پاکستان: حکمرانوں کے مشغلے اور سماج کی بربادی!

تحریر: آدم پال:-
عالمی سطح پر تیز ترین تبدیلیاں آ رہی ہیں۔امریکہ میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی ایک تحریک ابھر چکی ہے۔ یورپ میں بد ترین معاشی بحران ایک کے بعد دوسری حکومتوں کو گرانے کا باعث بن رہا ہے۔ مصر میں انقلاب حکمران طبقات پر دوسرا وار کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ جبکہ عالمی سرمایہ داری کی ایک کمزور کڑی، پاکستانی معیشت لرزتے لرزتے اب دھڑام سے گرنے کے قریب پہنچ چکی ہے۔لیکن یہاں کے حکمرانوں اور سیاسی راہنما ان حقیقتتوں کو زیر بحث لانے کی بجائے اپنا ہی راگ الا پتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی ٹی وی چینل اور اخباری تجزیے میں معیشت کی تلخ صورتحال پر بحث نہیں کی جا رہی کیونکہ کسی کے پاس کوئی حل ہی نہیں۔
پاکستان کی بد ترین معیشت کی حالت زار کا اظہار ایک مرتبہ پھر ہوا جب پہلے سے بدحال اور غربت میں دھنستے عوام پر ایک اور بد ترین معاشی حملہ کر دیا گیا۔ پانی سے پیدا کردہ بجلی کی قیمت میں 31فیصد اضافہ کر دیا گیا جبکہ گیس کی قیمت میں یکم جنوری سے 11سے 14فیصد اضافہ کر دیا جائے گا۔ بجلی اور گیس پیدا کرنے والے اداروں کی جانب سے ابھی مزید اضافے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ ان سب اقدامات سے عوام کا ایک بہت بڑا معاشی قتل عام کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کا ہر شہری جس میں بچے ، بوڑھے ، خواتین سب شامل ہیں61ہزار روپے کا مقروض ہے اور حکومت پاکستان ہر روز 500کروڑ روپے مزید قرض لے رہی ہے۔ 22نومبر کے دی نیوز میں فرخ سلیم کے مضمون کے مطابق’’پاکستان کی حالیہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہر دس میں سے چار شہری غربت کی لکیر سے نیچے گر چکے ہیں۔25مارچ 2008ء کو جب یوسف رضا گیلانی نے حلف لیا اس وقت 4کروڑ 71لاکھ پاکستانی انتہائی غربت میں رہ رہے تھے۔ گزشتہ تین سالوں میں اوسطاً 25ہزار پاکستانی ہر روز ، تین سالوں کے ہر ایک دن، انتہائی غربت میں جا رہے ہیں‘‘۔
صرف یہ ایک اعداد و شمار ہی بتانے کے لیے کافی ہیں کہ اس وقت پاکستان کی معیشت کس نہج تک جا پہنچی ہے اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہاں سے بہتری ممکن ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے معیشت کی بہتری کا جو حل بتایا جا رہا ہے اس کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاری آنے سے معیشت ترقی کرتی ہے اور یہ کہ نجکاری کا عمل تیز کیا جائے اور اسے غیر ملکی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے ۔ گزشتہ دہائی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ پی ٹی سی ایل، کے ای ایس سی سمیت دوسرے اداروں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے آنے سے نہ صرف بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے بلکہ بنیادی انفرا اسٹرکچر کے حامل ان اداروں کی زبوں حالی تیزی سے بڑھی ہے اور یہ ادارے سہولیات دینے کی بجائے اب عوام کو اذیت دینے کا باعث ب رہے ہیں ۔ لیکن اب تو حالت یہ ہے کہ عالمی معیشت بحران کے سنگین شکل اختیار کر جانے کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کے امکانات ختم ہو رہے ہیں۔2008 ء میں غیر ملکی سرمایہ کاری 5.4ارب ڈالر سالانہ تھی جو اب ایک ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ وزارت خزانہ کے اعداد و شمار کے مطابق ترقی یافتہ ممالک سے آنے والی سرمایہ کاری میں اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 83فیصد کمی ہوئی ہے اور اس کا حجم 5کروڑ ایک لاکھ ڈالر ہے۔ گزشتہ سال کی پہلی سہ ماہی میں 29کروڑ ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے نتیجے میں جو زر مبادلہ یہاں آتا ہے وہ اپنے ساتھ کئی گنا زیادہ زر مبادلہ ساتھ لے جاتا ہے۔اس ملک میں آنے والے غیر ملکی سرمایہ کاری آتے ہوئے جتنا سرمایہ لے کر آتے ہیں ، یہاں سے جاتے وقت اس سے کہیں زیادہ سرمایہ اپنے ساتھ لے کر جا رہے ہوتے ہیں۔اس سرمایے میں اضافہ خود بخود نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے لیے یہاں کے عوام کا خون اور پسینہ نچوڑ ا جاتا ہے، یہاں کے محنت کشوں کی غیر ادا شدہ اجرت اوربد عنوانی کے ذریعے لوٹی گئی رقم ہوتی ہے جو بیرونی سرمایہ کار اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور غیر ملکی بینکوں میں محفوظ کر دیتے ہیں۔لیکن موجودہ حالات میں سرمایہ دارانہ نظام کا یہ طریقہ کار بھی ناکام ہو رہا ہے۔گزشتہ حکومت میں شرح ترقی میں اضافے کا جو ڈھنڈورا پیٹا جاتا تھا ، وہ بھی اب ممکن نہیں رہا کیونکہ اس کی ایک اہم بنیاد غیر ملکی سرمایہ کاری کو ہی بنایا گیا تھا۔اس بیمار معیشت میں تو اب سرمایہ دارانہ بنیادوں پر شرح ترقی میں اضافہ کرناممکن نہیں رہا گو کہ اس شرح ترقی میں اضافے کے دوران بھی دس ہزار لوگ روزانہ انتہائی غربت میں دھکیلے جا رہے تھے۔
دوسری طرف غیر ملکی زر مبادلہ کمانے کا ایک طریقہ کار شیاء کی برآمد ہے ۔ پاکستان کی برآمدا ت میں بھی بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے اور اس مالی سال کے پہلے چار ماہ میں تجارتی خسارہ 31.38فیصد بڑھا ہے۔اس کی وجہ جہاں برآمدات میں کمی ہے وہاں درآمدات میں تاریخ کا تیز ترین اضافہ بھی شامل ہے۔ اس طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جو گزشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں59کروڑ 70لاکھ ڈالر تھا اب 1.2ارب ڈالرسے تجاوز کر چکا ہے۔اسی طرح سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اندرونی، بیرونی اور پبلک سیکٹراداروں کے مجموعی قرضے کا حجم 139.5 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اس نحیف معیشت میں اتنا بڑا قرضہ کبھی بھی ادا نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ قرضہ اسے ڈبونے کاباعث بنے گا۔
فرخ سلیم 22نومبر کے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ،’’مستقبل قریب میں ہم 60ارب ڈالر بیرونی قرضہ دینے کے قابل نہیں رہیں گے۔مستقبل قریب میں ہی ہم 6کھرب روپے کے اندرونی قرضے ادا کرنے کے لیے بہت زیادہ نوٹ چھاپتے ہی چلے جائیں گے۔زندہ رہنے کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے اور زندہ رہنے کا امکان کم ہوتا جا رہا ہے۔تباہی کا آغازہو چکا ہے‘‘۔
اس تمام معاشی بحران کے سماجی اور سیاسی اثرات مرتب ہونا نا گزیر ہے۔جہاں ریلوے اوربجلی جیسے بنیادی شعبوں میں تیز ترین گراوٹ ہر روز خبروں کا موضوع بنتی رہتی ہے وہاں تعلیم اور صحت فراہم کرنے والی سہولیات بھی عوام کی اکثریت کی پہنچ سے دور جا چکی ہیں۔2011ء کے Legatum Prosperity Indexکے مطابق ایتھوپیا، زمبابوے اور سنٹرل افریقن ریپبلک کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک ترقی کی اس فہرست میں پاکستان سے بہتر ہیں۔ جبکہ اس فہرست کی تعلیم میں ترقی کی زیریں فہرست میں افریقہ کے پسماندہ ترین پانچ ممالک کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک پاکستان سے بہتر ہیں۔
دیوالیہ پن کے قریب پہنچی اس معیشت پر براجمان حکمران ملکی سا لمیت کے بارے میں فکر مند دکھائی دیتے ہیں اور پاکستانی فوج اور اس کی ریاست کے تقدس اور اس کی حرمت کی پاسبانی کے دعوے کر رہے ہیں۔ جبکہ اس معیشت کے شدید بحران کے متعلق اس طبقے کا کوئی بھی شخص فکر مند دکھائی نہیں دیتا۔ کسی ٹی وی چینل پر ، کسی اخباری تجزیے میں ان 25ہزار پاکستانیوں کا ذکر نہیں کیا جاتا جو ہر روز یہاں پھیلے غربت کے سمندر میں غرق ہو جاتے ہیں۔
یہاں صرف ان عوام دشمن افراد کا ذکر ملتا ہے جو اپنی ہوس زر کے لیے کوئی بھی حد عبور کر سکتے ہیں۔ایسا ہی ایک قصہ ان دنوں میمو گیٹ کا چل رہا ہے۔اس قصے کا مرکزی کردار حسین حقانی ہے جو چند روز قبل تک امریکہ میں پاکستان کا سفیر تھا۔یہ شخص پاکستان کی رجعتی اور طلبا دشمن تنظیم اسلامی جمعیت کا اہم ممبر رہا جبکہ ضیا ء کی بد ترین آمریت میں یہ شخص زرد صحافت کا علمبردار رہا اور اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف رجعتی حملوں کی سازشیں کرتا رہا۔ نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں یہ اس کا خصوصی معاون اور سری لنکا میں سفیر رہا۔اس کے بعد سے اب تک یہ تقریباً ہر حکومت میں اہم کردار ادا کرتا رہا ساتھ ہی امریکی سامراج سے بھی اس کے تعلقات بہتر ہوتے چلے گئے۔پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت جس میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جنہیں ضیاآمریت کے دوران عوام پر جبر کرنے کا تجربہ ہے،ان افراد میں یہ شخص بھی شامل تھا۔ لیکن یہاں کیعوام کے ساتھ سب سے بھونڈا مذاق یہ کیا گیا کہ حالیہ ڈرامے میں رجعت ، عوام دشمنی اور ردِ انقلاب کے علمبردار اس شخص پر الزامات فوج اور آئی ایس آئی کے جرنیل لگا رہے تھے جبکہ اس کا دفاع پیپلز پارٹی کی قیادت کر رہی تھی۔
آج یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ عوام دشمنی میں یہاں کے جرنیلوں، ججوں، مشہور صحافیوں اور حکمران سیاست دانوں میں سے اول نمبر کس کا ہے ۔ ہر کوئی دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ پھر جب کوئی ایسا ڈرامہ رچایا جائے جس میں حکمران طبقے کے یہ تمام لوگ ایک دوسرے پر الزام تراشی کریں تو صورتحال اور بھی مضحکہ خیز ہو جاتی ہے۔فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان کو گلہ ہے کہ ان کے خلاف سازش کرنے کی کوشش کی گئی اور امریکہ کے ذریعے یہاں بیرونی مداخلت کرنے کی کوشش کی گئی جس سے ’’ملکی سا لمیت ‘‘شدیدخطرات سے دوچار ہو گئی۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حال ہی میں شائع ہونے والی وکی لیکس کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں امریکی سفیر وزیراعظم کے انتخاب سے لے کر تمام اہم فیصلوں پر حتمی رائے دیتا ہے۔پاکستان میں تقریباً ہر روزہونے والے ڈرون حملوں میں یہاں کے صدر اور آرمی چیف کی در پردہ حمایت شامل ہے۔ پاکستان کی تمام معاشی پالیسیاں اور منصوبہ بندی عالمی سامراجی ادارے کرتے ہیں۔پاکستان کو امریکہ کی جانب سے بیچے جانے والے قیمتی فوجی ساز و سامان میں یہاں کے فوجی آقاؤں کا بھاری کمیشن ہوتا ہے۔اوراسی طرح ایک لمبی فہرست ہے جس میں پاکستان کے حکمرانوں کی امریکی سامراج کی غلامی اور کاسہ لیسی کے واقعات درج کیے جا سکتے ہیں۔
لیکن جہاں تعلق گہرا ہو وہاں اختلافات بھی شدت سے ابھرتے ہیں۔جن وفاداروں کو امریکہ نے اپنے سامراجی عزائم کے لیے پال پوس کر بڑا کیا آج وہ اپنی وفاداری کی قیمت بڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ایسے میں کچھ سابقہ وفادار بے وفائی بھی کر تے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن چونکہ ان تمام کے مالی مفادات موجودہ نظام سے وابستہ ہیں اس لیے جلد یا بدیر وہ ایک دوسرے کے لیے تمام تر نفرت اور حقارت کے باوجودگلے لگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
عالمی معاشی بحران اور امریکہ میں جاری تحریک نے سامراجی طاقت کو بھی کمزور کر دیا ہے اور اسے افغانستان میں بھی شکست نظر آرہی ہے۔ اس لیے ان آقاؤں کے پاس بھی بے وفائی کرنے والوں کو سخت سزادینے کی سکت نہیں۔دوسری جانب پاکستان کی معیشت کی بربادی نے یہاں کی ریاست اورفوج کو انتہائی کمزور اور کھوکھلا کر دیا ہے۔جس لکڑی کو دیمک لگ جائے اوراسے کھوکھلا کر دے وہ کسی معمولی ٹھوکر سے گر سکتی ہے۔کبھی تو اپنے بوجھ سے ہی گر جاتی ہے۔کمزور فریقین کی اس لڑائی میں شور شرابا زیادہ ہے اور حاصل بہت کم۔حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ہو، ہندوستان ہو یا پاکستان سرمایہ داری کا سفینہ ہر جگہ ڈگمگا رہا ہے۔ایسی صورت حال میں شور مچانے سے، چیخنے چلانے سے ، لڑنے جھگڑنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس سفینے پر سوار لوگوں کے خوف اور بے چینی کا اظہار ہوتا ہے۔
ریاستوں اور نظاموں کے گرنے کا عمل کچھ وقت ضرور لیتا ہے جس میں وہاں بسنے والے لوگ انتہائی اذیت اور تکلیف سے گزرتے ہیں۔یہ تکلیف آج پاکستان میں ہر جگہ محسوس کی جا سکتی ہے۔سرکاری ہسپتال ہو یا سرکاری سکول، ریل اور بس کا سفر ہو یا جہاز کا ،آٹے اور چینی کے لیے قطارہو یا بل جمع کرانے کی،بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو یا گیس کی،پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہو یا ڈرون حملہ،جراثیم سے بھرا گندا پانی ہو یا ڈینگی کا حملہ،شہر ہو یا گاؤں ہر جگہ ہر وقت یہ اذیت محسوس کی جا سکتی ہے۔انسان پر اگر ایک مشکل آئے جس میں مہنگائی میں اضافہ ہو ، بیروزگاری ہویا گرمی اور سرد ی کی اذیت وہ اتنی جلدی ان سے ہار نہیں مانتا۔وہ زندگی گزارنے کا ڈھنگ تبدیل کر دیتا ہے لیکن اس مشکل سے لڑتا ہے۔ لیکن یہاں تو مشکلات اور مصائب کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے ۔ اگر لوڈ شیڈنگ کی اذیت معمول کا حصہ بن جاتی ہے تومزید مہنگائی اس معمول کو مزید تلخ کرنے کا باعث بن جاتی ہے، اس تلخی پر بھی انسان قابو پا لے تو روزگار کے مواقع میں مسلسل کمی انسان کے معیار زندگی کو مزید گرا دیتی ہے۔معیار زندگی میں گراوٹ بیماری اور ذہنی اذیت جیسی درجنوں اذیتیں ساتھ لے کر آتی ہے۔اس کے علاوہ ایک بہت بڑی ذہنی اذیت حقیقت کو جان لینے کی بھی ہوتی ہے۔راہنماؤں کی راہزنی کا ادراک بہت اذیت دیتا ہے۔جن کے بارے میں لوگ یہ تصور کر رہے ہوں کہ یہ لوگ ہمیں مصائب اور مشکلات سے نجات دلائیں گے اور حقیقت عیاں ہونے پر پتہ چلے کہ یہی لوگ تو تمام تر مصائب اور مشکلات کا باعث ہیں تو سچ کی کڑواہٹ زندگی کو اور بھی تلخ کر دیتی ہے۔
ایسے میں اس معاشرے میں زندگی گزارنا ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص مسلسل حالتِ جنگ میں ہو۔حکمرانوں اور اس نظام کے رکھوالوں کی جانب سے ایک کے بعد دوسرا حملہ کیا جا رہا ہے جبکہ عوام کی اکثریت مسلسل ان حملوں سے لڑ رہی ہے۔لیکن ابھی تک وہ انفرادی طور پر ان حملوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔جب وہ یہ فیصلہ کر لیں گے کہ انفرادی طور پر زندہ رہنے کی جدوجہد کرنا ممکن نہیں رہا تو وہ اجتماعی طور پر حکمرانوں کے خلاف بر سر پیکا ر ہوں گے۔اس جنگ میں ان کے پاس سب سے بڑی فوقیت یہ ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ حکمرانوں کی اس ریاست ، اس فوج ، اس نظام زر کو چلانے والے بھی یہی لوگ ہیں۔جس دن یہ لوگ اپنے پر کیے جانے والے مظالم کا انتقام لینے کے لیے باہر نکلیں گے اس دن ملکی سا لمیت، آئین کی پاسداری، عدلیہ کی آزادی جیسی تمام کھوکھلی بحثیں دم وڑ جائیں گی اور اس کارزارِ زندگی میں روٹی ، کپڑے اور مکان کے لیے جنگ ہو گی۔ ایک طبقاتی جنگ۔
پاکستان میں اتنے وسائل موجود ہیں کہ یہاں بسنے والے تمام لوگوں کو تمام بنیادی سہولیات دی جا سکیں۔اگر یہاں موجود بڑے بڑے سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا سرمایہ ، جاگیریں، بینک اور ملیں ضبط کر لی جائیں، سامراجی معاشی اداروں کو قرضوں پرسود کی ادائیگی بند کر دی جائے، فوجی افسران کی پر تعیش زندگی اور اسلحے کی خرید اری پر خرچ کی جانے والی بھاری رقم بند کر دی جائے تو یہاں کے لوگوں کی سینکڑوں اذیتوں اور تکلیفوں کا خاتمہ کر کے انہیں حقیقی خوشگوار زندگی دی جا سکتی ہے۔روٹی، کپڑے،مکان، علاج ، تعلیم کے لیے درکار تمام بنیادی اجزاء یہاں بکثرت موجود ہیں۔دوسرے یہاں کروڑوں کی تعدادمیں محنت کش ہیں جو اپنی زندگیاں سنوارنے کے لیے محنت کرنا چاہتے ہیں لیکن اس نظام میں اتنی صلاحیت نہیں کہ اس سے استفادہ حاصل کر سکے۔
موجودہ معاشی سماجی نظام میں رہتے ہوئے بہتری کے تمام امکانات ختم ہو چکے ہیں۔ ایسا نظام جو دولت کی غیر منصفانہ اور ظالمانہ تقسیم کو ختم کر کے یہاں اکثریت کے معیار زندگی کو بلند کرے صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی آسکتا ہے۔اس انقلاب کی قیادت کے لیے یقیناًایک انقلابی پارٹی نا گزیر ہے۔ایسی پارٹی جو سرمایہ داری کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کرتے ہوئے محنت کش عوام کی اکثریت کو اپنے ساتھ جوڑے اور اس کھوکھلی ریاست اور بیمار معیشت پر فیصلہ کن وار کرتے ہوئے یہاں محنت کشوں کی حکومت قائم کرے۔ایسی پارٹی کی تعمیر کا عمل پاکستان میں جاری ہے، اسے تیزکرنے کی ضرورت ہے تا کہ محنت کشوں کی تحریک ابھرنے کی صورت میں اسے حتمی فتح کی جانب لے جایا جا سکے۔