لینن کا امریکی مزدوروں کے نام خط

رفیقو!
سال 1905 ء کے انقلاب میں حصہ لینے والے ایک روسی بالشویک نے جو آپ کے ملک میں بہت برسوں تک رہ چکا ہے یہ پیشکش کی ہے کہ وہ میرا خط آپ تک لے جائے گا۔میں نے اس کی تجویز اس وجہ سے اور زیادہ خوشی سے منظور کر لی کہ اسی وقت امریکی انقلابی پرولتاریوں کو امریکی سامراج کے اٹل دشمن کی حیثیت سے غیر معمولی طور پر اہم رول ادا کرنا ہے جو سرمایہ داروں کے نفع کی تقسیم کے لئے قوموں کے عالمی قتل وغارت میں سب سے تازہ، سب سے مضبوط اور سب سے زیادہ نیا شریک ہونے والا ہے۔ اسی وقت امریکی ارب پتیوں نے، ان جدید غلام مالکوں نے خونیں سامراج کی خونیں تاریخ میں غیر معمولی طورپر المیہ باب کا اضافہ کیا ہے اس مسلح مہم کی تصدیق کر کے (وہ خواہ براہ راست ہو یا بالواسطہ، کھلم کھلا ہو یا مکاری سے چھپائی گئی ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا) جو وحشی اینگلو جاپانی سامراجیوں نے پہلی سوشلسٹ رپبلک کا گلا گھونٹنے کے لئے شروع کی ہے۔
جدید اور مہذب امریکہ کی تاریخ کی ابتدا ایک ایسی عظیم، واقعی نجات دلانے والی، واقعی انقلابی جنگ سے ہوئی جو بہت کم تعداد میں ہیں بمقابلہ ان کثیر تعداد لوٹ کھسوٹ کرنے والی جنگوں کے جو موجودہ سامراجی جنگ کی طرح بادشاہوں، جاگیرداروں یا سرمایہ داروں کے درمیان حاصل کئے ہوئے علاقوں یا بری طرح سے لوٹے ہوئے منافعوں کی تقسیم کے جھگڑوں کی وجہ سے ہوئیں۔ یہ جنگ امریکی عوام نے برطانوی قزاقوں کے خلاف کی جو امریکہ پر ظلم کرتے تھے اور اس کو نوآبادیاتی غلامی میں گرفتار کر رکھاتھا، اسی طرح سے جیسے یہ ’’مہذب‘‘ خون چوسنے والے ابتک کروڑوں لوگوں پر ہندستان، مصر اور دنیا کے تمام حصوں میں ظلم کر رہے ہیں اور ان کو نوآبادیاتی غلامی میں گرفتار کر رکھا ہے۔
اس کو تقریباً ڈیڑھ سو سال گزر چکے ہیں۔ بورژوا تہذیب نے عیش وعشرت کے سارے پھل مہیا کر دئے ہیں۔ اجتماعی انسانی محنت کی پیداواری طاقتوں کی ترقی کی سطح میں، مشینوں اورجدید انجنیئرنگ کی تمام حیرت انگیرز چیزوں کے استعمال میں امریکہ نے آزاد اور تعلیم یافتہ ملکوں کے درمیان اولیں جگہ حاصل کر لی ہے۔ ساتھ ہی امریکہ اس قعر کی گہرائی کے لحاظ سے بھی ایسے اولیں ملکوں میں ہے جو گندگی اور عیش عشرت میں لوٹنے والے مٹھی بھر بے حیا ارب پتیوں اور ان کروڑوں محنت کشوں کے درمیان پیدا ہو گیا ہے جو متواتر غربت سے ہم کنار ہیں۔ امریکی عوام، جنھوں نے جاگیردارانہ غلامی کے خلاف انقلابی جنگ کر کے مثال قائم کی تھی، اب اپنے کو مٹھی بھر ارب پتیوں کی اجرتی غلامی کی سب سے نئی سرمایہ دارانہ منزل میں پاتے ہیں اور اپنے کو ان بھاڑے کے ٹھگوں کا رول ادا کرتے پاتے ہیں اور اپنے کو بھاڑے کے ٹھگوں کا رول ادا کرتے ہوئے پاتے ہیں جو امیر بدمعاشوں کے فائدے کے لئے 1898 ء میں فلیپائن کے لوگوں کا گلا ان کو ’’نجات دلانے‘‘کا گلا اس کو جرمنوں سے ’’بچانے‘‘ کے بہانے گھونٹ رہے ہیں۔
بہرحال چار برسوں میں قوموں کا جو سامراجی قتل وغارت ہوا ہے وہ رائگاں نہیں گیا ہے۔ دونوں قزاق گروھوں کے بدمعاش، برطانوی اور جرمن ، عوام کو جو دھوکا دے رہے تھے اس کا بھانڈا مسلمہ اور صاف واقعات نے پورے طورپر پھوڑ دیا ہے۔ چار سال کی جنگ کے نتائج نے سرمایہ داری کے عام قانون کا ایسے قانون کی حیثیت سے انکشاف کیا جو لوٹ مار کی تقسیم کے لئے قزاقوں کے درمیان جنگ میں استعمال ہوتا ہے: سب سے زیادہ امیر اور سب سے زیادہ طاقتور نے سب زیادہ نفع حاصل کیا اور سب سے زیادہ لوٹا جب کہ سب سے زیادہ کمزوروں کو خوب لوٹا گیا، مظالم کا نشانہ بنایا گیا، کچلا گیا اور گلا گھونٹا گیا۔
’’نوآبادیاتی غلاموں‘‘کی تعداد کے لحاظ سے برطانوی سامراجی قزاق سب سے زیادہ طاقتور تھے۔ برطانوی سرمایہ داروں نے ’’اپنا‘‘ ذرا سا علاقہ (یعنی وہ علاقہ جو انہوں نے صدیوں کو دوران لوٹ کر حاصل کیا ہے) بھی نہیں کھویا ہے، لیکن انہوں نے افریقہ میں ساری جرمن نوآبادیوں کو ہڑپ کر لیا ہے، انہوں نے یونان کا گلا گھونٹ دیا ہے اور روس کو لوٹنا شروع کر دیا ہے۔
جرمن سامراجی قزاق ’’اپنی‘‘ فوجوں کی تنظیم اور ڈسپلن کے لحاظ سے سب زیادہ مضبوط تھے لیکن نوآبادیوں کے لحاظ سے کمزور تھے۔ انہوں نے اپنی سب نوآبادیاں توکھو دی ہیں لیکن آدھے یورپ کو لوٹ لیا ہے، چھوٹے ملکوں اورکمزور قوموں کا سب سے بڑی تعداد کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ دونوں طرف سے ’’آزادی کی‘‘ کتنی عظیم جنگ ہوئی! دونوں گروہوں کے قزاقوں، اینگلو فرانسیسی اور جرمن سرمایہ داروں نے، اپنے پٹھوؤں، سوشل شاونسٹوں یعنی ان سوشلسٹوں کے ساتھ مل کر جو ’’اپنی‘‘ بورژوازی کی طرف چلے گئے، کیسا اچھا ’’اپنے ملک کا دفاع‘‘ کیا ہے!
امریکی ارب پتی شاید سب سے زیادہ امیر اور جغرافیائی لحاظ سے سب سے محفوظ تھے۔ وہ سب سے زیادہ نفع میں رہے۔ انہوں نے سب کو، حتیٰ کہ سب سے زیادہ امیرملکوں کو بھی اپنا خراج گزار بنا لیا ہے۔ انہوں نے کھربوں ڈالر لوٹے ہیں اور ہر ڈالر غلاظت سے بھرا ہے: برطانیہ اور اس کے ’’اتحادیوں‘‘ کے درمیان، جرمنی اور اس کے تابعداروں کے درمیان گندے خفیہ معاہدوں، لوٹ مار کی تقسیم کے معاہدوں، مزدوروں کو دبانے اور بین الاقوامیت پسند سوشلسٹوں پر جبرو تشدد کرنے میں ایک دوسرے کو ’’مدد دینے‘‘ کے بارے میں معاہدوں کی غلاظت سے۔ ہر ڈالر جنگ کے ’’نفع بخش‘‘ ٹھیکوں کی غلاظت سے بنا ہے۔ جنھوں نے ہر ملک میں امیر کو امیر تر اورغریب کو غریب تر بنایا ہے۔ اور ہر ڈالر خون سے داغ دار ہے جو خون کے اس سمندر سے آیا ہے جو کو ایک کروڑ مقتولوں اور دو کروڑ اپاہجوں نے اس عظیم، شریفانہ، نجات دلانے والی اور مقدس جنگ میں یہ طے کرنے کے لئے بہایا ہے کہ آیا برطانوی یا جرمن قزاقوں کو سب سے زیادہ مال غنیمت ملے، آیا برطانوی یا جرمن ٹھگ ساری دنیا میں کمزور قوموں کا گلا گھونٹنے میں سب سے آگے رہیں۔
جب کہ جرمن قزاقوں نے جنگی مظالم کے تمام ریکارڈ توڑے، انگریزوں نے نہ صرف اپنی لوٹی ہوئی نوآبادیوں کی تعداد کا بلکہ اپنی نفرت انگیز مکاری میں چابکدستی کا بھی ریکارڈ توڑا۔ آج بھی، اینگلو فرانسیسی اور امیریکی بورژوا پریس اپنے اخباروں کی کروڑوں کا پیاں شایع کر کے روس کے بارے میں جھوٹ اور بدنام کن باتیں پھیلا رہے ہیں جو انہوں نے اس کے خلاف اس دلیل کے ساتھ چلائی ہے کہ وہ روس کو جرمنوں سے ’’بچانا‘‘ چاہتے ہیں۔
اس ناقابل بیان اور بدنما جھوٹ کی تردید کے لئے بہت زیادہ الفاظ کی ضرورت نہیں ہے۔ بس ایک کافی معروف واقعہ کی طرف اشارہ کرنا کافی ہے۔ اکتوبر 1917ء میں جب روسی مزدوروں نے اپنی سامراجی حکومت کا تختہ الٹ دیا تو سوویت حکومت، انقلابی مزدوروں اور کسانوں کی حکومت نے کھلم کھلا جائز امن کی تجویز کی، امن مساوی حقوق کی پوری ضمانت دے۔ اور اس نے ایسے امن کی تجویز جنگ میں حصہ لینے والی سارے ملکوں سے کی۔
اینگلوفرانسیسی اور امریکی بورژوازی نے ہی ہماری تجویز کو منظور نہیں کیا، یہی بورژوازی تھی جس نے ہم سے عام امن تک کے بارے میں بات چیت کرنے سے انکار کر دیا! یہی تھی جس نے تمام قوموں کے مفادات سے غداری کی، یہی تھی جس نے سامراجی قتل وغارت کو طوالت دی!
یہی تھی جس نے روس کو سامراجی جنگ میں پھر سے واپس کھینچنے کے امکان پر بھروسہ کرتے ہوئے امن کی بات چیت میں حصہ لینے سے انکار کر دیا اور اس طرح جرمن سرمایہ داروں کو جو اس سے کچھ کم لٹیرے نہ تھے آزادی دے دی اور انہوں نے روس پر الحاقی اور تشدد آمیز بریست کا معاہدہ مسلط کر دیا!
اس مکاری سے زیادہ کسی اور نفرت انگیز بات کو تصور کرنا مشکل ہے جس سے اینگلو فرانسیسی اور امریکی بوروژوازی ہم کو بریست کے معاہدہ امن کے لئے ’’مورد الزام‘‘ ٹھہرا رہے ہیں۔ ان ملکوں کے وہی سرمایہ دار جو بریست کی بات چیت کو عام امن کی عام بات چیت میں بدل سکتے تھے اب ہم پر ’’الزام لگانے والے‘‘ بن گئے ہیں! اینگلو فرانسیسی سامراج کے درندے جنہوں نے نوآبادیوں کی لوٹ اور قوموں کے قتل وغارت سے نفع کمایا، جنہوں نے بریست کے معاہدے کے بعد تقریباً ایک سال تک جنگ کو طوالت دی، پھر بھی وہ ہم بالشویکوں پر ’’الزام‘‘ لگاتے ہیں جنہوں نے سب ملکوں کے لئے منصفانہ امن کی تجویز کی۔ وہ ہم پرا لزام لگاتے ہیں جنہوں نے سابق زار اور اینگلو فرانسیسی سرمایہ داروں کے درمیان خفیہ اور مجرمانہ معاہدوں کو پھاڑ دہا۔ ان کو چھاپ دیا اور پبلک کی لعنت ملامت کے لئے پیش کر دیا۔
ساری دنیا کے مزدور، خواہ وہ کسی ملک میں بھی رہتے ہوں ہمیں مبار کباد دیتے ہیں، ہم سے ہمدردی رکھتے ہیں، ہماری تعریف کرتے ہیں سامراجی تعلقات، ذلیل سامراجی معاہدوں اور سامراجی زنجیروں کا آہنی حلقہ توڑنے کے لئے، اس بات کے لئے کہ ہم نے آزادی حاصل کی، اگرچہ ہم کو اس کے لئے بڑی سخت قربانیاں دینی پڑیں، اس بات کے لئے کہ ہم سوشلسٹ رپبلک کی حیثیت سے، حالانکہ سامراجیوں نے اس کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور لوٹ لیا ہے، سامراجی جنگ سے الگ رہے اور ساری دنیا کے سامنے امن کا جھنڈا، سوشلزم کا جھنڈا بلند کیا۔
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بین الاقوامی سامراجیوں کا گروہ اس کے لئے ہم سے نفرت کرتا ہے، کہ وہ ہم پر ’’الزام‘‘ لگاتا ہے، کہ سامراجیوں کے سارے پٹھو بھی، جن میں ہمارے دائیں بازو کے سوشلسٹ انقلابی اور منشویک ہیں، ہم پر’’الزام‘‘لگاتے ہیں۔ سامراج کے یہ سگ نگراں بالشویکوں کے لئے جس نفرت کا اظہار کرتے ہیں وہ اور دنیا کے باشعور مزدوروں کی ہمدردی ہم کو ہمیشہ سے زیادہ اپنے کاز کے منصفانہ ہونے کا یقین دلاتے ہیں۔
ہر سچا سوشلسٹ یہ ضرور سمجھ لے گا کہ بورژوازی پر فتح حاصل کرنے کے لئے مزدوروں کے ہاتھ میں اقتدار منتقل کرنے کے لئے، عالمی پرولتاری انقلاب شروع کرنے کے لئے ہم انتہائی سنگین قربانیوں سے نہیں جھجک سکتے اور نہ ہمیں جھجکنا چاہئے جن میں ہمارے علاقے کے ایک حصے کی قربانی، سامراج کے ہاتھوں بھاری شکستوں کی قربانی بھی شامل ہیں۔ ہر سچے سوشلسٹ نے افعال سے ’’اپنے‘‘ ملک کی کی سب سے بڑی قربانی پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا ہوتا جو سوشلسٹ انقلاب کے کاز کو واقعی آگے بڑے سکتی۔
’’اپنے‘‘کاز کے لئے یعنی حکمرانی حاصل کرنے کے لئے، برطانیہ اور جرمنی کے سامراجیوں نے متعدد ملکوں کو بلجیم اور سیربیا سے لے کر فلسطین اور میسوپوٹا میا تک کو بالکل تباہ کرنے اور انکا گلا گھونٹنے سے باک نہیں کیا۔ لیکن کیا سوشلسٹوں کو ’’اپنے‘‘ کاز میں، سرمائے کے جوئے سے ساری دنیا کے محنت کشوں کو نجات دلانے کے کاز میں، عام اور پائدار امن کے حصول میں اس وقت تک انتظار کرنا چاہئے جب تک وہ بلاقربانی والا راستہ تلاشہ کیا جائے؟ کیا ان کو جدوجہد شروع کرنے سے اس وقت تک انتظار کرنا چاہئے جب تک کہ بلا قربانی والا راستہ تلاش کیا جائے؟ کیا ان کو جدوجہد شروع کرنے سے اس وقت تک ڈرنا چاہئے جب تک کہ آسان فتح کی ’’ضمانت‘‘نہ ہوجائے؟ کیا ان کو ’’اپنے‘‘ بورژوازی کے تخلیق کئے ہوئے ’’وطن‘‘ کی سالمیت اور سلامتی کو عالمی سوشلسٹ انقلاب کے مفادات پر ترجیح دینا چاہئے؟ بین الاقوامی سوشلسٹ تحریک کے جو بدمعاش اور بورژوا اخلاق کے جو پٹھو اس طرح سے سوچتے ہیں، وہ ہزار بار قابل لعنت ہیں۔
اینگلو فرانسیسی اور امریکی سامراجی درندے ہم پر جرمن سامراج کے ساتھ ’’سمجھوتہ‘‘ کرنے کا ’’الزام‘‘ لگاتے ہیں۔ کتنے مکار اور کتنے بدمعاش ہیں وہ کہ مزدوروں کی حکومت کو بدنام کرتے ہیں جب کہ وہ اس ہمدردی سے لرز رہے ہیں جو ’’ان کے اپنے‘‘ملکوں کے مزدور ہمارے لئے دکھاتے ہیں! لیکن انکی مکاری کا پردہ چاک کر دیا جائے گا۔ وہ بناوٹ کرتے ہیں کہ وہ مزدوروں کے خلاف محنت کشوں کے خلاف بورژوازی سے(اپنی یا غیر ملکی) کئے ہوئے ’’سوشلسٹوں‘‘ کے سمجھوتے اور اس سمجھوتے کے درمیان فرق نہیں دیکھتے جو ان مزدوروں کی حفاظت کے لئے کیا گیا ہے جنہوں نے اپنی بوروژوازی کو شکست دی ہے، ایسے سمجھوتے جو ایک قومی رنگ کی بورژوازی کے ساتھ دوسرے رنگ کی بورژوازی کے خلاف کیا جاتا تاکہ پرولتاریہ بورژوازی کے مختلف گروہوں کے درمیان مخاصمت سے فائدہ اٹھا سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر یورپی اس فرق کو اچھی طرح جانتا ہے اور جیسا کہ میں آپ کو ابھی بتاؤں گا، امریکی لوگوں کی اپنی تاریخ میں اس کی خاص طور پر سے نمایاں ’’مثال‘‘ ہے۔ سمجھوتے اور سمجھوتے ہیں، fagots et fagofs * ہیں جیسا کہ فرانسیسی کہتے ہیں۔
جب فروری 1918ء میں جرمن سامراجی درندوں نے اپنی فوجیں اس روس کے خلاف ریل دیں جو غیر مسلح تھا اور اپنی فوج کو سبکدوش کر چکا تھا، جس نے عالمی انقلاب کے پوری طرح پختہ ہونے سے پہلے پرولتاریہ کی بین الاقوامی یکجہتی پر بھروسہ کیا تھا تو اس وقت میں نے فرانسیسی شاہ پرستوں کے ساتھ ’’سمجھوتہ‘‘ کرنے میں ایک لمحے کے لئے بھی تذبذب نہیں کیا۔ فرانسیسی فوج کا ایک افسر کپتان سادول جو بالشویکوں سے زبانی ہمدردی رکھتا تھا لیکن عملی طو رپر فرانسیسی سامراج کا وفادار اور معتبر خادم تھا ایک فرانسیسی افسر دے لیوبیرساک کو میری ملاقات کے لئے لایا۔ ’’میں شاہ پرست ہوں۔ میرا مقصدصرف جرمنی کی شکست ہے‘‘ دے لیوبیرساک نے مجھ سے کہا۔ ’’یہ کوئی کہنے کی بات نہیں (cela va sans dire)‘‘ میں نے جواب دیا۔ لیکن اس سے میں دے لیوبیرساک کے ساتھ ان خدمات کیلئے ’’سمجھوتہ‘‘ کرنے میں ذرا بھی نہیں جھجکا جو فرانسیسی فوجی افسر، آتشگیر مادوں کے ماہرین، ہمارے لئے ریلوے لائنوں کو اڑا کر جرمن حملے کو روکنے کے لئے کرنا چاہتے تھے۔ یہ ایک ایسے ’’سمجھوتے‘‘ کی مثال ہے جس کی ہر باشعور مزدور تصدیق کرے گا، یہ سوشلزم کے مفاد میں سمجھوتہ ہے۔ فرانسیسی شاہ پرست
اور میں نے ہاتھ ملایا حالانکہ ہم جانتے تھے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے ’’شریک کار‘‘ کو بخوشی پھانسی کے تختے پر چڑھانا چاہتا ہے۔ لیکن کچھ وقت کے لئے ہمارے مفادات میں مطابقت ہو گئی تھی۔ حملہ آورجرمن درندوں کے خلاف ہم نے، روسی اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کے مفاد میں دوسرے سامراجیوں کے ایسی ہی درندانہ مخالف مفادات استعمال کئے۔ اس طرح ہم نے روس اور دوسرے ملکوں کے مزدور طبقے کے مفادات کی خدمت کی، ہم نے پرولتاریہ کو مضبوط اور ساری دنیا کی بورژوازی کو کمزور کیا، ہم نے اس لمحے کی پیش بینی کرتے ہوئے جب متعدد ترقی یافتہ ملکوں میں تیزی سے پختہ ہونے والا انقلاب مکمل طو رسے پختہ ہو جائے گا جنگی چالوں، داؤ پیچ اور پیچھے ہٹنے کے وہ طریقے اختیار کئے جو ہر جنگ میں انتہائی جائز اور ضروری ہیں۔
اینگلو فرانسیسی اور امریکی سامراجی مگرمچھ غصے سے چاہے جتنا بھڑکیں، چاہے جتنا وہ ہم کو بدنام کریں، چاہے جتنے کروڑ وہ دائیں بازو کے سوشلسٹ انقلابی، منشویک اور دوسرے سوشل وطن پرست اخباروں کو رشوت دینے پر صرف کریں میں جرمن سامراجی درندوں کے ساتھ ایسا ہی ’’سمجھوتہ‘‘ کرنے سے ایک سکنڈ کے لئے بھی نہیں جھجکوں گا اگر روس پر اینگلوفرانسیسی فوجوں کے حملے کی صورت میں اس کی ضرورت پڑے۔ اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میرے طریقہ کار کی تصدیق روس، جرمنی فرانس، برطانیہ، امریکہ اور سوشلسٹ انقلاب کے کام کو آسان بنائے گا،اس میں تعجیل کرے گا، بین الاقوامی بورژوازی کو کمزور اور مزدور طبقے کی پوزیشن کو مضبوط کرے گا جو بورژوازی کو شکست دے رہا ہے۔
امریکی لوگوں نے اس طریقہ کار کو اپنے انقلاب کے فائدے کے لئے مدتوں ہوئے استعمال کیا۔ جب انہوں نے برطانوی جابروں کے خلاف عظیم جنگ آزادی کی تو ان کے خلاف فرانسیسی اور ہسپانوی جابر بھی تھے جو اس ملک کے ایک حصے کے مالک تھے جو اب شمالی امریکہ کی ریاستہائے متحدہ کہلاتا ہے۔ آزادی کے لئے اپنی سنگین جنگ میں امریکی لوگوں نے بھی کچھ جابروں کے ساتھ دوسرے جابروں کے خلاف ’’سمجھوتے‘‘ کئے جن کا مقصد جابروں کو کمزور کرنا اور ان لوگوں کو مضبوط کرنا تھا جو جبر کے خلاف مظلوم لوگوں کے مفادات کے لئے انقلابی طریقے سے لڑ رہے تھے۔ امریکی لوگوں نے فرانسیسیوں، ہسپانیوں اور انگریزوں کے درمیان تصادم سے فائدہ اٹھایا۔ کبھی کبھی تو وہ فرانسیسی اور ہسپانوی جابروں کی فوجوں کے شانہ بشانہ انگریز جابروں کے خلاف لڑے بھی، پہلے انہوں نے انگریزوں کو ہرایا اور پھر اپنے کو فرانسیسیوں اور ہسپانیوں سے آزاد کیا(جزوی طور پر تاوان کے ذریعہ)
عظیم روسی انقلابی چرنی شیفسکی نے کہا ہے کہ تاریخی سرگرمی کوئی نیوسکی پروسپکٹ کا فٹ پاتھ نہیں ہے۔ وہ شخص انقلابی نہیں ہے جو صرف ’’اس شرط پر‘‘ پرولتاری انقلاب کے لئے ’’راضی ہو گا‘‘ کہ وہ آسانی اور ہمواری سے آگے بڑھے، کہ وہاں شروع سے ہی ملکوں کے پرولتاریہ کے عمل میں تال میل ہو، کہ پہلے سے ہی شکست کے خلاف ضمانت ہو، کہ انقلاب کا راستہ کشادہ، کھلا ہوا اور سیدھا ہو، کہ فتح کی طرح بڑھنے کے دوران زیادہ سے زیادہ انتہائی تنگ، ناقابل گذر، پیچیدہ اور خطرناک پہاڑی راستوں سے گذرنے کی ضرورت نہ ہو۔ اس شخص نے بورژوا دانش وروں کی فاضلانہ باتوں سے چھٹکارا نہیں حاصل کیا ہے، ایسا شخص ہمارے دائیں بازو کے سوشلسٹ انقلابیوں، منشویکوں اور حتی کہ (حالانکہ شاذ ونادر) بائیں بازو کے سوشلسٹ انقلابیوں کی طرح متواتر انقلابی دشمن بورژوازی کے کیمپ کی طرف کھسکتا پایا جائے گا۔
بورژوا زی کے ہم آواز ہو کر، یہ حضرات ہم کو انقلاب کے ’’انتشار‘‘ کے لئے، صنعت کی ’’تباہی‘‘ کے لئے ، بے روز گاری اور غذا کی قلت کے لئے ملزم ٹھہراتے ہیں۔ یہ الزام کتنے مکارانہ ہیں جو وہ لوگ دیتے ہیں جنہوں نے سامراجی جنگ کا خیر مقدم کیا اور اس کی حمایت کی یا جنہوں نے کیرینسکی کے ساتھ ’’سمجھوتہ‘‘ کیا جس نے یہ جنگ جاری رکھی! یہی سامراجی جنگ ان ساری مصیبتوں کا باعث ہے۔ جنگ سے پیدا ہونے والا انقلاب ان سخت مشکلات اور مصیبتوں سے نہیں بچ سکتا جو اس کو قوموں کے طویل، تباہ کن اور رجعت پرستانہ قتل وغارت سے وراثت میں ملی ہیں۔ صنعت کی ’’تباہی‘‘ یا ’’دہشت‘‘ پھیلانے کے لئے ہم کو ملزم ٹھہرانا یا تومکاری ہے یا حماقت آمیز فاضلانہ بات۔ اس سے خوفناک طبقاتی جدوجہد کے بنیادی حالات کو سمجھنے کی نا اہلیت کا انکشاف ہوتا ہے جو اس انتہائی شدت کے درجے تک پہنچ گئی ہے اور جس کو انقلاب کہتے ہیں۔
جب اس قسم کے ’’الزام دینے والے‘‘ طبقاتی جدوجہد کا ’’اعتراف‘‘ بھی کرتے ہیں تو وہ اپنے کو محض زبانی اعتراف تک محدود رکھتے ہیں۔ حقیقت میں وہ طبقاتی ’’سمجھوتے‘‘ اور ’’ہم کاری‘‘ کے عامیانہ تصور کی طرف متواتر کھسکتے رہتے ہیں۔ کیونکہ انقلابی ادوار میں طبقاتی جدوجہد نے ہمیشہ، لازمی اور ضروری طور پر اور ہر ملک میں خانہ جنگی کی صورت اختیار کی اور خانہ جنگی کا تصور انتہائی سخت تباہی، دہشت اور اس جنگ کے مفاد میں ر سمی جمہوریت پر پابندی کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ صرف چکنی چپڑی باتیں بنانے والے پادری۔ چاہے وہ عیسائی ہوں یا دیوان خانوں میں بیٹھنے والے ’’نامذہبی‘‘ اشخاص، پارلیمانی سوشلسٹ ہوں۔ اس ضرورت کو دیکھ، سمجھ اور محسوس نہیں کر سکتے۔ صرف بے جان ’’کنوئیں کا مینڈک‘‘ اس سبب سے انقلاب سے منہ چوری کر سکتا ہے بجائے اس کے کہ ایسے وقت میں انتہائی جوش اور عزم کے ساتھ جنگ میں کود پڑے جب کہ تاریخ کا یہ تقاضہ ہوتے ہے کہ انسانیت کے عظیم ترین مسائل کو جدوجہد اور جنگ کے ذریعہ حل کیا جائے۔
امریکی عوام انقلابی روایت کے حامل ہیں جس کو امریکی پرولتاریہ کے بہترین نمائندوں نے اپنایا ہے جنہوں نے بار بار ہم بالشویکوں کے ساتھ اپنی مکمل ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ یہ روایت انگیریزوں کے خلاف اٹھارہویں صدی میں آزادی کی جنگ اور انیسویں صدی میں خانہ جنگی ہے۔ بعض لحاظ سے، اگر ہم صنعت کی بعض شاخوں اور قومی معیشت کی ’’تباہی‘‘ پر غور کریں تو امریکہ 1870ء میں 1860ء سے پیچھے تھا۔ لیکن وہ کیسا کتاب پرست اور بیوقوف آدمی ہو گا جو ان بنیادوں پر 1863-65ء کی امریکی خانہ جنگی کی زبردست، عالمی تاریخی، ترقی پسند اور انقلابی اہمیت سے انکار کرے گا۔
بوروژوازی کے نمائندے سمجھتے ہیں کہ نیگروؤں کی غلامی کا خاتمہ کرنے کے لئے، غلام مالکوں کی حکمرانی ختم کرنے کے لئے ملک کو خانہ جنگی کے طویل برسوں، اتھاہ تباہی، بربادی اور دہشت سے گذرنا تھا جو ہر جنگ کے ساتھ آتی ہیں۔ لیکن اب جب کہ ہمارے سامنے سرمایہ دارانہ، اجرتی غلامی کو ختم کرنے، بورژوازی کی حکمرانی کو ختم کرنے کا کہیں زیادہ بڑا فریضہ ہے۔ اب بورژوازی کے نمائندے اور وکیل اور وہ اصلاح پرست سوشلسٹ بھی جن کو بورژوازی نے ڈرا دیا ہے اور جو انقلاب سے کترا رہے ہیں یہ نہیں سمجھ سکتے اور سمجھنا نہیں چاہتے کہ خانہ جنگی ضروری اور جائز ہے۔
امریکی مزدور بورژوازی کی پیروی نہیں کریں گے۔ وہ بورژوازی کے خلاف خانہ جنگی کے لئے ہمارے ساتھ ہوں گے۔ دنیا اور امریکی مزدور تحریک کی ساری تاریخ میرے یقین کو مضبوط کرتی ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ مجھے امریکی پرولتاریہ کے ایک محبوب لیڈر یوجین دیبس کے الفاظ یاد آتے ہیں جنہوں نے ’’معقولیت سے اپیل‘‘ (Appeal to reason) میں میرے خیال میں1910ء کے آخر میں ایک مضمون <> (’’مجھے کس بات کے لئے لڑنا چاہیے‘‘) میں لکھا تھا۔
کہ وہ یعنی دیبس گولی کا نشانہ بننا پسند کریں گے بجائے اس کے کہ وہ موجودہ مجرمانہ اور رجعت پرستانہ جنگ کے لئے قرضوں کے حق میں ووٹ دیں، کہ وہ، دیبس صرف ایک مقدس اور پرولتاریہ نقطہ نظر سے جائز جنگ کو جانتے ہیں یعنی سرمایہ داروں کے خلاف جنگ، انسانیت کو اجرت کی غلامی سے نجات دلانے والی جنگ۔
مجھے اس بات پر حیرت نہیں ہے کہ ولسن نے جو امریکی ارب پتیوں کا سربراہ اور سرمایہ دار مگر مچھوں کا خادم ہے دیبس کو جیل میں ڈال دیا ہے۔ بورژوازی کو سچے انٹرنیشنلسٹوں، انقلابی پرولتاریہ کے سچے نمائندوں کے ساتھ وحشیانہ برتاؤ کرنے دو! وہ جتنے ہی زیادہ خوفناک اور وحشی ہو گی اتنا ہی پرولتاری انقلاب کے فتح یاب ہونے کا دن قریب ہوگا۔
ہمارے انقلاب کی وجہ سے جو تباہی ہوئی ہے اس کا ملزم ہم کو ٹھہرایا جاتا ہے… الزام لگانے والے کون ہیں؟ بورژوازی کے حاشیہ نشین، اسی بورژوازی کے جس نے سامراجی جنگ کے چار سال کے دوران تقریباً سارے یورپی کلچر کو تباہ کر دیا ہے۔ اب یہی بورژوازی ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ نہ تو ہم ان کھنڈروں پر، کلچر کے اس ملبے کے درمیان، جنگ کے پیدا کئے ہوئے ملبے اورکھنڈروں کے درمیان انقلاب کی تعمیر کریں اور نہ ان لوگوں سے جن کے ساتھ جنگ نے وحشیانہ برتاؤ کیا ہے۔ بورژوازی کتنی انسان دوست اور راست باز ہے!
اس کے خادم کہتے ہیں کہ ہم نے دہشت کا راستہ اختیار کیا ہے… برطانونی بورژوازی نے اپنا 1649ء فراموش کر دیا ہے، فرانسیسی بورژوازی نے اپنا 1793ء بھلا دیا ہے۔ دہشت منصفانہ اور جائز تھی جب بورژوازی نے اس کو اپنے فائدے کیلئے جاگیردارانہ نظام کے خلاف استعمال کیا تھا۔ دہشت درندانہ اور مجرمانہ ہو گئی جب مزدوروں اور غریب کسانوں نے اس کو بورژوازی کے خلاف استعمال کرنے کی جرأت کی! دہشت منصفانہ اور جائز تھی جب اس کو ایک استحصال کرنے والی اقلیت کی جگہ دوسری استحصال کرنے والی اقلیت لانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ دہشت درندانہ اور مجرمانہ ہو گئی جب اس کو ہر استحصال کرنے والی اقلیت کا تختہ الٹنے کے لئے استعمال کیاجانے لگا، وسیع اور واقعی اکثریت کے مفادات کیلئے، پرولتاریہ اور نیم پرولتاریہ، مزدور طبقے اور غریب کسانوں کے مفادات کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔
بین الاقوامی سامراجی بورژوازی نے ’’اپنی‘‘ جنگ میں، اس جنگ میں جو یہ طے کرنے کے لئے تھی کہ ساری دنیا پر برطانوی درندوں یا جرمن درندوں کی حکومت ہو ایک کروڑ آدمیوں کو قتل کروا دیا اور دو کروڑ آدمی اپاہج ہو گئے۔
اگر ہماری جنگ، جابروں اور استحصال کرنے والوں کے خلاف مظلوموں اور استحصال کے شکار لوگوں کی جنگ کا نتیجہ تمام ملکوں میں پانچ یا دس لاکھ جانوں کا نقصان ہو تو بورژوازی کہے گی کہ اول الذکر اتلاف جان بجا تھا اور آخر الذکر مجرمانہ۔
پرولتاریہ اس سے بالکل مختلف بات کہے گا۔
اب، سامراجی جنگ کی ہولناکیوں کے درمیان، پرولتاریہ کو یہ انتہائی واضع اور نمایاں عظیم حقیقت مل رہی ہے جو سب انقلابوں نے سکھائی ہے اور مزدوروں کے لئے ان کے بہترین معلموں، جدید سوشلزم کے بانیوں نے بطور میراث چھوڑی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی انقلاب اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب ہم، مزدوروں اور محنت کش کسانوں نے ریاستی اقتدار پر قبضہ کر لیا تواستحصال کرنے والوں کی مزاحمت کو کچل دینا ہمارا فرض ہو گیا۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم ایسا کرتے تھے اور کر رہے ہیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہم اس کو کافی مضبوطی اور عزم کے ساتھ نہیں کر رہے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ بورژوازی کی طرف سے سوشلسٹ انقلاب کی شدید مزاحمت تمام ملکوں میں ناگزیرہے اور یہ مزاحمت اس انقلاب کی نشو ونما کے ساتھ بڑے گی۔ پرولتاریہ اس مزاحمت کوکچل دے گا، مزاحمت کرنے والی بورژوازی کے خلاف جدوجہد کے دوران آخر کار وہ فتح اور اقتدار کے لئے پختہ ہو جائے گا۔
اپنے کو بیچنے والے بورژوا پریس کو ساری دنیا میں اس ہر غلطی کے بارے میں شور کرنے دو جو ہمارا انقلاب کرتا ہے۔ ہم اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہمت نہیں ہارتے۔ لوگ اس وجہ سے دیوتا تونہیں بن گئے ہیں کہ انقلاب شروع ہو گیا ہے۔ محنت کش طبقے جو صدیوں سے مظلوم، کچلے ہوئے اور غریبی، وحشت اور جہالت کے شکنجے میں زبردستی کسے ہوئے تھے انقلاب کرتے وقت غلطیوں سے نہیں بچ سکتے۔ اور جیسا کہ ایک بار پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں، بورژوا سوسائٹی کی لاش کو تابوت میں بند کر کے دفنا یا نہیں جا سکتا۔ سرمایہ داری کی لاش ہمارے درمیان سڑگل رہی ہے۔ ہوا کو گندا کر رہی ہے اور ہماری زندگی کو زہر آلود بنا رہی ہے، جو کچھ نیا، تازہ، جوان اور قوی ہے اس کو پرانے، جان بلب اور سڑتے ہوئے ہزاروں رشتوں اور پھندوں میں پھنسا رہی ہے۔
ہر ان سو غلطیوں کے لئے جو ہم کرتے ہیں او رجن کے بارے میں بورژوازی اور ان کے پٹھو (جن میں ہمارے منشویک اور دائیں بازو کے سوشلسٹ انقلابی بھی شامل ہیں) ساری دنیا میں شور کرتے ہیں، دس ہزار بڑے اور جرأت آمیز کام کئے جاتے ہیں، وہ زیادہ بڑے اور جرأت آمیز ہیں کیونکہ وہ معمولی اور غیر نمایاں ہیں، کسی فیکٹری کے محلے یا دور دراز گاؤں کی روز مرہ کی زندگی میں چھپے ہیں، اور ان کو ایسے لوگ کرتے ہیں جن کو اپنی کامیابی کے بارے میں ساری دنیا میں شور کرنے کی عادت نہیں ہے (اور موقع بھی نہیں ملتا ہے)َ
لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا (حالانکہ میں جانتا ہوں کہ ایسا مفروضہ صحیح نہیں ہے)۔ اگر ہم اپنی دس ہزار غلطیوں پر 100صحیح اقدامات کرتے تو اس صورت میں بھی ہمارا انقلاب عظیم اور ناقابل تسخیر ہوتا اور وہ عالمی تاریخ کی نگاہ میں ایسا ہو گا، کیونکہ پہلی مرتبہ اقلیت نہیں، صرف امیر نہیں، صرف تعلیم یافتہ نہیں، بلکہ حقیقی عوام، محنت کشوں کی زبردست
اکثریت خود ایک نئی زندگی کی تعمیر کر رہی ہے، خود اپنے تجربے سے سوشلسٹ تنظیم کے انتہائی مشکل مسائل حل کر رہی ہے۔
اس کام کے دوران کی ہوئی ہر غلطی ، اپنی پوری زندگی کو پھر سے منظم کرنے کے لئے کروڑوں معمولی مزدوروں اور کسانوں کے انتہائی ایماندارانہ اور پرخلوص کام کے دوران ہر ایسی غلطی ان ہزاروں اور لاکھوں ’’بے عیب‘‘ کامیابیوں سے بہتر ہے جو استحصال کرنے والی اقلیت نے حاصل کی ہیں یعنی محنت کش لوگوں کو دھوکا دینے اور لوٹنے میں کامیابیاں۔ کیونکہ ایسی ہی غلطیوں کے ذریعہ مزدور اور کسان نئی زندگی بنا نا سیکھیں گے، بلا سر سرمایہ داروں کے کام چلانا سیکھیں گے، صرف اسی طرح وہ ہزاروں رکاوٹوں کے درمیان فتحیاب سوشلزم تک اپنے لئے ایک راستہ بنائیں گے۔
اپنے انقلابی کام کے دوران ہمارے کسان غلطیاں کر رہے ہیں جنہوں نے بیک ضرب، ایک رات میں، 25-26 اکتوبر (پرانا کیلنڈر) 1917ء کو زمین کی نجی ملکیت قطعی ختم کر دی اور اب، ماہ بماہ، زبردست دشواریوں پر قابو حاصل کر رہے ہیں اور خود اپنی غلطیوں کی تصحیح کر رہے ہیں، معاشی زندگی کے نئے حالات کی تنظیم کرنے، کولا کوں کے خلاف لڑنے، محنت کش لوگوں کے لئے (امیروں کے لئے نہیں) زمین فراہم کرنے اور بڑے پیمانے کی کمیونسٹ زراعت میں عبور کے انتہائی مشکل فریضوں کو عملی طریقے سے حل کر رہے ہیں۔
اپنے انقلابی کام کے دوران ہمارے مزدور غلطیاں کر رہے ہیں، جنہوں نے اب چند مہینوں میں تقریباً سارے بڑے بڑے کارخانوں اور فیکٹریوں کو قومی بنا لیا ہے اور سخت، روز مرہ کے کام سے صنعت کی پوری پوری شاخوں کے انتظام کا نیا فریضہ سیکھ رہے ہیں اور جمود، پیٹی بورژوا ذہنیت اور خود غرضی کی طاقتور مزاحمت پر قابو پاکر قومیائے ہوئے کارخانوں کو چالو کر رہے ہیں، اور ایک ایک پتھر کر کے نئے سماجی رشتوں، نئے محنتی ڈسپلن، مزدوروں کی ٹریڈ یونینوں کے اپنے ممبروں پر نئے اقتدار کی بنیاد بنا رہے ہیں۔
اپنے انقلابی کام کے دوران ہماری سوویتیں غلطیاں کر رہی ہیں جن کی تخلیق مدت ہوئی 1905ء میں عوام کے ایک زبردست ابھار نے کی تھی۔ مزدوروں اور کسانوں کی سوویتیں ایک نئی قسم کی ریاست ہیں، نئی اور زیادہ اونچی قسم کی جمہوریت ہیں، پرولتاری ڈکٹیٹرشپ کی ایک شکل ہیں، ریاست کا بغیر بورژوازی کے اور بورژوازی کے خلاف انتظام کرنے کا ذریعہ ہیں۔ پہلی بار یہاں جمہوریت عوام کی، محنت کش عوام کی خدمت کر رہی ہے اور امیروں کی جمہوریت رہی ہے جیسا کہ ابھی تک سب بورژوا رپبلکوں میں ہے خوا ہ وہ انتہائی جمہوری کیوں نہ ہوں۔ پہلی مرتبہ عوام بڑے پیمانے پر کروڑوں لوگوں کے لئے پرولتاریہ اور نیم پرولتاریہ کی ڈکٹیٹرشپ کو عملی جامہ پہنانے کے مسئلے میں لگے ہوئے ہیں، ڈکٹیٹرشپ کو عملی جامہ پہنانے کے مسئلے میں لگے ہوئے ہیں، ایسا مسئلہ جس کو اگر حل نہ کیا گیا تو سوشلزم کا سوال ہی نہیں رہ جاتا۔
کتاب پرستوں یا ان لوگوں کو جن کے ذہن لاعلاج طور پر بورژوا جمہوری یا پارلیمانی تعصبات سے بھرے ہوئے ہیں حیرانی کے ساتھ سر ہلانے دو۔ انہوں نے 1914-18 ء کے عظیم تغیرات کے زمانے میں نہ توکچھ فراموش کیا ہے اور نہ سیکھا ہے۔ پرولتاریہ کی ڈکٹیٹرشپ کے ساتھ محنت کشوں کے لئے نئی جمہوریت کا اتحاد۔ خانہ جنگی کے ساتھ سیاست میں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کا اتحاد۔ ایسا اتحاد بیک ضرب تو ہو نہیں سکتا۔ اور نہ یہ ڈھرے کی پارلیمانی جمہوریت کے فرسودہ طریقوں سے میل کھاتا ہے۔ ایک نئی دنیا کے، سوشلزم کی دنیا کے خط وخال ہمارے سامنے سوویت رپبلک کی شکل میں ابھر رہے ہیں۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ یہ دنیا ہمارے سامنے بنی بنائی وجود میں نہیں آتی ہے، وہ منیروا کی طرح جیو پیٹرکے سر سے ایک دم نہیں نمودار ہوتی ہے۔
جب کہ پرانے بورژوا جمہوری آئینوں نے رسمی مساوات اور اجتماع کے حق کے بارے میں میں ڈینگیں ماری ہیں، ہمارے پرولتاری اورکسان والے سوویت آئین نے رسمی مساوات کی مکاری کو اتار پھینکا ہے۔ جب بورژوا رپبلکنوں نے تخت وتاج کا خاتمہ کیا تو انہوں نے شاہ پرستوں اور رپبلک کے حامیوں کے درمیان رسمی مساوات کی فکر نہیں کی۔ جب بوروژوازی کا تختہ الٹنے کا معاملہ درپیش ہوتا ہے تو صرف غدار یا احمق ہی بورژوازی کے لئے حقوق کی رسمی مساوات کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ ’’اجتماع کی آزادی‘‘ مزدوروں اور کسانوں کے لئے ٹکے کی بھی حیثیت نہیں رکھتی جب بہترین عمارتیں بورژوازی کی ملکیت ہوں۔ ہماری سوویتوں نے شہروں اور دیہاتوں میں ساری اچھی عمارتیں امیروں سے ضبط کر کے ان سب کو مزدوروں اور کسانوں کوان کی یونینوں اور جلسوں کے لئے منتقل کر دیا ہے۔ یہ ہے ہماری اجتماع کی آزادی۔ محنت کش لوگوں کیلئے! یہ ہمارے سوویت، ہمارے سوشلسٹ آئین کا مطلب اور مافیہ۔
اسی لئے ہم سب کو اس کا مصمم یقین ہے کہ چاہے جو اور مصیبت ہماری سوویتوں کی رپبلک پر ٹوٹے وہ ناقابل تسخیر ہے۔
وہ ناقابل تسخیر ہے کیونکہ بدحواس سامراج کی ہر لگائی ہوئی ضرب، بین الاقوامی بورژوازی کی ہم کو دی ہوئی ہر شکست، مزدوروں اورکسانوں کے زیادہ پرتوں کو جدوجہد کی طرف لاتی ہے، زبردست قربانی کی قیمت پر ان کو سبق دیتی ہے، ان کو فولادی بناتی ہے اور بڑے عوامی پیمانے پر نئی جرات و ہمت پھیلاتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ آپ کے پاس سے مدد غالباً جلد نہیں آئے گی، ساتھی امریکی مزدورو، کیونکہ انقلاب مختلف ملکوں میں مختلف صورتوں اور مختلف رفتاروں سے بڑھ رہا ہے (اور اس کے سوا کچھ اور ہو بھی نہیں سکتا )َ ہم جانتے ہیں کہ حالانکہ یورپی پرولتاری انقلاب پچھلے دنوں بڑی تیزی سے پختہ ہوتا رہا ہے، بہرحال ممکن ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں تو وہ نہیں بھڑ کے گا۔ ہم عالمی انقلاب کی ناگزیریت پر بھروسہ کر رہے ہیں لیکن اس کا یہ بالکل مطلب نہیں ہے کہ ہم ایسے بیوقوف ہیں جو انقلاب کے ناگزیر طور پر کسی واضح اور اولیں تاریخ میں آنے پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے ملک میں 1905ء اور 1917ء کے دو عظیم انقلاب دیکھے ہیں۔ اور ہم جانتے ہیں کہ انقلاب کسی حکم یا سمجھوتے کے تحت پرولتاریہ کے دستے کو ہماری خوبیوں کی وجہ سے نہیں سامنے لا کر کھڑا کیا ہے بلکہ روس کی غیر معمولی پسماندگی کی وجہ سے، اور یہ بھی کہ عالمی انقلاب برپا ہونے سے پہلے کئی الگ الگ انقلابوں کی شکست ممکن ہے۔
اس کے باوجود ہم کو پکا یقین ہے کہ ہم ناقابل تسخیر ہیں کیونکہ سامراجی قتل وغارت سے انسایت کی اسپرٹ نہیں کچلی جا سکتی بلکہ انسانیت اس پر فتح حاصل کر لے گی۔ اور سامراجی جنگ کی قید کی زنجیر توڑنے والا پہلا ملک ہمارا ملک تھا۔ اس زنجیر کو توڑنے کی جدوجہد میں ہم نے بہت ہی بھاری نقصان اٹھایا، لیکن ہم نے اس کو توڑ دیا۔ ہم نے سامراج کا مکمل طور سے خاتمہ کرنے کے لئے جدوجہد کا جھنڈا بلند کیا ہے۔
ہم جیسے ایک محصور قلعے میں ہیں اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کے دوسرے دستوں کے منتظر ہیں کہ وہ آکر ہماری مدد کریں۔ ان دستوں کا وجود ہے، وہ ہمارے دستوں سے تعداد میں زیادہ ہیں، وہ پختہ ہو رہے ہیں، بڑھ رہے ہیں اور جتنے زیادہ دنوں تک سامراج کے مظالم جاری رہتے ہیں اور زیادہ طاقتور ہو رہے ہیں۔ مزدور اپنے سوشلسٹ غداروں سے۔ گومپیرس ، ہنڈرسن ریناڈیل، شیئد مان اور رینر جیسے لوگوں سے۔ علحدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ لیکن اعتماد کے ساتھ مزدور کمیونسٹ، بالشویک طریقہ کاراختیار کر رہے ہیں اور پرولتاری انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں جو تنہا مرتے ہوئے کلچر اور مرتی ہوئی انسانیت کو بچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مختصر یہ ہے کہ ہم ناقابل تسخیر ہیں کیونکہ عالمی پرلتاری انقلاب ناقابل تسخیر ہے۔
20اگست 1918ء۔ن۔لینن
’’پراودا‘‘ شمارہ 178, ۔لینن کا مجموعہ تصانیف،
22اگست 1918 ء۔لینن کا مجموعہ ایڈیشن،