| تحریر: لال خان |
6 اور 7 نومبر 1917ء کو روس میں ہونے والے بالشویک انقلاب کو اس سال 99 سال ہو جائیں گے۔ یہ ایک ایسا عظیم واقعہ تھا جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا اور یہ آج تک نسل انسانی کو برباد کرنے والے سرمایہ دارانہ نظام کے سائنسی بنیادوں پر خاتمے کی کلیدی مثال ہے۔ آج کے عہد میں نا ہموار ترقی کے شکار سماجوں میں بربریت کے رجحانات ابھر رہے ہیں اور جدید سرمایہ دارانہ ممالک میں محنت کش طبقے پر مسلسل معاشی اور سماجی حملوں کے ساتھ ساتھ انسانیت خونریز جنگوں اور دہشت گردی کا ایندھن بن رہی ہے۔ جبکہ اصلاحات سے لیکر جبر تک، سرمایہ دارانہ ریاستوں اور ان کے ماہرین کے سرمایہ داری کو بحال کرنے کے تمام طریقے بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔
اکتوبر 1917ء (پرانے روسی کیلنڈر کے مطابق) میں برپا ہونے والے انقلاب روس نے معیشت، سیاست اور سماج کو یکسر بدل کررکھ دیا تھا۔ امریکی صحافی اور انقلابی جان ریڈ نے اس انقلاب کو بہت قریب سے دیکھا اور اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’دنیا کو ہلا دینے والے دس دن‘‘ میں لکھا کہ ’’کوئی بالشویکوں کے بارے میں کیسی بھی رائے رکھے لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ انقلاب روس انسانی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں شامل ہے اور بالشویک اقتدار ساری دنیا کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے‘‘۔ انقلاب کی فتح سے اقتدار ایک چھوٹی سی ظالم اقلیت کے ہاتھوں سے نکل کر سماج کی وسیع اکثریت اور محنت کش طبقات کے پاس آ گیا۔ بورژوا ریاست کا تختہ الٹنے اور محنت کشوں کی ہراول پارٹی کے اقتدار حاصل کرنے کے عمل میں محنت کشوں کی وسیع اکثریت شعوری اور عملی طور پر شریک تھی۔ یہ آج تک کلاسیکی مارکسی بنیادوں پر برپا ہونے والا واحد انقلاب ہے۔
دسمبر 1917ء میں لینن نے انقلاب کے حقیقی مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’انقلا ب کے اہم ترین فرائض میں سے ایک یہ ہے کہ محنت کش اور استحصال زدہ عوام کو پراعتماد اور خودمختیار بنایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو سکے اس عمل کو تخلیقی تنظیمی کام کے ذریعے پھیلایا جائے۔ ہر قیمت پر ہمیں ان پرانے، نامعقول، وحشی اور گھٹیا تعصبات کو نیست و نابود کرنا ہے کہ صرف نام نہاد اشرافیہ، امیر طبقہ یا امیروں کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ہی ریاست کو چلا سکتے ہیں…‘‘
فتح مند سرکشی کے بعد لینن نے ’آل رشین کانگریس آف سوویٹس‘ (کل روسی سووتیوں کی کانگریس) سے خطاب میں کہا ’’تاریخ کا کچرہ صاف کرنے کے بعد اس خالی زمین پر اب ہم سوشلسٹ سماج کی بلند اور شاندار عمارت کی تعمیر شروع کریں گے‘‘۔ انقلاب سے سماجی و معاشی تبدیلی کے ایک نئے عہد کا آغاز ہوا۔ جاگیریں، صنعتیں، کارپوریٹ اجارہ داریاں اور معیشت کے بڑے اور اہم حصوں کو نو زائیدہ مزدور ریاست نے نیشنلائز کر لیا۔ بینکوں، جوئے اور سود پر مبنی مالیاتی اشرافیہ کی آمریت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ تمام خارجہ تجارت او ر لین دین پر ریاست کی اجارہ داری قائم کر دی گئی۔ وزرا کی مراعات اور عیاشیوں کا خاتمہ کر دیا گیا اور انقلاب کے رہنماؤں کے حالاتِ زندگی انتہائی سادہ اور معمولی تھے۔ اپنی کتاب ’’ایک انقلابی کی یاداشتیں‘‘ (Memoirs of a Revolutionary) میں وکٹر سرج نے لکھا کہ ’’کریملن میں لینن ایک جھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہائش پزیر تھا جو ملازموں کے لیے بنایا گیا تھا۔ جاڑے میں باقیوں کی طرح اس کے پاس گھر کو گرم رکھنے کا کوئی بندوبست نہیں تھا ۔ حجام کے پاس جا کر وہ اپنی باری کا انتظار کرتا اور کسی اور کے اپنی جگہ اسے دینے کو نا زیبا سمجھتا‘‘۔ منصوبہ بند معیشت نے چند دہائیوں میں سوویت یونین کو ایک پسماندہ زرعی ملک سے دنیا کی دوسری بڑی صنعتی اور عسکری طاقت بنا دیا۔
پچیس سال قبل، سوویت کے انہدام کے بعد سے بس یہی تکرار چلتی رہی کہ اب سیاسی اور معاشی سوالات ہمیشہ کے لیے حل ہو گئے ہیں اور لبرل جمہوریت اور آزاد منڈی کی معیشت حتمی طور پر فتحیاب ہے ۔ سوشلزم کی جگہ تاریخ کی ردی کی ٹوکری قرار دی گئی۔ سرمایہ داری کی اس ’جمہوریت‘ کے نام پر دنیا میں ہونے والے تماشوں کی کمی نہیں لیکن شا ید پاکستان کی حکمران اشرافیہ ان سب سے زیادہ بیہودہ ہے۔ ایک جانب وہ ’سوشلزم کی موت‘ کا ورد کرتے ہیں اور دوسری جانب زیادہ تر دائیں بازو کے سیاست دان خوفزدہ ہو کر ایک خونی انقلاب کی تنبیہ بھی کر تے ہیں۔ لیکن بالشویک انقلاب کا نام تک نہیں لیتے، جیسے تاریخ میں وہ کبھی ہوا ہی نہیں۔ اگر کوئی اس کا نام لینے کی جرات کر بھی لے تو حکمرانوں کے دانشور فوراً کہتے ہیں ’’اوہ! جو روس میں ناکام ہو گیا‘‘۔ سماج اور سیاست میں بہتان تراشی کے جبر کا تجزیہ کرنے والا ماہر سماجیات شاید ابھی آنا ہے۔
یہ حقیقت بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کی مشروط پیشین گوئی سب سے پہلے خود مارکسسٹوں نے کی۔ 7 اکتوبر 1918ء کو لینن نے صورتحال کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا: ’’عالمی تاریخ کے نکتہ نظر سے، تنہا رہنے کی صورت میں ہمارے انقلاب کی حتمی فتح کی کوئی امید نہیں ہے، اگر دوسرے ممالک میں انقلابی فتوحات نہ ہوں… ان تمام مشکلات سے ہماری نجات کا راستہ سارے یورپ کا انقلاب ہے۔ ہر طرح کے واقعات اور تمام ممکنہ حالات میں اگر جرمنی میں انقلاب نہ آیا، تو ہم فنا ہو جائیں گے‘‘۔ لینن اور ٹراٹسکی نے یہ حقیقت بار بار درجنوں جگہ پر دہرائی۔
1917ء کا انقلابِ روس کوئی الگ تھلگ ایک ملک کا واقعہ نہیں تھا بلکہ اس کے دور رس بین الاقوامی اثرات مرتب ہوئے۔ اس نے نہ صرف روس میں جاگیر داری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کیا بلکہ سامراجی غلبے کی زنجیریں بھی توڑ ڈالیں۔ اس نے سوویت یونین کی سرحدوں سے کہیں بڑھ انقلابی تحریکوں کو جنم دیا، خاص طور پر یورپ میں۔ عوامی بغاوتوں نے سامراجی آقاؤں کو خوفزدہ کر دیا۔ 1919ء میں ورسائی امن کانفرنس میں برطانوی وزیر اعظم لائڈ جارج نے ایک خفیہ مراسلے میں اپنے فرانسیسی ہم منصب کو لکھا کہ’’سارا یورپ انقلاب کی تپش کی لپیٹ میں ہے۔ محنت کشوں میں موجودہ حالات کے خلاف نہ صرف عدم اطمینان ہے بلکہ وہ غصے اور بغاوت کے جذبات رکھتے ہیں۔ یورپ کے ایک کونے سے دوسرے تک موجودہ نظام کے سیاسی، سماجی اورمعاشی پہلو ؤں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں‘‘۔ انقلاب کے فوراً بعد اس ابھرتی انقلابی لہر کے مرکز کو تباہ کرنے کے لیے نومولود سوویت ریاست کے خلاف اکیس سامراجی افواج نے مل کر حملہ کر دیا۔ اگرچہ انقلاب بذات خود نسبتاً پر امن تھا اورسرکشی کے دوران صرف نو افراد ہلاک ہوئے لیکن سامراجی حملے اور ان کی حمایت یافتہ رد انقلابی سفید افواج نے پہلی عالمی جنگ سے تباہ حال پسماندہ ملک میں غضب ناک قتل عام، خون ریزی، بربادی، بھوک اور تباہی برپا کر دی۔
جرمنی (1918-19ء اور1923ء)، چین (1924-25ء) اور برطانیہ (1926ء) میں انقلابات کی ناکامیاں بالشویک انقلاب کے لیے مہلک ثابت ہوئیں۔ اس نے انقلاب کی تنہائی کو شدید کیا اور قوم پرستانہ زوال پذیری کو جنم دیا۔ ٹراٹسکی نے پہلی عالمی جنگ سے برباد تین لاکھ کی روسی فوج کو پچاس لاکھ کی مضبوط سرخ فوج بنا ڈالا۔ سامراجی جارحیت کو سرخ فوج نے سامراجی ممالک کے پرولتاریہ اور عام فوجیوں کی حمایت سے شکست دے دی۔ اس سامراجی خانہ جنگی میں ان گنت بالشویک کیڈر (ہراول کارکن) شہید ہو گئے۔ اس سے خلا پیدا ہوا اور موقع پرست عناصر سوویت حکومت میں گھس گئے۔ اجناس کی قلت اور کمیابی، جنگ کے ہاتھوں صنعت اور زراعت کی تباہی سے عمومی بدحالی پیدا ہوئی جس نے انقلاب کی افسر شاہانہ زوال پذیری میں اہم کردار ادا کیا۔
لینن نے اس زوال پذیری کے خلاف لڑائی لڑی جو اس کی 1924ء میں بے وقت موت کے بعد ٹراٹسکی نے جاری رکھی۔ ابھرتی ہوئی افسر شاہی کے خلاف لینن کی وصیت کو کریملن کی آہنی تجوریوں میں چھپا دیا گیا اور بالآخر 1956ء میں کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین کی بیسویں کانگریس پر ظاہر کیا گیا۔ لیکن سماجی و معاشی پسماندگی پر مبنی مخالف معروضی حالات اور محنت کش طبقے کے ہراول حصوں کی انقلاب اور جنگ سے تھکان سے ایسی صورتحال پیدا ہو گئی جس میں سوویت حکومت کے اندر سٹالن کے گرد افسر شاہی ابھرنے لگی۔ ٹراٹسکی نے ’لیفٹ اپوزیشن‘ قائم کی اور اس زوال پذیری کے خلاف شدید مزاحمت کی لیکن اسے کچل دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں افسر شاہانہ آمرانہ نظام مستحکم ہوا جس میں بہت بڑی مراعات اور عیاشیاں شامل تھیں۔ اجرت میں زیادہ سے زیادہ فرق کا 1 اور 4 کا تناسب ختم کر دیا گیا۔ اکتوبر انقلاب کے خلاف سیاسی رد انقلاب اتنا جابر تھا کہ 1940ء تک 1917ء میں انقلاب کرنے والی بالشویک پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کا سٹالن کے علادہ صرف ایک رکن بچا۔ باقی سب قتل، موت، خودکشی، قید یا جلا وطنی کی نذر ہوگئے۔
آج سرمایہ داری کے بحران کے ہاتھوں آبادی کی اکثریت ذلت اور محرومی میں غرق ہے۔ دنیا بھر میں طبقاتی جدوجہد کی نئی بغاوتیں ابھررہی ہیں جو سرمایہ داری کو مسترد کر رہی ہیں۔ ننانوے برس بعد 1917ء کا بالشویک انقلاب ہی اس تاریخی فریضے کے لئے واحد مشعل راہ ہے۔ تاریخ کے اس موڑ پر ہونے والا ایک نیا ’بالشویک انقلاب‘ جغرافیائی سرحدوں میں محدود نہیں رہے گا۔ کسی ایک بڑے ملک میں ہونے والا سوشلسٹ انقلاب لینن کے عالمگیر سوویت یونین کے خواب کی تعبیر،بھوک اور مانگ سے نجات اور نسل انسانی کی جانب سے کائنات کی تسخیر کی شروعات ہو گا۔