ثور انقلاب، افغانستان کی تاریخ کا درخشاں باب

| تحریر: غفران احد ایڈوکیٹ |

سیاسی نظریات اور ان پر مبنی نظام کی کامیابی کا انحصار ان کی عوامی حمایت پر ہوتا ہے اقلیت کا نافذ کردہ سیاسی نظام زمانہ امن میں تو قائم رہ سکتا ہے مگر خانہ جنگی اور انتشار کی صورت میں وسیع تر عوامی حمایت نہ ہونے کے باعث یہ عدم استحکام کا شکار ہوجاتا ہے۔ پھر فیصلہ متصادم قوتوں کی اخلاقی یا جمالیاتی برتری پر نہیں بلکہ طاقت کے توازن پر ہوتا ہے سیاسی، فوجی اور سٹرٹیجک برتری کامیابی کا تعین کرتی ہے اندرونی اور بیرونی حوالوں سے کمزور فریق کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ نتیجتاً جیت طاقتور کی ہوتی ہے خواہ اس کی اخلاقی بنیادیں کچھ بھی ہوں۔
افغانستان میں اس وقت امریکہ، پاکستان، چین، ناٹو، ہندوستان، ایران، سعودی عرب اور یورپی یونین اپنے اپنے مفادات کے لئے سرگرم عمل ہیں اور ایک دوسرے سے تعاون کرکے حالات کو کنٹرول کرنے کے بجائے ان تضادات کی زد میں آکر آپس میں شدید تناؤ، شکوک و شبہات اور ایک دوسرے کے خلاف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

سامراجی سرمایہ کاری اور مالی فوائد، حسد، لالچ اور اپنے اپنے اثر ورسوخ بڑھانے کا باہمی ٹکراؤ بہت زیادہ واضح ہے۔ بڑھتی ہوئی غربت، محرومی، بے کاری، دہشتگردی، بدعنوانی اور بد انتظامی نے افغان سماج میں شدید انتشار پیدا کیا ہے نفرت کی انتہا ہوچکی ہے حکمران سامراجی پشت پناہی کی اس حکمرانی میں کسی قسم کی بہتری کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ بلکہ حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں موجودہ نظام کے اندر کوئی حکومت بہتری اور استحکام لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے سماجی، معاشی اور سیاسی حالات میں کافی قدریں مشترک ہیں۔ پختونخواہ اور افغانستان کی مشترکہ زبان اور ثقافت ہے، ڈیورنڈ لائن کے آر پار غربت، بدعنوانی، بد انتظامی، دہشتگردی اور خون ریزی اور حکمرانوں کی بے بسی نے عوام کو ایک متبادل سوچ پر مجبور کیا ہوا ہے۔ اسلئے افغانستان اور پاکستان میں اب دو علیحدہ انقلابات کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ سیاست سے لیکر معیشت تک گڈ مڈ ہوچکے ہیں تو دونوں ممالک میں بھلا تبدیلی اور نجات علیحدہ علیحدہ کیسے وقوع پذیر ہوسکتی ہے۔

انقلابی عوامی ملیشیا کی خواتین

آج 34 سال بعد بھی افغانستان میں ثور انقلاب کی کچھ یادیں اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ عورتوں کی خرید وفروخت جیسی قبیح اور غیر انسانی سرگرمی پر پابندی انقلابی کونسل کا پہلا اعلامیہ اور زمینداروں اور ساہو کاروں کے سود در سود قرضوں کا خاتمہ، جاگیرداری کا خاتمہ اور تین لاکھ مربع بے زمین کسانوں میں تقسیم کرنا، مفت تعلیم اور علاج معالجہ کی سہولتوں کی فراہمی جیسے اقدامات غریب افغان محنت کش کیسے بھول سکتے ہیں۔
افغانستان میں ثور انقلاب کو 34 سال گزرچکے ہیں وہاں نمودار ہونے والے 27 اپریل 1978ء کے حالات نے نہ صرف افغان سماج کو جھنجھوڑا بلکہ ایک نئی تاریخ رقم کی۔ افغانستان وہ واحد دروازہ ہے جس سے بیرونی حملہ آور بار بار گزر کر ہندوستان میں داخل ہوئے اور نہ صرف وادی سندھ بلکہ گنگا، جمنا کے میدانوں کی تہذیب کو بھی ملیا میٹ کیا۔ ان بیرونی حملہ آوروں نے افغانستان کو تاراج کیا اور اسے آتش وخون کے سیلاب میں غرق کیا۔ لیکن کسی بھی بیرونی حملہ آور نے یہاں قدم نہیں جمائے انگریزی سامراج نے اپنی فارورڈ پالیسی کے اُصول "Gold or Gun” کی بنیاد پر بھی افغان مزاحمت کا مقابلہ نہ کرسکا۔
افغانستان کی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کا قیام 1965ء میں عمل میں آیا اور نور محمد ترکئی اس کے پہلے سیکرٹری جنرل بنے ببرک کارمل، سلطان علی کمشند، دستگیر پنج شیری، ڈاکٹر صالح محمد زیرے، شہر اللہ شاہ پور، طاہر بدخشی پولیٹیکل بیورو کے ممبر تھے۔

ببرک کارمل

ستمبر 1965ء میں اولسی جرگہ کے لئے انتخابات ہوئے بائیں بازو پر ظاہر شاہ کی پابندیوں کے باوجود ببرک کارمل، ڈاکٹر اناہیتا رطب زاد، نور محمد نور، اور فیضان حق فیضان کامیاب ہوگئے، نور محمد ترکئی کو شکست ہوگئی، اکتوبر 1965ء میں نئی پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد ہواابتدا ہی سے بائیں بازو کے لوگوں نے اولسی جرگہ میں اپنا لوہا منوالیا۔ ظاہر شاہ کے وزیر اعظم ڈاکٹر یوسف کو حکومت کی مختلف کوتاہیوں کے لئے بائیں بازو کیطرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اُن میں سب سے زیادہ بولنے والا نوجوان پارلیمنٹیرین ببرک کارمل تھا۔ اس وقت کے انڈین سفیر اے این ملک اس نوجوان پارلیمنٹرین سے بڑا متاثر تھا اس نے حکومت ہندوستان کو اپنے تاثرات ایک نوٹ کے شکل میں بھیجے۔ ماسکو میں اس وقت ہندوستان کے سفیر اندر کمار گجرال جو بعد میں ہندوستان کے وزیراعظم بنے، ببرک سے متعارف ہوئے۔

25 اکتوبر 1965ء کو جب پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھا تو پارلیمنٹ کے باہر افغان طالب علموں اور اس کے اندر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اراکین نے زیادہ اصلاحات، تعلیمی سہولتوں اور اداروں کو جمہوری بنانے کا مطالبہ کیا ظاہر شاہ نے نہتے مظاہرین پر گولیاں برسانے کا حکم فوج کو دیا۔ کم سے کم چھ مظاہرین مارے گئے اور 180 کے قریب زخمی ہوگئے وزیراعظم کے عہدے سے ڈاکٹر یوسف نے استعفیٰ دیا اور اس کی جگہ محمد ہاشم میوندوال کو وزیراعظم مقرر کیا گیا طالب علموں کے کچھ مطالبات تسلیم کئے گئے لیکن سیاسی جماعتوں پر پابندی برقرار رہی البتہ 1965ء میں پریس کے قوانین بنائے گئے جن سے اخبارات کو تھوڑی آزادی ملی۔ دوسری پارلیمنٹ کا انتخاب 1969ء میں ہوا ظاہر شاہ کی حکومت نے کھلی مداخلت کرکے ’’ناپسندیدہ عناصر‘‘ کو پارلیمنٹ سے باہر رکھنے کی بھر پور تیاری کی تھی تاکہ بائیں بازو کے اور ترقی پسند امیدوار کامیاب نہ ہوسکیں نور محمد ترکئی پھر ہار گیا لیکن ببرک کارمل اور حفیظ اللہ امین منتخب ہوگئے۔ بائیں جانب جھکنے والا سابقہ وزیراعظم ہاشم میوندوال جو پروگرسیو ڈیموکریٹس کا لیڈر بن چکا تھا بھی الیکشن ہار گیا بائیں بازو کی پارلیمنٹ میں کم تعداد افغانستان کی P.D.P.A کی پھوٹ کی آئینہ دار تھی۔ پارٹی میں پڑنے والی پھوٹ نے P.D.P.A کی تنظیم اور کام میں کمزوری پیدا کی یہ پھوٹ پارٹی لیڈر شپ کے نظریاتی ابہام اور نظریاتی ناپختگی کی وجہ سے رونما ہوئی تھی۔ خلق عوامی جمہوری انقلاب کی دعویدار تھی جبکہ پرچم قومی جمہوری انقلاب کی علمبردار تھی اس پھوٹ کی وجہ سے 1965ء کی پارلیمنٹ میں تعداد چار سے گھٹ کر 1969ء کی پارلیمان میں دو ممبران تک آگئی یعنی ببرک کارمل (پرچم) اور حفیظ اللہ امین (خلق ) لیکن وہ دونوں علیحدہ علیحدہ پلیٹ فارم سے منتخب ہو کر آئے تھے۔

نور محمد ترکئی

بٹوارے کے بعد پی ڈی پی اے کے دونوں دھڑوں خلق اور پرچم کی علیحدہ علیحدہ قیادت سامنے آگئی خلق کی قیادت نور محمد ترکئی کررہے تھے۔ پی ڈی پی کے پولیٹیکل بیوروکے ابتدائی ممبروں میں صرف دو خلق میں تھے یعنی نور محمد ترکئی اور صالح محمد زیاری جبکہ دوسری طرف پرچم کی قیادت میں ببرک کارمل شامل تھے اس طرح P.D.P.A کے ابتدائی پولیٹیکل بیورو میں 7 ممبروں میں سے 4 پرچم میں تھے۔ طاہر بدخشی نے 1965ء میں پارٹی سے علیحدگی اختیار کی تھی اور اپنی علیحدہ پارٹی ’’سیتم ملی‘‘ بنائی تھی۔
1973ء میں محمد داؤد کی فوجی بغاوت وہاں کے بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کی نمائندہ اور عکاس تھی۔ اسے امریکی سامراج اور سٹالنسٹ افسرشاہی دونوں کی امداد فراہم ہوتی رہی۔ سرد جنگ کے دوران دونوں بڑی طاقتیں داؤد کی خوشنودی کرتی رہیں۔
17 اپریل 1978ء کو داؤد حکومت نے کابل میں میر علی اکبر خیبرکوموت کے گھاٹ اتار دیا۔ جس کے رد عمل میں داؤد حکومت کے خلاف ہنگامے پھوٹ پڑے، کابل میں دس ہزار سے زائد افرادنے مشتعل ہوکرگھیراؤ جلاؤ کیا۔ داؤدحکومت نے پی ڈی پی اے کے دوسرے لیڈروں کو بھی ہلاک کرنے کے منصوبے بنائے ہوئے تھے جو جیلوں میں بند احتجاج میں لگے ہوئے تھے۔ پی ڈی پی اے کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اس جبرواستبدادکے خلاف مزاحمت کرے۔ 27 اپریل 1978ء کو افغان فوج اور فضائیہ میں موجود پی ڈی پی اے سے منسلک افسروں نے ایک خونریز بغاوت کے بعد داؤد حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ شدید مقابلے اور بمباری کے بعد پل چرخی جیل کی دیواریں مسمار کر دی گئیں اور پی ڈی پی اے کی پابند سلاسل قیادت کو آزادکرا لیا گیا۔ اس کے بعد ڈیموکریٹک ریپبلک آف افغانستان کے قیام کا اعلان جاری کردیاگیا۔ اس کے ساتھ ہی پی ڈی پی اے کے جنرل سیکرٹری نور محمد ترکئی کی قیادت میں انقلابی کونسل اور نئی حکومت قائم کردی گئی۔

انقلاب کے بعد افغان صدارتی محل پر سرخ پرچم لہرا رہا ہے

افغانستان کی فوج کی انقلابی کونسل نے ریڈیو سے 7 بجے شام جو پہلا اعلان کیا اس میں کہا گیا :’’افغانستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بادشاہت ظلم، مطلق العنانیت اور ظالم نادر شاہ خان کے خاندان کی طاقت کا نام ونشان مٹا دیا گیا ہے اور ریاست کے سبھی اختیارات اب افغانستان کے عام لوگوں کو حاصل ہوگئے ہیں۔ ریاست کا مکمل اختیار فوج کی انقلابی کونسل کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ ‘‘
انقلابی کونسل نے نئی حکومت کے قیام کے فوری بعد جو سب سے پہلا اعلامیہ جاری کیا، اس میں عورتوں کے بیچنے اور خریدے جانے پر پابندی لگا دی گئی۔ انقلاب سے قبل افغان عورت ہر قسم کے حقوق سے کلیتاً محروم چلی آرہی تھی۔ نیم قبائلی ونیم جاگیرداری افغان سماج میں عورت محض ایک بازاری جنس کی طرح تھی جسے شادی بیاہ میں بیچاخریدا جاتاتھا۔ یہ قبیح اور غیر انسانی رسم آج پھر افغانستان میں رائج ہوچکی ہے۔ نہ صرف طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں بلکہ سامراج کے زیرانتظام علاقوں میں بھی۔
جولائی 1978ء میں اعلان نامہ نمبر6 جاری کیاگیا جس میں زمینداروں اور ساہوکاروں کے دیے ہوئے قرضے ختم کر دیے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اس ایک حکم کے ذریعے سواکروڑ کے لگ بھگ انسانوں کو جن میں 80 فیصد کا تعلق افغان دیہاتوں سے تھا، مالیاتی و سماجی غلامی سے نجات مل گئی۔ جس میں وہ نسلوں سے جکڑے چلے آرہے تھے۔ تب اس مجموعی غلامانہ قرضے کا کل حجم33000 ملین افغانی تھا۔ اس نئی حکومت نے زرعی اصلاحات بھی متعارف اور نافذ کیں۔ تب پانچ فیصد آبادی تین چوتھائی قابل کاشت رقبے کی مالک تھی۔ 1979ء کے اواخرتک یہ ساری زمین پچھلے مالکان سے لے کر300000 بے زمین کسانوں میں بانٹ دی گئی۔ یہی نہیں زراعت کے شعبے میں سے مڈل مین کے کردار کو بھی مکمل طورپر ختم کردیاگیا۔

کابل یونیورسٹی، 1980 کی دہائی کی ایک تصویر

اس کے ساتھ ساتھ صحت، گھر، خوراک سمیت روزگار کے شعبے میں بھی انتہائی انقلابی اقدامات کئے گئے۔ 1978-79ء کے دوران، چھ سو سے زائد سکول اور اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کئے گئے۔ جبکہ 800000 ورکروں اور کسانوں نے خصوصی تعلیمی کمپین میں داخلہ لیا۔ مقامی اور عالمی مالیاتی ادارے اور اثاثے قومی تحویل میں لے لئے گئے۔ قدرتی طورپر اس انقلابی حکومت نے سامراج کے دل میں کانٹا بن کر چبھناتھا۔
انقلاب کے بعد کے ابتدائی کچھ مہینوں کے دوران جو ریڈیکل اقدامات اٹھائے گئے، انہوں نے جنوب، وسطی اور مغربی ایشیائی ملکوں پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ سامراج ہر طرف انقلاب کے اثرات مرتب ہوتے دیکھ کر بوکھلاہٹ کا شکارہورہاتھا۔ اور یہی ایک بنیادی وجہ ہے جس نے امریکی سی آئی اے کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے آپریشن کو مرتب اور منظم کرنے پر مجبورکردیا۔ اس آپریشن کے لئے اس وقت کے پاکستان کے آمر ضیاء الحق اور سعودی حکمرانوں کی قیادت میں آئی ایس آئی کے ذریعے ڈالر جہاد کا آغاز کیا گیا۔
ساتھ ہی ساتھ قیادت کے نظریاتی ابہام اور بعد میں نور محمد ترکئی کے قتل اور سوویت فوجوں کی افغانستان میں آمد نے سامراجی اور اس کے گماشتوں کو کھل کھیلنے کا بھرپور موقع دیا اور تب سے افغانستان میں ایک ننگی جارحیت کا ناچ جاری ہے۔ سوویت افواج کے انخلاء کے بعدامریکہ نے افغانستان کو اپنے بنائے ہوئے وحشی رجعتی عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا 1996ء میں امریکی پشت پناہی میں طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا۔
مگر 2001ء سے افغانستان میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہوا جس نے اس خطے کی بربادی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ آج بھی امریکی اور ناٹو افواج کی بربریت افغانستان میں جاری و ساری ہے۔ گو کہ یہ سر زمین امریکی سامراج کے لئے ایک اور ویتنام ثابت ہوئی ہے اور امریکیوں کے لئے فوری مسئلہ افغانستان سے کسی بھی طرح فوجوں کا انخلا ہے لیکن اس کیفیت میں امریکہ کا یہاں سے مکمل طور پر نکلنا بعید از امکان نظر آتا ہے۔ معروف ’’تھنک ٹینک‘‘ سٹریٹ فار (Stratfor) جو کہ امریکی سی آئی اے میں کام کرنے والے سابق سٹاف پر مبنی ہے، نے اپنی ایک رپورٹ میں دلچسپ انکشافات بلکہ اعترافات کئے تھے۔ ’’اس بنیادی حقیقت پر اب کوئی بھی شک و شبہ نہیں رہا کہ امریکہ، روایتی حوالے سے جنگ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ امریکی اگر اور جب انخلا ء کریں گے تو غالب امکان ہے کہ طالبان، اس ممکنہ انخلاء کے بعد اقتدار کے نئے سیٹ اپ میں شامل ہوں‘‘۔ (6 ستمبر2010ء )

latuff-obama_afghanistanیعنی اگر امریکہ کے لئے افغانستان میں رہنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے تو یہاں سے نکلنے والا ہر راستہ آگ اور خون کے سمندر سے گزرتا ہے۔ وائٹ ہاؤس افغانستان میں سے ایک باعزت انخلاء کا آرزومند ہے۔ مگر جیسا کہ کئی آرزوؤں کی قسمت میں خاک ہونابھی لکھا ہوتا ہے، ایسے ہی امریکہ کی یہ آرزو، موجود زمینی مسائل کی وجہ سے پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ امریکہ کے ناٹو اتحادی اب مزید افغانستان میں نہیں رہنا چاہتے۔ جبکہ امریکی عوام فوجوں کی واپسی کے خواہاں ہیں۔ مگر یہ بات پنٹاگان برداشت نہیں کر سکتا۔ افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل پیٹریاس نے اپنے صدر کو زوردے کر کہا تھا کہ وہ اپنے اعلان کردہ، فوجوں کی واپسی کے شیڈول پر عملدرآمد کو موخر کردے۔ اور اوبامہ بھی بظاہر یہ تاثر دے رہاہے کہ کسی قسم کی ڈیڈ لائن کی بات نہ ہی کی جائے تو مناسب ہے۔ امریکی ماہرین اور افواج اب اپنی ہی بنائی ہوئی پالیسیوں کی دلدل میں بری طرح دھنس چکے ہیں۔ وہ واپسی افورڈ ہی نہیں کر سکتے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وہ جنگ کو قائم رکھنا بھی کسی طورافورڈ نہیں کر سکتے۔ یہ جنگ مہنگی ہوتی بھی جارہی ہے اور مہنگی پڑتی بھی جارہی ہے۔ سی آئی اے کے ایک سابق ایریا چیف، ہاورڈہارٹ نے نیویارک ٹائمز کے نکولس کرسٹوف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہماری افواج کی موجودگی ہی ہمارا اصل مسئلہ ہے۔ ہم جتنے زیادہ فوجی وہاں ڈالتے ہیں اتنا ہی ہماری مصیبت میں اضافہ ہو جاتاہے۔‘‘
طاقت کے کچھ مراکز اس بات سے بھی سہمے ہوئے ہیں کہ ناٹو افواج کے انخلاء کے بعد وہاں انارکی اور ایک خونریزخانہ جنگی پھوٹ پڑے گی جبکہ کئی یہ بھی سوچ اورپوچھ رہے ہیں کہ قابض افواج کی موجودگی میں جو ہولناک تباہی وبربادی وقوع پذیر ہورہی ہے اس میں اور کتنا اضافہ ہوگا؟رجعتی طالبان بھی اس کیفیت کو جوازبناتے ہوئے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو اپنی وحشت وبربریت کا نشانہ بناتے چلے آرہے ہیں۔ چنانچہ اس ساری الجھن کو مدنظررکھتے ہوئے سامراجی، افغانستان سے اپنے بخیروعافیت مزید باعزت نکلنے کیلئے افغانستان کو ’’تقسیم ‘‘ کرنے کے امکان کوزیر غوراور بروئے کار لاسکتے ہیں۔ افغانستان میں پہلے ہی آبادی کے اکثریتی حصوں پختونوں (40 فیصد)، تاجکوں(27 فیصد) اور ازبکوں وغیرہ سمیت شمال میں موجوداقلیتوں کے مابین نسلی تنازعات موجودہیں، جنہیں ہم جیسا کہ پہلے کہہ چکے ہیں، قابض وجارح غیر ملکی قوتیں اپنے مذموم مقاصد کیلئے گھناؤنے طریقے سے استعمال کرتی چلی آرہی ہیں۔ ان نسلی اور قومی تنازعات کی موجودگی میں یہ بات قرین قیاس ہے کہ افغانستان کی تقسیم کو ممکن بنایا جائے۔ لیکن پھریہ فوری طورپر اور مستقبل قریب کا تناظر نہیں ہے۔ اگرسامراجیوں نے اسے ممکن بنانے کی کوشش کی تو اس سے افغانستان پہلے سے زیادہ بدترین خونریزی میں نہا جائے گا۔
34 سال پہلے افغانستان جنوبی ایشیا کا پہلا ملک تھا کہ جس میں سے جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کردیاگیاتھا اورسامراجی بندشوں سے نجات پا چکاتھا۔ سامراجی جارحیت اور مذہبی دہشت گردی کے ہاتھوں پرانے نظام کی بحالی نے افغان سماج پر ایک کے بعد دوسری بربادی نازل کی ہے۔ یہ نئی نسل، انہی بربادیوں کی چھاؤں تلے پل کر جوان ہوئی ہے۔ اس نسل نے دکھوں، محرومیوں، ذلتوں اور استحصال کی درسگاہ سے زندگی کے بیش قیمت اسباق سیکھ لیے ہیں۔ اور یہ جان لیا ہے کہ یہ سبھی کچھ ان کیلئے مستقل اور ناگزیر نہیں ہے۔ ایسی کیفیت میں افغانستان کے عوام کو اگر کوئی راستہ اگر خوشحالی کی طرف لے کر جا سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کا ہی ہے اور یہی ثور انقلاب کی حتمی فتح ہو گی۔