رپورٹ: قمرالز ماں خاں:-
سرمایہ داری نظام کی وجہ سے دنیا کی پچھتر فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیجے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔پاکستان کا حکمران طبقہ طفیلی ہے ان کے پاس پاکستان کے عوام کو بہتر زندگی دینے کا خواب تک بھی نہیں ہے ۔چونسٹھ سالوں سے چہرے بدلے مگر نظام سامراجیت پر مبنی رہا ۔موجودہ نظام کے اندر اصلاحات ناممکن ہیں صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے لوگوں کی قسمت بدلی جاسکتی ہے۔پاکستان میں سات کروڑ تیس لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی بسر کررہے ہیں۔چودہ کروڑ پاکستانیوں کا پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ اسی فیصد بیماریاں غربت کی وجہ سے ہیں جبکہ اسی فیصد لوگ علاج معالجے کے لئے غیر سائنسی طریقہ کار اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔تیس فیصدسے زائد ادویات جعلی تیار ہورہی ہیں۔پچھلے دس سالوں میں گیارہ ہزار ارب روپے غریبوں سے امیروں کی جیبوں میں منتقل ہوئے۔پچھلے ساڑھے تین سالوں میں دوکروڑ ستر لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔پچھلے چار سالوں میں چار گورنر سٹیٹ بنک اور چار وزیر خزانہ بدلنے کی وجہ معیشت کا ناقابل اصلاح ہونا ہے۔موجودہ حکومت بدعنوان نظام کی وجہ سے کرپٹ اور ناکام ہے نظام بدلے بغیر حکومتیں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ان خیالات کا اظہار انٹرنیشنل مارکسٹ رجحان کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے مرکزی وائس چئیرمین قمرالزماں خاں،انفرمیشن سیکریٹری پارس جان،حیدر چغتائی،عباس تاج،حنیف میسرانی،جام عبدالصمد ایڈوکیٹ،شاہد آذر اور عبدالوکیل ایڈوکیٹ نے کیا۔مقررین نے کہا فوج جن تضادات اور کمزوریوں کا شکار ہے وہاں وہ براہ راست حکمرانی نہیں کرسکتی اسی لئے دیگر اداروں کے اشتراک سے حکومت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے۔بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں اور بلوچ نوجوانوں کی گم شدگی پر کچھ اداروں کی خاموشی انکی منافقت کو بے نقاب کررہی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کے رہتے ہوئے عام لوگوں کو انکے حقوق نہیں دیے جاسکتے بے شک جتنے صوبے بنا دیے جائیں کمزور معیشت پہلے صوبوں کے بوجھ سے لڑکھڑا رہی ہے اگلے کچھ سالوں تک موجودہ ریاستی مشینری کی تنخواہیں دینا مشکل ہوجائیں گی۔اگر تارکین وطن کی رقومات میں کمی آگئی جو ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہوجائے گا۔نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں روزانہ ساڑھے چار ارب روپے خرچ کئے جارہے ہیں ،2010ء میں اس جنگ کی وجہ سے پاکستان کوسترہ ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔سامراج کی تابعداری میں رہتے ہوئے کوئی حکومت بھی آزاد خارجہ پالیسی کا تصور نہیں کرسکتی۔موجودہ سرمایہ دارانہ نظام ضعیف ہوچکا ہے اس کی موجودگی کی وجہ محنت کش طبقے کی تحریک کا عدم وجود ہونا ہے،تحریک چلی تو بنیاد پرستی اور قومی شاونزم کا وجود تک مٹ جائے گا۔محنت کش طبقے کی تحریک کے خوف سے اسٹیبلشمنٹ اپنے مختلف مہروں کو حرکت میں لاکر پارٹیاں بنانے، جلسے اور کانفرنسز کرانے میں مصروف ہے۔انہوں نے کہا کہ عرب انقلابات اور امریکہ سمیت یورپ میں سرمایہ داری کے خلاف تحریکوں نے رجعتی عناصر کی نیند حرام کردی ہے۔محنت کش طبقہ جب حرکت میں آیا تو وہ اپنی نسلوں کے استحصال کا بدلہ لے گا۔ایسے میں انقلابی پارٹی کی موجودگی سوشلسٹ انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔