پہلی انٹر نیشنل کے قیام کے 150سال

آج کے عہد میں انقلابی انٹرنیشنل کی ضرورت!

[تحریر: ایلن وڈز، ترجمہ: فرہاد کیانی]
28 ستمبر 1864ء کو مختلف ممالک کے مندوبین لندن کے سینٹ مارٹن ہال میں جمع ہوئے۔ عالمی سطح پر محنت کش طبقے کی ہراول پرتوں کو جوڑنے کے لیے یہ اب تک کی سب سے سنجیدہ کوشش تھی۔ یہ اجلاس 1863ء کی پولینڈ کی تحریک کے لیے بین الاقوامی یکجہتی کا نتیجہ تھا۔
اتفاقِ رائے سے ’’انٹر نیشنل ورکنگ مین ایسوسی ایشن‘‘ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا، جسے پہلی انٹر نیشنل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا مرکز لندن طے پایا جسے چلانے کی ذمہ داری 21 رکنی کمیٹی کو دی گئی۔ اس کمیٹی کو پروگرام اور آئین مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ کمیٹی نے یہ فریضہ کارل مارکس کو تفویض کیا جس نے انٹر نیشنل کی قیادت میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پہلی انٹر نیشنل کا تاریخی فریضہ عالمی سطح پر انقلابی مارکسزم کے پروگرام، لائحہ عمل اور طریقہِ کار کی بنیاد رکھنا تھا۔ تاہم یہ انٹر نیشنل اپنے قیام کے وقت ہی مکمل طور پرتیار اور مسلح نہیں تھی۔ قیام کے وقت یہ کوئی مارکسی انٹرنیشنل نہیں تھی بلکہ مختلف رجحانات کا ایک مجموعہ تھی۔ لیکن سائنسی سوشلزم کے بانیوں کا محنت کش طبقے کی ’’خالص‘‘ تنظیم کی تلاش کرنے والے فرقہ پرور خیالات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایسی تنظیم نہ کبھی تھی اور نہ ہی کبھی بن سکتی ہے۔ مارکس اور اینگلز وسیع میدان میں کام کرنے اور محنت کش طبقے میں اپنی بنیادیں بنانے کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے۔ اس سلسلے میں برطانوی ٹریڈ یونینز کی شمولیت خاص طور پر بہت اہم تھی۔
ابتدا سے ہی مارکس اور اینگلز کو انٹر نیشنل کے اندر نظریات کی درستگی اور وضاحت کی نا قابلِ مصالحت لڑائی لڑنا پڑی۔ لیکن وہ یہ بخوبی جانتے تھے کہ عوام کو سائنسی سوشلزم کے نظریات پر جیتنے کی خاطر، پرولتاریہ کی تاریخی اور طبقے میں جڑیں رکھنے والی تنظیموں میں صبر آزما کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انٹرنیشنل ورکنگ مین ایسو سی ایشن کی شکل میں انہیں پہلی مرتبہ ایک ایسا مشترکہ ڈھانچہ میسر آیا جس میں وہ اپنے نظریات کو اب تک کے محدود انقلابی حلقوں سے باہر نکال کر ان پر بحث کر سکتے تھے۔
شروعات میں مارکس اور اینگلز کو سخت مشکلات کا سامنا تھا۔ زیادہ تر ممالک میں، مزدور تحریک ابتدائی مراحل میں تھی۔ اکثر یہ بورژوا لبرل اور جمہوری نظریات کے زیرِ اثر تھی۔ بیشتر ممالک میں محنت کش طبقے کی تحریک ابھی تک بورژوا پارٹیوں سے علیحدہ نہیں ہوئی تھی۔ مارکس اور اینگلز کے زمانے میں یورپ کی آبادی کی اکثریت اجرتی مزدوروں کی بجائے کسانوں یا چھوٹے ہنر مندوں پر مشتمل تھی۔ صرف برطانیہ میں محنت کش طبقہ اکثریت میں تھا لیکن برطانوی ٹریڈ یونین قائدین لبرلز کے زیر اثر تھے۔ فرانس میں پرودھون کے ماننے والے ہڑتالوں کے خلاف تھے اور ’’فلاحِ باہمی‘‘ (Mutualism) کا یوٹوپیائی نظریہ پیش کر رہے تھے۔ وہ محنت کشوں کی سیاسی جدوجہد میں شمولیت کے بھی خلاف تھے۔
بالآخر نظریات پر ثابت قدمی اور طریقہ کار میں لچک کی بنیاد پر مارکس اور اینگلز نے اکثریت کو بتدریج جیت لیا۔ مارکس اور اینگلز کی قیادت اور جنرل کونسل کی رہنمائی میں انٹرنیشنل نے یورپ، برطانیہ اور امریکہ میں مزدور تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے ڈھانچے کی بنیاد رکھی۔ یورپ کے بڑے ممالک میں انٹرنیشل کی مضبوط بنیادیں قائم ہوئیں۔

سوشلزم اور بین الاقوامیت
سوشلزم بین الاقوامیت پر مبنی ہے اور اس کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ ہماری تحریک کی ابتدا میں ہی کمیونسٹ مینی فیسٹو میں مارکس اور اینگلز نے یہ مشہور الفاظ تحریر کئے کہ ’’محنت کشوں کا کوئی ملک نہیں ہوتا۔‘‘ مارکس اور اینگلز کی بین الاقوامیت کوئی ذہنی اختراع یا جذبات پر مبنی نہیں تھی۔ اس کی بنیاد اس حقیقت پر تھی کہ سرمایہ داری ایک عالمی نظام کی صورت میں آگے بڑھتی ہے۔ مختلف قومی معیشتوں اور منڈیوں سے ایک مشترکہ، ناقابلِ تقسیم اور ایک دوسرے پر منحصر کُل تشکیل پاتا ہے جو کہ عالمی منڈی ہے۔
آج مارکسزم کے بانیوں کی یہ پشین گوئی تقریباً حرف باحرف درست ثابت ہو چکی ہے۔ عالمی منڈی کا کچلتا ہوا غلبہ ہمارے عہد کی سب سے فیصلہ کن حقیقت ہے۔ کوئی بھی ملک، خواہ وہ کتنا ہی بڑا اور طاقتور کیوں نہ ہو، عالمی منڈی کی طاقت سے بچ کر الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ امریکہ، چین اور روس بھی نہیں۔
آج تک مارکس اور اینگلز کے ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ سے زیادہ جدید کوئی کتاب نہیں آئی۔ اس میں سماج کی طبقات میں تقسیم، عالمگیریت، زائد پیداوار کے عالمی بحران، ریاست کے کردار اور تاریخ کی قوتِ محرکہ کی وضاحت کی گئی ہے۔ لیکن درست نظریات تنظیم اور تجربے کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسی سوشلزم کے بانی ہمیشہ محنت کشوں کی بین الاقوامی تنظیم کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ مارکس اور اینگلز پہلے ہی کمیونسٹ لیگ میں سرگرم تھے جو اپنی ابتدا سے ہی ایک بین الاقوامی تنظیم تھی، لیکن آئی ڈبلیو اے (IWA) کا قیام ایک معیاری جست تھی۔
پہلی انٹر نیشنل کی بڑھوتری اور پیش رفت پیرس کمیون سے پہلے کے دور میں ہوئی۔ یہ محنت کشوں کے روز مرہ کے مسائل سے الگ نہیں تھی بلکہ وہ مزدور تحریک کی عملی سرگرمیوں میں مسلسل شریک تھی۔ انٹرنیشنل نے مساوات کے لیے جدوجہد کا پرچم بلند کیا اور عورتوں اور نوجوانوں کے حالات میں بہتری کی لڑائی لڑی جو سرمایہ دارانہ نظام میں سب سے زیادہ جبر کا شکار ہیں۔ شروع میں زیادہ تر ممبران مرد تھے لیکن اپریل 1865ء میں خواتین کے لیے رکنیت کھول دی گئی اور انٹرنیشنل نے خواتین محنت کشوں کے کئی مطالبات پیش کئے۔
جنرل کونسل کا مرکزی دفتر لندن میں قائم تھااور کئی یونینز اس سے منسلک تھیں۔ کئی ہڑتالوں اور محنت کشوں کی تنازعات میں اس نے مداخلت کی۔ انٹر نیشنل کا مقصد ہڑتال ختم کروانے کے لیے باہر سے مزدوروں کو درآمد کرنے سے روکنا تھا اور وہ ہڑتالی مزدوروں اور ان کے خاندانوں کی مددکے لیے پیسے اکٹھے کرتی۔ اس سے نئی انٹر نیشنل مزدوروں میں بہت مقبول ہو گئی اور وہ یہ جاننے لگے کہ انٹرنیشنل پرولتاریہ کے حقوق کی محافظ اور ان کی خاطر لڑتی ہے۔
ان کامیابیوں کے باوجود، یا پھر ان کی وجہ سے، برطانیہ میں انٹر نیشنل کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے اصلاح پسند ٹریڈ یونین اسٹوں کو تشویش لاحق ہو گئی۔ لیکن برطانوی محنت کش طبقے کی تحریک میں انٹر نیشنل بہت مقبول تھی۔ شیفیلڈ میں منعقدہ ٹریڈ یونین کانفرنس میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں تمام ممالک کے محنت کشوں کو متحد کرنے کی کوششوں کے لیے انٹر نیشنل کا شکریہ ادا کیا گیا اور کانفرنس میں شریک یونین ممبران کو انٹر نیشنل میں شامل ہونے کی سفارش کی گئی۔

فرقہ پروری (Sectarianism) کیخلاف جدوجہد
مارکس اور اینگلز کو دو محاذوں پر لڑنا پڑا۔ ایک جانب انہیں موقع پرست ٹریڈ یونین لیڈروں کے اصلاح پسندانہ نظریات کے خلاف لڑنا پڑا جو ہمیشہ طبقاتی مصالحت اوربورژوا لبرلز کے ساتھ مفاہمت کی جانب جھکاؤ رکھتے تھے۔ دوسری جانب انہیں الٹرا لیفٹ اور فرقہ پرور رجحانات کے خلاف مسلسل لڑائی لڑنا پڑی۔ آج بھی حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ آج مارکسی رجحانات کو بالکل انہی مسائل کا سامنا ہے اور انہی دشمنوں سے لڑائی ہے۔ ان کے نام بدل چکے ہیں لیکن کردار وہی ہیں۔
پہلی انٹرنیشنل کی تاریخ سب سے بڑھ کر دو ناقابل مصالحت رجحانات کے مابین جدوجہد تھی۔ ایک طرف فرقہ پرور اور یوٹوپیائی نظام جو ابتدائی طور پر محنت کش طبقے کی تحریک پر غالب تھے اور دوسری جانب سائنسی سوشلزم، جس کا سب سے ممتاز نمائندہ کارل مارکس تھا۔
پہلی انٹر نیشنل میں برطانوی رابرٹ اووین کے ماننے والوں اور اصلاح پسند ٹریڈ یونین اسٹوں کے علاوہ پرودھون (Proudhonists) اور بلانکوئی (Blanquists) کے فرانسیسی پیروکار، اٹلی کے معتدل قوم پرست مازینی کے ماننے والے، روسی انارکسٹ اور کئی دوسرے رجحانات شامل تھے۔ اینگلز کے نام ایک خط میں مارکس نے لکھا: ’’اپنی بات کو اس انداز میں پیش کرنا کہ وہ محنت کشوں کی تحریک کے موجودہ نکتہ نظر کے لیے قابلِ قبول ہو، بہت مشکل کام تھا۔ ۔ ۔ تحریک کی پھر سے بیداری کے ساتھ پرانے بے باک اندازِ بیان کے لوٹنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ انداز کو نرم اور موقف کو سخت رکھیں۔‘‘

میخائل باکونن

پرودھون اور باکونن، دونو ں کے انارکسٹ پیروکار، مختلف نکتہ ہائے نظر سے محنت کشوں کی سیاست میں مداخلت کے خلاف تھے۔ پرودھون کے ماننے والے محنت کشوں کو چھوٹے چھوٹے معاشی مطالبات کے ذریعے نجات حاصل کرنے کا مشورہ دے رہے تھے، خصوصاً مفت قرضوں اور پیداوار کرنے والوں کے مابین منصفانہ تبادلے کے ذریعے۔ دوسری انتہا پر باکونن کے پیروکار ’’عمل کے ذریعے پراپیگنڈا‘‘ کے حامی تھے جس سے مراد انفرادی دہشت گردی اور چھوٹی بغاوتیں تھیں، جن کا مبینہ مقصد بڑی بغاوت کے لیے راہ ہموار کرناتھا اور جس کے ذریعے مجوزہ طور پر ایک جھٹکے میں سماجی انقلاب برپا ہونا تھا۔ جہاں پرودھون چھوٹی ملکیت رکھنے والوں اور آزاد ہنر مندوں کے پیٹی بورژوا تصورات کی نمائندگی کر رہا تھا وہاں باکونن لمپن پرولتاریہ اور باغی کسانوں کی سوچ کا اظہار کر رہا تھا۔
محنت کش عوام کی نئی بیداری کے وقت یہ جھوٹے نظریات ایک سنجیدہ مسئلہ تھے۔ 1848ء کے انقلاب کی ہولناک شکست سے بحال ہوتے ہوئے فرانسیسی محنت کشوں نے معاشی غلامی کے خلاف اپنی بغاوت کا اظہار ہڑتالوں کی صورت میں کیا جبکہ سیاسی طور پر وہ بوناپارٹ اسٹ حکومت کا تختہ الٹنے کی جدوجہدکی تیاری کر رہے تھے۔ پرودھون کے پیروکار ہڑتالوں کی مخالفت کر رہے تھے اور معمولی نوعیت کے بے سود اقدامات کو اس کا متبادل بنا کر پیش کر رہے تھے۔
محنت کش طبقے کی حقیقی تحریک کو بنیاد بنانے اور عوام کو بلند سطح پر لے جانے کی بجائے یہ فرقہ پرور، ان پر اپنی مخصوص سوچ تھوپنا چاہتے تھے۔ انٹرنیشنل کو فرقہ پروری سے پاک کرنے اور مضبوط نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے کے لیے سخت اور ناقابلِ مصالحت نظریاتی جدوجہد درکار تھی۔ مارکس کا بہت زیادہ وقت ہر طرح کی فرقہ پروری کے خلاف لڑائی لڑنے میں صرف ہوا۔

پیرس کمیون
اس دور میں بورژوازی اس کمیونزم کے خوف سے کانپ رہی تھی جس کی مجسم شکل انٹر نیشنل تھی۔ لیکن بہت بڑے واقعات رونما ہونے و الے تھے جو اس کی پیش رفت میں رکاوٹ کا باعث بنے۔ انٹر نیشنل کے اندر نظریاتی جدوجہد جاری تھی جبکہ یورپ کے براعظم میں ایک ڈرامائی صورتحال جنم لے رہی تھی۔
جولائی 1870ء میں بوناپارٹ اسٹ فرانس اور بسمارک کے جرمنی کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ پہلی انٹرنیشنل نے جنگ پر ایک بین الاقوامی پوزیشن لی۔ جنرل کونسل نے ایک مینی فیسٹو جاری کیا جس میں جنگ کے خلاف احتجاج کیا گیا اور نپولین اور پروشیائی حکومت کو اس کا مشترکہ طور پر ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ جہاں یہ واضح کیا گیا کہ جرمنی کے لیے یہ ایک دفاعی نوعیت کی جنگ ہے وہیں اس مینی فیسٹو میں جرمن محنت کشوں کو تنبیہ کی گئی کہ اگر انہوں نے اسے ایک جارحانہ جنگ بننے دیا تو پھر فتح یا شکست دونوں صورتوں میں یہ پرولتاریہ کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی۔
4 ستمبر1870ء کو فرانسیسی فوج کی شرمناک شکست سے واقعات کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو پرولتاریہ کی بغاوت اور تاریخ کی پہلی مزدور ریاست یعنی پیرس کمیون کے قیام پر منتج ہوا۔ مارکس کے الفاظ میں پیرس کے محنت کشوں نے ’’آسمان کو ہلا کر رکھ دیا۔ ‘‘ پیرس کمیون کوئی قدیم طرز کی پارلیمان نہیں تھا۔ یہ ایک عملی ادارہ تھا جس کا کام انتظام اور قانون سازی تھا۔ سرکاری اہلکار جو اب تک حکومت اور حکمران طبقے کا اوزار ہوا کرتے تھے، ان کی جگہ عوامی منتخب اداروں نے لے لی جن میں شامل افراد کو کسی بھی وقت واپس بلایا جا سکتا تھا۔

کمیون کی حفاظت کے لئے بنائے گئے مورچے

یہاں پیرس کمیون کی تاریخ تفصیل سے بیان نہیں کی جا سکتی۔ لیکن یہ کہنا کافی ہو گا کہ پیرس کمیون کی کمزوری قیادت کی کمزوری تھی۔ کمیون کا نہ تو کوئی واضح پروگرام تھا اور نہ ہی دفاع اور حملے کی کوئی حکمتِ عملی۔ انٹر نیشنل سے تعلق رکھنے والے کمیون میں اقلیت میں تھے۔ بانوے اراکین میں وہ کل ملا کر صرف سترہ افراد تھے۔ شعوری قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے، کمیون محنت کشوں اور کسانوں کو وسیع تناظر نہیں دے سکا جس سے پیرس کے محنت کشوں کی تنہائی ختم ہو سکتی تھی۔ عظیم کامیابیوں کے باوجود کمیون نے غلطیاں بھی کیں۔ خا ص طور پر جو مارکس نے واضح کیا کہ انہوں نے بینک آف فرانس کو قومی تحویل میں نہیں لیا اور ردِ انقلاب کے گڑھ ورسائی کی جانب مارچ نہیں کیا۔ محنت کش طبقے کو ان غلطیوں کی بھیانک قیمت چکانا پڑی۔ ورسائی میں موجود حکومت کو ردِ انقلابی فوج کو منظم کرنے کے لیے وقت مل گیا جس نے پیرس پر حملہ کیا اور کمیون کو انتہائی بربریت سے کچل ڈالا۔
کمیون کو خون میں ڈبو دینے کے بعد، بورژوا پریس نے اس کے خلاف بہتان تراشی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مارکس نے پر جوش انداز میں کمیون کا دفاع کیا۔ جنرل کونسل کی جانب سے اس نے ایک مینی فیسٹو تحریر کیا جسے بعد میں ’فرانس میں خانہ جنگی‘ کے نام سے جانا گیا۔ اس میں مارکس نے اس عظیم پرولتاری انقلاب کی حقیقی تاریخی اہمیت کی وضاحت کی۔ کمیون محنت کش طبقے کے سیاسی اقتدار کی ایک شکل اور مجبور طبقے کی جابر طبقے پر آمریت تھی۔ یہ ایک عبوری حکومت تھی جس کا مقصد سماج میں مکمل معاشی تبدیلی تھا۔ پرولتاریہ کی آمریت سے مارکس کی یہی مراد تھی۔

انٹرنیشنل کا انہدام
پیرس کمیون کی شکست پہلی انٹر نیشنل کے لیے ایک مہلک ضرب ثابت ہوئی۔ اس کے بعد شروع ہونے والے رجعتی پاگل پن کی وجہ سے فرانس میں کام کرنا نا ممکن ہو گیا اور ہر جگہ انٹرنیشنل کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ لیکن مشکلات کی اصل وجہ پیرس کمیون کی شکست کے بعد عالمی سطح پر سرمایہ داری کا عروج تھا۔ انٹر نیشنل پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔
ان حالات میں مزدور تحریک پر سرمایہ داری کے دباؤ کا نتیجہ اندورنی تنازعات اور دھڑے بندیوں کی صورت میں نکلا۔ بے یقینی اور مایوسی کی عمومی فضا سے فا ئدہ اٹھاتے ہوئے باکونن اور اس کے پیروکاروں نے سازشیں تیز کر دیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر مارکس اور اینگلز نے پہلے تو مرکزی دفتر نیویارک منتقل کرنے کی تجویز دی، اور پھر بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ انٹرنیشنل کو ختم کر دینا ہی بہتر ہے، کم از کم کچھ وقت کے لیے ہی سہی۔ انٹر نیشنل ورکنگ مین ایسو سی ایشن کو 1876ء میں باضابطہ طور پر تحلیل کر دیا گیا۔
انٹر نیشنل ورکنگ مین ایسو سی ایشن ایک حقیقی انقلابی انٹرنیشنل کی نظریاتی بنیادیں رکھنے میں کامیاب رہی۔ لیکن یہ کبھی بھی محنت کشوں کی عوامی انٹر نیشنل نہیں تھی۔ در حقیقت یہ مستقبل کی پیش بندی تھی۔ 1889ء میں قائم ہونے والی سوشلسٹ انٹرنیشنل (دوسری انٹرنیشنل) نے وہیں سے کام شروع کیا جہاں پہلی انٹر نیشنل نے چھوڑا تھا۔ پہلی کے بر عکس، دوسری انٹرنیشنل کی شروعات ایک عوامی انٹر نیشنل کی صورت میں ہوئی جس میں لاکھوں مزدور شامل تھے۔ جرمنی، فرانس، برطانیہ، بلجیئم وغیرہ میں اس کے ساتھ بڑی پارٹیاں اور ٹریڈ یونینز شامل تھیں۔ اس کی بنیاد انقلابی مارکسزم پر تھی، کم از کم باتوں کی حد تک تو یہ کہا جا سکتا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ عالمی سوشلزم کا مستقبل اب یقینی ہے۔

1907 میں ہونے والی دوسری انٹرنیشنل کی کانفرنس کے مندوبین

لیکن دوسری انٹر نیشل کی بد قسمتی یہ تھی کہ وہ سرمایہ دارانہ عروج کے طویل دور میں قائم ہوئی جس کے سوشل ڈیمو کریٹک پارٹیوں اور ٹریڈ یونینز کی ہراول پرتوں کے شعور پر اثرات مرتب ہوئے۔ 1871ء سے 1914ء کا دور سوشل ڈیمو کریسی کا کلاسیکی عہد تھا۔ لمبے عرصے کی معاشی ترقی کی بنیاد پر سرمایہ داری کے لیے محنت کش طبقے، یا زیادہ درست طور پر اس کی بالائی پرتوں کو رعایتیں دینا ممکن ہوا۔ دوسری (سوشلسٹ) انٹر نیشنل کے قومی اصلاح پسندانہ زوال کی وجہ یہی تھی جو 1914ء میں بے رحم انداز میں بے نقاب ہو گئی جب اس انٹر نیشنل کے لیڈروں نے پہلی عالمی جنگ کے سامراجی قتل عام کے حق میں ووٹ دئیے اور ’’اپنے‘‘ ممالک کی بورژوازی کی حمایت کی۔

کامنٹرن کے انگریزی جریدے کا چھٹا شمارہ

تیسری انٹر نیشنل
پہلی عالمی جنگ کی وحشت ناک بربادی نے انقلابِ روس کو تحریک دی اور1917ء میں محنت کش طبقہ بالشویک پارٹی کی قیادت میں بر سرِ اقتدار آگیا جس کی سربراہی لینن اور ٹراٹسکی کر رہے تھے۔ لیکن بالشویکوں کی نظر میں انقلابِ روس ایک قومی عمل نہیں تھا بلکہ عالمی سوشلسٹ انقلاب کا پہلا قدم تھا، اسی لیے انہوں نے 1919ء میں ایک نئی انقلابی انٹر نیشنل قائم کی۔
تیسری (کمیونسٹ)، انٹر نیشنل جسے عام طور پر ’’کومنٹرن‘‘ کہا جاتا ہے، اپنے دونوں پیش روؤں کے مقابلے میں معیاری طور پر بلند سطح پر کھڑی تھی۔ پہلی انٹر نیشنل کی طرح تیسری انٹر نیشنل اپنے قیام کے وقت سے ہی واضح انقلابی بین الاقوامی پروگرام کی علمبردار تھی۔ دوسری انٹرنیشنل کی طرح اسے لاکھوں محنت کشوں کی عوامی بنیادیں حاصل تھیں۔ ایک مرتبہ پھر ایسا لگ رہا تھا کہ عالمی انقلاب کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں کمیونسٹ انٹر نیشنل درست انقلابی پوزیشن پر قائم رہی۔ لیکن خوفناک مادی اور ثقافتی پسماندی میں انقلابِ روس کے تنہا رہ جانے کی وجہ سے انقلاب افسر شاہانہ زوال پذیری کا شکار ہو گیا۔ سٹالن کی قیادت میں افسر شاہی کا دھڑا غالب ہوتا گیا، خصوصاً 1924ء میں لینن کی موت کے بعد۔
لیون ٹراٹسکی اور لیفٹ اپوزیشن نے سٹالن اسٹ ردِ انقلاب کے خلاف اکتوبر کی بے داغ روایات، یعنی محنت کشوں کی جمہوریت اور پرولتاری بین الاقوامیت کی لینن اسٹ روایات کے دفاع کی بہت کوشش کی لیکن وہ دھارے کے خلاف لڑ رہے تھے۔ روسی محنت کش کئی برسوں کی جنگ، انقلاب اور خانہ جنگی سے تھک چکے تھے۔ دوسری جانب افسر شاہی کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا تھا اوراس نے محنت کشوں کو پیچھے دھکیل کر پارٹی پر قبضہ کیا۔

کامنٹرن کی دوسری کانگریس کے مندوبین

روس میں سٹالن ازم کے ابھار کی وجہ سے تیسری انٹرنیشنل کی بے پناہ صلاحیت ضائع ہو گئی۔ سوویت یونین میں سٹالن اسٹ زوال پذیری نے دوسرے ممالک کی کمیونسٹ پارٹیوں کو تباہ کر دیا جو ابھی تک ناپختہ تھیں۔ لینن اور ٹراٹسکی کی نظر میں محنت کشوں کا بین الاقوامی انقلاب ہی انقلابِ روس اور سوویت ریاست کے مستقبل کے تحفظ کا واحد طریقہ تھا لیکن سٹالن اور اس کے حامیوں کو عالمی انقلاب کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ ایک ملک میں سوشلزم کا ’’نظریہ‘‘ افسر شاہی کی قومی تنگ نظری کو ظاہر کرتا ہے جس کے نزدیک کمیونسٹ انٹر نیشنل محض ماسکو کی خارجہ پالیسی کا ایک آلہ کارتھی۔ کومنٹرن کو اپنے شرمناک مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بعد سٹالن نے اسے 1943ء میں تحلیل کر دیا اور اس کے لیے کانگریس بلانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔

چوتھی انٹرنیشنل کا نشان

چوتھی انٹر نیشنل
پارٹی سے بے دخل اور سوویت یونین سے جلا وطن ٹراٹسکی نے بالشوازم اور اکتوبر انقلاب کی روایات سے وفادار قلیل قوتوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی۔ انتہائی مشکل حالات، سٹالن اسٹوں کے بہتان در بہتان اور سٹالن کے خفیہ ادارے جی پی یو کے ظلم سے مقابلہ کرتے ہوئے اس نے اکتوبرانقلاب، لینن ازم، مزدور جمہوریت اور پرولتاری بین الاقوامیت کا پرچم سربلند رکھا۔ بد قسمتی سے، قوتوں کے محدود ہونے کے علاوہ لیفٹ اپوزیشن کے کئی طرفدار متذبذب اوربے سمت تھے۔ انہوں نے کئی غلطیاں کیں، خصوصاً فرقہ پرور نوعیت کی۔ ٹراٹسکائٹ رجحانات کی عوامی تحریک سے دوری کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ آج بھی ٹراٹسکی ازم کے دعوے دار گروپوں کی اکثریت میں فرقہ پروری پائی جاتی ہے اور وہ ان نظریات کی بنیاد کو ہی سمجھ نہیں سکے جن کا ٹراٹسکی دفاع کر رہا تھا۔
ٹراٹسکی نے 1938ء میں ایک ٹھوس تناطر کی بنیاد پر چوتھی انٹر نیشنل کی بنیاد رکھی تھی۔ لیکن تاریخ نے اس تناظر کو غلط ثابت کیا۔ 1940ء میں سٹالن کے بھیجے ہوئے قاتل کے ہاتھوں ٹراٹسکی کا قتل ا س تحریک پر ایک مہلک وار تھا۔ چوتھی انٹرنیشنل کے دیگر قائدین تاریخی فرائض کو ادا کرنے میں مکمل طور پر نا اہل ثابت ہوئے۔ وہ ٹراٹسکی کے طریقہ کار کو سمجھے بغیر اس کے الفاظ کو دہراتے رہے۔ نتیجتاً ان سے سنجیدہ غلطیاں سرزد ہوئیں جو چوتھی انٹر نیشنل کو لے ڈوبیں۔ چوتھی انٹر نیشنل کی قیادت 1945ء کے بعد پیدا ہونے والی نئی صورتحال کو سمجھنے کے قابل نہیں تھی۔ اسی دور میں ٹراٹسکائٹ تحریک کی ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔

لیون ٹراٹسکی چوتھی انٹرنیشنل کے امریکی سیکشن کے جریدے ’’ملیٹنٹ‘‘ کے ساتھ

یہاں چوتھی انٹر نیشنل کی اس وقت کی قیادت کی غلطیوں کی تفصیل میں جانا تو ممکن نہیں لیکن یہ کہنا کافی ہو گا مینڈل، کینن اور ان کے ساتھی دوسری عالمی جنگ کے بعد راستہ کھو بیٹھے جس کے نتیجے میں انہوں نے حقیقی مارکسزم کو خیر باد کہہ دیا۔ ٹراٹسکی کی موت کے بعد چو تھی انٹر نیشنل زوال پذیر ہو کر ایک پیٹی بورژوا فرقہ بن گئی۔ اپنے بانی کے نظریات یا بالشوازم اور لینن ازم کے حقیقی رجحان سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

تحریک کی پسپائی
دوسری اور تیسری انٹر نیشنل زوال پذیر ہو کر اصلاح پسند تنظیمیں بن گئیں لیکن کم از کم ان کے ساتھ عوام کی بڑی تعداد تھی۔ جلاوطنی کے دوران ٹراٹسکی کے پاس کوئی عوامی تنظیم نہیں تھی لیکن اس کے پاس ایک درست پروگرام، پالیسی اور بے داغ پرچم تھا۔ ساری دنیا کے محنت کش اس کی عزت کرتے تھے اور اس کے نظریات کو سنا جاتا تھا۔ آج نام نہاد چوتھی انٹرنیشنل ایک تنظیم کے طور پر موجود نہیں ہے۔ اس کے دعویداروں (ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں) کے پاس نہ عوام، نہ درست نظریات اور نہ ہی بے داغ پرچم ہے۔ وہ اس بانجھ فرقہ پروری کا شکار ہو چکے ہیں جس کے خلاف مارکس پہلی انٹر نیشنل میں جدوجہد کرتا رہا۔ ان بنیادوں پر چوتھی انٹرنیشنل کا احیا نا ممکن ہے۔
ہمیں حقائق کا سامنا کرنا چاہیے۔ آج، پہلی انٹر نیشنل کے قیام کے 150 برس بعد، مختلف وجوہات کی بنا پر، جن میں معروضی اور موضوعی دونوں شامل ہیں، انقلابی تحریک پیچھے گئی ہے اور حقیقی مارکسزم کی قوتیں اقلیت بن چکی ہیں۔ سچ یہی ہے، اسے تسلیم نہ کرنے والے خود کو اور دوسروں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ماضی کی غلطیاں ہیں لیکن انقلابی مارکسزم کی قوتوں کی تنہائی اور کمزوری میں فیصلہ کن عنصر معروضی صورتحال ہے۔
جدید سرمایہ دارانہ ممالک میں کئی دہائیوں کی معاشی ترقی محنت کش طبقے کی عوامی تنظیموں کی بے نظیر زوال پذیری کا باعث بنی ہے۔ اس سے انقلابی دھارا الگ تھلگ رہ گیا ہے اور ہر جگہ پر چھوٹی سی اقلیت میں ہے۔ سوویت یونین کے انہدام سے تحریک تذبذب اور بے سمتی کا شکار ہوئی ہے اور یہ سابقہ سٹالن اسٹ لیڈروں کی زوال پذیری کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا ہے۔ ان میں سے کئی لیڈر سرمایہ دارانہ رجعت کا حصہ بن چکے ہیں۔
اس سے کئی لوگوں نے مایوس کن نتائج اخذ کئے ہیں۔ ہم ان لوگوں سے کہتے ہیں کہ:یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ہمیں مشکلات کا سامنا ہے، اور ہم ان مشکلات سے ہر گز نہیں گھبراتے۔ مارکسزم کی درستگی، محنت کش طبقے کی انقلابی صلاحیتوں اور سوشلزم کی حتمی فتح پر ہمارا یقین غیر متزلزل ہے۔ موجودہ بحران سرمایہ داری کے رجعتی کردار کو بے نقاب کر رہا ہے اور بین الاقوامی سوشلزم کے احیا کی ضرورت کو اجاگر کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر قوتوں کی صف بندی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان قوتوں کو ایک منظم اظہار اور واضح پروگرام، تناظر اور پالیسی دی جائے۔

واحد راستہ
آج ہمارا فریضہ پہلی انٹر نیشنل کے قیام کے وقت مارکس اور اینگلز کے فریضے جیسا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ پہلی انٹر نیشنل کئی مختلف رجحانات کا مجموعہ تھی۔ لیکن مارکس اور اینگلز اس سے پریشان نہیں ہوئے۔ وہ محنت کش طبقے کی انٹرنیشنل کے لیے عمومی تحریک کا حصہ بنے اور اسے سائنسی نظریات اور پروگرام سے لیس کرنے کے لیے صبر سے کام کرتے رہے۔ انہیں کئی دشواریوں کا سامنا تھا۔ زندگی کے آخری حصے میں اینگلز نے لکھاکہ :’’ساری زندگی میں اور مارکس اقلیت میں رہے اور ہمیں اقلیت میں ہونے پر فخر تھا۔ ‘‘
مارکس اور اینگلز کی طرح ہمیں بھی کئی دہائیوں تک دھارے کے خلاف تیرنا پڑالیکن اب تاریخ کے دھارے کا رخ بدلنا شروع ہو چکا ہے۔ 2008-9ء کا عالمی معاشی بحران عالمی صورتحال میں ایک اہم موڑ ہے اور سرمایہ داری کے منصوبہ سازوں کو کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ یہ کٹوتیوں کے 10 سے 20سال کی پیشین گوئی کر رہے ہیں۔ یہ سرمایہ داری کی تاریخ کی سست ترین ’’بحالی‘‘ ہے اورجو بحالی ہو بھی رہی ہے وہ یقیناًآبادی کی اکثریت کے لیے بے سود ہے۔
بنیادی میکانیات ہمیں سکھاتی ہے کہ ہر عمل کا برابر اور مخالف ردِ عمل ہوتا ہے۔ سرمایہ داری کا بحران محنت کشوں اور نوجوانوں کے ردِ عمل کو مشتعل کر رہا ہے۔ ہر جگہ، سطح پربظاہر خاموشی کے نیچے غصہ، نفرت اور عدم اطمینان سلگ رہا ہے اور سماج اور سیاست کی موجودہ صورتحال سے نا امیدی ہے۔ ایک کے بعد دوسرے ملک میں عوام بھرپور قوت کے ساتھ میدان میں آئے ہیں۔ مثلاً تیونس، مصر، ترکی، برازیل، یونان، سپین اور پرتگال میں۔ حتیٰ کہ امریکہ میں بھی بڑے پیمانے کا عدم اطمینان ہے اور موجودہ صورتحال پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں جو کہ ماضی میں نہیں ہوا کرتا تھا۔
آج مارکس کے نظریات کی افادیت اور ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ چھ سال کے گہرے معاشی بحران کے بعد بڑے پیمانے کی بیروزگاری، گرتا ہوا معیارِ زندگی، بکھرتی ہوئی فلاحی ریاست اورسلب ہوتے ہوئے جمہوری حقوق سب کے سامنے ہیں۔ بینکاروں کا سکینڈل ہمارے سامنے ہے جنہوں نے ہوس، سٹہ بازی اور دھوکہ دہی کے ذریعے عالمی مالیاتی نظام تباہ کر دیا ہے اور یہ سب کرنے پر انہیں بونس سے نوازا جا رہا ہے۔ آکسفیم کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے امیر ترین 66 افراد کے پاس 3.5 ارب غریب ترین لوگوں سے زیادہ دولت ہے۔ مارکس نے سرمایہ اور کمیونسٹ مینی فیسٹو میں اس سب کی پیشین گوئی کی تھی۔
ماہرینِ معیشت اور سیاست دانوں کے پاس اس بحران کا کوئی حل نہیں ہے اور وہ اس کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ اسے عالمی زائد صلاحیت (Over Capacity) کا بحر ان کہتے ہیں لیکن در حقیقت وہ جان بوجھ کر ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور چیزوں کو انکے اصلی نام سے پکارنے سے ڈرتے ہیں۔ ان کا مطلب زائد پیداوار ہے جسے مارکس نے1848ء میں بیان کیا تھا۔ یہی سرمایہ داری کا بنیادی تضاد ہے جو پہلے کے سماجوں میں نہیں دیکھا گیااور اس تضاد کو ختم کرنے کا واحد طریقہ پیداواری قوتوں کو نجی ملکیت اور قومی ریاست کی جکڑ بندی سے آزاد کرانا ہے۔
محنت کش طبقے اور نوجوانوں کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ معاشی بحران چل رہا ہے، و ہ ٹیلی وژن پر سب دیکھ سکتے ہیں۔ ایک جانب عدمِ تحفظ بڑھ رہا ہے اور دوسری جانب دولت کے ارتکاز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زیادہ تر مغربی ممالک میں پیداواریت، یعنی فی گھنٹہ پیدا کی گئی دولت 1970ء کی دہائی کے مقابلے میں50 فیصد بڑھی ہے لیکن اسی دوران حقیقی اجرتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ محنت کش طبقے کی پیدا کردہ بے پناہ قدرِ زائد پر سماج کے امیر ترین لوگ قابض ہیں جنہیں آکوپائی تحریک والے’’1 فیصد‘‘ کہتے ہیں۔
سرمایہ داری کی افراتفری کے خاتمے کا واحد طریقہ محنت کش طبقے کا اقتدار پر قبضہ، بینکوں اور بڑی کارپوریشنوں کی ضبطگی اور معیشت کی جمہوری اور سوشلسٹ خطوط پر منصوبہ بندی کا آغاز ہے۔ جب دولت پیدا کرنے والے انسان، جو سماج کی اکثریت ہیں، ترجیحات کا تعین کریں گے تو وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ سماج کے وسائل انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے استعمال ہوں، نہ کہ نجی منافعوں کے لیے۔ معقول رہائش، صحت کی سہولیات اور ہر سطح پر مفت تعلیم کی فراہمی ممکن ہو گی اور اس کے ساتھ ساتھ محنت کی پیداواری صلاحیت میں بڑے پیمانے کا اضافہ ہو گا۔
نیا سوشلسٹ سماج طبقات کے خاتمے کی بنیاد رکھے گا۔ مارکس کے الفاظ میں: ’’پرانے بورژوا سماج، اس کے طبقات اور طبقاتی تضادات کی جگہ ایک ایسی انجمن تعمیر ہو گی جس میں ہر فرد کی ترقی سب کی ترقی کی شرط ہوگی۔‘‘

عالمی مارکسی رجحان
اس وقت کوئی عوامی انٹر نیشنل موجود نہیں ہے۔ ٹراٹسکی کے قتل کے بعد قیادت کی غلطیوں کی وجہ سے تباہ ہونے والی چوتھی انٹر نیشنل آج صرف عالمی مارکسی رجحان کے نظریات، طریقہ کار اور پروگرام میں زندہ ہے۔ ہر جگہ لوگ موجودہ حالات سے تنگ اور بیزار ہو چکے ہیں۔ تبدیلی کی خواہش سلگ رہی ہے۔ آکوپائی جیسی عوامی تحریکیں اس کا اظہار ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر خود رو تحریکوں کی محدودیت بھی عیاں ہوئی ہے۔ ریاست پر بینکاروں اور سرمایہ داروں کا سخت کنٹرول قائم رہا، مظاہرے ختم ہو گئے اور کچھ بھی نہیں بدلا۔ تاریخ کا المیہ ہے کہ محنت کشوں کی عوامی پارٹیوں کے لیڈر ایک ایسے نظام سے چمٹے ہوئے ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ٹوٹ کر بکھر رہاہے۔ محنت کش اور نوجوان سماج کو بدلنے کے لیے جو کچھ کر سکتے تھے وہ کر چکے ہیں۔ لیکن ان کی کوششوں کا کوئی منظم اظہار ابھی نہیں ہوا ہے۔ ہر قدم پر پرانی بیورو کریٹک تنظیمیں اور قیادتیں ان کا راستہ روکتی ہیں، یہ وہ قوتیں ہیں جو بہت عرصہ پہلے سوشلزم کی حمایت کا شائبہ بھی ترک کر چکی ہیں۔
عالمی مارکسی رجحان (IMT) کو ٹراٹسکائٹ ہونے کی دعویدار دیگر تنظیموں سے ممتاز کرنے والی چیز تھیوری کی جانب ہماری محنت، لگن اور دوسری جانب عوامی تنظیموں کی طرف ہمارا رویہ ہے۔ تمام گروپوں کے بر عکس ہم اس بات سے آغاز کرتے ہیں کہ جب محنت کش میدان میں آنا شروع کرتے ہیں تو وہ مزدور تحریک کے کناروں پر کھڑے چھوٹے گروپوں کی جانب نہیں بڑھتے۔ ہماری تحریک کی تاسیسی دستاویز میں مارکس اور اینگلز نے وضاحت کی تھی کہ :’’کمیونسٹ محنت کش طبقے کی دوسری پارٹیوں کے خلاف اپنی الگ پارٹی نہیں بناتے۔ ‘‘انہوں نے مزید لکھا کہ :
’’کمیونسٹوں کا امتیاز مزدور طبقے کی دوسری پارٹیوں سے صرف یہ ہے کہ ۱: مختلف ملکوں کے مزدوروں کی قومی جدو جہد میں وہ بلا امتیاز قومیت پورے مزدور طبقے کے مشترک مفاد پر زور دیتے اور ان کو نمایاں کرتے ہیں۔ ۲: بورژوا طبقے کے خلاف مزدورطبقے کی جدوجہد اپنی نشوونما کے جن مرحلوں سے گذرتی ہے ان میں وہ (کمیونسٹ) ہر جگہ اور ہمیشہ بحیثیت مجموعی پوری تحریک کے مفاد کی ترجمانی کرتے ہیں‘‘۔ (کمیونسٹ مینی فیسٹو، پرولتاریہ اور کمیونسٹ)
یہ الفاظ آج بھی اتنے ہی درست ہیں جتنے اس دور میں تھے۔ مارکسسٹوں کا فریضہ انقلابی پارٹی اور انٹرنیشنل کا الفاظ میں اعلان کرنا نہیں بلکہ انہیں عملی طور پر تعمیر کرنا ہے۔ اس کے لیے دو چیزیں درکار ہیں: انقلابی نظرئیے کے لیے جدوجہدکے ساتھ مارکسی کیڈروں کی تعلیم اور محنت کش طبقے اور اس کی عوامی تنظیموں کی جانب غیر متزلزل رجحان۔
انٹرنیشنل محض اعلان کر دینے سے نہیں بن جاتی۔ یہ صرف واقعات کی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے، جیسا کہ کمیونسٹ انٹرنیشنل 1914-1920ء کے طوفانی دور میں عوام کے تجربات سے تعمیر ہوئی تھی۔ عوام کو سماج کی انقلابی تبدیلی کی ضرورت کا ادراک حاصل کرنے کے لیے بڑے واقعات درکار ہوتے ہیں۔ لیکن واقعات کے ساتھ ساتھ ہمیں واضح نظریات اور عالمی سطح پر عوام میں ٹھوس بنیادیں رکھنے والی تنظیم بنانے کی بھی ضرورت ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ ہم طبقاتی جدوجہد میں اپنے طبقے کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوں، ان کے تمام تر تجربات سے گزریں اور ہر موڑ پر سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی ضرورت کی وضاحت کریں۔ پہلے پرولتاریہ کے ہراول دستے کی سب سے سرگرم اور باشعور پرتوں اور نوجوانوں کو جیت کر ہی عوام تک رسائی ممکن ہو گی جو مزدور تحریک کی اصلاح پسند بیو رو کریسی کے زیرِاثر ہیں۔ 1917ء میں جب بالشویک سوویتوں میں اقلیت میں تھے تو لینن نے بالشویکوں کو مشورہ دیا کہ :’’صبر کے ساتھ وضاحت کرو!‘‘ یہ بہت اچھا مشورہ ہے۔
یکجہتی مہموں، مظاہروں اور قبضوں سے بڑھ کر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی انقلابی انٹر نیشنل کی تعمیر کی ضرورت ہے جو سامراج اور سرمایہ داری کے خلاف سوشلزم کے لیے جدوجہد کو ایک منظم اظہار اور سیاسی رہنمائی فراہم کر سکے۔ یہی ہمارا فریضہ ہے۔
معمولی شروعات کے بعد آئی ایم ٹی اب 30 سے زیادہ ممالک میں سرگرم ہے۔ ہماری ویب سائٹ www.marxist.com (مارکسزم کے دفاع میں) دنیا بھر میں پڑھی جاتی ہے۔ ہر سال لاکھوں لوگ اسے دیکھتے ہیں۔ برازیل سے امریکہ اور کینیڈا، یونان سے وینزویلا اور میکسیکو سے برطانیہ اور فرانس تک، آئی ایم ٹی مارکسزم کی قوتیں تعمیر کر رہی ہے۔ پاکستان میں انتہائی مشکل حالات میں ہم نے ہزاروں کی تنظیم تعمیر کی ہے جو بہترین محنت کشوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے لیکن یہ تو محض شروعات ہے۔ ہم اس مقصد سے اتفاق کرنے والے ہر محنت کش اور نوجوان سے اپنی منزل کے حصول میں مدد کی اپیل کرتے ہیں جو کہ عالمی سوشلزم کی فتح ہے۔

سرمایہ داری اور سامراج مردہ باد!
سماج کی سوشلسٹ تبدیلی زندہ باد!
عالمی سوشلزم کے لیے آئی ایم ٹی کا حصہ بنو!
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!

لندن، 28 ستمبر 2014ء