طبقاتی جدوجہد کے تمام قارئین کو نیا سرخ سال مبارک ہو!
گزشتہ سال 2011ء عالمی سطح پر تحریکوں اور انقلابات کا سال تھا۔ تیونس سے شروع ہونے والے عرب انقلاب نے تیزی سے پورے سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔عرب ممالک کی جابر آمریتیں جو کئی دہائیوں سے اپنے عوام پر ظلم ڈھا رہیں تھیں محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے انقلابی ریلے میں تنکوں کی طرح بہنے لگیں۔ تیونس کے بن علی، مصر کے حسنی مبارک اور لیبیا کے کرنل قذافی کے تختے الٹنے کے بعد اب یہ انقلابات شام میں بشار الاسد، یمن میں علی عبداللہ صالح، بحرین میں شاہ حماد الخلیفہ سمیت تمام عرب حکمرانوں کے تختوں کود ہلارہی ہیں۔ اسی دوران اسرائیل میں ابھرنے والی تحریک نے پوری دنیا کو حیران کر دیا جب اسرائیل کے محنت کشوں نے عرب انقلاب کی حمایت اور اپنے صیہونی حکمرانوں اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔
مشرقِ وسطیٰ کے انقلابات کی یہ لہر امریکہ کی وال سٹریٹ میں تحریک کو متاثر کرنے کاباعث بنی جہاں پر موجود احتجاج کرنے والوں کی کال پر دنیا کے 88ممالک کے 900سے زائد شہروں میں 15اکتوبر کو مظاہرے کیے گئے۔ جہاں جاپان اور فلپائن سمیت مشرق بعید کے ممالک میں اس کال کے نتیجے میں مظاہرے ہوئے وہاں یورپ کے معاشی بحران نے ان مظاہروں پر رد عمل کو مزید متشدد کر دیا۔ برطانیہ کی 30نومبر کی عظیم ہڑتال، یونان میں عام ہڑتالوں کا سلسلہاور دوسرے کئی بڑے واقعات یورپ کے مستقبل کا خاکہ پیش کر رہے ہیں جہاں یورو کے ٹوٹنے کی پیش گوئیاں بھی کی جا رہی ہیں۔
یہ سال جاتے جاتے ایک اور تحفہ بھی دے گیا جب روس کے کم عمر نوجوان مارکس اور لینن کی تصاویر والے سرخ علم لے کر اپنے حکمرانوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریک میں نکل آئے۔ ایک وقت تھا جب روس میں سٹالنزم کی شکست کو سوشلزم کی ناکامی قرار دیا جا رہا تھا لیکن ماسکو اور پیٹروگراڈ سمیت پورے روس میں ہونے والے مظاہروں نے سوشلزم کے خلاف پراپیگنڈے کواپنے پیروں تلے روند دیا۔
اس پس منظر میں آنے والا سال 2012ء زیادہ بڑے واقعات اور اہم تبدیلیوں کا موجب بن سکتا ہے۔ اس سال امریکہ میں ہونے والے انتخابات کو تاریخی اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے ایک انتہائی رجعتی دائیں بازو کے راہنما نیوٹ گرینچ کے مطابق یہ انتخابات 1860ء کے انتخابات کے بعد سب سے اہم ہوں گے جب ابراہام لنکن امریکہ کے صدر بنے تھے اور ایک خانہ جنگی کا آغاز ہوا تھا۔
اس کے علاوہ اس سال وینزویلا کے صدارتی انتخابات بھی انتہائی اہم ہیں جہاں رد انقلاب اور انقلاب میں ابھی تک فیصلہ کن معرکہ نہیں ہوا۔شاویز کے انتخابات جیتنے یا ہارنے ، دونوں صورتوں میں لاطینی امریکہ سمیت پوری دنیا پر اہم اثرات مرتب ہوں گے۔میکسیکومیں بھی صدارتی انتخابات ہونگے جہاں لوپیز آبراڈور دوبارہ سے پی آر ڈی کا صدارتی امیدوار ہے۔ پچھلی دفعہ اسے امریکی سازش کے نتیجے میں دھاندلی سے ہرایا گیا تھا جس کے بعد لاکھوں لوگ میکسیکو سٹی میں حکمرانوں کے خلاف جمع ہو گئے تھے۔
اسی طرح مارچ میں روس کے صدارتی انتخابات میں پیوٹن کے مقابلے میں روس کی کمیونسٹ پارٹی نے اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے جس کے باعث روس کی نئی تحریک اہم مراحل طے کرتے ہوئے وسعت اور گہرائی اختیار کرے گی اور وہاں کے حکمران طبقے کو اکھاڑنے کے عمل کا آغاز کرسکتی ہے۔
اس سال چین میں بھی صدر اور وزیر اعظم سمیت اہم قائدین تبدیل ہو رہے ہیں۔چین ابھی تک عالمی معاشی بحران سے نسبتا بچا ہوا ہے لیکن اس سال ایسا رہنا شاید ممکن نہ رہے اور یہ امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ چین کی نئی قیادت کو دنیا کے سب سے بڑے پرولتاریہ کی تحریک کا سامنا کرنا پڑے۔ چین کا حکمران طبقہ پہلے ہی محنت کشوں پر شدید جبر کر رہا ہے ۔ ایسے میں محنت کشوں کی بغاوت پوری دنیا کو لرزانے کا باعث بن سکتی ہے۔ہندوستان کی بھی اتر پردیش اور گجرات سمیت 5اہم ریاستوں میں انتخابات ہونگے جن میں نئی تبدیلیاں ابھر کر سامنے آ سکتی ہیں۔
پاکستان میں اس وقت حکمرانوں کی سیاسی سرگرمی عروج پر ہے لیکن محنت کش یہ ناٹک دیکھ رہے ہیں اور اس تماشے کے دوران اپنے اوپر گرائے جانے والے مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری، لوڈ شیڈنگ سمیت دوسرے عذابوں کو بھگت رہے ہیں۔بہت سے تجزیہ نگار اس سال کو پاکستان میں انتخابات کا سال قرار دے رہے ہیں۔ معاشی بحران کی شدت اور ریاست کے بکھرنے کے عمل میں کمی کے امکانات نسبتا کم ہے جس کے نتیجے میں محنت کشوں کی حکمرانوں کے خلاف نفرت مزید شدت اختیار کرے گی۔نفرت کا یہ لاوا جلد یا بدیر ایک تحریک کی صورت میں پھٹ سکتاہے جو ان حکمرانوں کی سیاست کو ننگا کر کے طبقاتی کشمکش کو سطح پر لائے گا۔
ہمارا فریضہ بنتا ہے کہ ہم عالمی سوشلسٹ انقلاب کیلیے انقلابی پارٹی کی تعمیر کے عمل کو مزید تیز کریں اور محنت کشوں کے لیے اس پارٹی کی شکل میں ایک ایساہتھیار تعمیر کریں جس سے وہ سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ سماج تخلیق کر سکیں۔آنے والا سال اس کام کے لیے ہمیں بہترین مواقع فراہم کرے گا۔
ہمارے پاس کھونے کے لیے صرف زنجیریں ہیں اور پانے کے لیے سارا جہاں۔