پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس… سوشلسٹ انقلاب کا کیا ہوا؟

تحریر : لال خان :-

30نومبر 1967ء کو جب لاہورمیں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر پاکستان پیپلزپارٹی کوجنم دینے والا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا تھا تو اس میں300 کے قریب مندوبین شریک تھے۔ اس وقت کے جابرحکمرانوں نے اس کوایک طرف تو غیر اہم قرار دے کر مسترد کرنے کے لیے ہر خفیہ اور انتظامی ہتھکنڈا اپنایا تھا۔اس اجلاس میں کم شراکت کو دیکھتے ہوئے نومنتخب چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے نوٹ کیا کہ’’ عظیم تحریکوں کے آغاز عمومی طور پرچھوٹے اور عاجزانہ ہوتے ہیں‘‘۔ شرکا میں بہت کم ایسے افراد تھے جن کو یہ یقین تھا کہ جس پارٹی کی وہ بنیاد رکھنے جارہے ہیں‘ وہ راتوں رات پاکستا ن کی تاریخ کی سب سے بڑی پارٹی اور محنت کش عوام کی سیاسی روایت بن جائے گی۔ لیکن وہاں موجود ہرفرد انقلابی سوشلزم کے جذبے سے سرشار تھا۔ اقتدار اوردولت کے حصول کے لیے نہیں بلکہ ان کو نیست ونابود کرنے کے لیے شریک ہوا تھا۔ جہاں باقی بائیں بازو کی پارٹیاں جمہوریت کا درس دے رہی تھیں وہاں پیپلز پارٹی نے انقلاب اور نظام کو اکھاڑ پھینکنے کا پروگرام دیا تھا۔ اس اجلاس میں منظور ہونے والی تاسیسی دستاویزات میں ہراس جمہوریت کو مسترد کیا گیاتھا جو سوشلزم اورسماجی ومالیاتی مساوات پرمبنی نہ ہو۔ پیپلز پارٹی کو وسیع عوامی حمایت اورسماجی بنیادیں فراہم کرنے والا‘ اس اجلاس کے بعد ابھرنے والا‘ 1968-69ء کاانقلاب تھا۔ اس انقلاب کے سوشلسٹ کردارکی پارٹی کے انقلابی پروگرام کے ساتھ ایک مماثلت بن گئی تھی۔ صدیوں سے ظلم اور استحصال کا شکار محنت کش طبقات کی آرزوؤں ‘ارمانوں اورجستجو کا حاصل پیپلز پارٹی کے اس بنیادی پروگرام میں جھلکتا تھا۔ لیکن انقلاب کرنے والی بالشویک پارٹیاں اچانک انقلابی حالات میں نہیں بناکرتیں۔ پیپلز پارٹی کا پروگرام کم وبیش سوشلسٹ اصولوں پر پورا اترتا تھا لیکن اس کے تنظیمی ڈھانچے اور تربیت یافتہ کیڈروں کا نیٹ ورک اس ریاست کے اندرریاست کی شکل اختیار نہیں کر سکا تھا‘ جو ایک انقلابی سرکشی کی فتح کے لیے لازم ہوتی ہے۔ حکمرانوں نے پہلے اس انقلابی ریلے کو انتخابی سیاست اور ڈھانچوں میں ملوث کرکے زائل کرنے کی کوشش کی ۔لیکن پھر جب یہ تحریک اسکو چیر کر آگے نکل گئی تو پھر قوم پرستی کو 1971ء والی جنگ کے ذریعے ابھار کر طبقاتی یکجہتی کو توڑنے کی کوشش کی۔ اس عمل میں انقلاب کو فتح مند ہونے سے روکنے کے لیے سامراج اور پاکستان کے بالادست طبقے نے ملک تک تڑوالیا۔ ان1967ء سے1972ء کے پانچ سالوں میں کئی مرتبہ ایسے مواقع آئے جب اس ریاست اور نظام کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کیاجاسکتا تھا ۔لیکن پارٹی کے فقدان سے یہ ہونہ سکا۔ پیپلز پارٹی کو اقتدار اسی ریاست کی جکڑ میں دیا گیاجس کو توڑنے کے لیے عوام ٹکرائے تھے۔
پاکستان کی تاریخ کی سب سے ریڈیکل اصلاحات اسی انقلابی ریلے کے دباؤ کی وجہ سے ہوئی تھیں۔ اگرچہ اصلاحات کے ذریعے انقلاب تو زائل ہوگیا تھا لیکن اس بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام اوربدعنوان ریاست کی وجہ سے ان اصلاحات سے محنت کش عوام کی حالت نہیں بدل سکی۔ جس سے پیدا ہونے والی مایوسی اور بدگمانی نے ردانقلاب کی راہیں ہموارکیں۔ امریکی سامراج کی پشت پناہی سے جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی حکومت کو معزول کردیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو سرمایہ داری پر حملوں کی پاداش میں پھانسی چڑھادیا گیا۔ ایک گیارہ سالہ ظلم اور بربریت کی سیاہ رات چھاگئی جس نے اس پہلے سے ہی خستہ حال سماج کو تباہ وبرباد کردیا۔ لیکن پھر تحریک ابھری جس سے نہ صرف آمریت کا خاتمہ ہوا بلکہ محنت کش اور نوجوان اپنی روایت میںیکجا ہوکر نعرہ لگارہے تھے ’’بے نظیر آئے گی‘ انقلاب لائے گی‘‘ ۔ لیکن قیادت نظریاتی اور سیاسی طور پر بدل کر پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ منشور سے انحراف کرچکی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے1969ء میں لکھا تھا ۔’’ میںیہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی مزدوروں ‘کسانوں اور طلبا کی پارٹی ہے۔ یہ ایک انقلابی اور سوشلسٹ پارٹی ہے‘‘ لیکن بے نظیر نے اپنی سوانح عمری’’مشرق کی بیٹی ‘‘ میں لکھا’’ برطانیہ میں جلاوطنی کے دوران میں نے دیکھا کہ وزیر اعظم تھیچر کی پالیسیوں سے ایک نیا درمیانہ طبقہ پیدا ہوا تھا ۔ میر ی حکومت میںیہ جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کا پہلا ملک بناجہاں سرکاری اثاثوں کی نجکاری کا آغاز کیا گیا اور ہم نے مالیاتی اداروں کو ڈی ریگولیٹ کردیا‘‘۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کی ہرحکومت اور قیادت زیادہ سے زیادہ دائیں جانب جھکتی چلی گئی ہے‘ سامراج اور سرمایہ داری سے بغل گیر ہے اور پارٹی کے بنیادی نظریات اور اصولوں کو دفن کرتی آرہی ہے۔ بعض اوقات روایات محنت کشوں کے کندھوں پرہمالیہ جیسا بوجھ بن جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس بوجھ کو عوام کب تک برداشت کریں گے؟ لیکن یہ بھی تو ایک تاریخی حقیقت ہے کہ روایات جہاں بنتی ہیں وہاں بکھر بھی جاتی ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی عوامی روایت کے طور پرمزید چلتی ہے توپھرپاکستان میں ہونے والی طبقاتی جنگ کا سب سے بڑا معرکہ بھی یہیں ہوگا۔ موجودہ حکومت نے جس بے دردی سے مہنگائی‘غربت اورذلت میں اضافہ کیاہے محنت کش ایک سکتے میںآگئے ہیں۔ وہ وقتی طور پرخاموش ضرور ہیں لیکن شدت سے سوچ اورپارٹی قیادت کے کردار کومحسوس کررہے ہیں۔ ان کے اندر اس ذلت اور اذیت ناک نظام اور سماج کے خلاف ایک لاوا بھڑک رہا ہے۔ پیپلز پارٹی میں اوپر سے ٹوٹ پھوٹ کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس نے ابھی تک کوئی نظریاتی تفریق کی شکل اختیار نہیں کی ہے۔ پارٹی کی حالیہ مسلط قیادت جو سرمایہ داروں ‘جاگیرداروں ‘سامراج کے حواریوں اور ضیاء کی باقیات پرمشتمل ہے اس کے خلاف اصل بغاوت صرف طبقاتی بنیادوں پر پارٹی کے بنیادی منشور سوشلسٹ نظریات کے تحت ہی ابھرے گی۔ اگر اس کو منظم اور متحرک کرنے والی ایک مارکسی قیادت اورقوت ابھرتی ہے تو پھر یہاں سے پھوٹنے والی تحریک 1968-69ء کے انقلاب کی تکمیل کو ایک سوشلسٹ فتح سے یقینی بنا کر ہی دم لے گی۔