مزدور برباد! مگر کب تک؟

| تحریر: یاسر ارشاد |
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 129واں یوم مزدور سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے زوال کی وجہ سے پیدا ہونیوالی ایک انتہائی پر انتشار کیفیت میں منایا جا رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری، بجلی اور گیس کی بندش کے دورانیے میں اضافے کے ساتھ نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ جیسے مزدور دشمن اقدامات میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ محنت کشوں کی حاصل کردہ مراعات میں کٹوتیوں کی پالیسیوں کے ذریعے معاشی قتل عام کے ساتھ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ، فرقہ وارانہ قتل عام اور اقلیتوں پر جارحانہ حملوں کی بھرمار میں غریبوں کا لہو پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ حکمران طبقات کے تمام دھڑے اپنی لوٹ مار میں اضافے کی خاطر اس ملک کو جہنم زار بناتے جا رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی جو کبھی محنت کشوں کی نمائندہ ہونے کی دعویدار ہوتی تھی اب اس کی قیادت بھی چوروں کے اس ٹولے کا حصہ بن چکی ہے۔ تمام بڑی ٹریڈ یونینوں اور فیڈریشنوں کی قیادتیں بھی اس صورتحال میں انتہائی تذبذب اور پراگندگی کا شکار ہو کر کسی حقیقی لڑائی کو لڑنے سے کترا رہی ہیں۔ پاکستان کی مزدور تحریک ایک انتہائی سنجیدہ جدوجہد کی ضرورت کے وقت انتہائی گومگو اور ٹوٹ پھوٹ کی کیفیت سے دو چار ہے۔ لیکن مزدور تحریک کی یہ کیفیت اپنے اندر ایک تضاد رکھتی ہے۔ ٹریڈ یونین قائدین میں جدوجہد کے حوالے سے جتنی ہچکچاہٹ اور تذبذب پایا جاتا ہے، محنت کشوں کی عام پرتوں میں حتمی لڑائی لڑنے کا اتنا ہی جذبہ اور جستجو موجود ہے۔ اس تمام تر کیفیت میں ہمیں یوم مزدور کا بطور ایک تاریخی روایت اور مستقبل کی جدوجہد کے خطوط استوار کرنے والے دن کی حیثیت سے ایک تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

تاریخی پس منظر
یہ درست ہے کہ یکم مئی 1886ء کو شکاگو میں ریاست کے ہاتھوں قتل ہونے والے محنت کشوں کی یاد میں یوم مزدور ہر سال منایا جاتا ہے لیکن یکم مئی 1886ء کو جو ہڑتال کی گئی تھی اس کا اعلان اس سے دو سال پہلے 1884ء میں کیا گیا تھا۔ 1884ء میں امریکی فیڈریشن برائے ٹریڈ اینڈ لیبر یونینز نے اپنی کانگریس میں ایک قرار داد منظور کی جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ یکم مئی1886ء سے امریکہ کا ہر مزدور روزانہ صرف آٹھ گھنٹے کام کرے گا۔ یہ اعلان کسی مطالبے کی صورت میں نہیں تھا بلکہ کانگریس نے صرف آٹھ گھنٹے کے کام کو قانونی قرار دے کر اسے اپنے لئے ایک قانون بنا دیا تھا۔ درحقیقت یہ ایک انتہائی جرات مندانہ انقلابی اعلان تھا جس میں تمام یونینز نے مشترکہ طور پر کام کے اوقات کار کا فیصلہ کرنے کا اختیار حکمرانوں کے ایوانوں پر چھوڑنے کی بجائے خود اپنے ہاتھوں میں لے کر حکمرانوں کے اقتدار اور طاقت کو چیلنج کر دیا تھا۔ یہی وہ انقلابی جرات تھی جس کے باعث یکم مئی 1886ء کو ہونیوالے عملی اقدامات، جدوجہد اور بغاوت دنیا بھر کے مزدوروں کیلئے قابل تقلید حیثیت اختیار کر گئے۔
11113892_10152377903832325_8916418736476524402_nشہدائے شکاگو کا کارنامہ صرف یہ نہیں تھا کہ انہوں نے آٹھ گھنٹے اوقات کار کیلئے جان کا نذرانہ پیش کیا بلکہ ان کا حقیقی کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے حکمرانوں کے ایوانوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے اپنے لئے خود قانون بنا کر حکمرانوں کو اس پر عملدرآمد کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے محنت کشوں کی طبقاتی طاقت کا عملی مظاہرہ کر کے یہ ثابت کیا کہ اس سماج کا سب سے طاقتور اور انقلابی طبقہ محنت کش خود ہیں اور اگر وہ اپنی اس طاقت کا انقلابی شعور اور باہمی طبقاتی جڑت اور یکجہتی حاصل کر لیں تو ریاست کا وحشیانہ جبر بھی ان کو حقوق حاصل کرنے سے نہیں روک سکتا۔ اس حوالے سے ہمیں یوم مئی 2015ء کو اس پیغام کے ساتھ منانے کی ضرورت ہے کہ شہدائے شکاگو کا حقیقی پیغام اور اساس یہ ہے کہ محنت کش طبقہ اپنی طبقاتی طاقت کو اس سماج پر اپنا اختیار قائم کرنے کیلئے استعمال کرے، نہ کہ حکمرانوں سے محض رعائتیں لینے کیلئے۔

رعائتیں اور اختیار
محنت کشوں کی تنظیموں میں یہ غلط سوچ پائی جاتی ہے کہ انکی جدوجہد کا مقصد محض ہڑتالوں یا مذاکرات کے ذریعے حکمرانوں سے چھوٹی چھوٹی مراعات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ محنت کشوں کی تنظیموں کو ہر چھوٹی سے چھوٹی سہولت یا چھوٹ حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرنی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کو اپنی طویل جدوجہد کے تجربات سے یہ نتائج بھی اخذ کرنے کی ضرورت ہے کہ حکمران اگر ایک وقت میں مزدوروں کی ہڑتال کے دباؤ کے نتیجے میں ان کو مراعات دینے پر مجبور ہوتے بھی ہیں تو دوسری طرف کسی نئے ٹیکس یا مہنگائی میں اضافے کے ذریعے اس کو واپس لے لیتے ہیں۔ اگر129سال پہلے شہدائے شکاگو کی قربانیوں اور اس کے بعد دنیا بھر میں مزدوروں کی جدوجہد کے ذریعے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کا قانونی حق حاصل کر لیا گیا تھا تو آج کیا کیفیت ہے؟ آٹھ گھنٹے اوقات کار کا اطلاق آج کسی ادارے میں ہوتا ہے؟سوائے گنے چنے دو چار سرکاری اداروں کے۔ دوسری جانب نجکاری جیسی وحشیانہ پالیسی کے ذریعے جب تمام ادارے ہی بیجے جا رہے ہیں تو نہ صرف اوقات کار بڑھ جاتے ہیں بلکہ ڈاؤن سائزنگ اور لبرلائزیشن کے نام پر مستقل ملازمتیں اور دیگر مراعات کا بھی خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ نجی شعبے میں اس قسم کی مراعات کا تصور بھی موجود نہیں ہے۔ اس لئے جو چھوٹی مراعات ہم اپنی جدوجہد سے حاصل کرتے ہیں، ان کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تحفظ صرف اسی صورت ممکن ہے جب محنت کش مزید مراعات حاصل کرنے کی لڑائی جاری رکھیں اور اس سماج پر اپنا اختیار اور کنٹرول حاصل کریں۔ آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کے حصول کے پیچھے بھی یہی اصل مقصد تھا کہ محنت کشوں کو اپنے سیاسی کردار کو سمجھنے اور اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانے کیلئے وقت میسر آسکے۔ اس بنیاد پر دیکھا جائے تو ہماری جدوجہد کا مقصد چھوٹی چھوٹی مراعات کو حاصل کرتے ہوئے اس معاشرے پر سرمایہ دار اور جاگیردار لٹیروں کے اختیار کا خاتمہ کرنا ہے۔ اگر ہم جدوجہد کے محض ابتدائی مقاصد تک خود کو محدود کر لیں گے تو یہ حکمران اور ان کی ریاست ہمیں اسی طرح جبر کے ذریعے کچل کر ہمارا استحصال جاری رکھیں گے۔ اس لئے ہمیں اپنی حقیقی نجات کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لئے خود کو اس تنگ سوچ کے دائرے سے باہر نکالنا ہو گاا ور وسائل پر اختیار کی جدوجہد کرنی ہوگی۔

غیر سیاسی ٹریڈ یونینیں
ایک اور غلط سوچ جو حکمران ہمارے اوپر مسلط کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ٹریڈ یونین غیر سیاسی ہونی چاہئے۔ اس سوچ کو پھیلانے میں کسی حد تک ٹریڈ یونین قیادتوں کا بھی ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ سوچ بنیادی طور پر حکمرانوں کی پیدا کردہ ہے اور ان کے مفادات اور حکمرانی کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہے۔ ہم ایک ایسے سماج میں زندہ ہیں جس کی سب سے تلخ حقیقت اور بنیاد یہ ہے کہ اس میں نسلوں، قوموں، رنگوں، زبانوں، مذہبوں، علاقوں اور فرقوں کی فروعی اور مصنوعی تقسیموں کے برعکس ایک حقیقی تقسیم کا وجود ہے جو امیر غریب کی تقسیم ہے، جو محنت کش اورحکمران کی تقسیم ہے۔ اسے طبقاتی تقسیم کہتے ہیں۔ حکمران اس طبقاتی تقسیم کو دبانے کیلئے قوموں، نسلوں، مذہبوں غرضیکہ ہر قسم کی تقسیم کو اچھالتے رہتے ہیں۔ اسی لئے محنت کشوں کی تنظیموں کے اندر غیر سیاسی ہونے کی سوچ کو فروغ دیا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس نظام میں اگر حکمرانوں کے مفادات پورے ہوں گے تو محنت کشوں کے استحصال میں شدت آئے گی اور اگر محنت کش مراعات اور سہولیات حاصل کریں گے تو حکمرانوں کے منافعوں میں کمی آئیگی۔ اسی لئے حکمران محنت کشوں کو غیر سیاسی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ محنت کش یہ سیاسی شعور حاصل نہ کر سکیں کہ اس سماج میں تمام دولت و سرمایہ محنت سے تخلیق ہوتا ہے اور حکمران اس محنت کی تخلیق کردہ دولت کی لوٹ کے ذریعے اپنی عیاشیاں قائم رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر محنت کش خود سیاست نہیں کریں گے، اپنے سیاسی نظریات کا شعور حاصل نہیں کرینگے تو کیا وہ بالکل غیر سیاسی ہوں گے؟ ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔ اگر محنت کش اپنے طبقے کے مفادات کی نمائندگی کرنے والے نظریات کی سیاست نہیں کرینگے تو وہ حکمران طبقے کے ایک یا دوسرے دھڑے کے سیاسی تعصبات کا شکار ہو جائیں گے۔ وہ سیاسی تو ہوں گے لیکن اپنے دشمن طبقات کے نظریات اور سیاست کا حصہ بن جائیں گے اور اسی بنیاد پر حکمران طبقات سماج اور معاشرے پر اپنی حاکمیت برقرار رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں اس دشمن طبقے کے نظریات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے طبقے کے سیاسی نظریات کو محنت کشوں کی تمام تنظیموں، یونینوں اور فیڈریشنوں میں پھیلانا ہوگا۔ ہمارا نعرہ غیر سیاسی ٹریڈ یونینوں کے بجائے مزدوروں کے انقلابی نظریات کو پھیلانے والی یونینیں ہونا چاہیے۔
نجکاری کی معاشی پالیسی حکمرانوں کے منافعوں میں بڑھوتری اور محنت کشوں کی بربادی کی پالیسی ہے۔ ہمیں حکمرانوں کی اس پالیسی کیخلاف اپنی پالیسی پیش کرنے اور اس پر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا نعرہ صرف یہ نہیں ہونا چاہیے کہ قومی تحویل میں موجود اداروں کی نجکاری نہ کی جائے بلکہ ہمیں قومی تحویل میں موجود اداروں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دینے کے مطالبے پر جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح نجکاری کے عمل میں بیچے گئے اداروں اور دیگر نجی شعبے میں موجود بھاری پیداواری صنعتوں کو قومی تحویل میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول کے قیام کی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ غرضیکہ حکمرانوں کی ہر پالیسی کے خلاف ہمیں اپنی طبقاتی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے اور یہی واحد راستہ ہے کہ ہم اس نظام کے جبر و استحصال سے حقیقی نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ جب تک وسائل پر حکمرانوں کا کنٹرول رہے گا وہ اس کنٹرول کو محنت کشوں کے خلاف استعمال کرتے رہیں گے۔ محنت کش اسی صورت میں اپنی بہتری کیلئے قانون بنا کر اس پر عملدرآمد کر سکتے ہیں جب وہ وسائل پر کنٹرول حاصل کرینگے۔ یہی محنت کشوں کی تمام تاریخی جدوجہد کا حقیقی مقصد ہے۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے حکمران صرف ایک ہی معاشی نسخے کی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ نجکاری او ر براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے ہی ملک ترقی کر سکتا ہے۔ ہمیں اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ حکمران جب ’’ملکی ترقی‘‘ کی بات کرتے ہیں تو اس کا صحیح مفہوم اور معنی کیا ہوتے ہیں؟ کیا حکمرانوں کی ملکی ترقی کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس ترقی سے محنت کشوں کی اجرت، پنشن اور دیگر مراعات میں اضافہ ہوگا؟ کیا اس ترقی سے نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور بیروزگاری میں کمی آئے گی؟ کیا محنت کشوں کو اس ترقی کے نتیجے میں یونین سازی کا حق ملے گا؟ کیا محنت کشوں کو علاج کی بہتر اور مفت سہولیات میسرآئیں گی؟ کیا محنت کشوں کے بچوں کی معیاری تعلیم تک رسائی ممکن ہو سکے گی؟ کیا اس ترقی سے بیروزگاری اور دیگر معاشی مسائل سے تنگ آکر خود کشیاں کرنے والوں کی تعداد میں کمی آئیگی؟ کیا اس ترقی سے لوڈشیڈنگ کا عذاب اور بجلی کے بل کم ہوں گے؟ اسی قسم کے دیگر بے شمار سوالات ہیں جو اس ترقی کی حقیقت آشکار کرتے ہیں۔ اگر حکمرانوں کی ’’ترقی‘‘ ان سوالوں کا جواب اثبات میں نہیں دیتی تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں کی ترقی کا مطلب حکمرانوں کے منافعوں میں اضافے اور محنت کشوں کی مزید بربادی ہے۔ اسی طرح نجکاری نے پہلے کس ادارے کے محنت کشوں کے مسائل حل کئے ہیں جو اب واپڈا، پی آئی اے، او جی ڈی سی ایل اور دیگر اداروں کے محنت کشوں کے مسائل حل ہوں گے؟ ہمیں واپڈا سمیت تمام اداروں کی نجکاری کیخلاف ایک جدوجہد منظم کرنے کی ضرورت ہے، واپڈا کے محنت کش اپنی ہڑتالوں اور مظاہروں میں یہ درست نعرہ بلند کر رہے ہیں کہ ہمیں حکمرانوں کی بجلی بند کرنی چاہیے، اس نعرے کو دیگر تمام ادارے کے محنت کشوں تک لے جانے کی ضرورت ہے۔ چونکہ واپڈا کے محنت کش اکیلے یہ لڑائی جیت نہیں سکتے لہٰذا اس لڑائی کوجیتنے کیلئے حکمرانوں کی بجلی، پانی اور ٹیلی فون سمیت ہر چیز بند کرنے کی ضرورت ہے، ریلوے اور پی آئی اے سمیت ملک کا پہیہ جام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں آج بظاہر کسی منظم مزدور تحریک کا فقدان ہونے کے باوجود ہر ادارے میں محنت کشوں کی ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کی صورت میں ایک بکھری ہوئی تحریک موجود ہے۔ گزشتہ عرصہ میں نجکاری کیخلاف او جی ڈی سی ایل کے محنت کشوں کے ایک سنجیدہ جوابی حملے نے حکمرانوں کو پسپا کیا ہے۔ پنجاب میں نوجوان ڈاکٹروں کی تحریک نے تخت لاہور کے حاکموں کو کئی بار گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ اسی قسم کی چھوٹی چھوٹی بے شمار کامیاب ہڑتالیں اس بات کی عکاس ہیں کہ اگر محنت کش متحد ہو کر اپنے حقوق کے حصول کی لڑائی لڑتے ہیں تو حکمران جبر کے ذریعے بھی ان کو دبا نہیں سکتے اور اگر یہ حکمران ریاست کسی ایک ادارے کے محنت کشوں کی تحریک کو بھی نہیں کچل سکتی تو ملک بھر کے محنت کش اگر منظم و متحد ہو کر ایک ملک گیر عام ہڑتال کے ذریعے تمام مزدور دشمن قوانین اور پالیسیوں کے خاتمے کی جدوجہد میں آگے بڑھتے ہیں تو یہ ریاست ریت کی دیوار کی مانند بکھر جائیگی۔

نجکاری کے خلاف طبقاتی جنگ!
واپڈا کی نجکاری کے خلاف پہلے ہی ملک بھر میں ایک احتجاجی تحریک کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس تحریک میں وہ تمام بنیادی عناصر اور توانائی موجود ہے کہ یہ ایک نئی مزدور تحریک کو طاقتور بنیادوں پر ابھار سکتی ہے۔ ہمیں واپڈا کی نجکاری کو روکنے کی تحریک کو عمومی طور پر نجکاری کی پالیسی کے خاتمے کی تحریک بنانے کیلئے اس تحریک کو دیگر تمام اداروں کے محنت کشوں تک لے جانا پڑے گا۔ وہ تمام ادارے جو نجکاری کے ذریعے بیچے جانے والے اداروں کی فہرست میں ہیں، ان کی اور واپڈا کے محنت کشوں کی جدوجہد بنیادی طور پر ایک ہی جدوجہد ہے۔ حکمران محنت کشوں کو مختلف اداروں میں تقسیم کر کے ان پر الگ الگ حملے کرتے ہیں۔ ایک ادارے کو بیچنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر اس ادارے کے محنت کش مزاحمت کرتے ہیں تو اس ادارے کی نجکاری عارضی طور پر ملتوی کر کے کسی دوسرے ادارے کو بیچنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ کسی بھی ادارے کی نجکاری کے عمل میں التوا ایک انتہائی عارضی کامیابی ہے۔ اس لئے کہ حکمران آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے جو قرض لے کر اس ملک کی معیشت کو چلاتے ہیں ان کی بنیادی شرط یہی ہے کہ ان تمام اداروں کو بیچا جائے۔ اس صورتحال میں نجکاری حکمرانوں کی ایک مستقل پالیسی ہے جس کے خلاف تمام اداروں کے محنت کشوں کو متحد ہو کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر نجکاری کی پالیسی کا خاتمہ نہیں ہوتا تو یہ حکمران دوبارہ ان اداروں کے محنت کشوں پر حملہ آور ہونگے۔ نئے حملے سے پہلے محنت کشوں کو مختلف پیکجز کا لالچ دے کر ان کیلئے نجکاری کو دلکش اور قابل قبول بنایا جائیگا اور دوسری جانب دہشت گردی اور ملک کی خراب صورتحال کا جواز بنا کر ہڑتالوں اور مظاہروں پر پابندیاں عائد کر کے محنت کشوں کی مزاحمت کو توڑنے کی کوشش کی جائیگی۔ اسی قسم کے دیگر ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے محنت کشوں کے معاشی قتل کی اس پالیسی پر عملدرآمد کی کوشش کو اس وقت تک جاری رکھا جائے گا جب تک کہ تمام اداروں کے محنت کش نجکاری سمیت تمام مزدور دشمن پالیسیوں اور قوانین کے خاتمے کیلئے طبقاتی بنیاد پر متحد ہو کر جدوجہد نہیں کرتے۔ محنت کشوں کو یوم مئی2015ء پر اس عزم کا اعادہ کرنا ہوگا کہ وہ اس جدوجہد کو اس کے منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لیں گے جسے شکاگو کے شہدا نے شروع کیا تھا۔

جدوجہد جاری ہے!
 1886ء میں اپنے آغاز سے لیکر آج تک ایک جرات مندانہ انقلابی بغاوت، قربانی کی درخشاں روایت، مزدوروں کی عالمی یکجہتی، طبقاتی جڑت کی زندہ دلیل اور طبقاتی استحصال کے خاتمے کی قابل تقلید جدوجہد کے طو رپر یوم مئی کی اہمیت اور افادیت میں 129سال سے مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ سرخ پرچم جو آج ہمارے ہاتھوں میں ہے اسے ایک طبقاتی جنگ کو فتح سے سرفراز کرنے کی علامت اور امانت کے طور پر ہمیں سونپا گیا ہے۔
ptudc rally against privatization in lahore (1)یوم مئی محنت کشوں کی طرف سے سرمایہ داروں کے تخت اکھاڑنے اور محنت کا راج قائم کرنے کی جدوجہد کا اعلان ہے۔ یہ آخری سانس تک ناقابل مصالحت جدوجہد کی ریت ہے، یہ نقارہ جنگ ہے، یہ بغاوت کی آتشِ جواں ہے جس میں انقلابی فتح کی لگن اور جنون ہے۔ ہماری نسل کے محنت کشوں کو شہدائے شکاگو کے لہو کے قرض کا حساب چکانے کیلئے آگے بڑھنا ہے اور سرمائے کا سر کچل کے محنت کا راج قائم کرنا ہے۔