[تحریر: پارس جان]
اس ماہ پیپلز پارٹی کا 47واں یومِ تاسیس غیرمعمولی عالمی، غیر یقینی ملکی اور مایوس کن موضوعی حالات میں منایا جا رہا ہے۔ عالمی معیشت زوال کی طرف گامزن ہے، ملکی سیاست انتشار میں گھری ہے اور پارٹی بطور انقلابی روایت انہدام کے خطرات سے دوچار ہے۔ بہت سے وظیفہ خوار دانشور اور صحافی حضرات پہلے ہی برسوں سے پارٹی کی سیا سی موت کا عندیہ دے رہے ہیں۔ حقیقت اتنی سادہ اور شفاف نہیں ہوتی جتنی بنائی، بتائی یا دکھائی جا رہی ہوتی ہے۔ باقی تمام تر سماجی اور سیاسی اکائیوں، اداروں اور موضوعات کی طرح پیپلز پارٹی بھی ایک پیچیدہ، متغیر اور غور طلب عمل کا نام ہے۔ اس عمل کے محرکات کا گہرائی میں جا کر مشاہدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ظاہریت پرستی سے اکثر وبیشتر غلط اور منفی نتائج ہی برآمد ہوتے ہیں۔ یہ بات جتنی فطری سائنس کے لئے درست ہے، اس سے کہیں زیادہ سماجی اور سیاسی سائنس کے لئے کارآمد ہے۔ ایک طرف حاوی دانش، شعور اور نفسیات پیپلز پارٹی کا بظاہر دیگر ابھرتی ہوئی سیاسی قوتوں کے ساتھ تقابلی تجزیہ کر تے ہوئے اس کے خاتمے کا اعلان کر رہے ہیں تو دوسری طرف پارٹی کی قیادت اپنی سماجی حمایت کو ازلی اور ابدی قرار دے رہی ہے۔ وہ بھٹو کی انقلابی میراث کو قارون کا خزانہ سمجھ کر لوٹ رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ خزانہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ حقیقت ان دونوں متضاد اور غلط مفروضوں سے ماورا ہے۔ پارٹی کی تقریباً نصف صدی کا تاریخی ارتقا مختلف مراحل طے کرنے کے بعد ایک ایسے فیصلہ کن دوراہے پر آ گیا ہے جہاں سے اسے ایک توانا حیاتِ نو بھی نصیب ہو سکتی ہے اور ذلت آمیز اور عبرتناک پھوٹ بھی۔ ان دونوں ممکنات کا حتمی فیصلہ آنے والے دنوں میں ہونے والے واقعات، محنت کش طبقے کی سیاسی مداخلت اور پارٹی کی عمومی پالیسیوں کے مرہونِ منت ہو گا۔
یومِ تاسیس کے سلسلے میں پارٹی قیادت کی طرف سے بلاول ہاؤس لاہور میں ایک ورکرز کنونشن کے انعقاد کااعلان کیا گیا ہے۔ اول تو ان حالات میں لاہور میں عوامی جمِ غفیر متوقع ہی نہیں تھا، اسی لئے محض کنونشن کے انعقاد پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ اس کنونشن میں ابھی یقیناً سوائے رسمی شخصی تو تکرار کے کوئی کام کی بات نہیں کی جائے گی۔ ذاتیات کی بنیاد پر لعن طعن تو بہت ہو گی لیکن نظریات ’پچھلی نشستوں ‘ پر ہی رہیں گے۔ حقیقتاًپارٹی اپنی زندگی کے بدترین خلفشار کا شکار ہو چکی ہے۔ خصوصاً پنجاب میں پیپلز پارٹی برائے نام ہی بچی ہے، بلوچستان میں پہلے ہی پارٹی حمایت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ ’’چاروں صوبوں کی زنجیر‘‘ ہونے کی دعویدار پارٹی عملاً ایک صوبائی پارٹی کی حیثیت تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ پارٹی کی اس حالت کی ذمہ داری خود پارٹی قیادت کے علاوہ اور کسی پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ آمریت، ریاستی ادارے اور سامراجی آقاؤں کے جسمانی اور سفارتی حربے بھی جس پارٹی کو برباد نہیں کر سکے اسے خود قائدین کی غلط اورغدارانہ پالیسیاں کیفرِ کردار تک پہچانے پربضد نظر آ رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی المیائی داستاں اس مشہور مقولے کے مصداق ہے کہ ’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘۔
ایسے میں گزشتہ ماہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہونے والے جلسے سے پارٹی کے کچھ سادہ لوح معذرت خواہوں نے خوشگوار توقعات وابستہ کی ہوئی تھیں اوراس جلسے کوبلاول بھٹو کی رونمائی کی تقریب قرار دیا جا رہا تھا۔ بلاول بھٹو کی شخصیت سے بے پناہ خوش فہمیاں وابستہ کر دی گئی تھیں لیکن آج تقریباً ایک ماہ کے بعد پہلے سے زیادہ مایوسی اور بدزنی لاحق ہو چکی ہے۔ اس مایوسی کی وجہ اپنے مسیحا کی طرف سے مرہم کی جگہ زخموں کی نمک پاشی کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس جلسے کی تیاریوں سے لے کر اس میں کی جانے والی تقریروں کے آئنے میں پارٹی کے مستقبل کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ حقیقت تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ دائیں بازو کی طرف سے گزشتہ عرصے میں کئے جانے والے ’ملین مارچ‘ اور لاکھوں کے جلسے مختلف ریاستی ایجنسیوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے کی جانے والی سرمایہ کاری کا نتیجہ ہیں، اس مالیاتی آکسیجن کے بغیر سول سوسائٹی کی یہ تحریک ایک سانس بھی شاید نہ لے پائے۔ دائیں بازو کے لئے یہ کوئی نیا معمول نہیں ہے اگرچہ اب اس میں بے پناہ شدت آ چکی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی بھی اس سیاسی اور ثقافتی گراوٹ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔ نام نہاد جمہوریت کے پانچ سالہ کامیاب دور میں جو کارپوریٹ برانڈ پارٹی قیادت کی طرف سے متعارف کروایا گیا تھا اس کے لازمی نتیجے کے طور پر گزشتہ ماہ کا جلسہ بھی درحقیقت ایک کھلی سرمایہ کاری تھی جس میں مختلف جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے دل نہیں جیبیں کھول کر حصہ لیا۔ حکومتی وسائل کا بے دریغ استعمال تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن پہلی مرتبہ ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئیں کہ کچھ جگہ باقاعدہ دیہاڑی پر لوگوں کو جلسے میں شرکت کے لئے تیار کیا گیا۔ عین ممکن ہے کہ اس طرح کے ’’ونگارو‘‘ شرکا کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہولیکن انکی موجودگی ایک معیاری تبدیلی کی غمازی ہے۔ گویا اس اجتماع کا عمومی تاثر سیاسی یا انقلابی سے زیادہ مذہبی یا مفاہمتی تھا۔ 18 اکتوبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو کے بے نظیر استقبال سے اس کا موازنہ ہولناک اور چونکا دینے والی گراوٹ کی نشاندہی کرتا ہے۔
سات سال قبل لوگ خوشحال مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجائے دیوانہ وار قیادت کی طرف مقناطیسی کشش سے کھچے چلے آ رہے تھے لیکن اب کی بار سیاسی بے حسی اور لاتعلقی ہر چہرے سے ٹپک رہی تھی۔ وہاں قیادت کے رخساروں پر وقتی طور پر ہی سہی لیکن اپنی غلطیوں پر احساسِ ندامت آنسوؤں کی صورت میں چمک رہا تھا اور اس قیا دت کی گھمنڈ ی آواز میں تصنع اور بناوٹ اندھے کو بھی نظر آ رہی تھی۔ عقل کے اندھوں کو استثنا حاصل ہے۔ ان تمام موضوعی عناصر کے پسِ منظر میں فیصلہ کن عنصر معروضی حالات اور محنت کش طبقے کی شکست خوردہ نیم جاں کیفیت بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جلسے میں سیاسی ٹھیکیداروں کا تناسب بھی کئی گنا زیادہ تھا۔ بازاری اشعار نما نعروں کی تکرار سے پارٹی قیادت کے ذہنی اور ثقافتی معیار کا بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آصف زرداری اور بلاول میں مبینہ نظریاتی اختلاف تلاش کرنے والوں کو بھی اس وقت منہ کی کھانی پڑی جب بلاول نے خاص طور پر ’اگلی باری پھر زرداری ‘ اور ’شیروں کا شکاری زرداری ‘ کا نعرہ بلند کیا۔ یہ بات درست ہے کہ اس وقت تمام سیاسی پارٹیوں میں رسہ کشی اور تناؤ موجود ہے اور اس کی ایک جھلک پیپلزپارٹی میں بھی دیکھی جا سکتی ہے مگر اس تناؤ کی بنیاد نظریاتی یا سیاسی سے زیادہ مالیاتی مفادات کا ٹکراؤہے اور مختلف سامراجی قوتوں کی پراکسیوں میں خدمات کے جھکاؤ پربھی فروعی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن جہاں تک پالیسیوں کا تعلق ہے تو یہ جلسہ واضح طور پر انہی پالیسیوں کے تسلسل کا واشگاف اعلان تھا جن کی وجہ سے 2008ء سے لے کر 2013ء تک غربت کی لکیر سے روزانہ نیچے گرنے والے انسانوں کی تعداد 10,000 سے بڑھ کر 35,000 سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ موجودہ حکومت کی پالیسیاں بھی عملاً گزشتہ حکومتوں کا تسلسل ہی ہیں جن میں نجکاری، مالیاتی اداروں کی کاسہ لیسی اور دیگر تمام سرمایہ نواز اور مزدور دشمن اقدامات شامل ہیں۔ اسی لئے خاموش حزبِ مخالف سے بھی ایک قدم آگے آ کر باقاعدہ پریس کانفرنس کے ذریعے موجودہ حکومت کی مالیاتی پالیسیوں کی مکمل حمایت کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ نجکاری کے خلاف لفظی جگالی کرنے والے پارٹی کے مشکوک بائیں بازو کی طرف سے اس پر مکمل خاموشی تکلیف دہ ہی نہیں معنی خیز بھی ہے۔
ان پالیسیوں کے تسلسل کا عندیہ دے کر پہلے سے مایوس کن عوام کو مزید مایوسی کی دلدل میں غرق کر دیا گیا ہے۔ ملتان میں عبرتناک شکست پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ پارٹی پرمسلط کردہ مہروں کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔ منظور وٹو کو بغل میں کھڑا کر کے ضیا کی باقیا ت کو گالیاں نکالنے سے لوگوں کو دھوکہ دینا اب شاید زیادہ کارآمد نہ ہو سکے۔ کرپشن کے دفاع اور جواز میں یہ توجیہہ پیش کی گئی کے کرپشن کے الزامات محض اس لئے لگائے جا رہے ہیں تاکہ ہم عوام کی ’خدمت ‘ نہ کر سکیں۔ یہ وہی خدمت ہے جس کی بدولت بیروزگاروں اور بیماروں کی فوج میں تو کروڑوں کا اضافہ ہو گیاہے مگر بہت سے لکھ پتیوں کو کروڑ پتی اور کروڑ پتیوں کو ارب پتی بننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے۔ مفاہمت کی غلیظ ترین پالیسی کو بدستور عظیم کارنامہ بنا کر پیش کیا گیا۔ ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ کی گردان تو بار بار دہرائی گئی مگر سوشلزم کے نام سے دو ٹوک لاتعلقی ظاہر کی گئی تاکہ ان مالیاتی آقاؤں کی خوشنودی بھی دوبارہ حاصل کی جا سکے جو قدرے ناراض ہیں اور نئے گھوڑے دوڑانے کے لئے پر تول رہے ہیں۔
مارکسی اساتذہ نے ریاستی اداروں کی سماج سے بیگا نگی پر بارہا روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح طبقاتی خلیج کے مسلسل بڑھتے رہنے کی وجہ سے ریاستی اشرافیہ اور حکمران طبقات اپنی ثقافت اور روزمرہ میں کسی اور سیارے کی مخلوق معلوم ہونے لگتے ہیں۔ اسی طرح کی کیفیت اور علامات محنت کش طبقے کی پارٹیوں اور روایتی قیادتوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ وہ بورژوا روٹین کا شکار ہو کر محنت کشوں کے دکھوں کا مداوا تو درکنار ان کو تسلیم کر نے سے بھی انکار کردیتے اور مسلسل ’سب ٹھیک ہے‘ کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ بلاول نے بھی سندھ میں ترقیاتی منصوبوں کو مثال بنا کر ایک ایسی جنت کا خاکہ پیش کیا جس کی بنیادیں مبینہ طور پر سندھ میں پارٹی کی حکومت کے تسلسل میں رکھ دی گئی ہیں۔ اسی جنت میں جہاں دودھ اور شہد کی نہروں کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے تھر میں بھوک سے مرنے والے ایک ہزار کے لگ بھگ معصوموں اور غریبوں کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا گیا۔ ظاہر ہے کہ ایسے گناہگاروں کو تو جنت سے فوراً بے دخل کر دینا چاہئے۔ قائم علی شاہ صاحب برملا ان اعدادو شمار کو محض میڈیا کے کچھ منچلوں کی دل لگی قرار دے رہے ہیں۔ کراچی میں امن و امان کے مسئلے کی طرف بھی مضحکہ خیزرویہ اختیار کیا گیا۔ فرقہ وارانہ اور لسانی تعصبات کی بنا پر قتل ہونے والے معصوموں کے لواحقین سے ہمدردی تو کجا انہیں یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی کہ کراچی سے بھی زیادہ بدامنی کے شکار کئی شہر دنیا میں موجود ہیں اور کراچی میں حالات مسلسل ٹھیک ہو رہے ہیں۔ اس ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کی شاید ہی کوئی مثال کہیں دیکھی جا سکے۔ حقیقت میں سٹی نیوزمیں مقصود عالم کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں 8,500 سے زائد شہری قتل ہو چکے ہیں۔ صرف 2014ء کے ساڑھے نو مہینوں میں 1,400 سے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ جس آپریشن کی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے، اسی آپریشن کے دوران بھی ایک سال کے اندر 2228 بے گناہ انسان زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔ اگر یہ ایک کامیاب آپریشن کے نتائج ہیں تو آپریشن کی ناکامی کا سوچ کر تو دل دہلا دینے والا سکتہ طاری ہوجانا ناگزیر ہے۔ ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محنت کشوں کے وجود سے انکاری اور بیگانہ ہو کر پیپلز پارٹی کب تک قائم ودائم رہ سکتی ہے؟
یہ بات درست ہے کہ پارٹی فی الوقت طبقاتی سے زیادہ قومی رنگ میں رنگی جا چکی ہے۔ ایک طرف تو انڈیا کے خلاف جوشیلی زبان استعمال کر کے پاکستانی شاونزم کو بیچا جا رہا ہے، کشمیر کے زخموں کوپھر سے ہرا کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف تنگ نظر سندھی قوم پرستی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا گیا ہے مگر اس حد تک دائیں طرف آنے کے باوجود سیاسی افق پر پارٹی کے بائیں جانب ابھی تک کوئی قابلِ غور سیاسی ہلچل دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ نظریات سے ماورا سیاسی اتحادوں کی موشگافیوں کے باوجود ان کے پاس محنت کش طبقے کو منظم کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ این جی اوز کی معاشی ایما پر انقلابی سیاست پروان نہیں چڑھ سکتی۔ پارٹی کا اعلان کردینے سے پارٹی نہیں بن جایا کرتی۔ انقلابی پارٹی انقلابی حالات میں ہی بنتی ہے۔ اس سے قبل کے رجعتی معروض میں صبر آزما تنظیمی مشقت درکار ہوتی ہے تاکہ پارٹی کے ڈھانچے استوار کئے جا سکیں۔ پھر معروض کی ہم آہنگی سے وہ ڈھانچے سماجی بنیادیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ رجعتی معروض ہمیشہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ جلد یابدیر اس کے بطن سے ایک انقلابی تحریک کا جنم ہو گا۔ محنت کش جونہی تاریخ کے میدان میں اتریں گے تو وہ بائیں بازو کے ان فرقہ پرور دانشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس کھوکھلی، ضعیف اور لاغر روایت کی بھی انقلابی سرجری کرنے پر مجبور ہوں گے۔ پارٹی کی موجودہ قیا دت کی پالیسیوں کے جواب میں ان کا ردِ عمل یقینا 2007ء اور 1986ء سے مختلف ہو گا۔ وہ روایت کی چوکھٹ پر شاید ماتھا ٹیکنے یا حاضری دینے کی بجائے جواب اور حساب طلب کرنے کے لئے جائیں۔ ماضی کے طلسم بالآخر ٹوٹ جائیں گے اور روایت کا کوہ ہمالیہ روئی کے گالوں کی طرح منتشر ہوگا۔ ایسے میں ایک جھنجوڑا گیا انقلابی شعور دوستوں اور دشمنوں میں بہت آسانی سے تمیز کر سکے گا۔ درست نظریات اور لائحہ عمل پر مبنی قیادت اور پروگرام کی موجودگی ہی فیصلہ کن نجات کا موجب بن سکے گی۔
متعلقہ:
۔30 نومبر کا یوم تاسیس: پیپلز پارٹی کہاں سے کہاں؟