2007ء میں آن کر پاکستان پر مسلط ایک نیم آمریت اورنیم جمہوریت کا ایک فرسودہ سیٹ اپ لڑکھرانے لگا تھا۔سماج میں ہونے والی نسبتاً تیز شرح نمو معاملات کو سلجھانے کی بجائے اس سرمایہ دارانہ غیر مساوی طرز معیشت سے پیدا ہونے والے تضادات کو بھڑکا رہی تھی۔سماج میں ابھرنے والا اضطراب‘ ہلچل اور بے چینی ریاست اور سیاست کے تضادات میں بھی شدت لا رہے تھے۔ریاست کے اہم ادارے متصادم ہونے کی جانب بڑھ رہے تھے۔ان کی ایک شکل عدلیہ کی بحالی کی وکلا تحریک تھی۔اس تحریک کے ’غیر سیاسی‘ ہونے کے باوجود اس میں ایک عجیب و غریب نظریاتی ابہام سامنے آیا جب روایتی دائیں اور بائیں بازو کی پارٹیاں اور متحارب نظریات کے ظاہری طور پر حامل افراد اور رجحانات عدلیہ کی بحالی کے مسئلہ پر اس تحریک میں اکٹھے شریک تھے۔لیکن اس تحریک کا عوام کے بنیادی مسائل غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور ذلت سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی یہ مسائل ان کے مطالبات میں شامل تھے۔لیکن ظاہری سکوت کے نیچے سلگنے والے لاوے کا درجہ حرارت اور بھڑکنے لگا تھا۔ایسے میں 18 اکتوبر کو بینظیر بھٹو جب ریاست اور مغربی سفارتکاری کے تشکیل دیے ہوئے معاہدوں کے ساتھ کراچی ہوائی اڈے پر اتریں تو وہاں 20 لاکھ سے زائدعام محنت کش اور غریب انسانوں کا ایک جمِ غفیر جمع ہو گیا تھا۔کئی دہائیوں بعد اتنا بڑا اجتماع ایک مرتبہ پھر امڈ آیا تھا۔صرف عددی اعتبار سے اس کا دیو ہیکل ہونا ہی ان بھوکے‘ نادار اور محنت کرنے والے انسانوں میں ایک نیا جذبہ ایک نیا اعتماد، ایک نئی امنگ اور ایک نئی جرات کا ذریعہ بن گیا۔ یہ نہ صرف حکمرانوں اور ان کے تجزیہ نگاروں کے لیے حیران کن تھا بلکہ وہ قیادت جس کے استقبال کے لیے یہ عوام جوق در جوق چلے آئے تھے بھی ششدر رہ گئی تھی۔یہ عوام بے نظیر کی جھلک دیکھنے کے لیے کم اور اس کو اپنی ذلتوں اور رسوائیوں کی ایک جھلک دکھلانے زیادہ اور ان ذلت آمیز حالات زندگی کو بدلنے کی جستجو لے کر آئے تھے۔جہاں قیادت کی تقریروں کا عوام کے شعور پر کسی حد تک اثر ہوتا ہے وہاں عوام کے اس بحر کی خاموش سر سراہٹ بھی لیڈروں کے ذہنوں اور شعور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔اس خاموش مگر ٹھوس اور جاندار دباؤ نے تقریروں اور بیانات کو زیادہ ریڈیکلائز کرنا شروع کر دیا تھا۔روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ ایک طویل عرصے کے بعد دوبارہ گونج اٹھا تھا اور اس کی جرس شہروں‘ دیہاتوں‘ گلیوں اوربازاروں میں سنائی دینے لگی تھی۔ حکمران دہل گئے۔ پہلے ریاست کے پروردہ رجعتی حصے نے بم دھماکوں کے ذریعے برق رفتاری سے اس تحریک کو کچلنے اور منتشر کرنے کی کوشش کی۔لیکن دو سو جانیں گنوا کر بھی یہ تحریک آگے بڑھتی گئی۔جوں جوں یہ کارواں شمال کی جانب بڑھنے لگا ہر شہر ہر قصبے میں اس نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کی امید اور آرزوبھی شدت اختیارکرنے لگی۔
حکمرانوں کی ریاست اور سیاست بوکھلاہٹ کا شکار ہونے لگی۔یہ انتخابی مہم ایک حریت پسند تحریک کی شکل اختیار کر رہی تھی۔جب تمام دوسرے حربے ناکام ہو گئے تو ریاست اور اس کے غیر سیاسی ایکٹر جو انتہا پسند مذہبی جنون اور رجعتیت کی نمائندگی کرتے ہیں انہوں نے اس زلزلے کے مرکز (Epicentre) جس کے گردمحنت کشوں کا طبقہ اپنی روایت کو پھر سے ایک متحرک اور انقلابی شکل دینے لگا تھاپر حملہ کیا۔ مشرف کے ساتھ پیپلز پارٹی کی واشنگٹن اور لندن کی وساطت سے ہونے والی ڈیل کے پرخچے اڑ گئے تھے۔عام لوگ جمہوریت آئین اور حکمران عدلیہ کے مرحلو ں کو تیزی سے پار کر رہے تھے۔وہ ہر رکاوٹ اور جبر کو توڑ کر پار کرنے کی شکتی سے لیس ہونے لگے تھے۔اس خوف اور ڈر نے حکمرانوں کو جس پریشانی اور گھبراہٹ کا شکار کردیا اس سے انہوں نے وہ خونی وار کیا جس میں بے نظیر کو 27 دسمبر کی خون آشام شام کو قتل کر دیا گیا۔امریکی ایجنٹ جو اس مصالحت (Reconciliation) اور مفاہمت کی تھیوری کے تحت پاکستان کے عوام کو پھر ان کی روایتی قیادت کے ذریعے اس نظام سے مصالحت کروانے کی پالیسی پر چل رہے تھے وہ اس سانحہ میں محض ششدر تماشائی بنے رہے۔اس بھیانک قتل کے خلاف پورے ملک میں عوامی غیض و غضب ایک بجلی کی طرح کوندا لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت میں پہلے ہی حکمران طبقات کے ماہرین اور سیاست دان اپنا تسلط قائم کر چکے تھے۔اس طوفانی بغاوت کو کسی انقلابی راستے پر لے جانے اور اس کو منظم و متحرک کرنے کی بجائے انہوں نے انتقام کا نام انقلاب کی بجائے جمہوریت رکھ دیا۔یہاں انہوں نے ایک سماجی اور اقتصادی حقیقت کو ایک سیاسی نام دے دیا۔سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ایک اور انقلابی خطرہ ٹل گیا۔عوام پر غربت، مہنگائی، قلت اور محرومی کے تابڑ توڑ حملے کیے گئے جس سے ان کا دکھ اور رنج جو غصے‘ بغاوت اور انقلاب میں تبدیل ہو سکتا تھا دکھ اور مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈبو دیا گیا۔ان کے زخموں پر مہنگائی اور بیروزگاری کا نمک چھڑکا گیا۔آج پانچ سال بعد عوام کی حالت زار کہیں زیادہ بد تر ہو گئی ہے۔لیکن محنت کش بھی یونان کی دیو مالائی داستانوں کے دیوتا پرومیتھیز کی طرح ہوتے ہیں۔وہ اس طبقاتی جنگ میں باطل خداؤں سے آسمانوں پر ٹکراتے ہیں۔گھائل ہو کر زمین پر آ گرتے ہیں۔زمین جو ان کی ماں ہے اس سے شکتی لے کر پھر لڑتے ہیں اور آخر کاران باطل حکمرانوں کو شکست دے کر ہی رہتے ہیں۔آج طبقہ ایک سیاسی بے حسی و بد گمانی کا شکار ہے وہ اس سیاست‘ صحافت ‘معیشت اور ریاست سے اکتائے ہوئے ہیں۔اس ذلت آمیز زندگی اور اذیتوں کو وہ کب تک برداشت کریں گے؟جلد یا بدیر وہ پھر ایک تحریک میں ابھریں گے۔پچھلے وار سے انہوں نے جو تجربات اور اسباق حاصل کیے ہیں ان میں ان کے ساتھ غداری کرنے والے لیڈروں کے اصل چہرے اور کرداربھی بے نقاب ہوئے ہیں۔
اس مرتبہ جو تحریک ابھرے گی وہ 2007ء سے کہیں زیادہ حریت پرست، پر استقلال، پر عزم اور جرات مندانہ ہو گی۔اگر ایک موضوعی مارکسی قوت معیار ی اور مقداری حوالے سے موجود ہوئی تو پھر اس بغاوت کو ایک انقلاب سے ہمکنار ہونے اور ایک سوشلسٹ فتح حاصل کرنے سے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی روک نہیں سکے گی، کچل نہیں سکے گی۔بلکہ یہ استحصال انسان دشمن متروک نظام‘ سرمایہ داری پاش پاش ہو کر رہ جائے گا۔
متعلقہ:
دسمبر27 کے زخم کب بھریں گے؟