کراچی۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا بحران اور محنت کش طبقے کا لائحہ عمل ، لیکچر پروگرام کا انعقاد

رپورٹ : عالم ایوب:-

24دسمبر 2011ء کو سراوان ہوٹل صدر کراچی میں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفینس کمپیئن کی جانب سے لیکچر پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔پر وگرام میں کراچی کے مزدوروں ،طالب علموں ،صحافی حضرات ،ترقی پسند وکلاء اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔پروگرام کے آغاز میں کامریڈ آدم پال نے عالمی معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں چلنے والی تحریکوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ۔انہوں نے تیونس سے چلنے والی تحریک پھر مصر ،یورپ اورآکوپائی پائی وال اسٹریٹ تحریکوں کی رپورٹ بیان کی جس کو پاکستانی میڈیا اور حکمران اب تک چھپا رہے ہیں۔انہوں نے پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال اور حکومت کی ناقص حکمت عملی کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ،بیروزگاری،بھوک ، افلاس کی وجوہات بیان کی۔انہوں کہا کہ کیا وجہ ہے کہ اناج کے گودام بھرے ہوئے ہیں لیکن غریب عوام ایک ٹائم کے کھانے کو ترس رہے ہیں۔اسپتال ہیں مگر غریب علاج کو ترس گئے ہیں۔میڈیکل اسٹوردوائیوں سے لدے ہوئے ہیں لیکن وہ دوائی نہیں خرید سکتا،اسکولوں کی عظیم الشان عمارتیں ہیں لیکن کسی محنت کش کا بچہ ان میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتا۔اس ظلم اورناانصافی کو بدلنے کا وقت آچکا ہے جس کیلئے تمام کامریڈز کو ایک حقیقی جدوجہد کرنا ہوگی تاکہ پاکستان میں ایک نیا سرخ سویرا آسکے۔ اسکے بعد پروگرام کے مہمان اور مقرر کامریڈ ڈاکٹر لال خان نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا بحران اور محنت کش طبقے کا لائحہ عمل کے عنوان پر لیکچر دیا۔انہوں نے دنیا بھر میں خصوصاً یورپ اور سویت یونین میں چلنے والی حالیہ تحریکوں کے بارے میں روشنی ڈالی۔کس طرح سرمایہ دارانہ حلومتیں بیل آؤٹ پکیج دے کر یورپ کے ملکوں کو دیوالیہ ہونے بچارہے ہیں لیکن یہ استحصالی نظام اب نہیں بچ سکتا،اس کا مڑنا لازم ہے۔انہوں نے پاکستان کی موجودہ معاشی ،سیاسی صورتحال کا بھی ذکرکیا۔حکمرانوں کی لڑائیوں کے بارے میں کہاکہ پاکستان کے غریب عوام کا مسئلہ میمو گیٹ نہیں بلکہ غربت ،مہنگائی ، بیروزگاری،بھوک،بجلی و گیس کی لوڈشیدنگ ہے لیکن سیاست دان عوام کو دیگر نان ایشوز میں الجھا رہے ہیں۔اقتدار کے حصول کی لڑائیاں شروع ہوچکی ہیں۔عمران خان کو نیا مسیحا بنا کر پیش کیا جارہا ہے جس پاس نہ کوئی معاشی پروگرام ہے اور نہ ہی عوام کے بنیادی مسائل کا حل ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں چلنے والی تمام مزدوروں تحریکوں کو طبقاتی بنیادوں پر لڑا جائے اور الگ الگ جدوجہد کے بجائے ایک ساتھ لڑی جائے۔انہوں نے 1968-69ء کی تحریک کا بھی ذکر کیا جس کو پاکستان کے مزدور بھول چکے ہیں یا ان سے چھپایا گیاہے۔پروگرام کے آخر میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا گیا اور سب نے مل کر انٹرنیشنل گایا۔