| تحریر: لال خان |
سیاسی و سماجی جمود کے ادوار میں حکمران طبقے کے نظریات سماج پر حاوی رہتے ہیں۔ تاریخ بھی حکمران اپنی مرضی کی پڑھاتے ہیں اور اخلاقیات و اقدار کا تعین بھی بالواسطہ یا براہ راست طور پر خود ہی کرتے ہیں۔مظلوم و محکوم عوام کی بغاوت کو کچلنا ہی کافی نہیں ہوتا ہے بلکہ حکمران طبقہ اس بغاوت کی ہر یاد کو تاریخ کے صفحات سے مٹا دینا چاہتا ہے۔ وظیفہ خوار مورخ اور دانشور اپنے آقاؤں کی یہی خدمت سرانجام دیتے ہیں۔سچ کو چھپا دینے سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔ مارکس نے انقلابات کو تاریخ کا انجن قرار دیا تھا۔ یہ محنت کش عوام کی انقلابی تحریکیں ہی ہوتی ہیں جو نہ صرف سیاست اور معیشت کے ڈھانچے بدلتی ہیں بلکہ تاریخ کا دھارا ہی موڑ کے رکھ دیتی ہیں۔ایسا ہی ایک انقلاب فروری 1946ء کو اس سرزمین سے پھوٹا تھا جس نے برطانوی سامراج اور اس کے نظام کو لرزا کے رکھ دیا تھا۔
1940ء کی دہائی ایشیاسمیت دنیا بھر میں انقلابات کی دہائی تھی۔1946ء ہندوستان میں انقلاب کا سال تھا۔اس سال تحریک اتنے زوروں پر تھی کہ برطانوی حکمرانوں کو غداری کے الزام میں گرفتار انڈین نیشنل آرمی (INA) کے سبھی لیڈروں رہا کرنا پڑا۔INA کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے صاف ظاہر تھا کہ لوگ کانگریس کے ’’عدم تشدد‘‘ اور عاجزی کے نظریے سے سخت بیزار تھے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد سے برطانوی فوج کے اندربے چینی اور اضطراب حددرجہ بڑھ گیاتھا، افسر اورجوان جنگ سے اکتاچکے تھے۔ہانگ کانگ سے لے کر مصر تک بغاوتیں پھوٹ پڑیں۔عوام کی یہ سرکشی روکے نہیں رک رہی تھی اور اس کی شدت میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہاتھا۔قصبوں اور دیہاتوں میں نسلوں سے خاموش مخلوق نہ صرف جاگ اٹھی بلکہ اتنی متحرک ہوئی کہ سامراجی تسلط کے قدم اکھڑتے چلے گئے۔
18 فروری 1946ء کوبمبئی کے ساحل پر لنگر انداز جنگی جہاز’’HMIS تلوار‘‘ کے جہازیوں نے ناقص خوراک اور بدتر حالات کے خلاف احتجاجاً ہڑتال کر دی۔اگرچہ یہ ایک پر امن بھوک ہڑتال تھی تاہم برطانوی راج کے خلاف بڑی اور موثر بغاوتیں ابھی آگے منتظر تھیں۔19 فروری کو جہازیوں نے ہڑتال کو قلعے اور بیرکوں میں لے جانے کا اعلان کردیا۔انہوں نے نیوی ٹرکوں پر قبضہ کرتے ہوئے ان کو بند کر کے کھڑا کردیااوران پر سرخ پرچم لہرا دیے اور پھر ان پر بمبئی شہر کی سڑکوں پر مارچ شروع کر دیا۔ عوام سے اس ہڑتال میں ساتھ دینے کی اپیل کی گئی جس کے نتیجے میں برطانیہ اور سامراج مخالف جذبات جنگل کی آگ کی طرح سارے علاقے میں پھیل گئے۔19 فروری 1946ء کی شام تک نیوی کے افسروں اور جوانوں کی بڑی تعداد اس ہڑتال میں شامل ہو چکی تھی۔بمبئی کے ساحل پر لنگرانداز رائل انڈین بحریہ کے جہازوں پر لگے برطانوی راج کے پرچم اتار کر پھاڑدیے گئے اور سرخ رنگ کے جھنڈوں سمیت ان پارٹیوں کے پرچم لگا دیے جو آزادی کی جدوجہد میں سرگرم تھیں۔پہلے بغاوت سرگوشیوں کے ذریعے اور پھر ریڈیو کے ذریعے یونٹس کے اندر پھیلی جس پر ان باغیوں نے اس دوران قبضہ کرلیاتھا۔یوںیہ بغاوت سارے ملک کی گیریژنوں اور بیرکوں تک پھیل گئی۔باغی جہازیوں کے کچھ رہنماؤں نے باغیانہ پیغامات کے ساتھ انقلابی نظمیں اور گیت پڑھنے اور سنانے شروع کر دیے اور یوں یہ سلسلہ دن رات چلنے لگا۔یہ بغاوت سبھی ساحلوں پر موجود 74 بحری جہازوں، 20 بیڑوں اور22 بیرکوں تک سرایت کر گئی۔ان نیول سٹیشنوں میں بمبئی، کلکتہ، کراچی، مدراس، کوچن اور وشاکاپٹنم شامل تھے۔20 فروری کوہونے والی مکمل ہڑتال میں صرف 10 جہاز اور2 نیول سٹیشن شریک نہیں ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ سب خودرو اور اچانک ہی ہواتھا، مگر یہ مکمل سچ نہیں ہے۔19 فروری کی شام کو ایک ہڑتالی کمیٹی کا قیام عمل میں لایاگیاتھا۔سگنل مین ایم ایس خان اور پیٹی افسر ٹیلی گراف آپریٹر مدن سنگھ کو اس کا اتفاق رائے سے صدر اور نائب صدر چنا گیا۔ایک سکھ دوسرا مسلمان اور دونوں کی عمریں 25 سال سے کم تھیں۔یہ ایک شعوری فیصلہ تھا جس کا مقصد قومی آزادی کی تحریک میں مذہبی تعصب کو پھیلانے کی ان کوششوں کو مسترد کرناتھاجو مقامی حکمران طبقے کے رہنما اپنے برطانوی آقاؤں کے اشارے پر کررہے تھے۔
اس ہڑتالی کمیٹی کے ایجنڈے میںیہ بھی شامل تھا کہ قومی آزادی کی تحریک میں شامل پارٹیوں کے ساتھ رابطے اوربات چیت کر کے ان کی تائیدوحمایت حاصل کی جائے۔کمیونسٹ پارٹی برطانوی سامراج کی حمایت کرنے کی تباہ کن پالیسی کے باعث آزادی کی تحریک سے باہر ہو چکی تھی۔انہی دنوں ہندوستان کا حکمران طبقہ اور ان کے سیاسی نمائندے برطانیہ کے ساتھ ’’مصالحت‘‘ اور سمجھوتے کیلئے مذاکرات میں مصروف تھے۔شاہ سے زیادہ شاہ کے یہ وفادار ہر قسم کی سرکشی اور بغاوت کے دشمن تھے۔گاندھی نے تو کھل کر جہازیوں کی مخالفت کر دی جبکہ کمیونسٹ پارٹی بحریہ کے سپاہیوں کی اس بغاوت کو ٹیکسٹائل، ریلوے اور صنعتوں کے دوسرے شعبوں میں ہونے والی ہڑتالوں کے ساتھ جوڑنے میں ناکام رہی جو سارے ملک میں پھیل رہی تھیں۔اسی طرح سے سبھاش چندر بوس جیسے لیڈر بھی ا س ضمن میں کوئی کردار ادانہیں کر سکے۔سبھاش چندر پہلے ہی برطانیہ مخالفت میں دوسری انتہا تک چلا گیا تھا۔ وہ انڈین نیشنل آرمی پر زوردیتارہاکہ وہ برطانیہ کی فوج کے ساتھ لڑیں اور یوں وہ جرمن فاشزم اور جاپان کی رجعتی حکومت کاساتھ دیتارہا۔
کانگریس اور مسلم لیگ خوفزدہ ہو گئے کہ انقلاب اور طبقاتی جدوجہد کے نظریات اس تحریک میں گہرائی میں سرایت نہ کر جائیں جسے وہ مذہبی تعصب کے ذریعے تقسیم اور کمزورکرچکے تھے۔مقامی حکمرانوں کی پیہم غداریوں اور سازشوں کے باوجود انقلابی سرکشی کا سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہاتھا۔سارا ملک انقلاب زندہ باد کے نعروں سے گونج رہاتھا۔ا ن نعروں کے حوالے سے پیدا ہونے والے جوش وجذبے اور سرگرمی نے سارے بمبئی کی کیفیت کو ہی بدل کے رکھ دیاتھا۔اس دور کے ایک معروف شاعرجوش ملیح آبادی نے یہ مقبول عام ترانہ لکھا:
میرا نام شہید‘ میرا کام آگے بڑھنا‘
میرا نعرہ انقلاب‘ انقلاب‘ انقلاب
21 فروری کو برطانوی فوج نے اس وقت جہازیوں پر فائر کھول دیا جب وہ بمبئی قلعے میں اپنی بیرکوں سے باہر نکل رہے تھے۔اس اشتعال انگیزی نے پر امن سرکشی کو پر جوش بغاوت میں بدل کر رکھ دیا۔سارا دن جہازیوں اور برطانوی ایلیٹ فورس کے مابین مسلح جھڑپیں ہوتی رہیں۔پہلے دن بمبئی میں ایک جہازی اور دوسرے دن کراچی میں 14 جہازیوں کی شہادت واقع ہوئی۔برطانوی ایلیٹ فورس نے جہازیوں کے ساتھ یکجہتی کرنے والے صنعتی مزدوروں کے خلاف بھی ایسا ہی جبر وتشدد شروع کر دیا۔ 22 اور23 فروری کو برطانوی فوج کی وحشت سے 250 جہازی اور مزدور شہیدکردیے گئے۔کچھ چشم دید گواہوں کے بقول 21 فروری کو یوں لگ رہاتھا کہ جیسے سارا برصغیرہی سامراجی تسلط کے خلاف انقلابی جوش اور ولولے سے لیس ہوکر سرگرم ہو چکا تھا۔اس تحریک کے دوران انقلابی ہڑتالی کمیٹی نے اپنی کمان ’’نابرا بحری بیڑے ‘‘پر منتقل کر دی تھی۔ جہازیوں نے اپنے جہازوں پر موجود بندوقوں کا رخ برطانوی نیول تنصیبات اورساحلوں پر موجود مراکز کی طرف کر دیا۔سبھی جہازوں سے سائرن بجائے گئے، جہازیوں نے لاؤڈسپیکروں سے اعلان کئے کہ اگربرطانوی حکومت نے شہروں میںیا ساحلوں پرجدوجہد کرنے والے ان کے ساتھیوں پر حملہ کیا تو وہ اپنے اوپر ہونے والی ہر زیادتی اور حملے کا بھرپور جواب دیں گے اور برطانوی فوجی تنصیبات اور مراکز کو تہس نہس کر دینے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
لندن وائیٹ ہال کومسٹر آچنلیک (Auchinleck) کی طرف سے ایک ٹیلیگرام بھیجا گیا جس میں کہا گیا کہ’’اگر تم نے ان کو تین دنوں میں آزادنہیں کیاتویہ لوگ زبردستی تم سے اپنی آزادی چھین لیں گے۔‘‘1940ء سے 1945ء تک سر ونسٹن چرچل کے چیف آف سٹاف رہنے والے جرنیل نے برملا بیان دیا کہ ’’ ہندوستان، بیچ سمندر موجود ایک ایسا بحری جہاز بن چکاہے، جسے آگ لگ چکی ہے اور جو گولہ بارودسے لداہواہے‘‘ اس کا لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے سوال تھا کہ ’’کیا ہم اس آگ پر قابو پاسکتے ہیں؟ اس سے پہلے کہ یہ بارود کے ذخیرے تک پہنچ جائے؟‘‘
لندن میں برطانوی حکومت اس اعلان سے دہل کر رہ گئی۔لیبر پارٹی کے وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے اٹھنے والے سر کچل دینے کے احکامات جاری کر دیے۔برٹش انڈین نیوی کے سربراہ ایڈمرل گوڈفرے نے باغی جہازیوں کو حکم دیا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں یا پھر مرنے کیلئے تیار ہو جائیں۔انڈین کانگریس کے ایک معروف لیڈرولابھ بائی پٹیل نے کھل کربرطانیہ کے اس اعلان کی تائید اور جہازیوں کی مذمت کرتے ہوئے برطانیہ کی حمایت کا اعلان کردیا۔ مذہبی تعصب کی سیاست کرنے والے کھل کر برطانوی سامراج کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔برصغیر کے حکمران طبقے کا مکروہ چہرہ یہاں بے نقاب ہوتاہے۔ برصغیر کی تقسیم اور نام نہاد ’’آزادی‘‘ کے بعد سے آج تلک، یہ حکمران طبقہ سامراجی ڈاکہ زنی میں بطور ’’کمیشن ایجنٹ‘‘ شریک رہا ہے۔ یہی ان کا تاریخی کردار ہے۔
اس وقت جب برطانوی لڑاکاطیارے باغی جہازیوں پر بموں اور گولیوں کی برسات کررہے تھے، سردار پٹیل نے بدنام زمانہ بیان جاری کیا؛’’چند بدقماش جوشیلے اور غنڈہ قسم کے نوجوان خواہ مخواہ اپنی سرگرمیوں سے سیاست چمکانے کی کو شش کر رہے ہیں، حالانکہ ان کو سیاست کی قطعاً کوئی سمجھ بوجھ نہیں ہے‘‘۔ایس کے پٹیل اور آئی آئی چندریگر جو ا س وقت کانگریس اور مسلم لیگ کے سربراہ تھے، نے کمال اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرکارکو پیشکش کی کہ’’ ہم اپنے رضاکار، پولیس کی مدد کیلئے فراہم کرنے کو تیار ہیں۔‘‘گاندھی نے کہا کہ اس قسم کے واقعات سے دنیا بھر میں بھارت کی ’’بدنامی‘‘ ہوئی ہے اور ہماری ساکھ متاثر ہوئی ہے، ہندو مسلمان اور دیگر کی طرف سے اس قسم کی پرتشدد کاروائیاں سراسر’’غیر مقدس‘‘ ہیں۔محمد علی جناح نے باغی جہازیوں کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرآپ آئینی‘ قانونی اور پر امن طورطریقوں سے اپنے مسائل و مطالبات پیش کریں تو میں یقین دلاتا ہوں کہ ان پرغورکیاجاسکتا ہے۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد کا کہنا تھا کہ یہ ابھی براہ راست عمل کا وقت نہیں ہے۔اس کے بقول ’’ابھی ہمیں واقعات کے تسلسل کو دیکھنا چاہئے اور تب تک برطانوی حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے‘‘۔جبکہ نہرو کاموقف تھا کہ ’’جو کچھ ہو رہاہے اور ہو چکا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح سے سماج دشمن عناصر بمبئی جیسے بڑے شہروں میں صورتحال کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ہماری آزادی کا دن زیادہ دور نہیں اور ایسے اشارے موجود ہیں جن سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی آزادی جیتنے کے نزدیک پہنچ چکے ہیں مگر میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں کہ ہم میں اس نظم و ضبط کا شدید فقدان ہے جو کہ ایک آزاد ملک کیلئے ضروری ہوتا ہے۔‘‘
اپنی قومی و ملکی قیادت کے اس مایوس کن، حوصلہ شکن اور روح فرسا رد عمل سے دلبرداشتہ ہوکر ایم ایس خان نے ہڑتالی کمیٹی کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی تجویز رکھ دی۔36 رکنی کمیٹی نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔کئی گھنٹے اس جان لیوا کیفیت میں گزرے۔ملکی و قومی قیادت نے سر دھڑ کی بازی لگا ئی کہ جہازیوں کی اس بغاوت کوبرصغیر میں پھیلی قومی آزادی کی تحریک کے ساتھ کسی طور بھی نہ جڑنے دیا جائے اور تنہا کرکے کچل دیا جائے۔ہڑتالی کمیٹی کے ارکان اس کیفیت سے بددل ہو ناشروع ہو گئے۔
24فروری کی علی الصبح’’HMIS تلوار‘‘ پر ہڑتالی کمیٹی کی میٹنگ شروع ہوئی۔جوصورتحال بن چکی تھی، اس سے یہی لگتا تھا کہ ہتھیار ڈالنے کے سواکوئی راستہ نہیں بچا۔چنانچہ صبح 6 بجے جہازوں پر سیاہ جھنڈے لہراکرہتھیار ڈالنے کا اعلان کردیاگیا۔اپنی اس آخری میٹنگ میں ان باغی جہازیوں نے جنوب ایشیا کے محروم و مقہور عوام کے نام ایک قرارداد پیش اورمنظورکی:
’’ہماری یہ سرکشی اور بغاوت ہم محروم لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا، سب سے اہم تاریخی واقعہ تھی۔پہلی بار یہ ہوا کہ وردی اور بغیر وردی کے مزدوروں کاخون ایک ہی مقصدکیلئے ایک ساتھ ہی سڑکوں پر موجزن ہوا۔ہم وردی کے مزدور کبھی بھی اسے فراموش نہیں کر پائیں گے۔ہم یہ بھی سمجھتے اور جانتے ہیں کہ آپ بغیر وردی والے محنت کش بھی اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ہمیں یقین ہے ہماری آنے والی نسلیں اس واقعے سے سبق سیکھیں گی اور ہم جو حاصل کرنے میں ناکام رہے وہ اسے ہر حال میں حاصل کر کے چھوڑیں گی۔محنت کش طبقہ زندہ باد۔انقلاب زندہ باد‘‘
ہتھیار ڈالنے کے باوجود سرکشی کرنے والوں کی اکثریت کو گرفتار کر لیا گیا۔متحرک کردار ادا کرنے والوں کوموت کے گھاٹ اتاردیاگیا۔ 15 مارچ کو رائل انڈین نیوی کے سرکش سپاہیوں نے جیلوں میں بھوک ہڑتال کر دی۔تحریک آزادی کی ’’قومی قیادت‘‘ نے ان کے حق میں کسی قسم کا احتجاج کرنے سے یکسر انکارکردیا۔یہی حالت قومی آزادی کی علمبردار بڑی پارٹیوں کی بھی رہی اورانہوں نے کسی قسم کا احتجاج نہ کیا۔آزادی کے بعد بچ جانے والے باغیوں میں سے کئی ہجرت کر کے پاکستان آئے کہ شاید یہاں انہیں ایک نئی شناخت ‘نیا تشخص میسر آجائے لیکن ان کے خواب چکنا چور ہو گئے اور انہیں رائل پاکستان نیوی میں کام کرنے کا اہل ہی نہیں سمجھا گیا۔کچھ ایسی ہی بدقسمتی بھارت میں رہ جانے والے ان کے ساتھیوں کا مقدر بھی بنی۔
سال 1946ء مزدورتحریک کی بے چینی کے حوالے سے بھی بے مثال اور یادگار سال ثابت ہوا۔یہی نہیں بلکہ اس کی کوکھ سے کئی نئی طاقتور تحریکوں نے جنم لیا۔خاکروبوں سے لے کر کان کنوں تک، ریل کے مزدوروں سے لے کر سفید پوش پوسٹل ورکروں اور بینک ایمپلائز تک، یہاں تک کہ فوجی اداروں کی انتظامیہ کے ملازمین تک ان مظاہروں اور ہڑتالوں میں شریک ہوئے۔ریلوے اور پوسٹل ورکرز تو سارے ہندوستان میں ہڑتال پر چلے گئے تھے جبکہ اس دوران الٰہ آباد میں 80000 مظاہرین نے دفاتر کا گھیراؤ کر لیا تھا۔
اس بغاوت کی شدت نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو دہلا کے رکھ دیا تھا اور اس کے انتہائی گہرے اور دوررس اثرات مرتب ہوئے تھے۔کمیونسٹ قیادت شدید دباؤ میں تھی اور نیچے سے اس کے کارکنوں میں تذبذب بڑھتا ہی چلا جارہاتھا۔کمیونسٹ پارٹی نے بمبئی میں ایک عام ہڑتال کی کال دی جس نے سارے شہر کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ جب ریاست کے مسلح جتھے احتجاج کرنے والوں کو کچلنے کیلئے نکلے تو مزدوروں نے سارے رستے اس طرح سے بند کر دیے کہ وہ کوئی نقل وحرکت ہی نہ کر پائیں۔شہر کی سبھی گلیاں اور رستے کارزار بن گئے۔تین دنوں تک جاری رہنے والی، ریاستی اداروں کے ساتھ ان جھڑپوں کے نتیجے میں 400 سے زائد افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہوگئے۔بمبئی کی ہڑتال کے دوران ہندو مسلم مزدوروں نے باہم مل کر محاصرے ترتیب و تشکیل دیے تھے۔کلکتہ اور دوسرے کئی شہروں میں ہند و ؤں اورمسلمانوں نے انڈین نیشنل آرمی کے گرفتار شدہ سیاسی ورکروں اور عہدیداروں کی رہائی کیلئے بے شمار مظاہرے اور احتجاج منظم کیے۔ ان گرفتارشدگان کا تعلق ہر مسلک و مذہب سے تھا۔سارے برصغیر میں پھیلی ہوئی اس عوامی تحریک کا نشان سرخ پرچم تھا۔
19مارچ 1946ء کو ملک کے سبھی اہم شہروں میں موجود پولیس کے مراکز میں ایک ہڑتال پھٹ پڑی۔الٰہ آباد میں توپولیس نے بھوک ہڑتال کر دی۔دہلی پولیس 22مارچ کو ان کے ساتھ شریک ہوگئی۔3اپریل کو بہار میں 10000 پولیس اہلکار ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔2 مئی 1946ء کو نارتھ ویسٹرن ریلوے میں ہڑتال ہوگئی۔پھر 11 جولائی کو پوسٹل ورکز نے سارے ملک میں ہڑتال کا اعلان کردیا۔اس کے ساتھ ہی صنعتی مزدوروں نے بھی ہڑتال کے اس عمل میں بھرپور شرکت کا اعلان کردیا۔یوں سارا ہندوستان ان سرکشیوں‘بغاوتوں اور ہڑتالوں کا حصہ بن گیا۔
یہ سبھی ہڑتالیں اور مظاہرے سختی کے ساتھ کچل دیے گئے مگر اس سے قابض برطانیہ کو یہ سمجھ آگیا کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا! اسی کے براہ راست نتیجے میں ہی برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ کو اعلان کرنا پڑگیا کہ برطانیہ جون 1948ء سے پہلے ہی ہندوستان چھوڑ دے گا۔ ایک تحریک کو کچلتے ہوئے برطانوی حکمرانوں کا اعتماد کھوکھلا اور شکستہ ہو چکا تھا۔برطانوی سامراج، مقامی حکمران طبقے کے ساتھ ساز باز کرکے نسلی اور مذہبی بنیادوں پر برصغیر کی تقسیم کا منصوبہ تیار کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ ان واقعات کے بعد برطانویوں نے طے کر لیاتھا کہ وہ ہندوستان کو چھوڑدیں گے مگر ایسے نہیں چھوڑیں گے۔ فیصلہ کرلیاگیا تھا کہ برطانوی راج اپنے پیچھے متحدہ ہندوستان نہیں بلکہ منقسم و منتشر ہندوستان ہی چھوڑکر جائیں۔اسے تقسیم ہونا تھا۔ یہ طے ہوگیا کہ برطانیہ’’ تقسیم کرو اور راج کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت ہی برصغیر سے جائے گا۔
بھارت اور پاکستان، دونوں ملکوں کی مروجہ سیاسی تاریخ میں ایسے عظیم الشان واقعات کا سرے سے ریکارڈ نہ ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ایسے کئی بڑے زندہ و پائندہ واقعات اور بھی ہیں جنہیں ابھی عوام کے سامنے لایا جانا باقی ہے۔نوجوانوں اور محنت کشوں کی نئی نسلوں کو باغی جہازیوں کے آخری پیغام اور ان کے ولولے سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔