| تحریر: راہول |
اس سال 11 ستمبر کو نیویارک شہر میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور ورجینیا میں پنٹاگون پر امریکی تاریخ کے سب سے بڑے دہشت گردی کے حملوں کو پندرہ سال مکمل ہوجائیں گے۔ 2001ء میں ہونے والا یہ حملہ امریکی تاریخ کا سب سے خوفناک حملہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی تاریخ میں ایک اہم واقعہ گردانا جاتا ہے، امریکہ میں موجود کروڑوں لوگ اس دن کو ایک بھیانک خواب کے طور پر یاد کرتے ہیں، یہ وہ دن تھا جس کی تباہی و بربادی نے لوگوں کے ذہنوں پر خوف و ہراس طاری کردیا تھا، ٹیلیویژن سکرینیں تباہی اور ہلاکتوں سے بھری پڑیں تھیں، لوگ سسکیاں لیتے مرتے دیکھائے جارہے تھے اور کئی خاندان بربادی کی دلدل میں غرق ہو چکے تھے۔ اپنے دفاع، فوجی ٹیکنالوجی اور خفیہ سروسز پر اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود بھی امریکی سامراج اس حملے کے آگے بے بس نظر آیا، کئی لوگوں کا اب یہاں تک ماننا ہے کہ پینٹاگون اور سی آئی اے سمیت دیگر خفیہ اداروں کو اس حملے کا پہلے سے ہی ادراک تھا لیکن اُسے نہ روک پانا بنیادی طور پر عوام کے دفاع پر خرچ ہونے والے ان کروڑوں ڈالروں کے عیوض ایک خصی پن کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ سامراج کی سوچی سمجھی چال اور منصوبہ بندی تھی جس کا اندازہ پچھلی پوری دہائی میں رونما ہونے والی جارحیت اور بربادی کے واقعات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
یہ حملہ تاریخ کا ایک اہم موڑ اس وقت ثابت ہوا جب امریکی سامراج نے اپنی جارحیت کو پوری دنیا پر مسلط کرنے کے لئے دہشت کے ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ پوری دنیا کو جنگوں اور بربادیوں کے اس خونی کھلواڑ میں جھونک دیا گیا اور نام نہاد امن کے لئے جس ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا آغاز کیا گیا وہ بدقسمتی سے آج تک نہ صرف جاری ہے بلکہ اس جنگ کے چلتے آج کئی ریاستیں نہ صرف برباد ہوگئیں بلکہ ہزار ہا خاندان اپنی نسلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جنگ سے قبل فوجی جوانوں کی تیاری کچھ اس طرح سے کروائی گئی اور بندوق کی نالیوں کو یوں گرم کیا گیا کہ جیسے جنگ کسی میدان میں اور کسی ریاست کے خلاف ہونے جارہی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ جنگ اپنے آغاز سے ہی دو افواج کے درمیان جنگ سے زیادہ مختلف سرمایہ دار گدھوں کے درمیان تھی جو مختلف خطوں میں اپنی جارحیت کو تیز کرتے ہوئے وسائل کی لوٹ کے لئے بے صبر تھے اور جن سانپوں کو خود ’’ریاست ہائے متحدہ امریکہ ‘‘ نے انہی مقاصد کے لئے دودھ پلا کر اسامہ، ا لقاعدہ اور داعش کی صورت میں بڑا کیا تھا انکا انہیں ڈسنا ناگزیر تھا اور ساری انسانیت اس کے نتائج آج تک بھگت رہی ہے۔
اب یہ جاننا بالکل مشکل نہیں رہا کہ آخر اس جنگ کے حقیقی محرکات کیا تھے اور کن وجوہات کی بنا پر مشرقی وسطیٰ کے امن کو برباد کرنے کی منصوبہ بندی تشکیل دی گئی۔ بنیادی طور ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے حقیقی محرکات دہشت یا بربادی کو ختم کرنے کے بجائے ہتھیاروں کی اندھا دھند پیداوار کو تیزی سے استعمال میں لاتے ہوئے وسائل کی تیزی سے لوٹ مار اور خطوں کو برباد اور تاراج کرنا تھا۔ القاعدہ کا مرکز اس وقت افغانستان کو کہا جاتا تھا جہاں طالبان ان کے ساتھ شریک عمل تھے لیکن اس کے باوجود سامراج نے حملے کی سب سے پہلی منصوبہ بندی افغانستان کے بجائے صدام حسین اور عراق پر کی۔ اکثر لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ یہ جنگ اب ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف اور ان کے خاتمے تک جاری رہے گی، لیکن بنیادی طور پر دہشت گردی کو جواز بنا کر تیل سے مالا مال عراق کی دولت کو لوٹنا ہی حقیقی مقصد تھا۔ عراق پر حملے کی وجہ ستمبر 2001ء کا یہ واقعہ کبھی تھا ہی نہیں اور صدام کا القاعدہ سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس حملے کی تیاری واقعے سے کافی پہلے کی گئی تھی اور اسے انجام ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے بینر تلے پہنچایا گیا۔ عراق کے متعلق اب حقائق کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ ہتھکنڈے تاریخ میں پہلی بار سامراج کی جانب سے اپنائے گئے بلکہ ایٹمی ہتھیاروں کے متعلق جھوٹ سے جنگ کا آغاز بالکل اسی طرح کیا گیا تھا جیسے دوسری جنگ عظیم کے وقت امریکہ کے صدر روزویلیٹ نے حملے سے آگاہ ہونے کے باوجود بھی جاپانی ایئر فورس کو پرل ہاربر پر حملہ کرنے دیا تاکہ وہ دوسری جنگ عظیم میں داخل ہوسکے جبکہ اس وقت امریکی عوام کی اکثریت اس عمل کے خلاف تھی۔ امریکی سامراج کا یہ واویلا اپنی بنیادوں سے ہی اتنا کھوکھلا تھا کہ کوئی بھی یہ آسانی سے معلوم کرسکتا تھا کہ اگر یہ جنگ ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے لئے کی جارہی ہے تو پھر سب سے پہلے خود امریکہ اپنے ایٹمی اثاثوں کو تباہ کرتا جن کی حفاظت اور ترویج آج کروڑوں لوگوں کے ٹیکسوں کو خرچ کرکے اور ان کی زندگیوں کو غربت کی کھائی میں دھکیل کر کی جارہی ہے۔
اس جنگ کی شروعات سے ہی جن قوتوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا وہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس، پینٹاگون اور ہیلی برٹن سمیت وہ تمام دیوہیکل کارپوریشنز تھیں جو امریکی سامراج کے ساتھ کئی بڑے ہتھیاروں کے معاہدوں میں جڑی تھیں۔ حملے کے بعد فوری طور پر تمام جارحانہ قوتوں کو اکھٹا کیا گیا تاکہ پوری دنیا کے سامنے خوف وہراس اور دہشت کارقص کیا جاسکے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے فوری بعد پینٹاگون نے 250 بلین ڈالرز خرچ کئے تاکہ 2800 نئے جنگی جہازوں کو تیار کیا جاسکے۔ جنگی جہازوں پر خرچ کی جانے والی یہ رقم اگر عوام الناس پر خرچ کی جاتی تو آج شاید حالات کچھ اور ہوتے۔
اس جنگ میں نہ ویتنام جنگ کی طرح کوئی اضافی ٹیکس رکھا گیا اورنہ ہی پہلے مرحلے میں امریکی عوام سے کچھ مانگا گیا، بلکہ اس جنگ پر اخراجات، نئی نسل کی جوانیاں اور ان کے مستقبل کو قربان کرکے کئے گئے۔ اس جنگ کی وجہ سے امریکی عوام کی ایک پوری نسل کو قرضوں کی کھائی میں دھکیل دیا گیا ہے جن سے شاید ہی انقلاب کے بغیر چھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔ اوباما کے امن کے تمام تر دعوؤں کے باوجود بھی دفاع کے بجٹ میں مسلسل اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔
اس نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف‘ جنگ کے اخراجات 2011ء میں ہی 5 ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے تھے۔ یوں ہزاروں ارب ڈالر اس بربادی میں جھونک دئیے گئے جس نے دنیا میں دہشت گردی اور انتشار کو مزید پروان ہی چڑھایا۔ یہ اتنی رقم تھی کہ دنیا بھر سے کئی بار غربت، بھوک اور بیماری کا خاتمہ کر سکتی تھی۔ دوسری جانب اس جنگ کو لڑتے لڑتے اب خود امریکی فوجی ذہنی اور جسمانی تناؤ کا شکار ہو کر پست حوصلہ اور بیمار ہو چکے ہیں۔ 2014ء کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریبا ساڑھے چار ہزار فوجی اس جنگ میں ہلاک جبکہ 33 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ایک اور رپورٹ کے مطابق نوے فیصد فوجی زخمی کیفیت میں مبتلا ہیں اور خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔
اس جنگ کے چلتے جن دیگرممالک کو سب سے زیادہ بربادی کے دہانے پر پہنچایا گیا ان میں افغانستان، عراق، شام اور پاکستان سرفہرست ہیں۔ ان ممالک میں جنگ اور دہشت گردی کے براہ راست اور بالواسطہ اثرات سے ہلاک ہونے والے بے گناہ انسانوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اس سے کہیں زیادہ لوگ دربدر ہوئے اور ان کے خاندان اجڑ گئے۔ ان علاقوں سے اب جہاں القاعدہ کا خوف گھٹتا جارہا ہے وہاں ساتھ ہی ساتھ داعش سمیت کئی اور نئی قوتیں اس کھلواڑ میں شراکت دار بنتی جارہی ہیں۔ یہ تمام صورتحال اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ اس جنگ نے حالات کو زیادہ پیچیدہ ہی کیا ہے اور حالات اب امریکی سامراج کے قابو سے بہت باہر ہیں۔ سامراج کی مداخلت نے عوام کو مزید برباد اور رسوا کیا ہے۔ جنگ کے آغاز کے وقت شاید القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کی کوئی تنظیمی اکائی موجود ہو اوروہ کسی مخصوص مقصد کے لئے لڑ رہے ہوں لیکن آج کی کیفیت ظاہر کرتی ہے کہ درجنوں دہشت گرد گروہ پوری دنیا میں کرائے پر دستیاب ہیں اور دنیا جہان میں کوئی بھی ریاست یا فرد انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ آج سے پندرہ سال قبل جس جنگ کو سامراج نے عالمی قوت کے طور پر شروع کیا تھا وہ اب اس کی محدود قوتوں، کئی سارے دھڑوں اور برباد فوجی مورال کے ساتھ سب کے سامنے ہے۔ آج یورپ سے لیکر امریکہ تک جنگ میں شامل تمام شرکا کے سامنے یہ واضح ہوچکا ہے کہ جنگ کس کے خلاف تھی اور اس میں فتح کس نے حاصل کی ہے !
اس سال 11 ستمبر کا دن ایک ایسے وقت میں یاد کیا جارہا ہے جب امریکی سامراج اور اس کے حواریوں کی جارحیت کا پول سب کے سامنے کھل چکا ہے۔ حالیہ دنوں جاری کی گئی 28 صفحو ں پر مبنی امریکی کانگریس کی رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ گیارہ ستمبر کا یہ خوفناک واقعہ سعودی حکمرانوں (جو امریکہ کے ’اتحادی‘ بھی ہیں) کے سرمائے سے انجام پایا۔ یہاں تک کہ اُن دنوں بڑی رقم سعودی بادشاہ کے امریکی اکاؤنٹ سے امریکہ ہی میں موجود ان حملوں کے ایک اہم منصوبہ ساز کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جاتی رہی۔ اسی طرح اس سال چلکوٹ انکوائری میں بھی عراق جنگ میں غلط منصوبہ بندی اور غلط انٹلیجنس کی طرف اشارہ کیا گیا۔ لیکن جن چیزوں کو اس قسم کی رپورٹوں میں چھپانے کی کوشش کی گئی ہے وہ بنیادی طور سامراج کی وہ بدترین جارحیت ہے جس کا خمیازہ لاکھوں بے قصور لوگوں کو اپنی جانیں دیکر جبکہ کروڑوں لوگوں کو بے گھر اور غیر انسانی ماحول میں زندگی گزار کر اداکرنا پڑ رہا ہے۔ جہاں ایک طرف حالیہ کانگریشنل رپورٹ میں یہ جتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ منصوبہ بندی سعودی عرب کی مدد سے کی گئی تھی وہیں بش اور سعودی تیل کے بیوپاریوں کے درمیان نزدیکیوں کو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ حملے کے بعد بن لادن فیملی کو پولیس سے پوچھ گچھ کے بغیر ہی کچھ اس طرح ملک چھوڑنے دیا گیا جیسے کوئی اس منصوبہ بندی سے واقف ہی نہ ہو! بنیادی طور پر بن لادن سمیت کتنے ہی سانپوں کو امریکی سامراج نے اپنے حواریوں کی مدد سے پالا اور آج تک پال رہا ہے تاکہ اپنے سامراجی مقاصد کے لئے ان کا بھرپور استعمال کیاجا سکے۔
آج ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں وہ رجعت اوردرندگی کی کئی منزلیں عبور کرچکا ہے۔ اس جنگ کے کھلواڑ میں برباد ہوئے عوام نے سب سے پہلا اظہار مشرقی وسطیٰ سے کیا اور عرب انقلاب کا جنم بنیادی طور پر اس خونریزی اور جبر کے عہد سے چھٹکارے کا آغاز تھا۔ امریکی سامراج بھی اب اپنے مٹی سے بنے پیروں سے زیادہ مستحکم انداز میں چل نہیں پا رہا۔ مزید جنگیں کرنے سے اب وہ ہچکچاتا ہے۔ اس بات کو اب نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ بھوک اور افلاس میں پلتی خلق اب سامراج کو للکارتی ہوئی ایک نئے آغاز کی جانب بڑھ سکتی ہے اور اگر ایک حقیقی انقلابی قیادت اس خلق کو مہیاہوتی ہے تو وہ اس سرمایہ دارانہ نظام کا دھڑن تختہ کرے گی جو تمام تر جنگوں اور دہشت گردی کی جڑ ہے۔
متعلقہ: