چیئرمین بھٹو کی 35ویں برسی: مصلحت یا جدوجہد؟

[تحریر: لال خان]
ہر سال 4 اپریل کو چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی کے کارکنان اور قائدین گڑھی خدا بخش میں ان کے مزا ر پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ تاہم اس دن کا پیغام اور اسے تنظیمی طور پر منانے کے مقاصد کو پارٹی قیادت نے رفتہ رفتہ بگاڑ کر بالکل تبدیل کر دیا ہے۔ آج چیئرمین بھٹو کی 35ویں برسی کے موقع پر ہمیشہ کی طرح ہزاروں لاکھوں پارٹی کارکنان کے سامنے پیپلز پارٹی کے قائدین تقاریر کریں گے لیکن پارٹی کے بنیادی پروگرام، مقاصد اور نظریات پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ یہ صورتحال ہمیشہ سے موجود نہ تھی۔ ضیاء الحق کے دور حکومت اور اس کے بعد سالوں میں بھی محنت کش اور سیاسی کارکنان تمام تر مصائب اور ریاستی جبر کے باوجود ہر سال بھٹو کے مزار پر اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ یہ دن نظریات، محنت کشوں کے اتحاد اور ہر قسم کے ظلم و استحصال کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کے تجدید عہد کے طور پر منایا جاتا تھا۔ اس موقع پر ضیاء الحق کے شب خون اور بھٹو کے عدالتی قتل سے ملنے والے تاریخی اسباق پر مباحثے ہوتے تھے۔ پارٹی کی بنیادی دستاویزات، پروگرام اور نظریات زیر بحث آتے تھے۔ 1980ء کی دہائی کے وسط تک ریاست کے استحصالی ڈھانچے، رجعتی آمریت کے سرکاری نظریات، معاشی بدحالی اور طبقاتی استحصال سے بیزاری اس قدر بڑھ چکی تھی کہ عوام کی بڑی تعداد، بحیثیت مجموعی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے حکمرانوں کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھنے لگی تھی۔
اسی دوران 1986ء میں بینظیر بھٹو وطن واپس آئیں۔ وہ جہاں بھی عوام کے جم غفیر نے ان کا استقبال کیا۔ لاہور، پشار اور کراچی کی سڑکوں پر مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کا سیلاب بہہ نکلا۔ یہ کروڑوں بدحال لوگ محض آمریت کے خلاف ’’جمہوریت‘‘ کی جدوجہد نہیں کررہے تھے۔ ان کے زخم گہرے اور مسائل گھمبیر تھے۔ نجات کی تلاش میں پاکستان کے محنت کش عوام ایک بار پھر اپنی سیاسی روایت کی طرف متوجہ ہوئے اور بے نظیر ان کی امیدوں کا مرکز و محور بن گئیں۔ عوام کے دباؤ کے تحت ریاست، حکمران طبقے اور سامراج کو بے نظیر سے مصالحت کرنا پڑی۔ بپھرے ہوئے عوام کے غم و غصے کو پارلیمانی جمہوریت کی بھول بھلیوں میں ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 1988ء میں بے نظیر وزیر اعظم بنی۔ یہ اقتدار انتہائی نحیف تھا۔ خارجہ معاملات اور دفاع جیسے اہم شعبوں پر ضیا باقیات کا کنٹرول قائم رہا۔ اسٹیبلشمنٹ صرف تحریک کے ٹھنڈا ہونے کے انتظار میں تھی۔ پارٹی قیادت کی جانب سے ’’مصالحت‘‘ (Reconciliation) اور ریاست کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی پالیسی کا آغاز بھی اسی دور میں ہوا۔ امریکی سامراج سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش بھی کی گئی اور پارٹی کے سوشلسٹ نظریات بھی تبدیل کئے جانے لگے۔ نتیجتاً عوام بدظن ہوئے، مایوسی اور سیاسی جمود نے سماج کو ایک بار پھر اپنی لپیٹ میں لے لیا، حالات قابو میں آنے کے بعد ریاست نے پیپلز پارٹی حکومت کو معزول کر دیا۔ پیپلز پارٹی کو ’’سیفٹی والو‘‘ کے طور پر استعمال کر کے ’’بوقت ضرورت‘‘ اقتدار دینے اور بعد میں چھین لینے کا یہ عمل بعد میں جاری رہا۔ عوام برباد ہوتے رہے اور پارٹی قیادت طبقاتی خلیج کے دمیان ’’بفر زون‘‘ کا کردار بخوشی نبھاتی رہی۔
1993ء میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران بے نظیر نے واضح طور پر کہا تھا کہ ’’نظریات اب پچھلی نشست پر جاچکے ہیں۔‘‘ جب نظریات پچھلی نشست پر چلے جائیں تو موقع پرستی، بدعنوانی اور خوشامد اگلی سیٹ پر آجاتے ہیں۔ بینظیر کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے دائیں طرف جھکاؤ کا عمل جاری رہا۔ سامراج کی ایما پر نجکاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ جیسی پالیسیاں اپنائی گئیں۔ پارٹی کے عہدوں پر ’’کاروباری حضرات‘‘ کی ایک نئی پرت براجمان ہوگئی۔ تنظیمی معاملات کنٹریکٹ لینے اور دینے تک محدود ہو گئے۔ ہوس، لالچ اور ذاتی مفادات کا یہ زہر پارٹی کی نچلی سطح اور عام کارکنان میں بھی سرائیت کرنے لگا۔ نظریات سے وفادار سنجیدہ اور دیانتدار کارکنان یا تو بد دل ہو کر خود ایک طرف ہوگئے یا انہیں کردیا گیا۔ جمہوری ڈھانچوں کی عدم موجودگی میں ٹوٹ پھوٹ، بگاڑ اور انحراف کا یہ عمل زیادہ تیز ہوگیا۔ سرمایہ دار اور جاگیر دار اپنے زر کی طاقت کے بلبوطے پر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے لگے۔
نظریاتی بنیادوں کو دفن اور سیاسی بحثوں کو ختم کر کے قیادت نے پارٹی کی ہیئت کو اپنے عکس کے مطابق ڈھال لیا۔ ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر کے لئے قائم ہونے والی پارٹی میں ’’سوشلزم‘‘ کا نام لینا ہی گناہ بن گیا۔ پیپلز پارٹی کو جنم دینے والے 1968-69ء کے انقلاب کی روایات کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ کال کوٹھری میں چیئرمین بھٹو نے ماضی اور حال کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں جو نتائج اخذ کئے تھے ، ان پر پردہ ڈال دیا گیا۔ جیل میں اپنے آخری ایام کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے سرمایہ دارانہ ریاست کے ڈھانچے میں رہتے ہوئے بائیں بازو کی اصلاحات کرنے کی سیاسی غلطی کو تسلیم کیا تھا۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی اور ممکنہ عدالتی قتل کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’فوجی کُو کا سبق یہ ہے کہ مصالحت ایک یوٹوپیائی خواب ہے۔ فوج کا شب خون ثابت کرتا ہے کہ طبقاتی جدوجہد ناقابل مصالحت ہے اور ایک طبقے کی دوسرے طبقے پر فتح پر ہی منتج ہوگی۔ وقتی مضمرات کچھ بھی ہوں اس جدوجہد میں ایک طبقہ ہی جیتے گا۔ یہ پتھر پر لکیر ہے۔‘‘ (باب 5، آخری سے پہلے کا پیراگراف)
بینظیر بھٹو کے بعد پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے والوں نے موقع پرستی اور منافقت کے تمام ریکارڈ ہی توڑ دئیے ہیں۔ بھٹو کو سوشلزم کا نعرہ بلند کرنے والے عوامی قائد سے تبدیل کر کے صوفی بنا دیا گیا ہے۔ ان کی سیاسی شخصیت پر مذہبی اور لسانی ابہام کے کئی غلاف چڑھا دئیے گئے ہیں۔ آج کل یہ برسی اسٹیبلشمنٹ اور نظام کو چیلنج کرنے والی سیاسی تقریب کی بجائے کسی پیر کے عرس کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ یہ بھٹو جیسے انسان کے ساتھ عظیم نا انصافی ہے جو جدید عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ سوشلزم پر یقین رکھنے کا دعویدار تھا۔
اپنی کتاب میں بھٹو لکھتے ہیں کہ جن دنوں وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے ، ان کے والد شاہ نواز نے سالگرہ کے تحفے کے طور پر انہیں دو کتابیں ارسال کیں۔ ایک نپولین کی سوانح حیات اور دوسری ’’کیمونسٹ مینی فیسٹو ‘‘تھی۔ بھٹو کے مطابق ’’ نپولین سے میں نے طاقت کی سیاست سے داؤ پیچ سیکھے۔ پمفلٹ (کیمو نسٹ مینی فیسٹو) سے میں نے غریبوں کی سیاست سیکھی۔ دوسری کتاب کے اختتامی الفاظ تھے کہ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجاؤ۔ تمہارے پاس کھونے کو صرف زنجیریں ہیں جبکہ پانے کو ساراجہان پڑا ہے۔‘‘ بھٹو کے والد ایک شاہی ریاست کے وزیر اعظم تھے تاہم ان میں اپنے نوجوان بیٹے کو مارکس اور اینگلز کی سب سے مشہور تصنیف بھیجنے کی اخلاقی جرات بہر حال موجود تھی۔
مسلسل دائیں طرف جھکاؤ اور نظریات سے انحراف نے نہ صرف پارٹی کو تباہ کیا ہے بلکہ پاکستان کے عوام کی سیاسی روایت کے طور پر اس کے تشخص اور بقا کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ عوام کی بدقسمتی ہے کہ ان کا پاس فی الوقت پیپلز پارٹی کا متبادل موجود نہیں ہے۔ تاہم عوام کی بددلی بڑھنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کی مقبولیت میں کمی آتی جارہی ہے۔ لوگ متبادل کی تلاش میں ہیں تاہم اتنے بڑے پیمانے کی متبادل سیاسی قوتیں ذاتی خواہشات کے تحت تخلیق نہیں ہوتیں۔ محنت کشوں کی سیاسی روایات انقلاب کے غیر معمولی لمحات میں ہی پروان چڑھتی ہیں۔ یہ تاریخ اور سماج کا قانون ہے۔ عام حالات میں عوام صرف عام انتخابات جیسے مواقع پر ہی اپنی سیاسی روایات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ لیکن بغاوت اور انقلاب کے ایسے عہد بھی آتے ہیں سماج کے محکوم طبقات یکجا ہو کر روایتی پارٹیوں کے سیاسی اور طبقاتی کردار کو ہی تبدیل کردیتے ہیں، یا پھر انقلابی تبدیلی کے لئے نئی سیاسی قوت تراشتے ہیں۔ پاکستان کے مزدور، کسان اور نوجوان 1968-69ء کا ادھورا سفر مکمل کرنے کے لئے ایک بار پھر سے سیاست کے میدان میں کودیں گے۔ ان کے پاس انقلاب کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ تاہم انقلاب کے راستے کو سوشلزم کی منزل سے جوڑنے کے لئے ایک باشعور سیاسی قوت درکار ہے۔ اس قوت کی تعمیر آج پیپلز پارٹی کے ہر نظریاتی اور دیانتدار کارکن کا فریضہ ہے۔ ضیا الحق کے اقتدار پر شب خون کے بعد شروع ہونے والی حکمران طبقے کی معاشی و سیاسی یلغار اور پارٹی قیادت کی غداریوں کا بدلہ اسی تاریخی فریضے کو نبھا کر لیا جاسکتا ہے۔ یہی 4اپریل کا سبق اور پیغام ہے۔