| تحریر: آصف رشید |
ہر سال کی طرح اب کی بار بھی جشنِ آزادی انتہائی جوش و خروش کے ساتھ عوام پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ 22 کروڑ انسانوں کی غیر انسانی زندگیوں سے ایک اور گھناؤنا مذاق کیا جا رہا ہے۔ گھسے پٹے ملی نغموں اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے عوامی شعور کو مسخ کرنے کا کھیل کھیلا جائے گا۔ 69 سال سے آزادی کے اس جشن سے بیزار روحوں کو آزادی کے معنی اور مفہوم یاد دلایاجائے گا۔ اس آزادی کا جو ہر روز سینکڑوں معصوم لوگوں کی زندگی چھین کر اگلی صبح کا سورج دیکھتی ہے… کیسا جشن؟ کس کی آزادی؟
مملکتِ خداداد میں آج جہالت اور محرومی اس آزادی کا منہ چڑا رہی ہے، منشیات کا استعمال اور کاروبار ایک اربوں روپے کے منظم دھندے کا روپ دھار چکا ہے، کرپشن اور رشوت سماج کی نس نس میں رچ بس کراخلاقی حیثیت اختیار کر چکی ہے، جسم فروشی ایک منافع بخش صنعت کا درجہ رکھتی ہے، دہشت گردی ایک مستقل وبا بن کر پھیل رہی ہے، اغوابرائے تاوان سماج کی وحشی قوتوں کا عام چلن ہے، سٹریٹ کرائم، قتل وغارت، خودکشی، دھوکا دہی، منافقت، جھوٹ، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری اور وحشت و بربریت اس آزادی کے انعام بن کر اس خطے میں نسلِ انسان کو برباد کر رہے ہیں۔ آبادی کی ایک بڑی اکثریت کے لیے اس آزادی میں کو ئی مطلب و معنی ہی نہیں ہیں۔ ریاست اور اس کا غلام میڈیا حکمران طبقے کی لوٹ کھسوٹ اور جرائم کو آزادی کے اس جشن کے پیچھے چھپانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔ جہاں زندگی سسک رہی ہو، انسان تڑپ رہا ہو وہاں کیسی آزادی؟ کیسا جشن؟
69 سال گزرنے کے بعد بھی آزاد ہونا تو دور کی بات اس ملک کے عوام دوہری اور تہری غلامی اور استحصال کا شکار ہیں۔ سرکاری تاریخ کے تمام تر جھوٹ اور فریب کے باوجود مسلمان نہ تو کبھی کوئی قوم تھے اور نہ یہ وطن انگریز سے لڑ کر حاصل کیا گیا تھا۔ بلکہ عالمی معاشی اور سیاسی ارتقا کی ناگزیر ضرورت نے انگریز سامراج کو مجبور کیا تھا کہ وہ ہندوستان کو براہ راست فوجی طاقت سے کنٹرول کرنے کے بجائے اپنے مقامی گماشتہ حکمرانوں کو اقتدار میں لا کر سیاسی اور سفارتی چالبازیوں کے ذریعے یہاں کے وسائل کی لوٹ مار کر سکیں۔ کیونکہ براہ راست کنٹرول اب مشکل ہو رہا تھا، یہ طریقہ کار تاریخی طور پر متروک ہو چکا تھا اور منافعوں میں کمی کا باعث بن رہا تھا اور دوسرا انگریز سامراج کو مقامی محنت کش طبقے کی طرف سے بھرپور مزاحمت کا سامنا تھا۔ لہٰذااب غلامی کی شکل بدل کر زیادہ ’جمہوری‘ طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ یوں براہ راست بغاوت سے بھی بچا جاسکتا تھا اور ان بغاوتوں کو کچلنے کے لیے وسائل بھی نہیں خرچ کرنے پڑتے تھے۔ بلکہ اس کے الٹ لوٹ مار کا طریقہ واردات بدل کر انگریز سامراج نے تمام تر ذمہ داری اپنے مقامی گماشتے حکمرانوں پر ڈال دی تھی جن کا کردار روز اول سے سامراجی لوٹ مار میں کمیشن ایجنٹ کا رہا ہے۔ یہ ایک صدیوں پر محیط تاریخی عہد کا خاتمہ تھا اور ایک نئے نوآبادیاتی دور کا آغاز تھا۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال اور حاکمیت کا نیا طریقہ کار تھا۔ لیکن اس عہد کے آغاز سے پہلے دو عالمی جنگیں مسلط کی گئیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی سرمایہ داری نے دہائیوں پر مشتمل معاشی عروج دیکھا جس میں نوآبادیاتی ممالک کا بھیانک استحصال اور وہاں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ شامل تھی۔
14 اگست 1947ء کو جن مقاصد کے لیے برِ صغیر کی تقسیم عمل میں لائی گئی تھی وہ سامراجی مقاصد پچھلے 69 سالوں سے برصغیر کے حکمرانوں کی پوری گماشتگی کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔ سامراجی لوٹ مار اور استحصال کو ہر حال میں ممکن بنانے کے لیے پاکستانی سرمایہ دار، جاگیردار، جرنیل، جج اور ملاں سامراجی آلہ کار کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور یہی ان کا تاریخی کردار ہے۔ سیاست اور ریاست کے حکمرانوں کی ساری ٹولیاں سامراجی گماشتگی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ اس دوڑ میں وہ ہر ذلت اور رسوائی کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتے ہیں اور پھر اس کا رخ عوام کی طرف موڑ دیتے ہیں۔
جس جھوٹ اور ریاکارانہ نعرہ بازی پر 14 اگست 1947ء کو برِ صغیر کی تقسیم کی گئی تھی اس کی صداقت نہ تو تقسیم سے پہلے ثابت ہوئی اور نہ ہی اگلے 69 سالوں میں اس کی کوئی پرچھائی دکھائی دیتی ہے۔ برِ صغیر کی تقسیم اس وقت سامراج کی ضرورت تھی۔ 1940 ء کی دہائی میں انگریز سامراج کے خلاف ہندوستانی محنت کش طبقے کی شاندار بغاوت نے برِصغیر پر ان کی حکمرانی کے تسلسل کو آنے والے وقت کے لیے ناممکن بنادیا تھا۔ اس کا ثبوت یہاں معمور انگریز حکمرانوں کے حکومت برطانیہ کو ارسال کردہ خطوط سے ملتا ہے۔ فروری 1946ء میں مزدورں اور فوجی سپاہیوں کی ہڑتال سے بوکھلا کر برطانوی افواج کے سپہ سالار جنرل کلارڈ آکنک نے برطانوی وزیر اعظم کو لکھا ’’ اگر تین دن میں ان کو آزادی نہ دی گئی تو یہ اسے چھین کے رہیں گے‘‘۔ 1943-46ء میں ہندوستان بھر میں اٹھنے والی محنت کشوں کی تحریکیں20 ویں صدی میں اٹھنے والی کسان بغاوتوں کا ہی تسلسل تھیں۔ ان تحریکوں کا کردار قومی آزادی کی جدوجہد سے بڑھ کر طبقاتی آزادی کی تحریک میں ڈھل رہا تھااور عین ممکن تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کی غداری کے باوجود یہ تحریک آگے بڑھ کر نئی قیادت تراشتے ہوئے ہندوستان سے سرمایہ داری کے خاتمے کا پیش خیمہ بن جاتی۔ لہٰذا انگریز سامراج کے سامنے بر صغیر کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر کے ’’منڈیوں ‘‘ پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا نسبتاً سہل اور بہتر حل تھا۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے ہندو اور مسلمان تابعدار حلیفوں کو استعمال کر کے بر صغیر کی خونی تقسیم عمل میں لائی گئی۔ ہزاروں سال پرانی تہذیب کو مذہب کے نام پر چیرا گیا، 27 لاکھ معصوم انسانوں کا خون بہایا گیا اور ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگوں سے انکی چھت چھین کر انھیں نقل مکانی پر مجبور کر دیا گیا۔ اس بھیانک عمل کو ’ہجرت‘ کا نام دیا گیا۔ 69 سال گزرنے کے بعد بھی اس خوفناک ہجرت کے منحوس سائے میں کروڑں لوگ بے بسی کی داستان بنے تڑپ رہے ہیں۔
پاکستان اور ہندوستان کی قومی ریاستیں جس نظام کو برقرار رکھتے ہوئے وجود میں لائی گئی تھیں اس سرمایہ دارانہ نظام کے تحت قومی آزادی ممکن ہی نہیں تھی۔ بر صغیر کے ان ملکوں کے گزرے ہوئے پچھلے69 سال قومی جمہوری انقلاب کے سٹالنسٹ نظریے کے فرسودہ، بیکار اور بانجھ ہونے کی زندہ دلیل کے طور پر نظر آتے ہیں۔ مالیاتی سرمائے کی غلامی میں کوئی آزادی ممکن نہیں ہے۔ تاریخی طور پر تاخیر زدہ اور مالی، تکنیکی اور ثقافتی طور پر پسماندہ یہاں کا سرمایہ دار طبقہ سرمایہ داری کا کوئی ایک بھی تاریخی فریضہ ادا نہیں کر پایا ہے۔ اقتصادی اور مالیاتی کمزوری کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں معیشت کا تصورانفرادی یا اجتماعی ’’کالے دھن ‘‘ کے طور پر وجود پذیر ہوا ہے۔ داخلی طور پر طبقاتی جبر اور سرمایہ داری اور جاگیر داری کی باقیات پر مبنی استحصال نے یہاں کے عوام کی زندگیوں کو اندھیر کر دیا ہے۔ خارجی سطح پر سامراجی مقاصد کے لئے یہاں کے حکمرانوں نے ہمیشہ اپنی خدمات کرائے پر پیش کی ہیں اور اپنی بولی لگوائی ہے۔ یہی حکمران 14 اگست کو ’’قومی سلامتی‘‘ کے سب سے بڑے علمبردار بنے ہوتے ہیں جنہوں نے افغانستان میں امریکی ڈالر جہاد لڑتے لڑتے پورے پاکستان کو بنیاد پرستی، فرقہ واریت، دہشت گردی اور مذہبی جنون کی آگ میں پھینک دیا ہے۔ اس ضمن میں حکمران طبقے کا منافقانہ کردار بھی عیاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کو کند کرنے اور اپنے مالیاتی مفادات کے لئے بھی ان حکمرانوں نے دانستہ طور پر بنیاد پرستی ہمیشہ پروان چڑھا کر استعمال کیا ہے۔
اس نام نہاد آزادی میں پچھلی سات دہائیوں کے اقتدار کی نااہلی ہے کہ آج یہ ریاست خود اپنے آپ سے برسرپیکار ہے۔ جتنے بھی آپریشن ہو رہے ہیں وہ اپنے ہی پیدا کر دہ ان نان سٹیٹ ایکٹرزکے خلاف ہو رہے ہیں جو ریاست نے خود اپنے مفادات کے لیے ماضی میں تخلیق کیے تھے اور آج اس ریاست کے وجود کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں بھی ریاست کے اندر دھڑے بندی نظر آتی ہے۔ ایک دھڑا ایک پراکسی گروہ کو پیدا کرتا ہے یا اسے برقرار رکھنا چاہتا ہے تو دوسرا دھڑا اس کے خلاف آپریشن میں مشغول ہے۔ فی الوقت حکمران طبقات یہ تمام کھیل اس لیے جاری رکھنے میں کامیاب ہیں کہ اس ملک کا محنت کش طبقہ اپنی انفرادی بقا کی جدوجہد میں اس حد تک مشغول ہے کہ اس کا زندہ رہنا ہی ایک عذاب بن چکا ہے۔ اس آزادی اور ملکی سالمیت کے نام پر کیا جانے والا یہ کھلواڑ شاید اب محنت کش طبقے کی برداشت کی انتہاؤں تک پہنچ چکاہے۔ اب کی بار اگر محنت کش طبقہ نکلے گا تو کسی نام نہاد آزادی کے لیے نہیں بلکہ اپنی حقیقی آزادی یعنی طبقاتی آزادی کو حاصل کر کے رہے گا۔
سات دہائیوں سے اس آزادی کے نام پر یہاں کے معصوم عوام کو کون سا دھوکہ ہے جو نہیں دیا گیا، کون سی قربانی ہے جو ان سے نہیں لی گئی۔ یہ آزادی ان کروڑوں محنت کشوں کی ذلتوں کا مذاق اڑا رہی ہے جو غربت اور محرومی کی داستان بنے ہوئے ہیں۔ آج ان کروڑوں زندہ لاشوں پر 20 ہزار ارب روپے کے قرضے کا پہاڑ کھڑا ہے اور یہ حکمران دھڑا دھڑ قرضے لیے جا رہے ہیں اور کیوں نہ لیں کیونکہ یہ قرضے ادا تو اس ملک کے محنت کشوں نے کرنے ہیں۔ انفراسٹرکچر کی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان فزیکل انفراسٹرکچر کے حوالے سے 175 غریب ترین ملکوں میں سے 125 ویں نمبر پر ہے۔ 7ہزار لوگ ہر سال ذلتوں، بیروزگاری اور محرومیوں سے تنگ آ کر خود کشی سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر تے ہیں اور تقریباً 1 لاکھ 50 ہزار لوگ ہر سال اس آزادی سے تنگ آکر خود کشی کی کوشش کرتے ہیں۔ 1 کروڑ بچے چائلڈ لیبر پر مجبور ہیں۔ ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ شرح خواندگی مزید دو فیصد گر گئی ہے۔ 80 فیصد آبادی کو سائنسی علاج اور اس سے بھی زیادہ کو صاف پانی میسر نہیں۔ 1ہزار عورتوں کو غیرت کے نام پر ہر سال قتل کر دیا جاتا ہے اور یہ صرف رپورٹ ہونے والے کیس ہیں۔ 20 لاکھ نئے نوجوانوں کو ہر سال نوکری چاہئے اور معیشت میں اس کے دس فیصد کے برابر نوکریاں پیدا کرنے کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ الٹا نجکاری کے ذریعے پہلے سے موجود نوکریاں بھی ختم کی جا رہی ہیں۔ مہنگائی کا ایک نہ ختم ہونے والا عذاب ہے۔ نئے نئے ٹیکس لگا کر عوام کا جیناحرام کر دیا گیا ہے۔ غریب دن بدن غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور پھر بھی ہم آزاد ہیں!
یہ آزادی حکمرانوں کی آزادی ہے۔ یہ ملک بھی انکا ہے۔ اس سے نکلنے والی معدنیات، مزدوروں کی محنت سے ہونے والی پیداوار، کسانوں کے خون پسینے سے اگنے والی فصلیں، اس ملک کی زمینیں، جائیدایں، فیکٹریاں، کارخانے، بینک اور ساری دولت کا مالک کون ہے؟ ان تمام وسائل پر قبضہ اور ان کو بے دریغ استعمال کرنے کی آزادی اس ملک کے 22 کروڑ محنت کش عوام کے پاس تو نہیں ہے۔ یہ ساری ’آزادیاں‘ اور عیاشیاں سرمایہ داروں، جاگیرداروں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں اور سیاسی اشرافیہ وغیرہ پر مبنی ایک مٹھی بھر حکمران طبقے کے ہی پاس ہیں۔ ہمیں صرف غلام رہنے کی آزادی ہے۔ ہم غلام ہیں اور ہمیں اس غلامی کا ادراک کرنا ہو گا۔ تمام تر قومی، لسانی، علاقائی اور مذہبی تعصبات کو جھٹکتے ہوئے اس سرمایادارانہ نظام کے خلاف ایک حقیقی آزادی کی طبقاتی جنگ لڑنا ہو گی۔ یہ ہے اس دن کا پیغام جو ہمیں حقیقی معنوں میں معاشی، سیاسی اور سماجی آزادی سے ہمکنار کر سکتا ہے!