۔5 جولائی کا شب خون

[تحریر: لال خان]
آج سے 36 سال قبل اس ملک کی تاریخ کا بدترین شب خون مارا گیا تھا۔ 4 اور 5 جولائی 1977ء کی درمیانی رات کی تاریکی میں چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا ایک فوجی بغاوت کے ذریعے تختہ الٹ کر جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں وحشت ناک مارشل لا مسلط کردیا گیا۔ اس رجعتی آمریت کو مسلط کرنے کے لیے مذہبی رجعتیت کا سہارا لیا گیا۔ معاشرے کی پسماندہ پرتوں کی حمایت اور ریاستی جبر کے ذریعے سرمایہ داری کے تحفظ اور سامراجی مفادات کی حفاظت کے لیے پورے خطے میں جبر اور ظلم کا ایک دردناک کھلواڑ شروع کیا گیا تھا۔

ضیاالحق آمریت کے سیاہ دور میں محنت کشوں، نوجوانوں اور بائیں بازو کے سیاسی کارکنان کو بدترین ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا گیا
زیر نظر تصویر میں مشہور ترقی پسند شاعر حبیب جالب پولیش تشدد کی زد میں ہیں

گیارہ سال تک ا س ریاستی درندگی نے مذہبی جنونیت کے نظریات کو پروان چڑھایا اور معاشرے کو ایک اذیت ناک تشدد کا شکار کیا گیا۔ 1978ء میں کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان کے مزدوروں سے لے کر 1983ء کی سندھ میں ابھرنے والی عوامی بغاوت کو فوجی سنگینوں اور بارود کے ذریعے خون میں ڈبو دیا گیا۔ سینکڑوں کو پھانسیوں پر لٹکا دیا گیا، ہزاروں کو سرعام کوڑے مارے گئے۔ بے شمار نوجوانوں اور محنت کشوں کو اس ملک کے ہر خطے میں بدنام زمانہ اذیت گاہوں میں جسمانی اور ذہنی تشدد کے ذریعے مفلوج کیا گیا۔ امریکی سامراج کی ایما پر اسلامی بنیاد پرستی کو نہ صرف فروغ دیا گیا بلکہ ریاستی پشت پناہی سے بنیاد پرست درندوں کو منظم اور متحرک کیا گیا۔ ان مذہبی جنونیوں کو لوگوں کی نجی زندگیوں میں مداخلت سے لے کر مزاحمت کرنے والوں کے خلاف بہیمانہ تشدد کے لئے استعمال کیا گیا۔ افغانستان میں ایک ردانقلابی ڈالر جہاد شروع کیا گیا۔ منشیات کے کاروبار سے نہ صرف اس جہاد کو فنانس کیا گیا بلکہ اس ملک میں شعوری طور پر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو بغاوت سے باز رکھنے کے لئے منشیات کا عادی بنا دیا گیا۔ مدرسوں کے جال بچھا کر ایک پوری نسل کو دہشت گردی اور جنون کی نفسیات میں ڈبوکر سامراجی جنگ کا ایندھن بنایا گیا۔ اس معاشرے کی اقدار کومسل دیا گیا۔ منافقت، جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، خودغرضی، حرص، لالچ اورتشدد کو سماجی معمول بنانے کی کوشش کی گئی۔ امریکی سامراج کی حمایت سے مسلط ہونے والی اس مذہبی آمریت نے اس سماج سے ہر خوشی چھین لی۔ حکمران سرمایہ داروں نے دولت کا بے پناہ اجتماع کیا جبکہ محنت کش استحصال کی چکی میں پستے رہے۔ لیکن اس تمام تر جبرکے باوجود یہاں کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے عظیم جدوجہد اور قربانیوں کی لازوال داستان رقم کی۔ آج ’جمہوریت‘ کا راگ الاپنے والے سرمایہ دار، جاگیردار اور ان کی دلالی کرنے والے بڑے بڑے سیاستدان، ’جمہوری وزرائے اعظم‘، تجزیہ نگار، لکھاری، صحافی، ’کھلاڑی‘اور فن کار 1980ء کی دہائی میں نہ صرف ضیاء الحق کی وحشی آمریت اوراسکی بربریت کا تماشہ دیکھ رہے تھے بلکہ اس سفاک جرنیل کے قصیدے بھی گارہے تھے۔

پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر منظور وٹو اور پاکستان کے جمہوری وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی ضیاالحق کے ساتھ ایک یاد گار تصویر

1971ء میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی حکومت نے اس ملکی کی تاریخ میں محنت کش طبقات کے لئے سب سے زیادہ ریڈیکل اصلاحات کیں۔ لیکن پیپلز پارٹی کوئی بالشویک پارٹی نہیں تھی لہٰذہ سرمایہ داری کا خاتمہ نہ ہوسکا اور مزدور جمہوریت پر مبنی ریاست استوار نہیں ہو سکی۔ سرمایہ دارانہ ریاست اور نظام قائم رہا جس نے پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کی تنزلی اور اس درندہ صفت آمریت کے تسلط کی راہ ہموارکی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل کی تاریک رات میں پھانسی کے ذریعے قتل کیا گیا۔ نیچے سے محنت کشوں کے دباؤ کے تحت چئیرمین بھٹو نے اوپر سے بائیں بازو کی اصلاحات کیں جس سے سامراج اور اس ملک کے سرمایہ داروں کو کئی گھاؤ لگے۔ اس ادھورے وار کا انتقام بھٹو کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقے سے بھی لیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی کی کوٹھڑی میں جو آخری کتاب لکھی وہ اسکی آخری وصیت کا درجہ اختیار کرگئی ہے۔ اپنی زندگی اور موت کے فیصلہ کن اسباق جو بھٹو نے مستقبل کی نسلوں کے لیے چھوڑے تھے ان میں اس نے لکھا کہ ’’میں اس آزمائش میں اس لئے مبتلا ہوں کہ میں نے ملک کے شکستہ ڈھانچے کو پھر سے جوڑنے کے لیے متضاد طبقات کے درمیان آبرومندانہ اور منصفانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس فوجی بغاوت کا سبق یہ ہے کہ ’درمیانہ راستہ ‘، قابل قبول حل یا مصالحت محض یوٹو پیا ہے۔ فوجی بغاوت ظاہر کرتی ہے کہ طبقاتی کشمکش ناقابل مصالحت ہے اورا س کا نتیجہ ایک یادوسرے طبقے کی فتح کی صورت میں ہی نکلے گا۔‘‘
لیکن المیہ یہ ہے کہ بھٹو کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی کی قیادتوں نے بانی چیئرمین کی اس آخری وصیت کومکمل طور پر نظر انداز کردیا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں ضیاء الحق کی وحشت ناک سرمایہ دارانہ پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھا۔ قیادت نے پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ پروگرام سے انحراف کی تمام حدیں پار کیں۔ ضیاء الحق کی سیاسی باقیات پیپلز پارٹی پر براجمان ہو کر برسرِ اقتدار رہیں۔ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت نے ثابت کیا کہ جمہوریت اور آمریت بذات خود کوئی نظام نہیں ہیں بلکہ ایک ہی نظام کو چلانے دو مختلف طریقے ہیں۔ حکمران طبقات سرمائے کی منافع خوری کے تسلط کو جاری رکھنے کے لیے کبھی ریاستی تشدد اور آمریت کا سہارا لیتے ہیں تو کبھی ’جمہوریت‘ کے ذریعے بالواسطہ معاشی اور سماجی تشدد کے ذریعے محنت کشوں کو کچلا جاتا ہے۔
آج نام نہاد ’جمہوریت‘ کا دور دورہ ہے لیکن معاشی نظام گل سڑکر ضیا کے عہد میں جنم لینے والے دوسرے عذابوں (دہشت گردی، کرپشن، رجعتیت، مذہبی جبرو استحصال) کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ ضیاء الحق جسمانی طور پر تو چلا گیا لیکن اس کانظام اور فکر آج بھی ایک جبر مسلسل برپا کئے ہوئے ہے۔ 5 جولائی صرف یوم سیاہ منا کر احتجاج کرنے کا دن نہیں بلکہ اس طبقاتی جنگ میں حکمران طبقات نے جو گہرا وار کیا تھا اس کا منہ توڑ جواب دینے کا اعادہ اور تیاری کرنے کا دن بھی ہے۔ جس غربت محرومی اور ذلت میں یہاں کی جنتا سلگ رہی ہے وہ ناگزیر طور پر ایک نئی بغاوت کو بھڑکائے گی۔ اس مرتبہ اس تحریک کو ایک سوشلسٹ فتح کے ذریعے اس نظام اور اسکی ریاست کو اکھاڑ کر ہی صدیوں سے جاری اس ظلم اور جبر کا انتقام لیا جاسکتا ہے جو حکمرانوں نے نسل در نسل محنت کش طبقے پر ڈھایا ہے۔

متعلقہ:
پاکستان پیپلز پارٹی: ثریا سے زمیں پر۔۔۔۔
پیپلز پارٹی کی قیادت سے چند سوالات
ذوالفقار علی بھٹو کا 34واں یوم شہادت اور پیپلز پارٹی کے وجود کودرپیش چیلنج
بھٹو! تیرا وعدہ کون نبھائے گا؟
پنجاب میں گورنر کی تبدیلی؛ پیپلز پارٹی قیادت بد ترین موقع پرستی کا شکار