عالمی مارکسی رحجان کے پاکستانی سیکشن کی 33 ویں کانگریس

[رپوٹ: نمائندہ عالمی مارکسی رحجان، ترجمہ: انعم پتافی]
اس سال طبقاتی جدوجہد کی 33ویں کانگریس کا بڑی امیدوں سے انتظار تھا۔ دائیں بازو کی نواز حکومت کا اقتدار میں آنا، محنت کش طبقے، طبقاتی جدوجہد اور PTUDC کے خلاف نئے اور شدید حملوں کا عندیہ تھا۔ کوئی ایک بھی ایک ایسی ہڑتال یا احتجاج نہیں تھا جس میں کامریڈز نے مداخلت اور اکثر معرکوں پر ان کی قیادت نہ کی ہو۔ PTUDC نے نجکاری کے خلاف ملک گیر کمپئین شروع کی ہوئی ہے۔ حال ہی میں حکومت نے 65 ریاستی اداروں کی نجکاری کا اعلان کیا ہے، PTUDC نے نجکاری کے عمل کی کھلے بندوں مخالفت کی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی، جس نے اپنے دورِ اقتدار میں نجکا ری کی پالیسی کو جاری رکھا، اس نے بھی نجکاری کی مخالفت کر نے کا اعلان کردیا ہے۔
طبقاتی جدوجہد کی کانگریس کے پہلے دن کا آغازلاہور میں 8 مارچ 2014ء کوہوا۔ کانگریس کا انعقاد ایجرٹن روڈ پر واقع ایوانِ اقبال کی وسیع بلڈنگ میں ہونا تھا، جس میں 3000 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے لیکن پہلے دن ایسا ممکن نہ ہوسکا۔

ریاستی حملہ!
پاکستان میں موجود مارکسسٹوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر حکمران حلقوں اور ریاست نے بھی نظریں رکھی ہوئی ہیں۔ پچھلے دو سالوں سے انٹیلی جنس ادارے کانگریس کو خراب کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ گزشتہ برس بھی کانگریس کے آغاز سے ذرا دیر پہلے، کانگریس کے انتظامات کرنے والے کامریڈز کے موبائل فون بند کر دیئے گئے۔
اس سال کا حملہ زیادہ واضح انداز میں کیا گیا۔ کانگریس شروع ہونے سے صرف چار دن پہلے5مارچ کومنگل کے دن، ہا ل انتظامیہ نے چھ ماہ پہلے کروائی گئی ہال کی بکنگ منسوخ کر دی۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ عالمی یومِ خواتین منانے کے لیے ہال کی بکنگ کروائی گئی ہے! لیکن آخر کس نے یہ بکنگ کروائی تھی؟ مسلم لیگ کی پنجا ب کی صوبائی حکومت نے یہ بکنگ کرائی تھی۔ نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور پنجاب کے وزیرِاعلیٰ شہباز شریف نے کروائی۔ واضح طور پر یہی شخص اس کے پیچھے کار فرما تھا۔
بتائی جانے والی وجہ کا جھوٹا پن کئے جانے والے حملے سے بھی کہیں زیادہ واضح ہے۔ پاکستان میں جتنا خواتین کا استحصال ہوتا ہے اس سے زیادہ شاید ہی دنیا کے کسی اور خطے میں ہوتا ہو۔ بمشکل ہی کہیں انہیں تھوڑے بہت حقوق میسرہوں گے۔ کسی حکومت نے بھی ان کے رِستے ہوئے زخموں کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تو آخر’ شہباز شریف‘ ’پاکستان‘ میں کیسے عالمی یومِ خواتین منا سکتا ہے؟ اس نے ظاہر کیا ہے کہ وہ ترکی جانے والے جہاز پر بیٹھنے کا خواہاں ہے۔
لیکن کامریڈز نے تمام مشکلات کے سامنے ناقابلِ تسخیرعزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اپنی بھرپور کاوشوں سے متبادل جگہ کا انتظام کیا۔ انہوں نے مال روڈ پر واقع الحمرا ہال نمبر 1کی بکنگ کروائی جس میں 1400 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ طبقاتی جدوجہد نے پہلے بھی اس ہال میں اپنی کئی کانگریسیں منعقد کروائی ہیں، لیکن مارکسی قوتوں کی بڑھوتری کے سامنے اب اس ہال کی گنجائش ناکافی بن چکی ہے۔ لیکن صرف یہی متبادل موجود تھا۔ خوش قسمتی سے کانگریس کے دوسرے دن کا انعقاد ایوانِ اقبال میں ہی ہوا۔ بہر حال 2800 لوگوں کی متوقع شرکت کے لئے یہ ہال بہت ہی چھوٹا تھا، بے فکری سے کامریڈز اس نئی جگہ کو بھرتے ہوئے سیڑھیوں کے درمیان چلنے والے رستوں بیٹھے اورمرکزی سٹیج پر بھی کرسیوں کی کئی قطاریں لگائی گئیں۔ بد قسمتی سے جگہ تبدیل ہونے کی وجہ سے دن بھر کئی کامریڈز کو با ہر کھڑے ہونا پڑا اور ہال کے اندر موجود کامریڈز کے ساتھ جگہ تبدیل کرتے رہنا پڑا کیونکہ تمام لوگوں کا بیک وقت اندر بیٹھنا ممکن نہیں تھا۔ لیکن حملہ بس یہیں پر ہی ختم نہیں ہو ا، سارا دن ہال میں بجلی جاتی رہی، کبھی کچھ لمحوں کے لیے تو کبھی اس کا دورانیہ گھنٹے سے بھی زیادہ تھا۔ اس قسم کے حالات پاکستان میں ہر دن کا معمول ہیں۔ مستقل لوڈ شیڈنگ پاکستان کے لوگوں کے کئی عذابوں میں سے ایک ہے جس کا خاتمہ نظام کے خاتمے کے بعد ہی ہو گا۔ لیکن وہاں کی جانے والی لوڈ شیڈنگ غیر اعلانیہ تھی اور متبادل کے طور رکھے گئے جنریٹرکا پائپ حیرت انگیز طور پر اچانک پھٹ گیا اورہال میں موجود کامریڈز کودن میں کئی مرتبہ اندھیروں میں بیٹھنا پڑا۔ لیکن عمومی حسِ مزاح کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ لمحے ’’انقلاب انقلاب۔ ۔ ۔ سوشلسٹ انقلاب‘‘ کے نعروں سے گونجتے رہے۔

شرکت
پاکستان کے تمام حصوں سے کامریڈز نے شرکت کی۔ جن مشکل حالات میں یہاں کے کامریڈز کام کر رہے ہیں اس کا بہترین اظہار بلوچستان کی کیفیت سے ہوتا ہے، بلوچستان کے ہزارہ قبیلے سے بہت زیادہ کامریڈز نے شرکت کی، جن پر سعودی اشرافیہ کے پیسوں پر پلنے والے دہشت گرد مسلسل حملے کر رہے ہیں۔
سندھ کے تمام حصوں سمیت کراچی سے بھی کامریڈزنے شرکت کی جہا ں ہر روز خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ لاڑکانہ اور دادو سمیت سندھ کے اندرونی دیہی علاقوں سے بھی کامریڈز نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ کراچی سے مہاجر، سندھی، پشتون سمیت تمام قومیتوں کے کامریڈز نے شرکت کی جو کہ اپنے آپ میں پرولتاری عالمگیریت اور یکجہتی کی شاندار مثال ہے۔
ایک اور متنازعہ علاقے جنوبی پختونخواہ سے وزیرستان، بنوں اورڈی آئی خان سے کثیر تعداد میں شرکت ہوئی جہاں امریکی ڈرونز آئے دن کئی لوگوں کی جان لیتے رہتے ہیں۔ شمالی پختونخواہ سے پشاور، سوات، ملاکنڈ، بونیر سمیت کئی علاقوں سے کامریڈز نے شرکت کی۔ ایبٹ آباد اور اس کے ملحقہ علاقوں، جہاں پر امریکیوں نے اسامہ بن لادن کو مارا تھا، سے بھی شرکت ہوئی۔
پاکستانی مقبوضہ کشمیر جہاں طبقاتی جدوجہد کی بہت مضبوط بنیادیں موجود ہیں، وہا ں سے بہت بڑی تعداد میں کامریڈز نے کانگریس میں شرکت کی۔ اور اس سال حتمی طور پر ہم کامریڈ یوسف تاریہگامی کی شرکت کروانے میں بھی کامیاب ہو گئے جو کہ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر سے (CPI(M کے سنٹرل کمیٹی کے ممبر اور ممبر پارلیمنٹ بھی ہیں۔ شمالی پنجاب سے راولپنڈی، ٹیکسلا، واہ، اٹک، اسلام آباد اور دیگر شہروں سے مندوبین شریک ہوئے۔ فیصل آباد(لائل پور)، گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ اور وسطی پنجاب کے کئی دیگر صنعتی شہروں سے کامریڈز شریک ہوئے۔ ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور سے بہت بڑی تعداد میں کامریڈز نے شرکت کی۔
جنوبی پنجاب سے ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان، رحیم یا رخان، لیہ، مظفر گڑھ، راجن پور سمیت تمام ڈسٹرکٹس سے مندوبین نے شرکت کی۔

ٹریڈیونینز
کانگریس میں ریلوے لیبر یونین، ریلوے ورکرز یونین، پی آئی اے پیپلز یونٹی (سی بی اے)، پاکستان پوسٹ کی نوپ، سٹیل مل کی پیپلز یونین، واپڈا کی ہائیڈرو یونین، آئل اور گیس کے شعبے سے OGDCL کی ورکرز یونین نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ پنجاب کی ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن، KESC کی لیبر یونین، پاکستان کے ہسپتالوں کے مزدوروں کی یونین، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کشمیر سے پروفیسر ز اور لیکچررز ایسوسی ایشن، پاکستان بھر کی جرنلسٹ یونینز، پنجاب یونیورسٹی کی ٹیچرز یونین، سٹیٹ بینک سمیت، حبیب بینک، نیشنل بینک، الائیڈ بینک، PTCL ورکرز فیڈریشن، پاکستان ٹیلی ویژن ورکرز یونین کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔

طلبہ تنظیمیں
ٹریڈ یونینز اور مزدور تنظیموں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں نوجوانوں اور طلبہ تنظیموں نے کانگریس میں شرکت کی۔ جن میں جموں کشمیر سے NSF، PSF، پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن، BSO، پشتون سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور انقلابی کونسل فیصل آباد یونیورسٹی شامل ہیں۔ ملک کی تمام اہم یونیورسٹیوں، میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز سے طلبا کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جس میں پنجاب یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، NCA لاہور، پشاور اور گومل یونیورسٹی و میڈیکل کالج ڈی آئی خان، مالا کنڈ اور AJK یونیورسٹی مظفرآباد، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، اصغر مال اور گورڈن کالج راولپنڈی، یونیورسٹی آف ایرڈ ایگریکلچر، UETٹیکسلا، اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد شامل ہیں۔ یونیورسٹی آف فیصل آباداور G.Cیونیورسٹی، BZU ملتان، اسلامیہ یونیورسٹی اور QMC بہاولپور، شیخ زید میڈیکل کالج رحیم یار خان، شاہ لطیف یونیورسٹی خیر پور، سندھ اور کراچی یونیورسٹی، بلوچستان یونیورسٹی سمیت کئی دیگر تعلیمی اداروں سے طلبا نے شرکت کی۔

کامریڈز وہاں کیسے پہنچے؟
کوئٹہ سے لاہور پہنچنے میں چوبیس گھنٹے لگتے ہیں، لیکن بلوچستان کے کئی اندرونی علاقوں سے 48 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح لاہور آنے کے لیے سندھ کے اندرونی علاقوں سے بڑے شہروں تک پہنچنا بھی کسی مصیبت سے کم نہیں ہے۔
دوسری طرف مہنگائی کی حالیہ لہر سے کئی مرتبہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے کانگریس کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ لوڈ شیڈنگ اور بحران کی وجہ سے بند ہونے والی انڈسٹری سے لاکھوں لوگ بیروزگار ہوئے ہیں، اس وجہ سے بھی کانگریس کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک بھرسے خواتین بڑی تعداد میں کانگریس میں شریک ہوئیں، جبکہ خواتین کو لمبا سفر کرنے کے لیے اجازت ملنا بہت ہی مشکل بات ہے۔ ان مشکلات کے باوجود بھی خواتین کی بڑی تعداد کانگریس میں وقت پر پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ خواتین مندوبین میں طلبا، نرسز، ٹیچرز، لیڈی ہیلتھ ورکرز، ڈاکٹرز، ہسپتال ملازمین، صحافی اور گھریلو خواتین شامل تھیں۔
اس کے علاوہ سندھ، جنوبی پنجاب اور پختونخواہ سے دیہی مزدوروں اور ان کی قیادت نے بھی کانگریس میں شرکت کی۔
کامریڈ یوسف تاریہگامی کے علاوہ انٹرنیشنل مندوبین میں لندن میں موجود IMT کے انٹر نیشنل سیکریٹریٹ سے کامریڈ ایلن ووڈز، ورکرز انٹرنیشنل لیگ (IMT کا امریکی سیکشن) کے مرکزی سیکرٹری کامریڈ جان پیٹر سن، سویڈن سے کامریڈ Ylva Vinberg اور Stefan Kangas شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ دس افغانی کامریڈز نے بھی شرکت کی جو کہ سبھی کے لیے ایک شکتی کا باعث بنے۔
اس کے علاوہ کانگریس کی تیاریوں کے سلسلے میں دو ماہ پہلے سے تین مجوزہ دستاویزات، پاکستان تناظر، عالمی تناظر اور تنظیم بھی کتابی شکل میں شائع کیے گئے جن کے گرد کانگریس کے سیشن ہوئے۔ اس علاوہ ایلن ووڈز کی کتاب ’’مارکسزم اور امریکہ‘‘ کا اردو میں ترجمہ کرکے شائع کی گئی۔

پہلا دن
کئی کامریڈز کے انقلابی شاعری پڑھنے اور کامریڈ لال خان کے تعارفی کلمات کے بعد کانگریس کا پہلا سیشن شروع ہوا جس میں کامریڈ ایلن ووڈز نے عالمی تناظر پر بات رکھی۔ ریاستی حملے کے باوجود بھی کامریڈ ایلن کی آمد پورے ہال کا ماحول انتہائی پُر جوش ہوگیا۔ کامریڈ ایلن نے پچھلے بارہ مہینوں میں دنیا بھر میں ہونے والی محنت کشوں اور عوام کی شاندار تحریکوں پر روشنی ڈالی جن میں ترکی، برازیل اور ایک کروڑ ستر لاکھ مصری لوگوں نے انتہائی قابلِ نفرت مورسی حکومت کا تختہ ایسے الٹا دیا’’جیسے انسان کسی مچھر کو مسل دیتا ہے۔ ‘‘
عالمی طاقتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کامریڈ نے کہا کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ ایک بڑی معاشی اور عسکری قوت کے بلبوتے پر واحدعالمی طاقت کے طور پر ابھرا، اتنی وسیع طاقت کے ساتھ بڑے غرور نے بھی جنم لیا، لیکن اب یہ طاقت اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکی ہے۔ جس کااظہار یوکرائن کے مسئلے پر بننے والے امریکہ اورروس کے تضاد سے ہوتا ہے۔ جہاں روس، یوکرائن پر اپناپرانااثر و رسوخ بحال کرنے میں کامیاب ہوگیااور امریکہ اور یورپی یونین اس کیفیت پر لاچارنظر آئے۔ ایلن نے یورپ اور امریکہ کے معاشی بحران پر روشنی ڈالی کہ کس طرح یہ بحران اس نظام کا گہرا ترین بحران ہے۔
کامریڈ نے قومی سوال پر بھی تفصیل سے بات رکھی اور بتایا کہ کس طرح حقیقی جنگ صرف طبقاتی جنگ یعنی امیر اور غریب کی جنگ ہے۔ سوالوں اور کنٹری بیوشنز کے بعد کامریڈ نے سیشن کا سم اپ کیا۔
دوپہر کے کھانے کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا، جس میں پاکستان تناظر پر کامریڈ لال خان نے لیڈ آف دیتے ہوئے واضح کیا کہ کس طرح اپنے آغاز کے 67 سال بعد بھی پاکستان پہلے بھی زیادہ بد ترین کیفیت میں مبتلا ہے۔ ریاست شدید خلفشار کا شکار ہے اور اس کے ادارے کس طرح آپس میں ہی برسرِ پیکار ہیں۔ ریاستی ڈھانچہ تنزلی کی طرف بڑھ رہا ہے اوراس میں مسلسل ٹوٹ پھوٹ جاری ہے۔
مختلف علاقوں میں فوجی طاقتوں سے چھ اندرونی جنگیں جاری ہیں جن کی وجہ سے ملک میں خونی تضادات جاری ہیں۔ دہشت گردی اور خودکش حملے روز کا معمول بن چکے ہیں۔ کامریڈ نے واضح کیا کہ کس طرح ملکی معیشت کا دو تہائی حصہ کالے دھن پر مبنی ہے، جو کہ کُل روزگار کا 78 فیصد پیدا کرتا ہے جس میں کنٹرکٹ لیبر کی وجہ سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے اور تنخواہیں سکڑتی چلی جا رہی ہیں۔ ریاستی ایجنسیوں کے اہم حصے اس کالے دھن کے ارتکاز میں مجرمانہ کردار ادا کرتے ہیں۔
ملک کی 80 فیصد آبادی غیر سائنسی طریقہ سے علاج کروانے پر مجبور ہے اور 78 فیصد آبادی غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، تقریباََ آدھے سے زیادہ آبادی اَن پڑھ ہے، ہر سال 1184 بچے غذائی قلت اور قابل علاج بیماریوں کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ 165000 خواتین ہر سال زچگی کے دوران اپنی زندگی ہار جاتی ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنی ساکھ گنوا چکی ہیں اورنام نہاد جمہوریت نے آمریت سے زیادہ بڑے پیمانے پر عوام پر معاشی اور سماجی حملے کئے ہیں۔
مذہبی ردعمل کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اور دایاں بازو کسی بھی طرز کی مزدوروں اور نوجوانوں کی تحریکوں کو کچلنے کے درپے ہے۔ لیکن یہ صورتحال زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی اور جلد یا بدیر انقلابی کیفیت جنم لے گی۔ یا تو PPP بہہ جائے گی یا پھر طبقاتی جدوجہد کی انقلابی لہریں اس میں سے لمپن بورژوازی اور جاگیرداروں کو بہا لے جائیں گی جنہوں نے اس پر دو دہائیوں سے قبضہ کر رکھا ہے۔ سیشن کی بحث اتنی سحر انگیز تھی کہ پختونخواہ سے تیرہ سال کی ایک کامریڈ خکلاح کو بولنے پر مجبور کر دیا، کامریڈ نے پاکستان میں موجود خواتین کی صورتحال کے متعلق گفتگو کی کہ کس طرح ان کے علاقے میں بارہ، بارہ سال کی لڑکیوں کو جبری شادیوں کے ذریعے باپ کے قید خانے سے شوہرکے قید خانوں میں غلاموں کی طرح منتقل کیا جاتا ہے۔ کامریڈ نے وضاحت کی کہ کس طرح یہاں خواتین دوہرے تہرے استحصال کا شکار ہیں۔ اس نے زور دیا کہ خواتین کی آزادی کی لڑائی کو سوشلسٹ انقلاب کی لڑائی سے جوڑنا ہوگا۔
سیشن کے سم اپ کے بعد شام کے وقت یوتھ ورک، PTUDC اور خواتین کے کام پر کمیشن منعقد ہوئے۔ جن میں کام کرنے کے مختلف طریقہِ کار اور حکمتِ عملیوں پر بحث کرنے کے بعد انہیں طے کیا گیا۔

دوسرا دن
 دوسرے دن کا پہلا سیشن ’مارکسزم اور امریکہ‘ پر تھا۔ جس پر کامریڈ جون پیٹرسن نے لیڈ آف دی جو کہ امریکہ سے کسی بھی پاکستانی کانگریس پر آنے والے پہلے کامریڈ تھے۔
کامریڈ نے لیڈآف دیتے ہوئے امریکہ کے متعلق کئی ابہاموں اور غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے صورتحال کو واضح کیا۔ کامریڈ نے بتایا کہ امریکہ کی کتنی شاندار انقلابی تاریخ اور ایک وسیع اورانتہائی طاقتور محنت کش طبقہ موجود ہے اور امریکہ کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے وہی بنیادی مسائل ہیں جو کہ پاکستان میں موجود محنت کشوں اور نوجوانوں کے ہیں۔ امریکی سامراج نے پاکستان میں انتہائی وحشی کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف مصائب میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اموات میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان کے ملحقہ علاقوں میں ہر روز بمباری اور حملوں میں لوگ مر رہے ہیں۔ بظاہر اس کاجوازنام نہاد’’ دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘‘کو بتایا جاتا ہے لیکن بڑی خاموشی سے طالبان سے اپنے ماضی کے تعلقا ت کے متعلق بات کرتے ہیں، جوکہ اب لوگوں میں خوف اور دہشت پھیلا رہا ہے، جس سے صرف عام پاکستانی ہی مرتے ہیں۔ طالبان خود امریکی سامراج کی پیداوار تھے۔ Frankenstein کے بھوت کی یہ بھی اپنے مالک کے قابو سے باہر ہوچکے ہیں اور اب خطے اور دنیا کے لیے دردِ سر بن چکے ہیں۔
امریکی سامراج کی طاقت اس کی مضبوط معاشی بنیادکی وجہ سے تھی۔ لیکن اب جنگ کے بعد کا معاشی ابھار دم توڑ چکا ہے اور سامراجی طاقت بھی تنزلی کا شکار ہو چکی ہے۔ ’امریکی خواب‘ کی مادی بنیادیں ختم ہو چکی ہیں اور اس کے ساتھ ہی خاص کر نوجوانوں میں سوشلزم دوبارہ ابھر رہا ہے۔
کامریڈ نے وضاحت کی کہ سرمایہ داری نظام کے دباؤ کی وجہ سے امریکہ میں محنت کشوں لیے طاقت میں آنا زیادہ مشکل ہے لیکن ایک بار جب سوشلزم کے لیے معروضی حالات موافق ہو گئے تو بہت تیزی سے وہاں سوشلزم کی تعمیر کے راستے بن جائیں گے۔ امریکہ میں سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی انسانیت کی نجات ثابت ہو گی۔ صرف وہاں انقلابی قیادت درکار ہے جس کی تیاری امریکی کامریڈز کر رہے ہیں۔
کامریڈ یوسف تاریہگامی نے سیشن کے دوران انڈیا اورکشمیر کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اب امریکہ سمیت دنیا بھر کے محنت کشوں کے ایک ہی مسائل ہیں جنہیں صرف سوشلسٹ انقلاب ہی حل کر سکتا ہے۔
دوسرے دن کا دوسرا سیشن تنظیم پر مبنی تھا، جس پر کامریڈ آدم پال نے لیڈآف دی۔ جس میں انہوں نے بر صغیر کے لوگوں کے سرمایہ داری کے پیدا کردہ سلگتے ہوئے مسائل اور تنظیم کے مختلف شعبہ جات کی صورتحال اور انہیں بہتر کرنے کے طریقہ کار پر بات رکھی۔ کامریڈ نے واضح کیا کہ اصل کام ابھی شروع ہوا ہے اور یہ کوئی آسان راستہ نہیں ہے، لیکن جدوجہد کا صرف یہی واحد راستہ ہے۔
اگلا سیشن انٹرنیشنل رپورٹ پر مبنی تھا جس میں سویڈش سیکشن سے آئی ہوئی کامریڈ Ylva Vinberg نے IMT کے دنیا بھر میں دیگر سیکشنز میں ہونے والے شاندار کام کی رپورٹ رکھی۔ کامریڈ نے سویڈن سے لے کر یونان، امریکہ سے لے کر اٹلی اور برطانیہ تک میں ملنے والی شاندار کامیابیوں کا بتایا۔ تمام کامریڈز خاص طور پر نوجوانوں کے کام میں ملنے والی کامیابیوں پر متوجہ ہوئے جو کہ پاکستانی سیکشن کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ صرف دو سیکشنز کا ہی نام لیں تو امریکی اور کینیڈین سیکشن نے نوجوانوں کے کام میں نئی راہیں بنائی ہیں۔ ٹریڈیونین محاذ پر Der Funke کے سویڈش کامریڈز نے نئے کام کرنے والے ورکرز میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن سب سے اہم کامیابی برطانوی سیکشن میں سوشلسٹ اپیل کے کامریڈز نے طلبا کے کام میں حاصل کی ہے جنہوں نے مارکسسٹ سٹوڈنٹس فیڈریشن کا ایک ملک گیر سکول منعقد کرایا، جس کی بیس سے زیادہ مقامی مارکسسٹ سٹوڈنٹس سوسائیٹیز ہیں۔
رپورٹ کے دوران تمام حاصلات اور یہاں تک کہ چھوٹی کامیابی پر بھی کامریڈز تالیاں بجاتے رہے جو کہ اس بات کا اظہار ہے کہ کامریڈز چھوٹی مگر اہم ابتدائی کامیابیوں کی اہمیت سے واقف ہیں اور بڑی کامیابیوں کے لیے بھی تیار ہیں۔ معروضی اور اندرونی عناصر کی مشکلا ت کے باوجود بھی طبقاتی جدوجہد اور PTUDC کی کامیابیاں دنیا کے ہر خطے کے انقلابیوں کے لیے مثال ہیں۔ یہ وہ کامیابیاں ہیں جن کاذکر خبروں میں نہیں مل سکتا۔ جیسا کہ ایک ہندوستان سے آئے کامریڈ نے کہا کہ میں واپس جا کہ کیسے یقین دلاؤں گا کہ میں نے کانگریس کے دوران کیا دیکھا۔ ۔ ۔ پاکستان میں قابلِ فخر انقلابی روایات موجود ہیں۔
بشمول طالبان کے وحشی حملوں کے، دشمنوں کا کوئی بھی حملہ کامریڈز کے عزم کو کمزورکرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے بر خلاف حملوں نے تنظیم کو اور بھی مضبوط کیا ہے۔ جیسے جیسے دوسرا دن اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا تو ہر کوئی اب تک کی حاصلات پر فخر محسوس کر رہا تھا اور آنے والی کامیابیوں کے لیے پُر عزم نظر آرہا تھا۔
کامریڈ ایلن ووڈز نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ ’’کیا پاکستان میں کہیں اوراتنے پُر عزم اور پُر امید لوگ دیکھنے کو ملیں گے! اصل پاکستان یہیں اس ہال میں موجود ہے۔ اصل پاکستان یہاں کے مزدور اور کسان ہیں جنہوں نے اس سماج کی دولت کو تخلیق کیا ہے۔ ‘‘
کانگریس کا اختتام فضا میں لہراتے سرخ جھنڈوں اورولولہ انگیز آوازوں میں انٹر نیشنل گا کر ہوا۔ عالمی مارکسی رحجان کا پاکستانی سیکشن طبقاتی جدوجہد پاکستان میں بائیں بازو کی واحد سنجیدہ انقلابی طاقت ہے اوریہ بہت جلد ہی اس پوزیشن میں ہو گا کہ محنت کش طبقے کو قیادت فراہم کرتے ہوئے اسے سوشلسٹ انقلاب کی جانب لے جاسکے۔ اس کا مطلب ہمارے سامنے بڑے چیلنجز ہیں لیکن غیر معمولی و شاندار امکانات بھی موجود ہیں۔

عالمی انقلاب، زندہ باد!
محنت کش طبقہ، زندہ باد!
سوشلزم، زندہ باد!

متعلقہ:
کانگریس 2014ء تصاویر میں