[تحریر: لال خان]
آج سے 37 سال قبل اس ملک کی تاریخ کے سب سے سیاہ اور مکروہ باب کا آغاز ہوا۔ 4 جولائی کی تاریک رات کو ہونے والے فوجی کُو کے داغ اس سماج پر سے آج تک نہیں مٹ پائے۔ ملک کے پہلے عام انتخابات میں سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر برسر اقتدار آنے والے وزیر اعظم کو معزول کر کے سامراج کی ایما پر شو ٹرائل کے بعد پھانسی دے دی گئی۔ ضیا الحق کی جابرانہ آمریت میں نہ صرف عوام کو سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر کچلا گیا بلکہ ان گیارہ اذیت ناک سالوں نے محنت کش طبقے کے شعور کو مجروح کر کے مزدور تحریک کو بھی پیچھے دھکیل دیا۔
ماضی میں جھانکا جائے تو ضیا آمریت کا دور ایک بھیانک خواب معلوم ہوتا ہے۔ ہزاروں لوگوں کو سر عام کوڑے مارے گئی، فوجی اور سول عدالتوں نے سینکڑوں سیاسی مخالفین کوپھانسیاں دیں، ٹارچر سیلوں میں جا کر واپس نہ لوٹنے والوں اور ماورائے عدالت کی جانے والی ریاستی قتل و غارت گری کا کوئی حساب نہیں ہے۔ بائیں بازو اور پیپلز پارٹی کے سیاسی کارکنان، ٹریڈ یونین سے وابستہ مزدور رہنماؤں، بے زمین کسانوں، مظلوم قومیتوں، خواتین اور سماج کے دوسرے محروم طبقات کو خاص طور پر ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ 1978ء میں کالونی ٹیکسٹائل مل ملتان کے محنت کشوں کے قتل عام سے لے کر 1983ء میں سندھ کے ہاریوں کی نسل کشی تک، استحصالی نظام اور محرومی کے خلاف ابھرنے والی ہر بغاوت کو بے دردی سے کچل دیا گیا۔ جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں نے ضیاالحق کی بی ٹیم کا کردار ادا کیا۔ ان جماعتوں سے وابستہ غنڈہ گرد عناصر اور فاشسٹ گروہ آمریت مخالف سیاسی کارکنان کی جاسوسی، گرفتاری، تشدد اور قتل میں ریاست کی بھرپور معاونت کرتے رہے۔ ’کفر‘ کے فتووں کی بوچھاڑ بھی جاری و ساری رہی۔
یہ سفاکی، خباثت اور بے رحمی دراصل پاکستان کے حکمران طبقے اور ریاست کا مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں سے انتقام تھا۔ ایک دہائی قبل ایک انقلاب کے ذریعے اس طبقاتی نظام کے ملکیتی رشتوں اور استحصال کو چیلنج کرنے کا انتقام۔ 1968-69ء کی انقلابی تحریک کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی نیشلائزیشن اور دوسری ریڈیکل اصلاحات کے ذریعے حکمران طبقے کے سیاسی اور مالیاتی مفادات پر ضرب لگانے کی پاداش میں قتل کیا گیا۔ بھٹو نے اپنی آخری تحریر ، جو ان کی سیاسی وصیت کا درجہ بھی رکھتی ہے، میں اعتراف کیا تھا کہ انہیں ایک سوشلسٹ انقلاب کو ادھورا چھوڑ دینے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
ضیا آمریت نے سیاست کے ساتھ ساتھ ہر سماجی شعبے کو مسخ کرکے رکھ دیا۔ فن، لٹریچر، موسیقی، ثقافت، سینما اور نجی زندگی کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ تاہم گھٹن صرف عوام کے لئے ہی تھی۔ سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقے کے لئے یہ ایک ’’سنہری‘‘ دور تھا۔ انہیں نہ صرف بھٹو دور میں قومیائی گئی صنعتیں بمعہ مالی تلافی لوٹا دی گئیں بلکہ سرمایہ دوست معاشی پالیسیاں انتہائی بے دردی سے لاگو کی گئیں۔ ٹریڈ یونین اور مزدور تنظیمیں پہلے ہی ریاست کے نشانے پر تھیں لہٰذا ان گیارہ سالوں میں سرمایہ دار جس حد تک محنت کا استحصال کر سکتے تھے، انہوں نے کیا۔
امریکی اور یورپی سامراج نے ضیا آمریت کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ ساتھ اسلامی بنیاد پرستی کو بھی سپانسرکیا۔ آج یہی سامراجی ’’جمہوریت‘‘، انسانی حقوق اور ’’آزادی‘‘ کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ سامراجیوں کے لئے ’’جمہوریت‘‘ کا مطلب اور مقصد سرمائے، استحصال اور لوٹ مار کی آزادی ہوتا ہے۔ دولت کی اس جمہویت کا عوام کی مرضی اور منشا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
فوجی کُو سے پہلے PNA کی ’’نظام مصطفی تحریک‘‘ اور پرتشدد ایجی ٹیشن کے ذریعے پیپلز پارٹی حکومت کو گرانے یا الیکشن ہروانے کی کوشش کی گئی۔ اس سیاسی اتحاد میں شامل کئی مذہبی اور دائیں بازو کی جماعتوں کو سی آئی اے کی مالی معاونت حاصل تھی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں کی جانے والی ادھوری اصلاحات 1977ء تک ہوا میں تحلیل ہوچکی تھیں جس کے پیش نظر عوام میں بے چینی اور مایوسی کے جذبات موجود تھے۔ بحران زدہ ریاستی سرمایہ داری اور سرمایہ دارانہ ریاستی و انتظامی ڈھانچے کی حدود و قیود میں رہ کر کئے گئے ان اقدامات کی ناکامی ناگزیر تھی۔ PNA بہر حال اپنے سامراجی آقاؤں کی امیدوں پر پورا نہیں اتر پائی اور مارچ 1977ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ انتخابات کے بعد ملاؤں کے پرتشدد مظاہروں،سیاسی عدم استحکام اور انتشار میں شدت لا کر 5 جولائی 1977ء کے ’’راست قدم‘‘ کے لئے جواز اور زمینی حالات تیار کئے گئے۔
ضیاالحق نے اپنے شب خون کو جواز اور اقتدار کو استحکام دینے کے لئے مذہب کا استعمال کرتے ہوئے درمیانے طبقے اور سماج کی پسماندہ پرتوں میں سماجی بنیادیں حاصل کیں۔ وہ ریاست میں مذہب کی بے لگام مداخلت کا کھلا حامی تھا۔ دسمبر 1981ء میں ضیا نے کہا کہ ’’پاکستان بالکل اسرائیل کی طرح نظریاتی ریاست ہے۔ یہودیت کو نکال دیں تو اسرائیل تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گا۔ اسلام کوالگ کر دیں تو پاکستان ایک سیکولر ریاست بن کر منہدم ہوجائے گا۔‘‘
پاکستان کو ’’مسلمان‘‘ کرنے کی پالیسی کے تحت فوج، بیوروکریسی، عدلیہ اور سماج پر مذہب اور ایک مخصوص فرقے کی سوچ کو مسلط کیا گیا۔ جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں کے باقاعدہ ممبران یا ہمدردوں کو ریاستی اداروں میں سرایت کے مواقع فراہم کئے گئے۔ محنت کشوں سے نفرت پر ضیا الحقی’’پارسائی‘‘ کے لبادے چڑھا دئیے گئے۔ عوام کو بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنے کی ریاستی ذمہ داری پر ضیا الحق کا تبصرہ کچھ یوں تھا کہ ’’رزق میں کمی یا زیادتی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی پر بھروسہ رکھیں۔ ۔ ۔ ‘‘
طاقت کے نشے اور مذہبی جنون نے ضیا الحق کا ذہنی توازن کافی حد تک بگاڑ دیا تھا۔ خود کو ناقابل شکست سمجھنے والا یہ شخص وسطی ایشیا کے دارالحکومتوں تک اپنی ’’خلافت‘‘ کو پھیلانے کے خواب دیکھنے لگا تھا۔ اس کا خبط امریکیوں کے لئے زحمت بنتا جارہا تھا۔ اپریل 1988ء میں جنیوا معاہدے پر دستخط ہوئے، مئی میں افغانستان سے سوویت فوجوں کا انخلا شروع ہوا اور اگست میں ضیا الحق کئی اہم جرنیلوں اور ریاستی عہدہ داروں سمیت ڈرامائی طور پر طیارے کے ’’حادثے‘‘ میں مارا گیا۔ یہی سامراج کے دلالوں کاروایتی انجام ہے۔
ضیا الحق کا چھوڑا ہو زہر اس کی موت کے چھبیس سال بعد بھی ریاست اور سیاست کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ اس کی باقیات آج پھر سے برسراقتدار ہیں۔ اپنی کتاب ’’پاکستان: ایک تلخ ملک‘‘ میں ایناتول لیون لکھتا ہے کہ ’’ضیاالحق نے ترکے میں بہت کچھ چھوڑا۔ اس نے اپنی نئی پارٹی بنا کر اسے مسلم لیگ کا پرانا نام دیا۔ یہ دراصل بڑے زمینداروں اور شہری اشرافیہ کا ہی ایک اتحاد تھا جسے فوج نے اپنے مقاصد کے تحت تخلیق کیا تھا۔ اس نئی مسلم لیگ کی قیادت کی ذمہ داری ضیا الحق نے نواز شریف کو سونپی تھی۔‘‘ عوام کو تقسیم اور منتشر رکھنے کے لئے ضیا الحق نے مذہبی، فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر کئی مسلح گروہ اور سیاسی پارٹیاں بھی پروان چڑھائیں۔ خاص طور پرصنعتی مزدوروں کے گڑھ کراچی میں محنت کشوں کی طبقاتی جڑت کو توڑنے کے لئے ایم کیو ایم جیسی لسانی جماعتیں ایجنسیوں کی چھتری تلے پروان چڑھیں۔
المیہ یہ ہے کہ 5 جولائی کے دن یوم سیاہ منانے والی پیپلز پارٹی پر بھی ضیا باقیات براجمان ہیں۔ رحمان ملک، یوسف رضا گیلانی اور منظور وٹو آج پارٹی قیادت کا حصہ بنے بیٹھے ہیں۔ ضیا آمریت کی ’میراث‘ افراد تک ہی محدود نہیں ہے۔ نام نہاد جمہوری حکومتیں آتی اور جاتی رہیں لیکن خواتین اور مذہبی اقلیتیں آج بھی بلاسفیمی اور حدود آرڈیننس جیسے جابرانہ قوانین کا نشانہ بن رہے ہیں۔
جمہوریت اور آمریت ایک ہی نظام کو چلانے کے دو مختلف سیاسی طریقہ کار ہیں۔ مالیاتی سرمائے کا جبر اور استحصال ہر دو صورتوں میں قائم رہتا ہے۔ پاکستان سمیت تمام تیسری دنیا اور سابق نوآبادیاتی ممالک کی سرمایہ دارانہ معیشتیں مہلک بحران کا شکار ہیں۔ جمہوری حکومتیں ہوں یا فوجی آمریتیں، عوام کی معاشی اور سماجی ذلت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ ٹیڈ گرانٹ نے 1960ء میں لکھا تھا کہ ’’انسانی سماج کی تاریخ میں بالادست طبقہ حکمرانی کے کئی طریقے اختیار کرتا آیا ہے۔ یہ بات سرمایہ داری کے لئے خاص طور پر درست ہے جس میں حکمرانی کی رنگ برنگی شکلیں موجود ہیں: ری پبلک، بادشاہت،فاشزم، پارلیمانی جمہوریت، بوناپارٹ ازم، مرکزی اور وفاقی۔ ۔ ۔‘‘
ضیا آمریت کے پیپ زدہ زخم اس وقت تک رستے رہیں گے جب تک اس معاشی و سماجی نظام کو اکھاڑا نہیں جاتا کہ ضیاالحق جس کا ’ایک‘ نمائندہ تھا۔ اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ، جاگیر دارانہ نظام کی حدود میں ایک سیکولر، ترقی پسند، جمہوری اور خوشحال پاکستان کا خواب، محض خواب ہی رہے گا۔ ۔ ۔ 5جولائی کا جبر مسلسل سماج کو تاراج کرتا رہے گا!
متعلقہ:
ضیاء باقیات بے نقاب
ویڈیو: کیا یہ بھٹو کی پیپلز پارٹی ہے؟
پیپلز پارٹی کا مستقبل
پاکستان پیپلز پارٹی کی میراث