تحریر: لال خان:-
کہا جاتا ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے، لیکن در حقیقت ایسا کبھی بھی یکساں انداز میں نہیں ہوتا بلکہ تاریخ خود کو ایک بلند تر پیمانے پر دہراتی ہے۔ کسی بھی سماج میں عوام کا عمومی شعور نہ تو جامد ہوتا ہے اور نہ ہی سدا ایک سا رہتا ہے۔ یہ مسلسل تبدیلی، بہاؤ اور حرکت کی کیفیت میں رہتا ہے۔ غداریاں اور شکستیں اسے پیچھے دھکیلتے ہیں لیکن طبقاتی جدوجہد میں احیائے نو اسے نئی بلندیوں پر لے جاتی ہے۔
تاہم سماج میں موجود مختلف طبقات کا مزاج اور کیفیات ان کے حالات اور عہد کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں۔ عام طور پر درمیانے طبقے یا پیٹی بورژوازی کی نفسیات سطحی تجربیت پر مبنی ہوتی ہے اور اسے بے صبری کی بیماری کے دورے پڑتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے بحران کے دور میں یہ مسلسل عدم تحفظ، بے اطمینانی اور بے چینی کی کیفیت میں کبھی ایک انتہا اور کبھی دوسری کی جانب جاتے ہیں، عام ادوارمیں بورژوازی کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انقلابی حالات میں پرولتاریہ کے انقلابی کارواں میں شامل ہوجاتے ہیں۔
محنت کش طبقات بہت لمبے عرصے تک تکالیف جھیلتے ہیں۔ کئی دہائیاں خاموشی میں گزر جاتی ہیں لیکن پھر عوام کسی آتش فشاں کی طرح دھماکہ خیز انداز میں انقلابی بغاوتوں کے ذریعے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیتے ہیں۔یہ تاریخ کے غیر معمولی ادوار ہوتے ہیں۔ زیادہ تر بورژوا ماہرین اور دانشور وں کا ذہن ان طوفانوں کی پیشن گوئی کرنے سے قاصر رہتا ہے جس کی وجہ ان کا فلسفہِ منطقی ایجابیت او ر نام نہاد نتائجیت پر مبنی طریقے ہیں۔
موجودہ وقت میں کہیں کہیں ابھرنے والی تحریکوں کے علاوہ پاکستان میں عوام کی تحریک ایک نسبتاً جمود کے دور سے گزر ہی ہے، لیکن معاشرہ ایک بھیانک سماجی اور معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے جو اسے تاراج کر رہا ہے۔صورتحال کے اس تضاد نے ایک سیاسی خلا کو جنم دیا ہے جس میں کوئی بھی ایسی قوت منظر عام پرنہیں ہے جس کے پاس ان مصائب اور افلاس سے نکلنے کا کوئی معاشی اور سیاسی حل ہو۔ لیکن فطرت میں خلا زیادہ دیر تک نہیں رہتا۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے بھی عجیب و غریب عوامل سامنے آ رہے ہیں جو سلگتے ہوئے مسائل کے متعلق لفاظی تو کر تے ہیں لیکن ان کے پاس سر پر منڈلاتی ہوئی آفت سے بچنے کا کوئی حقیقی حل موجود نہیں۔ اپنی نمائشی فطرت کی وجہ سے پیٹی بورژوازی یا نام نہاد سول سوسائٹی جنونی انداز میں ان ’’نجات دہندوں‘‘ کی جانب مائل ہوتی ہے۔ سماجی جمود کے عہد میں یہ درمیانہ طبقہ ہی ہوتا ہے جو مذہبی بنیاد پرستی، بے ہودہ لبرل ازم، قومی شاؤنزم اور دیگر تصوراتی اور جذباتی رجحانات کو سماجی بنیاد یں فراہم کرتا ہے۔ پیٹی بورژو ایک پاگل پن کے سلسلے کی تازہ ترین قسط عمران خان کا ’’ابھار‘‘ ہے۔
میڈیا، حکمران اشرافیہ اور ریاست کے کچھ حصے اس کو ایک متبادل کے طور پر پیش کر رہے ہیں، جو سماج پر جمہوریت کا ڈھونگ مسلط کر کے حکمران اشرافیہ کا محنت کش طبقے پر حملہ کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔براہِ راست فوجی حکومت کی ناکامی اور فوج کی باہمی جڑت میں ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے وہ کھل کر مداخلت نہیں کر سکتی۔ ایک متروک نظام کو بچانے کی یہ نحیف اور خستہ حال کوششیں پاکستان کے حکمران منصوبہ سازوں کی قابل رحم حالت کا ثبوت ہیں۔
پاکستان کے جمہوری سیاسی تماشے کو دیکھ کر اٹھارویں صدی کے برطانوی قدامت پرست سیاست دان ایڈمنڈ برک کے الفاظ یاد آتے ہیں: ’’بے ہودہ سیاست دانوں کا قبیلہ انسانوں میں سب سے گھٹیا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں حکومت سے زیادہ نیچ اور کم تر کاروبار کوئی اور نہیں۔اچھائی کرنا ان کے ضمیرمیں ہی نہیں۔ وہ شان وشوکت کے حصول کے لیے کسی گھناؤنے زوال سے دریغ نہیں کریں گے۔ اگر ا ن کی حرکتوں پر غور کیاجائے تو اندازہ ہوگا کہ وہ اپنے حواس کھوبیٹھے ہیں۔ مسخرے اور بھانڈ بھی انکی حرکتوں سے شرمندہ ہوتے ہیں۔ کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے گھٹیا سے گھٹیا حرکت ان کے لیے انتہائی سنجیدہ اور معقول ہے‘‘۔
گلی سڑی ریاست اور نظام کی جرم سے لتھڑی سیاست میں عمران خان کوئی ایڈیپس (جس نے یونانی دیوتاؤں کو شکست دی جہاں باقی ناکام ہو جاتے) نہیں ہے۔ اس کا اسلامی جہاد، مغربی لبرل ازم اور متروک قوم پرستی کا عجیب و غریب ملغوبہ پہلے سے موجود سیاسی تذبذب میں اضافہ ہی کر سکتا ہے۔جس پاکستانی قومی شاؤنزم کے نظریے کا وہ پرچار کرتارہاہے وہ چالیس سال پہلے بنگال کے دھان کے کھیتوں میں خون میں ڈوب گیا تھا۔ جس انصاف کی فراہمی کا وہ وعدہ کر تا ہے وہ منڈی کی معیشت میں خریدا نہیں جا سکتا۔جس کرپشن کی وہ مذمت کرتا ہے وہ بحران کی وجہ نہیں بلکہ ضعیف سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت اور پیداوار ہے۔معاشی چکر کالے دھن اور کرپشن پر چل رہا ہے جو اس ملک کو برباد کیے جا رہا ہے۔ جس برطانوی پارلیمانی نظام کو وہ اپنا چاہتا ہے وہاں اب بھی بادشاہت موجود ہے جس کے خلاف برطانوی عوام میں نفرت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جس عالمِ اسلام کا وہ خواب دیکھتا ہے اورپاکستانی قومی ریاست جس کا وہ راگ الاپتا ہے ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ وہ امریکی نظامِ پولیس جسے وہ لاگو کرنا چاہتا ہے ترقی یافتہ دنیا میں سب سے زیادہ جرائم کو جنم دے رہا ہے۔ جس امریکہ سے وہ ’’برابری‘‘ کی سطح پر دوستی چاہتا ہے وہ پاکستان کا خون چوستا رہے گا جب تک سرمایہ دارانہ نظام یہاں موجود ہے۔
وہ پاپولسٹ لیڈر کا کردار ادا کرتے ہوئے مصائب میں گھرے عوام کو ان اصلاحات کی بیان بازی کے ذریعے تسلی دینا چاہتا ہے جن کی اس نظام میں گنجائش ہی نہیں۔ بلوچ اور دیگر محکوم قومیتیں ، جن کے ساتھ وہ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنا چاہتا ہے، بہت پہلے سے دو قومی نظریے کو مسترد کر چکی ہیں جسے عمران خان ایک نیا مسیحا بن کر دوبارہ زندہ کرنا چاہ رہا ہے۔ وہ اسٹیبلیشمنٹ کا چھپا رستم ہو سکتا ہے، لیکن پھراس اکھاڑے میں ریاستی پیشواؤں کی آشیرباد کے بغیر کون اتر سکتا ہے۔
چین کے ساتھ پرانی دوستی کا متبادل ایک فریب ہے۔ انہوں نے کب کوئی ایسی پالیسی بنائی ہے جو انکے مفادات کے تابع نہ ہو؟ آج چین دنیا میں سب سے زیادہ سرمایہ برآمد کر رہا ہے۔ اور سرمایہ کاری کا مقصد منافع کمانا ہوتا ہے، اپنی تعریف و تحسین کروانا نہیں۔ مزدوروں کے جن حقوق کے متعلق وہ بات کر رہا ہے موجودہ دور میں ان کو صرف ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ اگر کہیں کوئی سرمایہ کاری کی بھی جار رہی ہے تو وہ صرف پیسے سے پیسہ کمانے کے لیے ہے۔ انقلابی پارٹیاں اور لیڈر میڈیا کی ’’تشہیر‘‘ اور ناز برداری سے تعمیر نہیں ہوتے، بلکہ اس کے بر عکس ، ا نقلابی فتوحات ایک مخالفانہ اور مخاصمانہ میڈیا کے خلاف لڑائی میں عوام کو جوڑ کر اس کے شکنجے سے چھین لی جاتی ہیں۔
عمران خان کی سیاست طبقاتی مصالحت اور ٹریکل ڈاؤن معیشت پر مبنی ہے۔سیاست کے دیگر مسخروں اور اس میں کیا فرق ہے؟ کیا وہ کوئی حقیقی تبدیلی لا سکتا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔بیمار سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اس بدحالی، تشدد اور محرومی میں صرف اضافہ ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن عمران خان کے گرد جمع مجمع کا سب سے گھناؤنا پہلو یہ ہے کہ وکلاء تحریک کی طرح نظریاتی فرق کو فراموش کیا جارہا ہے اور اس کی تحقیر کی جا رہی ہے۔ دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی تقسیم کوئی کتابی استدلال نہیں ہے۔ یہ سماج میں موجود طبقاتی تقسیم اور محنت کی زائد پیداوار کی ملکیت کی جدوجہد سے جنم لیتی ہے جو آخری تجزیے میں زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے۔جب تک طبقاتی استحصال موجود ہے یہ نظریاتی جنگ جاری رہے گی۔یہ محنت کشوں کی نسلوں کے خون سے کھینچی گئی لکیر ہے۔ عمران خاں پیٹی بورژوازی کو سچائی سے عاری جوش میں ابھار رہا ہے۔ جب تحریک ایک مرتبہ پھر سے شروع ہو گی تو کوئی بھی فریب کارگر نہیں ہو گا۔ طبقاتی جنگ کو اسکے انجام تک لڑنا پڑے گا۔