4 جولائی کی طویل رات!

| تحریر: لال خان |

4 جولائی کا دن دو ممالک کے لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ امریکہ میں اس روز یوم آزادی کا جشن منایا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں 4 اور 5 جولائی کی درمیانی رات اقتدار پر ضیائی شب خون اور مارشل لا کی مناسبت سے یوم سیاہ ہوتا ہے۔ 1776ء میں اس روز برطانوی سامراج سے امریکہ کی تیرہ ریاستوں نے آزادی حاصل کرکے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا قیام عمل میں لایا تھا۔ اس آزادی کے اعلامیے کا مصنف تھامس جیفرسن تھا جو شاید امریکہ کی تاریخ کا سب سے ترقی پسند صدر ہو ا ہے۔ لیکن پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد یہی امریکہ سامراجی سلطنت میں تبدیل ہوااور تاریخ کی سب سے بڑی غاصب، استحصالی اور جارح طاقت بن گیا۔ جہاں امریکہ میں ہونے والے سرمایہ دارانہ انقلاب سے دیوہیکل معاشی، اقتصادی اور فوجی سلطنت قائم ہوئی وہیں اس کے پھیلاؤ، غاصبانہ عزائم اور عالمی پیمانے پر لوٹ مار کے لیے سامراجی جارحیتوں کے سلسلے نے جنم لیا۔

ضیاالحق اور امریکی صدر رانلڈ ریگن۔ ضیا آمریت کو اول روز سے امریکی سامراج کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔

کارل مارکس اور بعد ازاں انقلابِ روس کے قائد ولادیمیر لینن نے اپنی اہم تحریروں میں سماجی اور معاشی سائنس کی بنیادپر واضح کیا تھا کہ اس اقتصادی نظام میں کیسے ریاستیں سامراجی کردار اختیار کرتی ہیں۔ پاکستان میں 4 جولائی کی تاریک رات میں مارا جانے والا شب خون اسی رجعتی سامراجی پالیسی اور مفادات کا شاخسانہ تھا۔ نہ صرف مارشل لا اور فوجی آمریت کے ذریعے انہوں نے سرمایہ داری کے جبرواستحصال کی شدت میں اضافہ کیا بلکہ اس کو معاشرے پر مسلط کرنے کے لیے ضیا الحق کی ’’اسلامائزیشن‘‘ کو بھی فروع دلوایا۔ مذہبی دہشت گردی اور بنیاد پرستی کی سرکاری آشیرآباد میں افزائش کے ذریعے افغانستان اور پورے خطے میں جارحیت اور خانہ جنگیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع کروایا جس کی آگ آج تک بھڑک رہی ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ بھڑک کر پھیل رہی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس نے ایک انقلابی تحریک کے دباؤ میں سامراجیوں کے اصول ماننے سے انکار کیا تھا اور ان کے نظام پر کچھ ضربیں لگائی تھیں۔ سامراجی حکمران اپنے معاشی اور سیاسی ڈھانچوں میں تمام قریبی دوستی کے باوجود کوئی آزاد سوچ اور خود مختیاری برداشت نہیں کرتے،کیونکہ ان کے سرمائے کے مفادات کے آگے سب ہیچ ہے۔ عمومی طور پر لبرل اور سیکولر ’انٹیلی جنشیا‘ ضیاء الحق کی آمریت کو صرف اس کے سیاسی ظلم وجبر، آزادی اظہار کی پابندیوں اور خواتین کے خلاف رجعتی قوانین کی وحشت تک محدود رکھتی ہے۔ لیکن اس ظلم وبربریت کی آمریت نے جہاں یہ مظالم ڈھائے وہاں اس کے معاشی، سیاسی اور ثقافتی گھاؤ کہیں زیادہ گہرے تھے جو آج تک رِس رہے ہیں۔ آرٹ، لٹریچر، میڈیا، اقدار اور اخلاقیات سمیت سماج اور ثقافت کے ہر شعبے میں رجعت اور منافقت جو زہر گھولا گیا وہ آج تک رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر ضیا الحق کی ترجیح سرمایہ دار طبقے اور اسکے نظام کو تقویت دینا تھا جس پر 1968-69ء کی تحریک کے نتیجے میں وسیع نیشنلائزیشن جیسی ضربیں پیپلز پارٹی کے پہلے دور اقتدار میں لگی تھیں۔ ضیا نے نہ صرف قومی تحویل میں لی گئی صنعتوں اور اداروں کو دوبارہ نجی ملکیت میں دیا بلکہ شریف خاندان سمیت بہت سے کارپوریٹ سیٹھوں کو اربوں روپے کے بھاری معاوضے بھی ادا کیے۔ سامراجی اجارہ داریوں کے لیے پاکستانی منڈی کو کھول دیا۔ جاگیرداروں کو انکی جاگیریں واپس کروائیں اور بالادست طبقات کو لوٹ مار کے لیے ریاستی تحفظ اور سرپرستی فراہم کی۔ اسی طرح ریاست کو پہلے کی نسبت کہیں زیادہ مالیاتی سرمائے سے مالامال کیا۔ نہ صرف کرپشن کو فروغ ملا بلکہ منشیات کے کاروبار کے ذریعے افغانستان میں امریکی سرپرستی اور ضیا کی سربراہی میں ہونے والے ڈالر جہاد کی فنڈنگ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اسی کالے دھن نے ریاستی اشرافیہ اور ملاؤں کو دنوں میں ارب پتی کر دیا۔ حالانکہ ریاست کے کلیدی اداروں میں اتنی بھاری دولت کی سرائیت انہیں اندر سے کھوکھلا کردیتی ہے لیکن ضیا نے اپنے جابرانہ اقتدار کو طول دینے کے لیے ایک طرح سے خود ریاست کو رشوت دی اور اس کرپشن کے ذریعے اس کو اپنی وفاداری پر معمور کرنے کی کوشش بھی کی۔
اس ریاستی، معاشی اور سیاسی جبر کے تسلط کو قائم رکھنے اور محنت کش عوام کی اس ظلم و استحصال کے خلاف ابھرنے والی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے ریاستی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ غیر ریاستی، مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت کو بھی درندگی سے استعمال کیا۔ سیاسی طور پر جہاں اس نے بائیں بازو کی طلبہ و سیاسی تنظیموں کو کچلا، پیپلز پارٹی کے کارکنان پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے وہاں اس نے مذہبی فرقہ واریت، لسانیت، گرہ بندی،برادری ازم اور نسل پرستی کے تعصبات کو بھی ابھارا۔ غرضیکہ محنت کشوں کی یکجہتی میں دراڑ ڈالنے والے ہر رجعتی رجحان اور تعصب کو پروان چڑھایا گیا۔ معاشرے میں مذہبیت کو اس حد تک مسلط کیا گیا کہ یہاں کے تہوار، ریت رواج، سماجی تعلقات اور معاشرتی زندگی مسخ ہو کر رہ گئی۔ اس سے اخلاقیات میں منافقت اور مطلب پرستی، اقدارمیں خود غرضی اور دھوکہ دہی اور انسانی رشتوں میں خوف اور بیگانگی نے جنم لینا شروع کیا۔

Protest against Islamization of Zia Ul Haq
ضیاالحق کے رجعتی قوانین کے خلاف ہونے والا ایک احتجاجی مظاہرہ

’’جمہوریت‘‘ اور ’’انسانی حقوق‘‘ کے علمبردار امریکی سامراج کی مکمل حمایت ضیاالحق کو حاصل رہی۔ اس آمریت کو وسیع مالی امداد دی گئی، ایٹمی پروگرام سے چشم پوشی اختیار کر کے اس کی پالیسیوں کو لندن سے لے کر برلن اور واشنگٹن تک سب مغربی حکمران سراہنے لگے۔ ضیا الحق کو ایک آمر اور جابر کی بجائے مغربی میڈیا پر ’’کمیونزم سے لڑنے والا مضبوط لیڈ‘‘ بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ اس دور میں نہ تو مذہبی دہشت گردی سے ان سامراجیوں کو کوئی تکلیف تھی اور نہ ہی اس کی اسلامائزیشن اور بنیاد پرستی سے کوئی گلا تھا۔ بلکہ ضیا الحق کے ’’مجاہدین‘‘ اس وقت مغربی سامراجیوں کے ہیرو تھے جنہیں رانلڈ ریگن نے تو تھامس جیفرسن جیسے امریکہ کے بانیوں کے مساوی رتبہ دے دیا تھا۔
ایسی فرقہ وارانہ تقسیم جس کے بارے میں عام مسلمان جانتے تک نہیں تھے نہ صرف ضیا دور میں ابھاری گئی بلکہ نئے نئے فرقے بنائے جانے کا عمل بھی تبھی شروع ہوا۔ کراچی جیسے محنت کشوں کے گڑھ میں لسانیت اور تنگ نظر قوم پرستی کے تعصبات سے محنت کشوں کی یکجہتی میں پھوٹ کے زخم لگائے گئے جن سے آج بھی خو ن ٹپک رہا ہے۔
لیکن اس سارے عمل میں ضیا الحق پر اس قدر طاقت کا زعم سوار ہوگیا کہ وہ واقعی اپنے آپ کو ’’امیرالمومنین‘‘ سمجھنے لگا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہٹلر سے لے کر سٹالن تک، آمر جب تنقید اور اپوزیشن سے عاری وسیع طاقت حاصل کر لیتے ہیں تو ساتھ ہی ذہنی توازن بھی کھو دیتے ہیں۔ ضیا الحق پر بھی کابل اور وسطی ایشیا تک اپنی ’’خلافت‘‘ پھیلانے کا جنون سوار ہوگیا۔ اس نے اپنے امریکی آقاؤں کو بھی کبھی کبھار آنکھیں دکھانی شروع کردیں۔ اس کا انت ناگزیر ہوگیا تھا۔ لیکن ضیا کے خاتمے کے بعد بھی ریاست اور سیاست کا کردار نہیں بدلا۔ جو ’’جمہوریت‘‘ آئی وہ اسکے قوانین اور پالیسیوں سے ٹکرانے کی بجائے ان سے مصالحت کے ذریعے اقتدار کی لذت حاصل کرنے لگی۔ بے نظیر نے نہ صرف ضیا کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان اور صدر اسحاق خان کو قبول کیا، پیپلز پارٹی میں ضیاالحق کی باقیات کو مسلط کیا بلکہ معاشی اور اقتصادی پالیسیاں پیپلز پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ منشور کے متضاد مارگریٹ تھیچر، رانلڈ ریگن اور ضیا الحق کی ہی اپنائیں۔

Nawaz Sharif Zia ul Haq poster
1990 کی دہائی میں نواز شریف کی الیکشن مہم کا ایک پوسٹر

نواز شریف توخود ضیا الحق کی سیاسی اولاد تھا۔ جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی پارٹیاں تو پہلے ہی ضیا الحق کی آمریت میں ریاستی بی ٹیم کا کردار ادا کرتی آئی تھیں۔ سیکولر، لبرل اور نیشنلسٹ پارٹیوں کی قیادتوں نے جس آئین کو قبول کیا اس میں آج تک ضیا الحق کی ترامیم کو کوئی چھیڑ بھی نہیں سکا ہے۔ آئین اور قانون کی یہ رجعتی شقیں آج تک نافذ ہیں۔ ضیاالحق جس نظام کا رکھوالا تھا وہ آج کہیں زیادہ وحشی ہو کر اس ملک کے محنت کشوں کا خون پی رہا ہے۔ ضیا باقیات آج سیاسی اقتدار میں بھی ہیں اور ریاست اور میڈیا میں بھی سرائیت کئے ہوئے ہیں۔ ضیا الحق کے خلاف 1979ء، 1981ء اور 1983ء میں مختلف پیمانوں پر کئی تحریکیں ابھریں۔ قیادتوں نے انہیں جمہوریت کی جدوجہد تک محدود رکھا اور جب جمہوریت آئی ہے تو عوام کے لیے کچھ بھی نہیں بدلا بلکہ ان کی معاشی اور سماجی زندگی بد سے بدتر ہی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 4 جولائی 1977ء کا شب خون ان 39 سالوں پر آج تک محیط ہے۔
بنیادی نظام وہی ہے اور ریاستی وغیر ریاستی جبر کے انداز وہی ہیں۔ ضیا الحق کی وحشیانہ آمریت ایک معاشی وسماجی نظام کے تسلط کو طوالت دینے کے لیے مسلط کی گئی تھی، جب تک یہ نظام قائم ہے اس تاریک رات کا انت نہیں ہوگا۔ یہاں سوشلسٹ انقلاب کی مشعل جلے گی تو ہی روشنی ہوگی۔

متعلقہ:

5 جولائی 1977ء: تاریکی کی طوالت!

پاکستان پیپلز پارٹی: 5 جولائی 1977ء اور آج!

5 جولائی کا جبر مسلسل!

5 جولائی: چار دہائیوں پر محیط یومِ سیاہ

5 جولائی کا شب خون