہ اتنا ہی شدید ہوگا!