کیا سوویت یونین کے انہدام سے سوشلزم کی ناکامی ثابت نہیں ہوتی ہے؟

(یہ آرٹیکل 2005میں طبقاتی جدوجہد کی جانب سے شائع کردہ کتابچے ’’سوشلزم کیا ہے؟50سوال اور ان کے جوابات‘‘ سے لیا گیا ہے جسے ہم معمولی تبدیلیوں کے ساتھ شائع کر رہے ہیں)

آج سے 88 سال قبل (پرانے روسی کیلنڈر کے مطابق 26 اکتوبر اور جدید کیلنڈر کے مطابق 7 نومبر کو) جو انقلاب برپا ہوا تھا اس کے ذریعے تاریخ میں پہلی مرتبہ محنت کش طبقے کی اکثریت نے لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں براہ راست اقتدارپر قبضہ کرکے ایک محنت کش ریاست کو جنم دیا تھا۔

بالشویک انقلاب کے لیڈر کامریڈ لینن ماسکو میں سرخ فوج کے سپاہیوں سے خطاب کر رہے ہیں

اس انقلاب کی تیاری اور اس کو برپا کرنے میں بالشویک (B)(RSDLP) پارٹی نے فیصلہ کن کردارادا کیا تھا۔ محنت کش طبقے کی ایک بھاری اکثریت نے سویٹوں (پنچائتوں) کے ایک نظام میں منظم ہو کر اجتماعی طور پر اس انقلاب کو جنم دیا اور اقتدار پر قبضہ کیا۔

تقریبا 5 یا 6 سال تک یہ انقلاب ان کلاسیکی بنیادوں پر قائم رہا جو اس کے بانیوں نے رکھیں تھیں۔ لیکن 1923-24ء کے بعد اس کی زوال پذیر ی کا آغاز ہوا۔ سوویت یونین کے ٹو ٹ جانے کی پیش گوئی بھی سب سے پہلے اس انقلاب کے قائدین لینن اور ٹراٹسکی نے کردی تھی۔ لیکن آج سامراجی پراپیگنڈہ کی یلغار میں جن دوحقائق کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ اس انقلاب کی بدولت ( زوال پذیری کے باوجود) 50 سے 60 سال کے قلیل عرصے میں روس ایک پسماندہ نوآبادیاتی ملک سے بدل کر دنیا کی دوسری بڑی معیشت کیسے بن گیا تھا؟

2۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس اور دوسری سٹالنسٹ ریاستوں میں بحران اور انسانی سماج کی جو کیفیت ہے وہ پہلے سے بہتر ہے یا بدتر ہے؟

1917ء میں زار شاہی کے جبر میں ایک غریب پسماندہ روس میں اکتوبر انقلاب نے جوبنیادی تبدیلی برپا کی تھی وہ منڈی پر مبنی معیشت ( جہاں پیداوار کا مقصد سرمایہ دار کا حصول شرح منافع ہوتا ہے) سے تبدیل کرکے اس کو منصوبہ بند (سوشلسٹ) معیشت( جہاں پیداوار کا مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل ہوتا ہے) میں تبدیل کردیا تھا۔ مقصد پیداوار کی اس بنیادی تبدیلی نے سابقہ سوویت یونین میں ترقی کی جس رفتار اور وسعت کو جنم دیا اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے خطے میں نہیں ملتی۔ 1990ء تک سوویت یونین اسٹیل ‘ مشین ٹولز‘ ٹریکٹر ‘ ٹرکوں ‘ سیمنٹ‘ کوئلہ ‘ گیس ‘ تیل ‘ ریلوے ‘بجلی سمیت 30 اہم اور بنیادی صنعتوں میں دنیا میں سب سے زیادہ پیدا وار کررہا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد 25 سالوں میں مغربی ممالک کی نسبت روس نے 1975ء تک دوگنا ترقی کی۔اس دور میں فی کس آمدن میں 160فیصد اضافہ ہوا۔ سماجی خرچ کی مد میں 400 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔5کروڑ 60 لاکھ فلیٹ تعمیر کیے گئے۔ بنیادی اور ثانوی تعلیم پوری آبادی پر لازم تھی۔ شرح خواندگی 99 فیصد تک پہنچ گئی۔ دنیامیں سب سے زیادہ ڈاکٹر ‘ انجینئر ‘ ٹیکنیشن ‘ سائنس دان اور ماہرین روس میں پیدا ہوئے۔ کئی شعبوں مثلاً خلائی تکنیک میں سوویت یونین نے امریکہ کو پچھاڑ دیا تھا۔ مکانوں اور ذرائع آمدورفت کے کرائے دنیا میں سب سے کم تھے۔ غذائی اشیاء کی قیمتیں اتنی کم تھیں کہ تمام اخراجات کرکے تنخواہ کا 50 فیصد سے زائد حصہ روسی محنت کش کے پاس بچ جاتا تھا۔ تعلیم علاج اور دوسری بہتر اجتماعی سہولیات مفت تھیں۔ چند سالوں میں سالانہ ترقی اور شرح پیداوار میں اضافہ 28 سے 30 فیصد رہا۔ کسی ملک کی سرمایہ دارانہ معیشت اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکی تھی۔

نیپرو ہائڈرل پاور پلانٹ جو 1932میں مکمل ہوا، طاقتور سوویت معیشت کی پہچان بن گیا

سوویت یونین کے ٹوٹنے تک بیروزگاری ایک جرم تھا روزگار اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کی ذمہ داری ریاست کے پا س تھی۔ مندرجہ بالا اعدادوشمار اور تاریخی حقائق ساری دنیا نے حالیہ تاریخ میں دیکھے ہیں۔یہ سب کچھ ذرائع پیداوار کے ملکیت کے رشتوں کی تبدیلی‘ زمین اور بھاری صنعت معیشت اور تقسیم کے ڈھانچے قومیائے جانے ‘ ذرائع مواصلات‘معاشی تبادلے او ربیرونی تجارت پر مکمل ریاستی اجارہ داری کی بنیاد پر ہی ممکن ہوسکا۔ انسانی تاریخ نے اتنی تیز ترین ترقی کسی اور دور یا نظام میں نہیں دیکھی۔

آج تمام تر پراپیگنڈے میں ان حقائق سے عوام کو بری طرح بے خبر رکھا جارہا ہے۔ لیکن دوسری جانب جو اس ترقی کے صرف ایک رخ سے متاثر ہو کر روسی اور چینی افسر شاہی کے پیروکار بن گئے تھے وہ اتنی دیوہیکل ترقی کے باوجود سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ اور وہاں پر مروجہ نظام کی تباہی کے اسباب بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ سوویت یونین میں برپا ہونے والے بالشویک انقلاب کی زوال پذیری 1924ء کے بعد سے شروع ہوئی۔ اسکی بنیادیں انقلاب کے ساتھ ساتھ ہی جنم لینا شروع ہوئی تھیں۔روس چونکہ 1917ء میں پہلے سے ہی صنعتی معاشی سماجی اور ثقافتی طور پر ایک پسماندہ ملک تھا اس لیے پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں نے وہاں کی بدحالی میں مزید شدت پیدا کردی۔ جنگ کے دوران اور اسکے فوری بعد انقلابی جدوجہد اور فتح کے خوف سے روس پر 21 ممالک نے فوجی چڑھائی کردی۔ چونکہ روس میں بالشویک انقلاب کی بدولت سامراجی ممالک میں اسی قسم کے انقلاب کا خطرہ بڑھ گیا تھا اس لیے انہوں نے اس انقلاب کو آغاز میں ہی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ لیکن اس انقلاب کی قیادت کے پاس وہ نظریاتی اور تنظیمی صلاحیتیں موجود تھیں جن کی بدولت انہو ں نے اس سامراجی جارحیت کو شکست دی تھی۔ اسکے دو بنیادی طریقے اپنائے گئے۔

1۔ تقریباً ساڑھے تین لاکھ کی بدحال فوج کو انقلابی عمل کے ذریعے صرف 18 ماہ کی قلیل مدت میں دفاع اور جنگ کے کمیسار (وزیر) ٹراٹسکی نے 30 لاکھ کی مضبوط سرخ فوج میں تبدیل کردیا۔ جس نے سامراجی یلغار کے خلاف مزاحمت کے ذریعے بہت سارے معرکوں میں سامراجی فوجوں اور انکے گماشتوں کو شکست دی اور انقلاب کے دفاع میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

2۔ دوسرا طریقہ کار محنت کشوں کی بین الاقوامی یک جہتی کا طریقہ کار تھا۔ چونکہ روس میں جنم لینے والا انقلاب کسی قوم یا ملک کا انقلاب نہیں تھا اور محنت کشوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم (دوسری انٹرنیشنل کی بائیں بازو کی حزب اختلاف) کی قیادت میں طبقاتی بنیادوں پر برپا ہواتھا اس لیے اسی عالمی تنظیم کے پلیٹ فارم سے لینن اور ٹراٹسکی نے دنیا بھر کے محنت کشوں سے اپیل کی کہ اپنے طبقے کے اس انقلاب کے دفاع کیلئے عالمی طور پر جدوجہد کی جائے۔ اس اپیل کے جواب میں نہ صرف امریکہ ‘ برطانیہ فرانس اور دوسرے سامراجی ممالک کے محنت کشوں نے ہڑتالوں کے ذریعے حملہ آور فوجوں کی سپلائی بند کردی تھی بلکہ اس بالشویک تحریک کے نتیجے میں حملہ آور فوجوں کے بہت سے سپاہیوں نے جارحیت سے انکا ر کرتے ہوئے بغاوتیں کردی تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بالشویکوں نے جس نظریئے کے تحت انقلاب برپا کیا تھا وہ کسی ایک ملک میں سوشلزم نہیں بلکہ عالمی انقلاب کی لڑی کی ایک کڑی کے طو رپر تھا۔ جولائی 1918ء میں لینن نے امریکی مزدوروں کے نام ایک خط میں لکھا ’’ ہم اس وقت ایک محصور قلعے میں ہیں (اور اس وقت تک رہیں گے) جب تک بین الاقوامی سوشلسٹ انقلاب کیقوتیں ہماری مدد کو نہ آئیں۔‘‘ اسی سال نومبر میں لینن نے لکھا۔ ’’دنیا کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ ہم نے روسی انقلاب کو برپا کرنے میں کوئی مہم جوئی نہیں کی۔ بلکہ یہ ایک اہم ضرورت تھی کیونکہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ دنیا بھر میں سوشلسٹ انقلاب فتح یاب نہیں ہوتا توبرطانوی فرانسیسی اور امریکی سامراج روس میں پرولتاری انقلاب اور آزادی کا گلا گھونٹ دیں گے۔ ہم نے اپنا سب کچھ بین الاقوامی انقلاب کے سہارے داؤ پر لگادیا ہے۔ ہم مکمل فتح تک صرف دوسرے ممالک کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر ہی پہنچ سکتے ہیں۔‘‘

اس فوجی اور بین الاقوامی محنت کش طبقے کی امداد اور یکجہتی سے روس میں انقلاب تو ہوگیا تھا لیکن کئی دوسرے خصوصاً ترقی یافتہ یورپی ممالک جن میں جرمنی ‘ اٹلی‘ فرانس ‘ ہنگری اور برطانیہ شامل ہیں کے انقلابات کے فتح یاب نہ ہونے کی صورت میں روس میں محنت کش طبقے کاانقلاب علیحدگی اور بیگانگی کا شکار ہونا شروع ہوگیا۔ جرمنی میں اسی عرصے میں تین انقلابات برپا ہوئے۔ ان میں نومبر 1918ء جنوری 1919ء مارچ 1921ء اور اکتوبر 1923ء کی انقلابی کوششیں اور سرکشیاں شامل تھیں۔ 1922ء میں لینن نے تیسری انٹرنیشنل کی مرکزی مجلس عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’ برلن جرمنی کا دل ہے اور جرمنی یورپ کا دل ہے۔ اگر جرمن انقلاب کامیاب نہیں ہوتا تو ہمارے انقلاب کا تباہی سے دوچار ہونا ناگزیر ہے۔ جرمن انقلاب کی فتح کیلئے ہمیں اگر روسی انقلاب قربان بھی کرنا پڑا توہم ایک لمحے کی ہچکچاہٹ کا مظاہر ہ نہیں کریں گے۔‘‘ بعد میں جنم لینے والی زوال پذیری نے لینن کے اس تجزیئے کو پوری طرح سچ ثابت کیا۔بالشویک انقلاب بچ تو گیا لیکن خانہ جنگی‘ سامراجی جارحیت اور یورپی انقلاب کی ناکامی کی بدولت روس میں انقلاب کے تنہا رہ جانے سے زوال پذیری کے عمل پر فیصلہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ پسماندہ روس میں ان آفات نے قلت اور قحط کی صورتحال پیدا کردی۔ بالشویک پارٹی کے سینکڑوں لیڈر محنت کش ریاست کا دفاع کرتے ہوئے سول جنگ میں مارے گئے۔ جن کی جگہ اقتدار کی ہوس رکھنے والے بہت سے مفاد پرست چور دروازے سے بالشویک پارٹی میں گھسنا شروع ہوگئے۔ قلت اور مانگ میں اضافے نے جو بدحالی پیدا کی اس سے سماجی خلفشار انقلاب کیبعد بڑھنا شروع ہوگیا۔ اس کو روکنے کیلئے ریاستی اقدامات میں شدت آنا شروع ہوگئی۔ کیونکہ مانگ اور قلت ناگزیر طور پر ریاستی عناصر کو مضبوط کرتی ہے اور افسر شاہانہ (بیوروکریٹک) اقدامات کا جواز فراہم کرتی ہے۔ 1920ء تک صورتحال یہ تھی کہ قبل از جنگ (1913ء میں پہلی عالمی جنگ سے پیشتر) کی نسبت محنت کش طبقے کی تعداد صرف 43 فیصد رہ گئی تھی اس طرح پیداوار میں انقلاب کے بعد کی صورت حال میں پہلے کئی سال بڑھنے کی بجائے گرتی چلی گئی تھی۔ صنعتی پیدوار صرف 18 فیصد رہ گئی تھی۔ اسی طرح انقلاب کرنے والے محنت کش طبقے کے ہراول دستے کا بھاری حصہ انقلاب کے دفاع کی نذر ہوگیا۔ خانہ جنگی اور انقلاب کے خطرے کے پیش نظر بالشویکوں کو بعض اوقات بہت شدید اقدامات بھی کرنے پڑتے تھے۔ داخلی انتشار اور بیرونی جارحیت کے خلاف لینن اور ٹراٹسکی کو 1920ء میں وار کمیونزم(جنگی کمیونزم) کی پالیسی کو بھی لاگو کرناپڑا۔ ان مشکلات میں ایسے اقدامات کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی تھی۔ ٹراٹسکی افسر شاہی کے ظہور کی ایک عام مثال دیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’جب کسی بھی چیز کی قلت پیدا ہوتی ہے تو اس کے حصول کے لیے قطاریں لگ جاتی ہیں۔جتنی زیادہ بدحالی ہوگی ان قطاروں میں اتنا ہی خلفشار ہوگا اس لیے ان کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک سپاہی کی ضرورت جنم لیتی ہے اگر گوشت کے حصول کیلئے ایسی قطاریں لگتی ہیں تو ان کو کنٹرول کرنے والاسپاہی اپنے لیے اچھا گوشت پہلے کٹوا کر رکھ لے گا۔ یہ عمل افسر شاہی کے جنم کی بنیاد بنتا ہے‘‘۔ لیکن افسرشاہی کے جنم لینے کے عمل میں روس کی ثقافتی اور سماجی پسماندگی نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ ترقی یافتہ ممالک میں انقلابات نہ ہونے سے روس کو نہ صرف صنعتی ومعاشی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ قومی اور ثقافتی بیگانگی کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسی عمل سے افسر شاہی کے جنم کا آغاز ہوا تھا۔ عظیم مارکسی استا د فریڈرک اینگلز نے انیسویں صدی میں لکھا تھا : ’’ کسی بھی سماج میں جہاں فن سائنس اور حکومت ایک اقلیت کی ملکیت ہوتے ہیں وہاں وہ اقلیت ان کو اپنے مفادات کے حصول کیلئے غلط استعمال کرے گی اور اپنی اس پوزیشن سے بددیانتی کرے گی جو کسی بھی حوالے سے اس کو ملی ہو۔ روس کی اس بڑھتی ہوئی افسر شاہی کی روش کو لینن نے اپنی کتاب ’’ بہتر کم مگر بہتر ‘‘(Better Fewer But Better ) میں اس طرح بیان کیا۔ ’’ ہمارا ریاستی ڈھانچہ بوسیدگی کی حد تک قابل مذمت ہوچکا ہے۔ہمیں اس میں پیدا ہونیوالی خامیوں کو دور کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ ان بیماریوں کی جڑیں ماضی سے نکل رہی ہیں۔ وہ ماضی جس کو ہم اکھاڑ کر پھینک تو چکے ہیں لیکن اس پر قابو نہیں پاسکے ہیں۔‘‘

اس حوالے سے افسرشاہانہ زوال پذیری کا عمل معروضی طور پر تو چل رہا تھا لیکن 1923ء کے بعد اس کو داخلی اور نامیاتی شکل ملنا شروع ہوئی۔ 1922ء میں سٹالن جنرل سیکرٹری بنا۔اس سے پیشتر جنرل سیکرٹری کے عہدہ کا مطلب پارٹی کی سرگرمیوں کو مربوط کرنے والا ہوتا تھا۔ جب بالشویک پارٹی نے انقلاب کیا تھا تو اس کا جنرل سیکرٹری سویڈلوف (Sverdlov) تھا۔ اس طرح اس عہدے میں بیوروکریٹک اور جبر کی روش اجتماعی قیادت کے اصول کی بنیاد پر نہیں تھی اور ریاستی اقتدار میں بڑھتی ہوئی بدعنوان قیادت جو زیادہ تر چور دروازے سے داخل ہورہی تھی اس نے سٹالن کی قیادت میں اس بیوروکریٹک زوال پذیری کو شعوری شکل دینی شروع کردی۔ چند ایسی شخصیات جو انقلاب سے پیشتر بالشویک پارٹی کی دشمن تھیں اقتدار ملتے ہی چور دروازے سے گھس کر سٹالن کے اس عمل کے جاری کرتے ہی اس کی اہم مشیر بن گئیں۔ان میں مارٹی نوف (Marty Nov) یاروسلاوسکی (Slavasky Yaro) وائی شنسکی (Vyshinsky) شامل تھے۔ ان ’’دانشوروں‘‘ نے جو عارضی اقدامات مخصوص جنگ اور خلفشار کے عالم میں کئے گئے تھے ان کو مستقل شکل دے کر افسر شاہی کی بنیادیں استوار کرنا شروع کردیں۔ جوں جوں انکی اقتدار پر گرفت مضبوط ہونا شروع ہوئی انہوں نے پھر اس افسرشاہانہ زوال پذیری کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرنا شروع کردیں۔ ان میں 1924-26ء کے دور میں ایسے نظریات کو پروان چڑھایا گیا جو مارکسزم کی روح اور اساس کے منافی تھے۔ ان میں پہلا نظریہ انقلاب کے روس کی سرحدوں میں مقید ہو جانے اور دوسرے ملکوں میں نہ پھیل سکنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ یہ نظریہ جو لینن کی جنوری 1924ء میں وفات کے بعد’’ ایک ملک میں سوشلزم‘‘ کا نظریہ تھا۔ یہ نظریہ قومی تنگ نظری اور عالمی محنت کش طبقے کی بین الاقوامی تنظیم(تیسری انٹر نیشنل) پر روسی تنظیم کے ریاستی اقتدار کے بلبوتے پر حاوی ہونے اور بین الاقوامی محنت کشوں کے ڈسپلن اور کنٹرول سے باہر نکلنے کے لئے مرتب کیا گیا۔ کیونکہ اس نظریئے کے پوری طرح مسلط ہونے کے بغیر افسر شاہی پوری ’’آزادی‘‘ سے بدعنوانی اور جبر جاری نہیں رکھ سکتی تھی۔ اس نظریئے کے تحت مارکسزم پر طبقاتی بین الاقوامیت کے برعکس ایک ملک میں سوشلزم کے نظریئے کی بدولت قومی تنگ نظری اورقوم پرستی کے جذبات اور نظریات حاوی ہونا شروعہوگئے۔لینن اور بالشویکوں نے جب انقلاب برپا کیا تھا تو وہ کسی ملک کے انقلاب سے زیادہ ایک طبقے کا انقلاب تھا جس کو عالمی سوشلسٹ انقلاب کے تسلسل اور عمل کا ایک حصہ سمجھا گیا تھا۔ مارکسزم نے قوم پرستی کی نفی کرتے ہوئے انسانیت کی نجات کو طبقاتی یکجہتی اور جدوجہد سے تعبیر کیا تھا۔ اسی بنیاد کو آگے بڑھاتے ہوئے لینن اور بالشویکوں نے انقلاب کے ذریعے جس ریاست کو جنم دیا تھا اس کا نام(USSR) سوویت سوشلسٹ ریپبلکوں کی یونین رکھا گیا تھا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ انقلابی عمل کے پھیلاؤ سے پوری دنیا کا نام (USSR) ہوجائے گا۔ انقلاب برپا کرنے والی قیادت نے یہ تصور بھی نہیں کیاتھا کہ سٹالن اور اسکے بعد آنے والے بیوروکریٹ اس عبوری سوشلسٹ سماج کو ایک ملک میں سوشلزم کی پالیسی کے تحت اس کو ایک علیحدہ اور مستقل شکل دے دیں گے۔ دوسرے الفاظ میں سٹالنزم کا مارکسزم سے سب سے بڑا نظریاتی انحراف ایک ملک میں سوشلزم کی پالیسی تھا۔ سوویت یونین کے دفاع میں بالشویکوں نے بے پناہ قربانیاں دی تھیں اور اس کو سامراجی یلغار سے جس پالیسی ( عالمی طبقاتی جدوجہد) کے ذریعے بچایا تھا اس کا مقصد روس کے انقلاب کو مقید کر نا نہیں تھا اسی میں ہی روسی انقلاب کی بقاء اور نجات ممکن تھی۔ مارچ 1918ء میں لینن نے لکھا’’ عالمی سامراج ایک فتح یاب بڑھتے ہوئے سماجی انقلاب کے ساتھ ساتھ نہیں چل سکتا۔ ہماری پسماندگی نے ہی ہمیں آگے دھکیل دیا ہے اگر دوسرے ممالک کے انقلابی سرکشی کرنے والے محنت کشوں کی عظیم حمایت نہ ملی تو ہم ناگزیر طور پر مٹ جائیں گے۔ (لینن تصانیف جلد Xv صفحہ نمبر 187) مارچ 1919ء میں لینن نے اس سوچ کو پھر دہرایا:

’’ ہم محض کسی ایک ریاست کی بجائے ریاستوں کے ایک مشترکہ نظام میں رہ رہے ہیں۔ سوویت ریپبلک کے وجود کا سامراجی ریاستوں کے ساتھ ساتھ لمبے عرصے تک رہنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا‘ آخر میں ایک کو دوسرے پر فتح مند ہونا پڑے گا‘‘۔(لینن۔ تصانیف جلد XvIصفحہ نمبر149)

5جولائی 1921ء کو پارٹی کانگریس کے اجلاس میں لینن بہت واضح تھا:

’’ہمارے لیے یہ واضح تھا کہ عالمی انقلاب کی مدد کے بغیر پرولتاریہ انقلاب کی فتح ناممکن ہے۔ انقلاب دوسرے پسماندہ ممالک میں اور کچھ زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں فوری طور پر یا جلد برپا ہوگا ورنہ ہم مٹ جائیں گے۔ اس نظریئے اور سوچ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے سوویت نظام کو ہرحالت اور تمام قیمت ادا کرکے قائم رکھنے کی کوشش کی کیونکہ ہم جانتے تھے کہ ہم صرف اپنے لئے کام نہیں کررہے بلکہ ایک بین الاقوامی انقلاب کے لئے کامکررہے ہیں۔‘‘ (لینن تصانیف جلد XvIII صفحہ نمبر 321)

اگر لینن کے ان نظریات کا موازنہ سٹالنسٹ افرشاہی کے پروگرام ‘ نظریات اور لائحہ عمل سے کیا جائے تو ہمیں احساس ہوگا کہ وہ لینن کے تمام تربت بنانے اور قصیدے گانے کے باوجود اس کے نظریات اور سوچ کے الٹ چل رہے تھے۔ ایک ملک میں سوشلزم کی پالیسی کے تحت ان کو مارکسزم کی بیشتر پالیسیوں سے انحراف کرنا پڑا مثلاً انہوں نے اس پالیسی کے تحت سامراج اور سوشلسٹ معیشت پر مبنی ملک کے ساتھ ساتھ رہنے کے عمل کو مستقل شکل دے دی۔قومی بنیادوں پر سوچنے والی افسر شاہی نے سامراج سے ملکی بنیادوں پر ’’ امن برائے بقاء باہمی ‘‘ کی پالیسی کو مستقل شکل دے کر مذاکرات اور سمجھوتے کرنے شروع کردیئے۔ ان بنیادوں پر جہاں سامراج روس میں معاشی تبدیلی کو واپس کرنے میں ناکام رہا وہاں معمولی رعایتوں کے عوض اس نے روسی افسرشاہی سے ترقی یافتہ اور مغربی ممالک میں انقلابات کو جنم دینے کے عمل کو رکوانے کا کام لیا۔اسی حوالے سے ’’مرحلہ وار‘‘ انقلاب کا نظریہ ’’ ایک ملک میں سوشلزم‘‘ کے نظریئے کا تسلسل تھا۔ سامراجی ممالک کے ساتھ مذاکرات اور سمجھوتے کرنے میں سٹالنسٹ افسر شاہی نے جو ’’رعایتیں ‘‘ دیں ان میں نوآبادیاتی ممالک میں انقلابات کو قومی جمہوری انقلاب یا عوامی جمہوری انقلاب کے مرحلے پر مقید کرنے کا مقصد ان ممالک میں سامراج کے استحصال کو قائم رکھنا تھا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں چین (1925-27) چلی‘ ہندوستان اور دوسرے کئی ممالک میں انقلابات کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ داخلی محاذ پر لینن نے ایک عبوری سوشلسٹ سماج ( جو سوشلزم کی طرف بین الاقوامی انقلاب کے ذریعے ہی بڑھ سکتا تھا) کیلئے مندرجہ ذیل معروضات تشکیل دی تھیں۔

* عبوری ریاست کے ہر اہل کار کا عوام کی بنیادی پنچائتوں(سوویتوں) کے ذریعے منتخب ہونا۔ ان پنچائتوں کے سامنے جواب دہ ہونا اور سوویتوں کا کسی اہل کار کو واپس بلانے کا حق ہونا۔

* ہر اہل کار کا بتدریج تبدیل ہونا جس کی بنیاد محنت کشوں کے زیادہ سے زیادہ حصوں کا اقتدار میں شراکت اختیار کرنا ( لینن کے الفاظ میں ہر باورچی وزیر اعظم اور ہر وزیر اعظم باورچی بن سکتا ہے)۔

* کسی علیحدہ فوج اور ریاست کا نہ ہونا بلکہ انقلاب کے دفاع کے لئے محنت کش عوام مسلحہوں گے۔ دفاع کا زیادہ کام سپاہیوں کی سوویتوں کے ذمے ہونا۔

* کسی بھی ریاستی اہل کار کی اجرت اور تنخواہ ایک عام ہنر مند مزدور سے زیادہ نہ ہونا۔

یہ بنیادیں انقلاب کے برپا ہونے کے چند سال بعد تک خونریزی خانہ جنگی اور بدترین حالات کے باوجود قائم رہیں۔ انسانی سماج کی پوری تاریخ میں اس سے زیادہ اور حقیقی جمہوری ڈھانچہ اور طریقہ کار نہیں دیکھا گیا۔ آج کے سامراجی پراپیگنڈے میں لینن اور بالشویکوں کو جس بدترین آمریت کے نظام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ تاریخی حقائق نہ صرف اس کی نفی کرتے ہیں بلکہ آج کے مالیاتی سرمائے کی آمریت کی لونڈی جمہوریت کی جعل سازی کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔

لیکن سٹالنزم کے تحت انقلاب کی زوال پذیری کے عمل نے محنت کشوں کی جمہوریت کے اس نظام کو بھی برباد کرنا شروع کردیا۔ اس جمہوری بنیاد کے خاتمے نے سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ میں فیصلہ کن کردار اداکیا تھا۔ ٹراٹسکی کے مطابق ’’ ایک منصوبہ بند ( سوشلسٹ معیشت) کی مسلسل تیز ترقی اور ارتقاکے عمل میں محنت کشوں کا مکمل جمہوری کنٹرول اور انتظام اسی طرح ضروری ہے جس طرح انسانی جسم کے لیے آکسیجن ضروری ہوتی ہے‘‘ روس کا انقلاب ایک دن ایک سال میں زوال پذیر نہیں ہوا تھا بلکہ یہ 1923ء سے شروع ہو کر 1938ء تک کے عرصے پر محیط تھا۔ اس زوال پذیر ی کے خلاف سب سے پہلی آواز لینن نے اٹھائی تھی۔ لینن کی موت کے بعد اس جدوجہد کو ٹراٹسکی نے جاری رکھا۔ لیکن انسانی تاریخ بے پناہ المیوں کی داستان بھی ہے۔ یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ لینن اور ٹراٹسکی اور ان بالشویکوں کو عوامی حمایت کیوں نہیں مل سکی جو انقلاب کی زوال پذیری کے خلاف برسرپیکار تھے؟ دوسرے یہ کہ اگر سٹالن کی جگہ ٹراٹسکی سوویت یونین میں اقتدار پر قبضہ کرلیتا تو کیا پھر بھی زوال پذیری ناگزیر تھی یا نہیں؟ اکتوبر 1917ء کے انقلاب کے ذریعے جنم لینے والی تبدیلیوں کے ثمرات روس کے سماج کو 1923ء کے بعد ملنے شروع ہوئے۔ مثلاً 1913ء کے معیار پر سماجی اور صنعتی ترقی 1923ء میں جاکر پہنچی تھی۔ جبکہ 1917ء کے بعد پرانتشار حالات کی وجہ سے انقلاب کے فوری بعد کے دور میں معیار زندگی گرتا چلا گیا تھا۔ لیکن معیشت کو سنبھالا صرف اسی وقت ملا جب سیاسی زوال پذیری شروع ہوچکی تھی اور افسر شاہی شروع ہوچکی تھی اور افسر شاہی مزدور جمہوریت کو ختم کرکے اپنا تسلطمضبوط تر کررہی تھی لیکن یہی وہ وقت تھا کہ روس کے عوام الناس کا معیار زندگی ایک سیاسی انقلاب کے ذریعے تیزی سے بڑھنا شروع ہو گیا۔ جنگوں ‘ انقلابات اورانقلابات کے طوفانوں اور انتشار سے نکلنے والے روسی محنت کشوں کے وسیع حصے بری طرح تھک چکے تھے۔ بڑھتے ہوئے معیار زندگی میں ان کو بڑے عرصے بعد آسائش نصیب ہوئی تھی وہ پھر ایک نئی لڑائی لڑنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے ٹراٹسکی اور بائیں بازو کی حزب اختلاف کا ساتھ نہیں دیا جن کو انقلاب کی زوال پذیری کو بچانے کے لیے سٹالنسٹ افسر شاہی کے خلاف ایک نئی سیاسی اور سماجی جنگ کرنی پڑ رہی تھی۔ المیہ یہ تھا کہ جس اکتوبر انقلاب نے روس کے عوام کے معیار زندگی کو تیزی سے بڑھانا شروع کیا تھا اسی انقلاب نے لینن کے ساتھ قائد اور تخلیق کار ٹراٹسکی کی عوامی حمایت کو کمزور کرنے میں اسی بڑھتے ہوئے معیار زندگی نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ دوسری جانب یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر سٹالن کی جگہ ٹراٹسکی برسراقتدار ہوتا تو انقلاب زوال پذیرنہ ہوتا لیکن تاریخ میں فرد کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ درست ہے کہ اگر لینن او ر ٹراٹسکی نہ ہوتے تو شاید انقلاب برپا نہ ہوتا۔لیکن سٹالن نے اس زوال پذیری کے معروضی عمل کو شعوری اور داخلی شکل دی۔ کم از کم ٹراٹسکی کی قیادت میں یہ نہیں ہونا تھا۔ لیکن پھر آخری تجزیئے میں معروضی حالات فیصلہ کن اثر رکھتے ہیں۔ اس لیے تاریخ کے ان عوامل میں کوئی حتمی فیصلہ یا رائے نہیں دی جاسکتی‘ کیونکہ ایک سے کہیں زیادہ عناصر ایسے تھے جن کی بدولت انقلاب زوال پذیر ہوا۔

بالشویک پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے ممبر

اس زوال پذیری کو مکمل کرنے کے لیے جہاں سٹالنسٹ افسر شاہی نے شعوری یا لاشعوری طو رپر بے پناہ سیاسی غلطیاں اور جرائم کیے۔(جرمنی ‘ فرانس‘ چین‘برطانیہ وغیرہ) وہاں انہوں نے بالشویک لیننسٹ حزب مخالف کو بری طرح کچلنے کی بھی کوشش کی۔ اس جنگ میں 13 لاکھ کے قریب بالشویکوں اور انقلاب کی سیاسی زوال پذیری کے خلاف جدوجہد کرنے والے افراد اور انکے خاندانوں کا قتل عام ہوا۔ جس پارٹی ( بالشویک پارٹی) کی قیادت میں اکتوبر کا انقلاب برپا ہوا تھا اس کی مرکزی کمیٹی کے 24 میں سے 23 ممبران 1938ء تک یا تو قتل کردیئے گئے تھے یا خانہ جنگی میں شہید ہوئے تھے یا جیلوں اور سائبیریا کے کیمپوں میں پابند سلاسل تھے یا پھر جلا وطن کردیئے گئے تھے(یا پھر غیر اہم عہدے دے کر منظر عام سے غائب کر دیا گیا)۔ روس میں صرف ایک ممبر باقی رہ گیا تھا۔ وہ سٹالن بذات خود تھا!

لیکن سٹالنزم اور افسر شاہی کی حکمرانی کو 5 سے 7 دھائیوں تک طول نصیب ہوا وہ بنیادی طور پر اکتوبر انقلاب کی معاشی تبدیلی کی مرہون منت تھا۔ سٹالنزم بنیادی طور پر اکتوبر انقلاب کے خلاف سیاسی ردانقلاب تھا۔ جبکہ معاشی بنیادیں وہی رہی تھیں جن کو سرمایہ داری ‘ جاگیرداری اور سامراجی تسلط کا خاتمہ کرکے سوشلسٹ منصوبہ بندی پر استوار کیا تھا۔ اس معاشی نظام نے ان 65 سالوں میں سرمایہ داری کی منڈی کی معیشت کے نظام میں اپنی برتری تیل‘ سٹیل‘ سیمنٹ‘ عمارات‘ ٹریکٹروں ‘ خلائی ٹیکنالوجی اور بے پناہ سماجی ترقی کی شکل میں ثابت کی۔ سٹالنسٹ افسر شاہی نے اس ترقی کے بلبوتے پر کئی نسلوں تک حکمرانی کی۔ لیکن مارکسزم لینن ازم سے انحراف اور غداری کی بدولت افسر شاہی نے سوشلزم کو نظریاتی اور عملی طو ر پر جس طرح مسخ کیا تھا اس بنیاد پر وہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتی تھی۔ ان بنیادوں پر سٹالنزم کا لمبے عرصے تک برقرار رہنا ناممکن تھا۔

جوں جوں منصوبہ بند معیشت صنعتی اور تیکنیکی ترقی تیز کرتی گئی اسی سے معیشت کی وسعت بھی بڑھتی گئی۔ لیکن اس معیشت کی وسعت سے افسرشاہی کے حجم میں بھی بے پناہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مزدور جمہوریت اور کنٹرول وانتظام کے فقدان کی وجہ سے اس افسر شاہی کی آمریت نے اس معیشت پر بوجھ بنناشروع کردیا۔ 1970ء کی دہائی میں روس کی صنعت اور معیشت 10 لاکھ سے زائد اشیاء بنا رہی تھی۔ لیکن اسکی منصوبہ بندی28 کروڑ آبادی کے ملک جو دنیا کی خشک سطح کے 1/6 حصے پر محیط تھا۔ صرف ماسکو میں قائم 50 وزارتیں کام کررہی تھیں۔ جس سے بدانتظامی اور پیدا ہونے والی اشیاء کے معیار میں تیزی سے گراوٹ آ رہی تھی۔ دوسری طرف منڈی اور منافع کے لالچ سے پاک سماج میں پیداوار کی انتہا ہورہی تھی لیکن بدانتظامی کی وجہ سے اس پیداوار کے بڑے حصوں کا ضیاع ہو رہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ افسرشاہی نے اپنی عیاشیوں اور بدعنوانی کی انتہا کردی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر جبر اور آمریت کے دور میں ناگزیر طور پر بدعنوانی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح افسر شاہی کی بدعنوانیوں‘ بدانتظامی‘ ضیاع اوراس کے اپنے وجود کے بوجھ سے منصوبہ بند ی پر مبنی معیشت کا دم گھٹنا شروع ہو گیا تھا۔ 1970ء کی دہائی تک آتے آتے افسر شاہی 2 کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ افراد پر مشتمل ہوچکی تھی۔ مزدور جمہوریت کے فقدان نے آخر کار ایک سوشلسٹ معیشت کے ار تقاء کے عمل میں رکاوٹ بننا شروع کردیا۔ لیکن ان داخلی پالیسیوں کا تسلسل افسر شاہی کی خارجہ پالیسیاں بھی تھیں۔ امریکی سامراج اور روسی افسر شاہی کے درمیان تضادات اور سرد جنگ کی اصل وجہ دونوں حکمران ٹولوں کی متضاد معاشی بنیادیں تھیں۔ لیکن ’’ ایک ملک میں سوشلزم ‘‘ کے سٹالنسٹ نظریئے کے تحت سامراجی ممالک میں انقلابی عمل کو تیز کرنے کی بجائے ایک طرف سامراج سے سمجھوتے ہوتے رہے جبکہ دوسری جانب بیرونی خطرے کے خلافبے پناہ وسائل اسلحہ سازی اور دفاع پر خرچ ہونا تھا۔ مجموعی قومی آمدن وپیداوار کا 60 فیصد بلواسطہ یا بلاواسطہ ان شعبوں پر خرچ ہوتا رہا۔ دوسری جانب اسی ’’ امن برائے بقائے باہمی‘‘ کی پالیسی کی وجہ سے 1930ء کی دہائی اور بعد از جنگ سامراجی ممالک میں ابھرنے والے محنت کشوں کے انقلابات سٹالنسٹ اور سوشل ڈیموکریٹک روایتی قیادتوں کی غلط پالیسیوں کی بدولت ناکام ہوئے اور سرمایہ دارانہ نظام کو پھر زندہ کرنے کا موقعہ مل سکا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران 1943ء میں یالٹا میں ہونے والے معاہدے میں سٹالن چرچل اور روز ویلٹ جو مغربی اور مشرقی یورپ کی بندر بانٹ کے اس معاہدے کے تحت فرانس‘ اٹلی اور یونان کے یقینی انقلاب جن کی قیادت ماسکو نواز کمیونسٹ (سٹالنسٹ) جماعتوں کے پاس تھی کو قربان کردیا گیا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں سامراج کو عالمی طور پر ایک نئے (تاریخ کے سب سے لمبے ابھار 1948-73 ) سرمایہ دارانہ عروج کا موقع مل گیا جس کو استعمال کرتے ہوئے خصوصاً امریکی سامراج نے اپنی پوزیشن عالمی اقتصادی اور سیاسی طور پر مستحکم کی۔ اس معاشی ابھار کے اثرات سے سوویت یونین پر بھی معاشی اور اقتصادی دباؤ بڑھنا شروع ہوگیا۔’’ ایک ملک میں سوشلزم کی فرسودہ پالیسی کے تحت ابتدائی 3 دہائیوں میں سٹالنزم نے سوویت معیشت کو محدود کر کے رکھ دیا اور عالمی منڈی میں شراکت نہیں کی۔ صرف 1953ء میں سٹالن کی موت کے بعد معیشت کے اندرونی دباؤ کی بنیادپر عالمی منڈی میں مداخلت کی گئی اوراس کو بھی بڑا محدود رکھا گیا۔ دوسری جانب سوویت یونین پر سامراج کا معاشی دباؤ بڑھ رہا تھا اور سامراجی ممالک میں انقلابی تحریکوں کے ماند پڑنے سے حالات بدتر ہورہے تھے جس کو سٹالنسٹ لیڈر سمجھنے سے قاصر رہے۔ٹراٹسکی نے سٹالنسٹ نظریہ دانوں کی اس سوچ کے بارے میں 1929ء میں لکھا تھا: ’’ یہ (لیڈر) اس بات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے تھے کہ ایک فورڈ ٹریکٹر اتنا ہی خطرناک ہے جتنی کروساٹ (Crevesot) کی توپ ہے۔ان میں واحد فرق یہ ہے کہ توپ کبھی کبھی استعمال ہوتی ہے جبکہ ٹریکٹر مسلسل دباؤ بڑھاتا رہتا ہے اس کے علاوہ ٹریکٹر یہ بھی جانتا ہے کہ آخری حربے کے طور پر توپ اسکے پیچھے رہتی ہے۔ ‘‘ (ٹراٹسکی 1929)

لینن نے بھی اس خطرے کی واضح نشاندہی کی تھی: ’’ جب تک ہماری سوویت ریپبلک علیحدہ سرحدوں میں محدود رہتی ہے جس کو ساری سرمایہ دارانہ دنیا نے گھیرا ہوا ہے۔ اس وقت تک یہ ایک بے وقوفانہ خواب اور بے ہودہ تصوراتی یوٹوپیا ہوگا۔جب ہم یہ سوچنا شروع کردیں کہ ہمیں مکملمعاشی آزادی حاصل ہوچکی ہے اور ہمارے خطرات ختم ہوچکے ہیں۔ سرمایہ داری کو اگراس کے عالمی پیمانے پر لیا جائے تو اب بھی نہ صرف فوجی بلکہ معاشی لحاظ سے وہ سوویت طاقت سے زیادہ طاقتور ہے۔ ہمیں اس بنیادی کیفیت کو مد نظر رکھ کر یہاں سے آگے بڑھنا ہوگا اور اس کو کبھی فراموش نہیں کرنا ہوگا۔‘‘ (لینن۔ تصانیف۔ جلد نمبر XVII صفحات 102 اور 409 )

’’ روس جو غربت کا دیس ہے وہ امارت اور فراوانی کا دیس صرف اسی صورت بن سکتا ہے جب ہم بدگمانی اور مصنوعی نعرہ بازی کو جھٹک دیں اپنے دانتوں کو دباتے ہوئے اپنی تمام قوتوں کو اکٹھا کرکے ہر نس ہر پٹھے اور ہررگ کو تان کر یہ سمجھیں کہ ہم نجات صرف اس بین الاقوامی سوشلسٹ انقلاب کی شاہراہ سے ہی حاصل کرسکتے ہیں جس پر ہم قدم رکھ چکے ہیں۔‘‘ (لینن۔ تصانیف۔ جلد XV صفحہ نمبر 165)

لیکن لینن کے برعکس روس میں سٹالنزم کی سوچ رکھنے والی افسر شاہی نے نہ صرف سامراج کے حوالے سے بلکہ دوسرے ممالک میں جنم لینے والے’’ سوشلسٹ ‘‘ انقلابات کے حوالے سے بھی حامل محنت کش تحریک کو زبردست نقصان پہنچایا۔ چین‘ کیوبا‘ ویتنام‘ کمبوڈیا‘ لاؤس‘ موزمبیق ‘ انگولا اور دوسرے ممالک جہاں ریاستی بغاوتوں اور گوریلا جنگوں کے ذریعے انقلابات آئے اور سرمایہ داری و جاگیرداری کو اکھاڑ پھینکا ان کے سامنے عالمی سیاست پر سوشلزم کا حاوی ماڈل ماسکو کا تھا۔ لیکن ان ادوار میں یہ ماڈل لینن کے ماسکو کے بجائے سٹالن ‘خروچیف‘ برزنیف اور ندروپوف کے ماسکوکا ماڈل تھا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے بھی وہی نظریات اور لائحہ عمل اپنایا جو ماسکو میں اقتدار پر براجمان سٹالنسٹ افسر شاہی کا تھا۔ا س طرح چین ‘ سوویت یونین ‘ کیوبا ‘ ویتنام او ر دوسرے سوشلسٹ ممالک کے الحاق سے جو ایک عظیم سوشلسٹ فیڈریشن بن سکتی تھی وہ ’’ایک ملک میں سوشلزم‘‘ کی پالیسی کے تحت قومی سوشلسٹ ریاستوں میں بٹ گئی۔ کامریڈ آپس میں اسلحہ‘ بارود اور میزائلوں کی زبان میں گفتگو کررہے تھے۔ چینی ‘ روسی اور دوسری افسر شاہیاں ’’قومی مفادات‘‘ کے تحت تمام پالیسیاں مرتب کررہی تھیں۔ان سے ’’سوشلسٹ ‘‘ ممالک کے درمیان تضادات اور بعض اوقات جنگوں کی شکل میں تصادم ابھرے۔ یہ سٹالنزم کی قومی سوشلزم کی پالیسی کا منفی نتیجہ تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ داخلی طور پر افسر شاہی کی بدعنوانیوں کے بوجھ‘ مغرب کی نسبت ٹیکنیک میں پسماندگی‘ مزدور جمہوریت کے فقدان او رافسر شاہی کے جبر کی وجہ سے سوشلسٹ معیشت کی رفتار سست ہونا شروع ہوگئی تھی۔

سوویت معیشت کا گراف

1950ء کی دہائی میں جب معیشت میں 12 سے 15 فیصد سالانہ کے اعتبار سے پیداوار میں اضافہ ہو رہا تھا وہ 1960ء کی دہائی میں کم ہو کر 10 فیصد سے 12 فیصد ہوگیا اور 1970ء کی دہائی میں کم ہو کر 6 سے 8 فیصد ہوگیا اور 1980ء میں گوربا چوف کے مشیر برائے اقتصادیات ابیل ابی بگیان کے مطابق 0% فیصد سے بھی کم رہ گیا تھا۔ اس معاشی بحران نے افسر شاہی کے سیاسی اعتماد کو بھی سخت ٹھیس پہنچائی اور وہ تذبذب میں ڈوبنے لگی۔ گوربا چوف جو افسر شاہی کا نسبتاً ذہین اور چالاک نمائیندہ تھا۔ اس نے سٹالنزم میں اصلاحات کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آمرانہ افسر شاہی کے جبر کے نیچے سلگتا ہوا معاشی سماجی اور قومی تضادات کا لاوا پرسٹریکا اور گلاسنااسٹ کی پالیسیوں سے پھٹ پڑا۔ سٹالنزم کا بحران اتنا بوسیدہ ہوچکا تھا کہ اس میں اصلاحات کی گنجائش ختم ہوچکی تھی۔ جب گوربا چوف کو اپنی پالیسیوں کی شکست نظر آئی تو اس نے سامراج کی گود میں پناہ لینے کی کوشش کی تھی۔ اس کے خلاف گیناڈی ژنائف کی قیادت میں پرانے سخت گیر سٹالنسٹوں کے ایک کمزور اور نحیف گروپ نے بغاوت کرنے کی کوشش کی جس کو سامراج کی پشت پناہی میں بورس یلسن نے ناکام کردیا۔ لیکن سامراجی حمایت میں روس میں سرمایہ داری کی دوبارہ استواری کی تکمیل ابھی تک مکمل نہیں ہوسکی۔ 15سال کی بے پناہ کوشش کے باوجود افسر شاہی کا سرمایہ دار مفاد پرست حصہ معیشت کو نجی ملکیت میں مکمل طور پر نہیں دے سکا۔ اس وقت بھی روس کی حاوی معیشت اور بھاری صنعت کا بیشتر حصہ آج بھی ریاستی ملکیت میں ہے۔ جس کو پرائیویٹائز کرکے سرمایہ دارانہ منافع حاصل کرنے کے خواب چکنا چور ہوگئے ہیں۔ جس سے ایک طرف سٹالنزم ٹوٹا ہے جبکہ دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام شدید خلفشار کا شکار ہے اور اپنے قدم نہیں جما سکا۔

سوویت یونین اور ۱۹۹۱کے بعد روسی معیشت کا ایک تجزیاتی گراف

سابقہ سوویت یونین کی ریاستوں اور روس میں انسانی زندگی درندگی اور بربریت کی طرف جارہی ہے۔ کسی بہتری کی بجائے تباہی اور بربادی کا دور دورہ ہے۔ 1997ء تک روس میں بیروزگاروں کی تعداد 5 کروڑ تک ہوگئی تھی۔ قیمتوں میں 700 سے 3600 فیصد اضافہ ہوا۔ مکانوں اور کرایوں میں اضافے کی بھی یہی صورتحال تھی۔ ماسکو میں جرائم کی رفتار اور تعداد میں 2000 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ روبل کی قیمت 1992ء میں تقریباً ایک ڈالر کے عوض 2 روبل کی تھی۔ 1997ء میں ایک ڈالر کے عوض ہزاروں روبل تھی۔ اس معاشی اور سماجی بدحالی نے روس کے محنت کشوں کو شدید صدمے اور اضطراب میں مبتلا کردیا ہے۔ ایک طرف انہوں نے کئی نسلوں تک ’’سوشلزم ‘‘ اور ’’کمیونزم‘‘ کے نام پر 60سال تک سٹالنزم کا کھلواڑ برداشت کیا۔ جس سے ان کوشدید نفرت پیدا ہوگئی تھی۔ لیکن سرمایہ داری کواستوار کرنے کے عمل نے تو ان کو تباہی وبربادی کی ایک بھیانک کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ اسی وجہ سے روس میں خلفشار ‘ سماجی بے چینی اور ہلچل اپنی انتہاؤں کو پہنچ گئی ہے۔ یہ اضطراب نہ صرف سماج کی نچلی سطحوں میں بحران کو بڑھا رہا ہے بلکہ ریاست اور افسر شاہی کے مختلف حصوں میں تضادات اور تصادم بڑھ گیا ہے۔ یہی صورتحال فوج میں بھی پائی جاتی ہے۔ سوویت یونین کا ٹو ٹنا مارکسٹوں کیلئے کوئی حیران کن واقعہ نہیں تھا بلکہ اس کی پشین گوئی اس کے بانیوں نے ہی کی تھی۔

ٹراٹسکی نے 1920ء میں لکھا تھا’’ایک درست قیادت کے بغیر پرولتاریہ کی آمریت ( مزدور جمہوریت) کمزور پڑ جائے گی اس کا ٹوٹ کر گر جانا بین الاقوامی انقلاب پر ایک سخت ضرب لگائے گا جس سے صحت یاب ہونے اور نکلنے میں بہت سے سال لگ جائیں گے۔‘‘ مارکس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سرمایہ‘‘ میں واضح کیا تھا کہ ذرائع پیداوار جب کسی ایک معاشی اور قومی ڈھانچے میں جنم لیتے ہیں تو ان کے ارتقاء کے عمل کے راستے میں جب قومی حدودیاکسی تنگ نظر نظام کی دیواریں حائل ہونا شر وع ہوجاتی ہیں تو ان ذرائع پیداوار کا ٹھہراؤ پھر اس سماج میں گھٹن اور خلفشار پیدا کردیتا ہے جس سے وہ سماج اور نظام تاریخی استبداد کا شکار ہوجاتا ہے اور اسکی ٹوٹ پھوٹ ناگزیر ہوجاتی ہے۔ سوویت یونین میں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ اسی لیے سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ مارکسزم کی نفی نہیں کرتی بلکہ ایک منفی انداز میں اسکی سائنسی سچائی کو ثابت کرتی ہے۔ اسی بنیاد پر یہ بات ایک سائنسی وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آج بھی اکتوبر کی سرزمین کی واحد راہ نجات ایک نیا اورجدید سوشلسٹ انقلاب ہی ہوسکتا ہے۔