تحریر: حسن جان:-
آج جب افغانستان میں سامراجیت اور بنیاد پرستی کی وحشت کا ننگا ناچ جاری ہے وہیں 34سال قبل ہونے والے افغان ثور انقلاب کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
اکتوبر 1917ء میں جب روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا تو اْس وقت روس میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیا دت میں ایک حقیقی مارکسی قیادت موجود تھی جس نے درست نظریات ،لائحہ عمل اور طریقہ کار سے محنت کش طبقے کی قیادت کر تے ہوئے روس سے سرمایہ داری کا خاتمہ کیا۔ اس انقلاب نے دنیا بھر کی محنت کش طبقے کی تحریکوں پر بالعموم اور نو آبادیاتی ممالک پر ، جو اپنی قومی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے ، بالخصوص گہرے اثرات مرتب کئے۔لیکن بعد میں روسی انقلاب کی سٹالنسٹ زوال پذیری نے دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں پر منفی اثرات مرتب کئے جس کی وجہ سے ایک کے بعد دوسرے ملک میں تحریکیں اور انقلابات ناکام ہوئے۔ لیکن مسائل اپنی جگہ موجود رہے۔ نوآبادیاتی ممالک نے رسمی طور پر تو سامراج سے آزادی حاصل کر لی لیکن سماج میں موجود غربت ، بیماری اور پسماندگی جیسے مسائل مزید گہرے ہو گئے۔ ان ممالک کی بورڑوازی جمہوری انقلاب کا ایک فریضہ بھی انجام دینے سے قاصر تھے۔ بورڑوازی کی کمزوری اور نا اہلی نے فوجی جنتا کو ایک خاص حد تک خود مختاری دے دی تھی۔ جس کی وجہ سے ان ممالک میں بار بار فوجی بغاوتوں کا مظہر بھی سامنے آیا۔ فوج سماج کے اندر موجود طبقاتی تضادات کا عکس ہو تی ہے۔ عالمی سطح پر محنت کشوں کی تحریکوں اور سویت یونین میں ہونے والی بے مثال ترقی نے فوج کی نچلی پر ت کے افسروں پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ایک طرف وہ اپنے حکمرانوں کی سماج کو ترقی دینے کی نااہلی اور بد عنوانی سے تنگ تھے تو دوسری طرف سماج کو سرمایہ دارانہ غلاضت سے باہر نکالنے کے لئے بے تاب تھے۔ 1952ء میں مصر میں فوج کے ترقی پسند افسروں نے جمال عبدالناصر کی قیادت میں فوجی بغاوت کے ذریعے بادشاہت کا خاتمہ کیا اور بڑے پیمانے پر مصر میں اصلاحات اور نیشنلائزیشن کیں۔
اسی طرح ایتھو پیا ، موزمنبق ، کیوبا اور شام میں بھی ترقی پسند اور بائیں بازو کی طرف رجحان رکھنے والے افسروں نے اپنے ملکوں میں بوسیدہ بادشاہتوں اور بد عنوان آمروں کا تختہ اْلٹا کر سماج سے سرمایہ داری اور جاگیر داری کا خاتمہ کیا۔ لیکن یہ انقلابات اکتوبر1917ء کے کلاسیکی سوشلسٹ انقلاب کی طرز پر بر پا نہیں ہوئے اور نہ ہی انقلابی افسروں نے سماج میں موجود محنت کش طبقے کو منظم کر کے انقلابات کئے۔
مارکسزم کی بنیادی تعلیمات ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انقلاب میں محنت کش طبقے کی سر گرم شمولیت کے بغیر کبھی بھی ایک صحت مند مزدور ریا ست تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے یہ ریا ستیں اکتوبر 1917ء کی نومولود سویت ریاست کی طرز پر نہیں بلکہ بعد میں تشکیل پانے والے سٹالنسٹ روس کی طرز پر تعمیر ہوئیں۔ جس کو ٹیڈ گرانٹ نے پرولتاری بونا پارٹسٹ ریا ست کا نام دیا۔ ایک ایسی ریاست جس میں سرمایہ داری اور جاگیر داری کا تو خاتمہ کیا گیا ہو لیکن اقتدار محنت کش طبقے کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ بیوروکریسی کے ہا تھ میں ہو۔ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود یہ ایک ترقی پسند اقدام تھا کیونکہ ذرائع پیداوار کو قومیانے اور منصوبہ بند معیشت کی وجہ سے سماج اور ذرائع پیداوار نے بے پناہ ترقی کی۔ لیکن ایک خاص مر حلے پر آکر بیوروکریسی ذرائع پیداوار اور سماج کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن جا تی ہے۔یوں پھرایک سیاسی انقلاب کی ضرورت ہو تی ہے جو اقتدار اور ذرائع پیداوار کو محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں لائے۔ پرولتاری بونا پارٹزم اس امر کی بھی غمازی کر رہی تھی کہ عالمی انقلاب کے آنے میں تاخیر ہو رہی تھی اور نو آبا دیاتی ممالک ترقی یا فتہ ممالک کے انقلاب کا انتظار نہیں کر سکتی کیونکہ یہا ں مسائل کہیں زیادہ گہرے ہیں اور سرمایہ دارانہ بنیا دوں پر کو ئی حل موجود نہیں۔
افغان ثور انقلاب کی بھی مندرجہ بالا حقایق کی روشنی میں وضاحت کی جا سکتی ہے۔ افغانستان میں پرولتاریہ نہ ہو نے کے برابر تھی۔ ملک کی کوئی صنعتی بنیا د نہیں۔ مختلف بادشاہتوں نے کبھی ظاہر شاہ کی شکل میں تو کبھی داؤد کی شکل میں ملک پر برسوں حکومت کی لیکن سوائے بد عنوانی اور سامراجی گماشتگی کے کچھ بھی نہیں کیا۔ شرح خواندگی 10%سے بھی کم تھی اور کل قابل کاشت رقبے کا 50%صرف 5%افراد کے ہاتھو ں میں تھی۔ ایسے میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کسی طرح کی ترقی کا امکان نہیں تھا۔ سماج کے اندر بے چینی اور اضطراب کا اظہار خلق پار ٹی کی تشکیل کی صورت میں ہوا۔ جنوری 1965ء میں نور محمد ترہ کئی نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کی بنیاد رکھی۔ جس میں زیادہ تر مارکسزم پر سٹڈی سرکلز کرنے والے نوجوانوں کے مختلف گروپس شامل تھے۔ خلق پارٹی (PDPA)کے ایک اور رہنما کامریڈ حفیظ اللہ امین افغان فوج میں بہت سے افسرز کو انقلابی نظریات کی مائل کر نے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان افسرز کی انقلابی نظریات کی طرف مائل ہو نے کی ایک وجہ عالمی سطح پر ہونے والے واقعات بھی تھے۔
17 اپریل 1978ء کو افغانستان کے صدر محمد داؤد خان کی حکومت نے PDPAکے رہنما محمد اکبر خیبر کو قتل کروا دیا لیکن صدر داؤد کی حکومت نے اس قتل کی ذمہ داری سے انکار کر دیا۔ اس کے باوجود PDPA کی قیادت نے یہ محسوس کیا کہ صدر داؤد پارٹی کی پوری قیادت کو ختم کرنے کے درپے تھی۔ 19 اپریل کو پارٹی نے کابل میں محمد اکبر خیبر کے جنازے کے موقع پر 30ہزار افراد کی ایک ریلی نکالی۔ ریلی نے امریکی سفارت خانے کے سامنے امریکہ مخالف نعرے لگائے۔ طاقت کے اس مظاہرے سے صدر داؤد بپھر گیا۔ اس نے ایک ہفتے کے اندر PDPAکے سات رہنماؤں بشمول نور محمدترہ کئی کو گرفتار کر لیا۔ البتہ حفیظ اللہ امین کو پہلے گھر میں نظر بند کیاگیا اور بعد میں 26اپریل کو اسے جیل بھیج دیا گیا۔ لیکن حفیظ اللہ امین اس سے پہلے ہی فوج کے اندر موجود خلقی آفیسرز کو صدر داؤد کے خلاف فوجی بغاوت کے فرمان جاری کر چکا تھا۔
27 اپریل 1978ء کو علی الصبح ہی ایئر فورس کے کرنل عبد القادر نے صدارتی محل پر بمباری کا حکم دے دیا۔ صدر داؤد کو خاندان سمیت ختم کر دیا گیا۔ اسی طرح زمینی محاذ پر محمد اسلم وطنجار ، جو ایک ٹینک بر گیڈ کا کمانڈر تھا ، ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ کابل شہر کے اندر داخل ہوا۔ اس طرح اس انقلابی فوجی بغاوت نے داؤد کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ شام 7بجے ریڈیو پر ’’مسلح افواج کی انقلابی کونسل ‘‘ کے قیام اور داؤد کی حکومت کے خاتمے کا اعلان ہو ا۔ فوری طور پر مسلح افواج کی انقلابی کونسل نے اقتدار PDPA کی 35رکنی انقلابی کونسل کے حوالے کر دیا۔ فوج کے انقلابی افسروں کی حمایت سے ہی یہ ممکن ہو سکا اور فوج کو پارٹی اور انقلاب کی حمایت پر آمادہ کر نے کا سہرا حفیظ اللہ امین کے سر جا تاہے۔ اسکو ’’ثور‘‘ انقلاب اس لئے کہا جا تا ہے کیونکہ یہ انقلابی بغاوت افغانی کیلنڈر کے دوسرے مہینے ’’ثور‘‘ میں ہوا تھا۔ بعد میں حفیظ اللہ امین نے ثور انقلاب کو بالشویک انقلاب 1917ء کا تسلسل قرار دیا۔
انقلابی کونسل نے نور محمد ترہ کئی کو صدر منتخب کیا۔ حفیظ اللہ امین کو وزیر خارجہ بنا یا گیا۔ بعد میں وزیر اعظم کا عہدہ بھی حفیظ اللہ امین کے پاس چلا گیا۔ 10مئی کو نور محمد ترہ کئی نے ریڈیو پر PDPAکی حکومت کے پروگرام کا اعلان کیا۔ جس میں افغانستان کی تاریخ کی سب سے بڑی زرعی اصلاحات ، مفت تعلیم اور علاج، جنسی برابری ، لڑکیوں کی خرید و فروخت پر پابندی اور ہر اْس چیز کو قومیانے کا اعلان کیا جو قومیانے کے قابل تھی۔ پہلی دفعہ افغانستان کو صدیوں کی پسماندگی ، جہالت ، قبائلیت ، غربت اور لاچارگی سے نکالنے اور اسے بیسوی صدی میں لانے اور جدید سماج بنانے کی جد و جہد کا آغاز کیا گیا۔ ثور انقلاب نے ایک مسخ شدہ انداز میں ٹراٹسکی کے نظریہ مسلسل انقلاب کو درست ثابت کر دیا۔ اس انقلاب نے آس پاس کے ممالک بالخصوص پاکستان میں انقلاب چاہنے والوں اور تبدیلی کے خواہاں انقلابیوں پر بہت مثبت اثرات مر تب کئے اور یہاں پر ہر سال ثور انقلاب کی سالگرہ منائی جانے لگی۔اس تبدیلی نے امریکی سامراج اور پاکستان کے حکمرانوں کے ہوش اْڑا دیئے۔ لیکن سویت یونین بھی افغانستان کے اندر ہونے والی انقلابی تبدیلی سے پریشان تھا۔ کیونکہ یہ وہ سویت یونین نہیں تھا جس کو لینن اور ٹراٹسکی نے تعمیر کیا تھا۔
بلکہ یہ سٹالنسٹ بیوروکریسی کا سویت یونین تھا جسے انقلاب ، تبدیلی ، سوشلزم اور مارکسزم سے زیا دہ اپنے مفادات ، مراعات اور امریکی سامراج سے تعلقات زیادہ عزیز تھے۔ سویت بیوروکریسی نے اپنے اقتدار، پر امن بقائے باہمی اور امریکی سامراج سے تعلقات کی خاطر دنیا بھر کے انقلابات کو خون میں ڈبو یا۔ دنیا بھر کی کمیو نسٹ پارٹیوں کو سویت بیوروکریسی اپنی خارجہ پالیسی کے آلے کے طور پر استعمال کر تی تھی اور بلاشبہ افغان ثور انقلاب نے سویت بیوروکریسی پر سکتہ طاری کر دیا کیونکہ وہ قطعاًاس طرح کی تبدیلی کے حق میں نہیں تھی۔ وہ تو ببرک کرمل کے ذریعے صدر داؤد کی حکومت کی مسلسل حمایت کر رہی تھی۔ اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ وہ کس حد تک افغانستان میں ایک سوشلسٹ تبدیلی کے خواہا ں تھے۔
سویت یونین نے سب سے پہلے نومولود انقلابی حکومت کو اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش کی۔ لیکن حفیظ اللہ امین افغانستان میں سویت اثر و رسوخ کے سخت خلاف تھا اور وہ افغانستان کی زیادہ آزاد حیثیت کا حامی تھا۔ وہ ثور انقلاب کے خلا ف ہونے والی رد انقلابی سرکشی کو کچلنے کے حق میں تھا اور اس کے لئے اْس نے عملی اقدامات بھی اْٹھا ئے لیکن سویت یونین اْن پر ملاؤں اور رد انقلابی قوتوں کے ساتھ سمجھوتے کے لئے دباؤ ڈال رہا تھا۔ سویت بیوروکریسی ان جیسے دوسرے معاملات کے گرد نور محمد ترہ کئی اور حفیظ اللہ امین کے درمیان اختلافات ڈالنے میں کامیاب ہو گئی۔ یہی وہ موقع تھا جب سویت یونین کو افغانستان میں براہ راست فوجی مداخلت کا موقع ہاتھ آیا۔ جلاوطن پرچمی لیڈر ببرک کرمل کو روسی ٹینکوں پر بٹھا کر افغانستان لایا گیا۔ حفیظ اللہ امین کو قتل کر کے ببرک کرمل کو افغانستان کا صدر بنا دیا گیا۔
روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ اب امریکی سامراج کو افغانستان میں انقلاب کو کچلنے کے لئے ایک جواز مل گیا۔ سویت یونین کی فوجی مداخلت کو جواز بناتے ہوئے امریکی سامراج نے رد انقلابی قوتوں کو افغانستان میں داخل کر دیا۔
ٹیڈ گرانٹ نے اْس وقت لکھا :
’’ان حالات میں اگر نئی حکومت کسانوں کی حمایت پر تکیہ کر کے سماج کو تبدیل کر تی ہے تو اس سے کیوبا ، شام اور روس کی طرح افغانستان میں اسی طرح کی حکومت کی تعمیر کے لئے راستہ ہموار ہو جائے گا۔ اس سے افغانستان صدیوں میں پہلی مرتبہ جدید دنیا میں داخل ہو گا۔ اگر سوشلسٹ تبدیلی کی تکمیل ہو تی ہے تو اس سے جاگیر دارانہ ۔سرمایہ دارانہ ایشیا ء4 ، بالخصوص جنوبی ایشیا میں سرمایہ داری اور جاگیر دار ی پر ایک نئی ضرب لگے گی۔ اس سے پاکستان کے پشتونوں او ر بلوچوں پر لا امتناہی اثرات مر تب ہونگے اور یہی اثرات ایران کی سر حد وں پر بھی پڑیں گے۔ پاکستان کی بوسیدہ حکومت آنے والے دنوں میں مکمل ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔ افغانستان میں سماجی رشتوں کی تبدیلیوں سے اس حکومت کا انہدام اور تیز ہو گا ‘‘
’’سرحد کے اْس پار قبائلی اپنے بھائیوں کے بیچ ہونے والی تبدیلی سے متاثر ہونگے۔ پاکستان کے شمال مغربی سرحد اور بلوچوں میں پہلے سے ہی ایک بغاوت پنپ رہی ہے جو افغانستان میں موجود اپنے بھائیوں سے جڑ جانے کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ اس کے اثرات دور تک پھیلے گی جس کے نتائج ایران اور ہندوستان میں بھی محسوس ہونگے‘‘
’’اگر وہ ممکنہ طور پر سویت سفارتکاروں اور سویت حکومت کی مداخلت پر اس کام میں تاخیر کر تے ہیں تو خوف زدہ اشرافیہ اور ملاؤں کی وحشتناک رد انقلاب کا راستہ تیا رکریں گے۔ اگر رد انقلاب کامیاب ہو ا تو وہ پرانی حکومت کو لاکھوں کسانوں کی ہڈیوں ، انقلابی افسروں کے قتل عام اور تعلیم یافتہ پرتوں کے خاتمے کے ذریعے بحال کریں گے‘‘۔
بعد میں ہونے والے واقعات نے اس تناظر کو درست ثابت کیا۔ مارکسسٹوں نے اْس وقت بھی سویت یونین کی فوجی مداخلت کی مذمت کی تھی کیونکہ اس نے انقلاب کو پیچھے کی جانب دھکیل دیا۔ سامراج اور اس کے حواریوں نے مجاہدین اور ڈالری جہاد کے ذریعے افغان ثور انقلاب کو کچلنے کی مہم کا باقاعدہ آغاز کر تے ہوئے افغانستان میں مداخلت شروع کی۔ اربوں ڈالر کے اسلحے پاکستان سے افغانستان بھیجے گئے۔ مجاہدین کی تربیت کرکے افغانستان بھیجے گئے۔ اس رد انقلابی مداخلت میں سعودی عرب، اسرائیل ، امریکہ ، بر طانیہ ، مصر، چین اور پاکستان پیش پیش تھے۔ چین تو سویت دشمنی میں اندھا ہو گیا تھا۔ اس نے بھی بھاری مقدار میں مجاہدین اور رد انقلابیوں کو اسلحہ اور کمک فراہم کی۔ لیکن سب سے بڑھ کر سویت یونین نے ہی آخری تجزیے میں رد انقلاب کو واضح راستہ فراہم کیا۔
جلد ہی ببرک کرمل بھی سویت بیوروکریسی کے مفادات کے معیار پر پورا نہ اْتر سکا۔ اْسے ہٹا کر ڈاکٹر نجیب اللہ کو صدر بنا یا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب سویت یونین میں گوربا چوف نے بیوروکریسی کے اقتدار کو بچانے کے لئے پریسٹرائیکا کے نام سے سیاسی اصلاحات کا آغاز کیا تھا۔ یہی کچھ نجیب اللہ نے افغانستان میں بھی کیا۔ رد انقلابی قوتوں کو کچلنے کی بجائے اْن سے مصالحت کی راہ اپنائی گئی۔ ایک حقیقی بالشویک پارٹی کی عدم موجودگی میں انقلاب کو اْس کے منطقی انجام تک پہنچانا ناممکن ہے۔ مارکسسٹ محنت کش طبقے کی بین الاقوامیت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی لینن اور ٹراٹسکی کی پوزیشن تھی۔ بالشویکوں نے اکتوبر 1917ء کے انقلاب کے بعد بننے والی نومولود مزدور ریاست کو سامراجی حملوں سے بچانے کے لئے جہاں محنت کشو ں کی سْرخ فوج بنا ئی ، وہیں پر انہوں نے عالمی محنت کش طبقے سے انقلابی یک جہتی کی اپیل کی۔ جس سے سامراجی ممالک کے اندر اور اْن کی افواج میں بغاوتیں ہوئیں۔ سپاہیوں نے مزدور ریاست کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ تب جا کر سامراجی افواج کو شکست ہوئی۔ لیکن یہا ں پر نہ تو بالشویک پارٹی تھی اور نہ لینن اور ٹراٹسکی جیسی مدبرانہ قیادت۔ اگر ثور انقلاب کے قائدین عالمی محنت کش طبقے اور بالخصوص پاکستان کے محنت کشوں سے انقلابی یک جہتی کی اپیل کے لئے مہم چلاتے تو اس انقلاب کو افغانستان کی سرحدوں سے باہر پاکستان اور پھر اس سے بھی آگے پھیلایا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کی بجا ئے انقلاب دشمنوں اور رد انقلابیوں کو منانے کی کوشش کی گئی۔
نجیب اللہ نے قومی مصالحتی کمیشن بنائی جس نے لگ بھگ 40000ہزار رد انقلابیوں سے رابطے کئے۔ جولائی 1987ء میں رد انقلابیوں اور مجاہدین کو سٹیٹ کونسل(جسے پہلے انقلابی کونسل کہتے تھے ) کی 20نشستوں کی پیشکش کی گئی اور ساتھ میں حکومت میں 12وزارتوں کی بھی آفر کی۔ رد انقلابیوں نے انقلاب کو کچلنے کے لئے ان مواقعوں سے بھر پور فائدہ اْٹھا یا۔ سامراج کا مقصد اپنے نظام کو بچانا اور ساتھ میں افغان عوام اور دنیا بھر کے انقلابیوں کو یہ سبق سکھانا تھا کہ اْن کے نظام کو چیلینج کر نے کا کیا مطلب ہو تا ہے۔ یوں ان نام نہاد اصلاحات نے انقلاب کی شکست کو مزید تیز تر کر دیا۔
1989ء میں جب سویت افواج کا انخلا مکمل ہوا تو اس کے ساتھ ہی نجیب اللہ اور انقلاب کی شکست عیا ں ہو چکی تھی۔ 1992ء میں نجیب اللہ کی حکومت بھی گر گئی۔ اس دوران کئی حقایق واضح طور پر آشکار ہوئیں۔ حکمران طبقات جہاں محنت کشوں کو رنگ ، نسل ، زبان ، مذہب، قوم اور ملک کے نا م پر تقسیم کر کے اپنی حکمرانی کو جاری رکھتے ہیں وہیں جب اْن کے نظام کو کسی انقلابی تحریک سے خطرہ ہوتا ہے تو وہ آپس کے اختلافات کو عارضی طور پر بالائے طاق رکھتے ہوئے محنت کشوں کے انقلابات کو کچلنے کے لئے اکٹھے ہو جا تے ہیں۔
امریکی سامراج اور اْن کے حواری آج تہذیبوں کے تصادم کا پر چار کر رہے ہیں۔ پاکستان کی دائیں بازو کی قوتیں اور پاکستانی ریاست بحیثیت مجموعی اسرائیل دشمنی کا دم بھر تے ہیں لیکن افغان ثور انقلاب کو کچلنے کے لئے اس کے ساتھ مل کر انقلاب کے خلاف لڑے۔ کیونکہ یہ ایک ہی نظام کے پاسدار ہیں جو اْن کے جائیداد، دولت اور شرح منافع کا ضامن ہے۔
رد انقلاب نے افغان سماج کو کئی صدیاں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ سامراجی مداخلت نے اسے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ طالبان کی حکومت کو ختم کر کے امریکی سامراج اپنی تمام معاشی اور عسکری طاقت کے باوجود افغان سماج کا ایک بنیادی مسئلہ بھی حل نہیں کر سکا۔امریکی سامراج کو طالبان پر فوقیت دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ طالبان بھی تو آخری تجزیے میں سامراج کا بغل بچہ ہے اور موجودہ کر زئی حکومت میں وہی لوگ شامل ہیں جنہوں نے ثور انقلاب کے خلا ف ’’جہاد‘‘ کیا تھا اور جن کے ہاتھ لاکھوں معصوم غریب افغانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ آج افغان پارلیمنٹ تمام تر انقلاب دشمنوں ، قاتلوں اور چوروں کا اکٹھ ہے۔ وہ موسمی انقلابی جو کل تک 27 اپریل کو افغان ثور انقلاب کی سالگرہ مناتے تھے آج انتہائی بے شرمی، سفاکی اور معذرت خواہانہ رویے کے ساتھ قاتلوں اور وحشیوں کے ساتھ بیٹھ کر 28 اپریل کو رد انقلاب کا جشن مناتے ہیں۔
لیکن طبقات موجودہیں۔ اس لئے طبقاتی جنگ بھی جاری ہے۔ افغان محنت کش پھر اْبھر یں گے لیکن ایک نئے عزم اور ولولے اور نظریے کے ساتھ۔ آج پوری دنیا میں عالمی مارکسی رجحان(IMT) ایک فیصلہ کن قوت بن چکی ہے۔ پاکستان کے اندر بھی انقلابی مارکسی قوتیں روز افزوں بڑھ رہی ہیں۔
افغانستان کے اندر بھی PDPAکی روایت دوبارہ زندہ ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج افغان انقلاب کا مستقبل پاکستان کے انقلاب کے ساتھ اٹوٹ طور پر جڑچکا ہے۔ کل تک پاکستان سے اسلحہ ، ٹینک ، بارود اور انسانی تباہی کے آلات افغانستان بھیجے جاتے تھے۔ آج افغانستان کے انقلابی مارکسسٹ پاکستان کی مارکسی اور انقلابی قوتوں سے مارکسی نظریات اور انقلابی شکتی افغانستان لے جا رہے ہیں۔ افغان ثور انقلاب کا دوبارہ احیا ہو گا لیکن پہلے سے کئی اعلیٰ پیمانے پر۔ سویٹ یونین ٹوٹ کر تاریخ کے کوڑے دان میں جا چکا ہے جو انقلاب کے راستے میں بڑی رکاوٹ تھی۔ راستہ صاف ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی افغانستان کو موجودہ بر بر یت سے نکا ل کر ترقی کی معراج تک پہنچا سکتا ہے۔ یہی انقلاب 27 اپریل 1978ء کو ہونے والے عظیم ثور انقلاب کے ادھورے مشن کو پورا کر ے گا۔