تحریر۔قمرالزماں خاں:-
طریقہ کوئی بھی ہو وقت کے تعین کی بحث میں پڑے بغیر ہم کہتے ہیں کہ بالآخر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں چلنے والی موجودہ قومی حکومت ختم ہوجائے گی۔ہم فرض کرلیتے ہیں کہ پاکستان میں ’’ مخصوص طریقوں ‘‘ کے استعمال ’’حقیقی طاقتوں‘‘اور انکے فرنٹ لائن اداروں کے ہتھکنڈوں اور میڈیا کے فریق بن جانے کے بعد کسی نہ کسی طرح صدر مملکت آصف علی زرداری کو بھی مسند اقتدار سے علیحدہ کردیا جاتا ہے۔اب میدان صاف ہے۔کرپٹ ،نااہل اور سامراج کے پپٹ موجودہ حکمران گروہ ایوان اقتدار سے بے دخل کردیے گئے ہیں۔(یہاں پر ہم انتہائی مبالغے سے کام لیتے ہوئے فرض کرلیتے ہیں) کہ بالکل ہی برعکس طبع و کردار کے حاملین کا ڈیرہ قصر صدارت اور وزیر اعظم ہاؤس میں ہے تو نتائج کیا نکلیں گے؟مندرجہ ذیل سنجیدہ مسائل کا کیا حل ہے اور ان مسائل کے مضمرات کے لئے کسی بھی نئی حکومت کے پاس کونسا پروگرام یا فارمولہ ہے اس کا جائیزہ لینا ضروری ہے۔
2007ء سے بتدریج مگر تیزی سے گراوٹ کی طرف جاتی معیشت جس کو 2008ء سے شروع ہونے والی عالمی کساد بازاری اور معاشی بحران کے ضعف سے بھی نقصان پہنچ رہا ہے(جسکی بحالی کے عالمی ماہرین معیشت کے مطابق 2020ء تک امکانات نہیں ہیں)کیسے بحال ہوسکے گی؟ عالمی سطح پر ببل اکانومی کے پھٹنے اور قرضوں،بازار حصص کے جوئے اور پراپرٹی کی خرید وفروخت کے جعلی ابھار پر معیشت کو استوار کرنے والی قوتوں کو تاریخ کے بدترین بحران کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔جس کی زد میں مضبوط معیشتیں اپنی کمزوری کی انتہاؤں پر پہنچ چکی ہیں۔ملک اور کمپنیاں دیوالیہ ہورہی ہیں،بے روزگاری کی شرح میں تاریخی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔عام آد می کی قوت خرید دن بدن کم ہوتی جارہی ہے منڈیاں سکڑ رہی ہیں اور کھپت میں کمی کے رجحان کا غلبہ ہے۔اس پس منظر میں دینا بھر میں پیداور اور تجارت میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔کھپت کے کم ہونے پر امریکہ اور یورپ میں درآمدات میں کمی کرنی پڑرہی ہے۔پاکستان جیسے معمولی برآمدات والے ملک کو بھی اس بحران کی وجہ سے سنگین نتائج بھگتنا پڑرہے ہیں۔پاکستانی تجارتی توازن میں برآمدات کے رک جانے کی وجہ سے زرمبادلہ کے بحران کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔عالمی معاشی بحران کا سب سے زیادہ خمیازہ محنت کش طبقے کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ سرمایہ دارنظام کے ماہرین نے اپنے بحران کا رخ مزدوروں کی طرف موڑتے ہوئے ان کے روزگار،اجرتوں اور سہولیات پر حملہ کرکے عمومی زندگی کو پستی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن جو اپنے ملک کو زرمبادلہ مہیا کرنے والا ایک بڑا ذریعہ ہیں اب روزمرہ زندگی بسر کرنے اور اپنے جسم و جان کار شتہ برقرار رکھنے کے لئے محنت کی منڈی میں خود کو روزانہ زیادہ بہیمانہ استحصال کے لئے پیش کرنے پر مجبور ہیں۔بچتوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔لہذا’’ ترسیلات زر‘‘ جو اس وقت 11ارب ڈالر ہیں میں کمی کے امکانات ہیں اور عالمی معیشت کی بحالی تک اس میں مثبت تبدیلی ممکن نہیں ہوگی۔زرمبادلہ کے ٹھٹھرکر رہ جانے کے ٹھوس عوامل کی موجودگی میں تجارت اور ادائیگیوں کے عمل میں پاکستانی روپے کی قدر کا کم ہونا ناگزیر ہے جو کہ ہوررہا ہے اور ہر دفعہ کرنسی کی پستی کے ساتھ قرضوں کے حجم میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اسی طرح کا اضافہ ہردرآمد ہونے والی جنس کی قیمتوں میں ہوجاتا ہے۔یہ عامل بطور خاص تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا اور اسکے ردعمل میں تیل کے استعمال والے تمام شعبوں کی قیمتوں میں خود بخود اضافہ ہوجاتا ہے۔بجلی اور بجلی کے استعمال والے تمام شعبوں کی مصنوعات یا خدمات،ٹرانسپورٹ کے کرائے اور ہر نقل و حمل کے ذریعے مارکیٹ میں آنے والی چیز مہنگی ہوجاتی ہیں۔
دنیا میں نظام اگر ’’آزاد منڈی‘‘ کا رہے گا تو یہ مسئلہ بھی رہے گا!!! اس کا حل کیا ہے اور کس کے پاس ہے؟ کم از کم موجودہ حکمران طبقہ اس کا جواب دینے سے قاصر ہے۔
فرسودہ اور زائد المعیادانفراسٹرکچر،تجارتی مسائل،سامراجی بندشوں،صنعتوں کی اکثریت کا زرعی مقاصد کے ساتھ منسلک ہونا ( دراصل صنعتی انقلاب کی عدم موجودگی) اور ملکی آمدن اور اخراجات میں 100% فرق کی وجہ سے خسارے کو پورا کرنے کے لئے ملکی اور غیرملکی قرضوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے یہ عمل آدھی صدی سے جاری و ساری ہے جس کی وجہ سے ملکی قرضے68کھرب روپے اور غیر ملکی قرضے61.8ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں۔کل بجٹ کا قریباََآدھا حصہ ان قرضوں کے سود اور ادائیگیوں پر صرف ہوجاتا ہے ۔غیرملکی قرضوں کے عوضانے کے طور پر نہ صرف خارجہ پالیسی سامراجی نقطہ نگاہ سے تشکیل دینی پڑتی ہے بلکہ ملک کی اندرونی پالیسیاں بالخصوص معاشی پالیساں بھی سامراجی اداروں کی شرائط اور مرضی کے مطابق وضع کرنا پڑتی ہیں۔ان شرائط کی رو سے تعلیم ،صحت اور دیگر بنیادی شعبوں پر حکومتی رعائت کا خاتمہ،عوام الناس پر بالواسطہ ٹیکسوں کا نہ رکنے والا حملہ جاری رکھنا،’’انکم سرمایہ دار کوجائے مگر ٹیکس صارف سے لیا جائے‘‘ سکیم کے تحت بجلی،گیس،آٹا،چینی ،چائے پتی،دودھ،خوردنی تیل،پیٹرولیم مصنوعات،موبائل فون کارڈزغرض ،ہر چیز پر کئی مرحلوں میں مختلف ڈیوٹیز اور ٹیکسز وصول کئے جاتے ہیں اور کئی شعبوں جیسے بجلی کے ہر ایک یونٹ پر سات مختلف ٹیکس، چارج،سرچارج ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں۔اس سارے عمل کی وجہ سے ہر دس افراد میں سے چار غربت کی لکیر سے نیچے گر چکے ہیں۔دوسری طرف امراء سے ٹیکس لینا اس لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود اقتدار سے محروم نہیں ہوتے اور انکے مفادات کا تحفظ کرنے والے ہر پارلیمنٹ میں 90فی صد سے بھی زیادہ تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔اسی کے ساتھ سامراجی اداروں کی ایک شرط ملکی صنعتوں کے انہدام اور پاکستان کی معیشت کو پرچون معیشت میں ڈھالنا شامل ہے۔ایک طرف نج کاری اور ڈاؤن سائزنگ کا مطالبہ کیا جاتا ہے تاکہ صنعتیں منہدم ہوسکیں۔ تو دوسری طرف عالمی سرمایہ کار ہر ملک کے اند رصنعتی ڈھانچے قائم کرنے کی بجائے ہر طے شدہ تجارتی بلاک میں ایک مرکزی ملک( جو خود بڑی منڈی بھی ہو) کا تعین کر کے اس میں صنعتیں لگا کرباقی چھوٹی معیشتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کو پسندیدہ تجارتی ملک تسلیم کرکے اسکی مصنوعات کو بغیر درآمد ی ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں کے قبول کریں۔ایسے معاہدے کوپاکستان قبول کرچکا ہے۔جس کے ذریعے نام نہاد قومی معیشت یا قومی صنعت گدھے کے سینگوں کی طرح غائب ہونے جارہی ہے۔یاد رہے کہ موجودہ صنعتی ترقی منفی ایک فی صد ہے۔
یہ کہا جانا کہ نئی کسی بھی آنے والی حکومت کے لئے بد عنوانی کو ختم کرنا ممکن ہوگا طوطا مینا کی کہانی کے مصداق ہے۔ ملک میں اگر اقتدار کی تبدیلی موجودہ نظام معیشت کے تحت ہی ہوتی ہے تو بدعنوانی جو اس نظام کی آکسیجن ہے میں روزبروز اضافہ ہونا ضروری ہے ورنہ منافعوں ،اثاثوں اور مراعات یافتہ طبقے کی پرآسائش زندگی میں بہتری نہیں ہوسکے گی ،ایسا ہونے پر’’ حکمران طبقے کی کونسل کے مستقل اراکین ‘‘کسی پارٹی یا حکومت کی کیوں حمائت کریں گے جو ان کو عیاشیوں سے بھر پور جداگانہ زندگیوں سے محروم کردے۔ کسی فرد واحد کی دیانت داری پورے نظام کی ھئیت نہیں تبدیل نہیں کرسکتی ایسا دعوی کرنا خود سمیت ہر کسی کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔حقیقت تو یہی ہے کہ کثیر القومی اجارہ داریوں کے سامنے ملکی سرمایہ داراور صنعتکاروں ( جنکی حیثیت اس سامراجی نظام میں گماشتہ کی ہے) کا ٹھہرنا محال ہے۔ان کا وجود بنکوں کے قرضوں،گیس،بجلی،اور ٹیکس کی چوری کی وجہ سے ممکن ہے۔اور اگر مندرجہ بالا چوریوں کو روک دیا جائے تو ملکی سرمایہ دار کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔دوسری طرف چوری برقرار رہے گی تو اس چوری کو برقرار رکھنے کے لئے پارلیمنٹ کا رکن بننا،ریاست کی تکون کے ساتھ چوتھے ستون تک رسائی کے لئے تمام (ناجائز)ذرائع بروئے کار لانا پڑتے ہیں۔ان چوریوں اور سینہ زوریوں کا تحفظ کیا جاتا ہے اور جواز فراہم کی جاتا ہے۔چوریوں کے تحفظ کے لئے ریاست کے آئینی قانونی ڈھانچوں کو یا تو مسخ کیا جاتا ہے یا متوازی اقدامات کئے جاتے اور اس سارے عمل کے سماج پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کو تقویت ملتی ہے۔
بدعنوانی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت میں 73فی صد حصہ کالی دولت کا ہے اگر اس کو ختم کردیا جاتا ہے توکمزورمعیشت اور ریاستی ڈھانچہ زمین بوس ہوجائے گا اگر موجود کالی معیشت جو غیر ادا شدہ ٹیکسز سے حاصل شدہ دولت،سمگلنگ،اسلحے اور منشیات کے کاروبارپر مبنی ہے ،قائم رہتی ہے تو اسکے مضمرات نہ صرف معیشت بلکہ سیاست کے ساتھ ساتھ سماج کے تمام شعبوں میں سرائیت کرجاتے ہیں ا ور ایک نیا سماجی رنگ ڈھنگ معرض وجود میں آجاتا ہے جیسا کہ اس وقت ہے۔کالی معیشت اپنی اخلاقیات اور ثقافت کو جنم دیتی ہے جو جرائم،بے اصولی،قانون شکنی ،منافقت اوردروغ گوئی کی نفسیات کے ساتھ بے پناہ دیگر برائیوں کو پروان چڑھاتی ہے۔کالی معیشت اور مددگار ریاستی ،سیاسی ،سماجی اداروں کی موجودگی میں کوئی معاشرہ مثبت ارتقاء کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔حکومتیں اسی کالی دولت کی مدد سے بنتی و گرتی ہیں اور کالے دھن کے مفادات کے گرد ہی گھومتی رہتی ہیں۔سب کچھ بدل کر بھی کچھ نہیں بدل سکتا ۔
حکومت اگر بدل جاتی ہے اور ’’نئے فرشتے‘‘گدی نشین ہوجاتے ہیں تو کیا ان میں اتنی ہمت ہے کہ وہ پرائی جنگ یعنی’’ دھشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ جیسی نام نہاد اصطلاح سے قطع تعلق کرسکیں؟اگر کوئی اسٹیبلشمنٹ اور سامراج کے روٹھنے اور مان جانے کے کھیل کو سمجھے بغیر کسی عارضی غصے کو مستقل پالیسی سمجھ کر اپنی سیاسی گیم کی منصوبہ بندی کررہا ہے تو اس کو جان لینا چاہئے کہ وہ کسی بہت ہی عارضی پیش منظر کے سحر کا شکار ہوگیا ہے۔سامراجی اطاعت کے بغیر ہمارے لئے ’’عظیم قوتیں‘‘ بہت ہی نحیف ہو کربہت بڑے انتشاروخلفشار کا شکارہوجائیں گی۔دریا میں رہتے ہوئے مگر مچھ سے بیر نہیں رکھا جاسکتا ۔اگر سرمایہ داری نظام ہی ہمارے مقتدر اور حکمران طبقوں کا پسندیدہ نظام ہے تو پھر اسکے اپنے اصول ہیں اور ہر کسی کو اس کے تابع ہو کر ہی چلنا پڑے گا۔
کیا نئی حکومت سامراجی مددگار مقتدر حلقوں کے اثر رسوخ ،مفادات،احکامات اور پالیسیوں سے متصادم اپنی کوئی آزادنہ سوچ کے مطابق پالیسی وضع کرسکے گی؟ کیا افغانستان میں مداخلت اور سامراج کی اعانت جیسی ’’دہری‘‘ پالیسی پر نظرثانی کرنے کی اجاز ت’’
منتخب،جمہوری،آزاد اور خود مختار پارلیمنٹ‘‘ کو ہوگی یا ہوسکتی ہے؟ نظر ثانی کرنے کی پاداش میں کیا انجام ہوگا اور اگر بلی چوہے جیسا موجودہ کھیل جاری رہتا ہے تو پھر تبدیلی حکومت کے کیا معنے ہونگے؟
معاشی بدحالی،بدعنوانی کی ناگزیریت،کالے دھن کی حاکمیت،سامراجی اطاعت،عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ اور وصول شدہ رقم کو قرضوں کے سود اور اقساط میں ادائیگی کے ناگزیر قوانین اگر آنے والی حکومت میں بھی جاری رہنے ہیں اور لازم طور پر رہیں گے توپھر عوام ، سیاست دان ،عدلیہ اور مقتدر قوتیں گالی کس کو دیں گے؟ زرداری اور گیلانی تو جاچکے ہوں گے!!!! یہ ایک خطرناک منظر نامہ ہوگا۔یہی ایک باریک ،پراسرار مگر طاقتور راز ہے جس کے سبب موجودہ حکومت پچھلے چار سالوں سے مسلسل برقرار ہے،حالانکہ اس کے جانے کی پیش گوئی ہر رات الیکٹرونک میڈیا پر بیٹھے ناکام نجومی دیتے چلے آرہے ہیں۔معاشی ،تاریخی اور معروضی حقائق واضع کرتے ہیں کہ نظام کی تبدیلی کے بغیر آنے والی کوئی بھی ’’نئی‘‘ حکومت کچھ بھی نیا نہیں کرسکے گی بلکہ وہ پچھلی آلودگیوں میں زیادہ لتھڑ کر اور زیادہ تعفن پھیلانے کا باعث بنے گی مگر سب سے خطرناک عامل ہو رد عمل ہوگا جو نئی حکومت کی ناکامی سے جنم لے گا،امیدیں جب ناامیدی کے سامنے کھڑی ہونگی تو پھر غم غصے میں بدل سکتا ہے اور غصہ کچھ کرنے کی ٹھان سکتا ہے۔قیادتیں مسترد ہوسکتی ہیں اور خلاء کو خود رو قیادتیں پر کر سکتی ہیں۔ خاموشی کو زبان مل سکتی ہے۔محکوم کچھ کرنے کی ٹھان سکتے ہیں۔زنجیریں جھٹک کر غلامی کو مزید ماننے سے انکار کردینے کا بس ایک اعلان ہی کافی ہے پھر وہ سب ممکن ہوجائے گا جس کو صدیوں سے ناممکن قرار دے کر ظلم کے اس نظام کو کروڑوں لوگوں کا مقدر بنادیا گیا ہے۔