بدنصیبی کا جرم؟

| تحریر: لال خان |

اس ملک کے عوام جس ذلت اور رسوائی کا شکار ہیں اسے حکمران طبقے کے لبرل اور قدامت پرست دانشور ’’بدنصیبی‘‘ قرار دے کر مزید مایوسی اور بدگمانی پھیلاتے ہیں۔ عوام کی یہ حالت زار کوئی آفاقی فرمان نہیں بلکہ مٹھی بھر حکمران طبقے اور اس کے دم چھلے درمیانے طبقے کا جرم ہے جو اپنے نظام کو طوالت دینے کے لئے محنت کشوں کے آنسو اور لہو کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔سامراج کے یہ گماشتے منافع کی ہوس میں آبادی کی وسیع اکثریت کو زندہ درگور کرنے کے درپے ہیں اور اس جبر و استحصال کو ’’تقدیر کا لکھا‘‘ قرار دے کر عوام کو مطیع اور بے بس رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسری طرف خود حکمران طبقے کے سنجیدہ حلقے یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ملک جو حال کر دیا گیا ہے اس کے پیش نظر بغاوت کا آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ جس ’’وطن‘‘ کی عظمت کے ترانے عوام پر مسلط کئے جاتے ہیں، حکمرانوں نے اپنا ’’بندوبست‘‘ اس سے بہت دور کر رکھا ہے۔ اس ملک کے نظاروں اور موسموں کے گن گانے والے دبئی کے ریگستانوں میں اپنے محلات خریدنے یا تعمیر کروانے میں شدت سے سرگرم ہیں۔ یہاں کے امیروں نے اس سال کے صرف پہلے تین ماہ میں 379 ملین ڈالر کی جائیدادیں دبئی میں خریدی ہیں جبکہ پچھلے دو سالوں میں 4.3 ارب ڈالر (تقریباً 430 ارب روپے) کی جائیداد خریدی گئی ہے۔ ویسے تو مذہب اور لسانی منافرت کی سیاست کرنے والے تمام فرقوں اور قوموں کے حکمران بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں رہتے ہیں۔ فارم ہاؤس، حویلیاں، ڈیرے اور آستانے اس کے علاوہ ہیں لیکن اپنے حتمی تحفظ کے لئے انہوں نے ’’آخری ٹھکانہ‘‘ دبئی کو ہی بنایا ہے۔
سرحد پار کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ دبئی میں جائیداد بنانے کی اس دوڑ میں 953 پاکستانی امراء کے علاوہ ایک ہزار ہندوستانی بھی شامل ہیں۔ لیکن یہ ’حکمران بیچارے‘ بھی کیا کریں؟ اس خطے کے ماحول، قدرتی حسن، تاریخی شہروں اور دیہاتوں کا جو حشر ان کے نظام اور ریاست نے کر دیا ہے اس کے پیش نظر زندگی میں تعفن بھر گیا ہے۔ جھیل سیف الملوک سے چولستان کے سفید صحراؤں اور مکران کے ساحلوں تک، انسانوں سے زیادہ پلاسٹک کے لفافے نظر آتے ہیں۔ہر طرح کی آلودگی اور غلاظت کے ڈھیر صرف گنجان علاقوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ دور دراز کے پرفضا مقامات کا سکون اور دلکشی بھی مسخ ہو گئی ہے۔غربت، مہنگائی اور محرومی کا سماجی کہرام اس کے علاوہ ہے۔
نظام صحت کے جو حالات ہیں اس کے پیش نظر بیمار ہونا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔ بڑے شہروں میں پانی کی قلت مسلسل بڑھتی جارہی ہے اور غلیظ پانی بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ بن چکا ہے۔ ناخواندگی بڑھ رہی ہے۔ صفائی سمیت سماجی خدمات کا پورا انفرسٹرکچر زمین بوس ہو چکا ہے۔ ٹیکس چور سرمایہ داروں کی اس ریاست کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں ہیں کہ بنیادی سماجی شعبوں میں سرمایہ کاری کی جاسکے۔ دو تہائی معیشت ویسے ہی کالے دھن پر مبنی ہے جس کا ریکارڈ ہی ریاست کے پاس نہیں ہے۔
حکمران طبقے نے اپنے لئے تو غربت کے سمندر میں امارت اور عیاشی کے جزیرے تعمیر کر رکھے ہیں۔ ان کی اپنی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں جن کی بلند دیواروں کے پار کوئی غریب جھانک بھی نہیں سکتا۔ سکیورٹی گارڈوں کے جتھے ان کی حفاظت پر معمور ہیں۔ بجلی ان کے محلات میں جاتی نہیں، بیمار ہو جائیں تو فائیو سٹار ہسپتال اور کلینک ہیں، بچے ان کے سیون سٹار سکولوں میں ابتدائی تعلیم کے بعد حکمرانی کی ’’اعلیٰ تعلیم‘‘ کے لئے مغرب چلے جاتے ہیں۔ مہنگائی کرنے والے بھی یہ خود ہیں اور اس کا فائدہ بھی خوب اٹھاتے ہیں۔ سفر کے لئے ان کے پاس کروڑوں روپوں کی گاڑیاں اور نجی جیٹ طیارے ہیں۔ ’’جمہوریت‘‘ ان کی باندی ہے اور آمریتوں میں بھی وہ قابل احترام ہیں۔ ریاست ویسے ہی حکمران طبقے کے جبر کا آلہ کار ہوتی ہے لیکن اندر ہی اندر کانپ پھر بھی رہے ہیں اور ’’بیک اپ‘‘ پلان بنا رہے ہیں۔
ان کا ڈر بھی بے سبب نہیں ہے۔ ان کی معیشت تمام دعووں کے باوجود بیٹھ رہی ہے۔ 80 فیصد آبادی تو کلی یا جزوی طور پر سفید معیشت کے سائیکل سے باہر ہو چکی ہے۔ کالی معیشت کی اذیت میں یہ رعایا بھلا کب تک برداشت کر سکتی ہے؟ نہ ختم ہونے والی اس اذیت سے نجات کے لئے بغاوت درکار ہے جس کا شعور کوئی بڑا واقعہ یا یکلخت معاشی و سماجی تبدیلی برق رفتاری سے اجاگر کر سکتی ہے۔ حکمرانوں کے سنجیدہ پالیسی ساز اس خطرے سے بے خبر نہیں ہیں۔ یہی ان کے خوف کی وجہ ہے۔
معاشرے پر جو عمومی منطق اس عہد میں مسلط ہے اس کی رو سے تو اسلامی بنیادی پرستی، داعش یا کسی دوسرے عفریت کی شکل میں بربریت بن کر نازل ہو گی۔ طاہرالقادری جیسے حضرات بھی تصویر کے اس ایک رخ کو مبالغہ آرائی سے پیش کر رہے ہیں۔ موصوف نے چند ماہ میں ہی 25 کتابیں مذہبی دہشت گردی پر لکھ ڈالی ہیں۔ جرائم پر مبنی کالے دھن کی اس ناگزیر پیداوار میں ایسی کون سے پیچیدگی ہے کہ انہیں اتنے صفحات کالے کرنے پڑے؟ دوسری طرف ’’لبرل‘‘ اور سیکولر دانش ور ہیں جن کا ’’آمریت، جمہوریت‘‘ کا منجن اب بک نہیں رہا اور اسلامی بنیاد پرستی کے خوف کی دکانیں کھولے بیٹھے ہیں۔ عوام کو ’’روشن خیالی‘‘ کا درس آج فیشن ایبل برانڈ ہے۔ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے ناسور کو کیا عوام نے پیدا کیا تھا؟ یہ دانشور انہیں بنیادی پرستی کے خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں جنہوں نے اس بربریت کا ہر زخم اپنے جسم پر سہا ہے۔پھر انہی حکمرانوں کا قدامت پرست دھڑا ہے جن کی جڑیں سماج میں کبھی تھیں ہی نہیں۔ مذہبی جماعتوں کو کبھی پانچ فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔ آج ان کی حالت اور بھی پتلی ہے اور نان ایشو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ ان کی فتویٰ گردی کی دھاک بھی زائل ہو چکی ہے۔
لیکن لبرل دانش اگر سرمایہ داری کو حتمی و آخری نظام سمجھتی ہے تو مذہبی بنیاد پرستی کون سی اس نظام کی باغی ہے؟ملاں کیا نجی ملکیت، منڈی اور منافع کے نظام کو مقدس نہیں سمجھتے؟ امریکہ اور یورپ سمیت، پوری دنیا میں لبرل ازم اور قدامت پرستی، ایک ہی حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔اس نظام کو چلانے کے طریقہ کار پر ان دھڑوں کا اختلاف بھی پرانی بات ہو گئی ہے۔ اس عہد میں سرمایہ داری کو صرف اسی طریقے سے چلایا جاسکتا ہے جو اس کا تقاضا ہے: نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، عوام کے معیار زندگی میں مسلسل گراوٹ، اجرتوں میں کمی،ریاستی سہولیات کا خاتمہ اور محنت کشوں پر متواتر معاشی حملے۔ جمہوریت اور آمریت کی طرح لبرل ازم اور قدامت پرستی بھی ’’اختلاف رائے‘‘ کا تاثر دینے کی واردات ہے تاکہ جعلی تضادات کو ابھار کر حقیقی طبقاتی تضاد کو دبائے رکھا جائے۔عوام جب استحصالی طبقے کے ایک دھڑے سے تنگ آ جاتے ہیں تو دوسرے کو ’’متبادل‘‘ بنا کر آگے کر دیا جاتا ہے ۔حکمران طبقے کے ان ہتھکنڈوں کا مقصد اس نظام سے باہر متبادل تلاش کرنے کی جستجو کو زائل کرنا ہے۔
لوٹ مار کے گرد جنم لینے والے ثانوی نوعیت کے اختلافات سے قطع نظر، ان حکمرانوں کو ایک دوسرے سے کوئی خوف نہیں ہے۔ انہیں خطرہ ہے تو محنت کش طبقے سے۔ اگر یہ محنت کش عوام جاگ اٹھے، اپنا مقدر بدلنے کے لئے تاریخ کے میدان میں آگئے تو حکمران طبقہ اس کی تاب نہیں لا سکے گا۔ محنت کشوں کی انقلابی تحریک کو اگر انقلابی قیادت میسر آ گئی تو دبئی اور یورپ بھاگنے کے راستے بھی مسدود ہو جائیں گے۔ پھر یہ ECL نہیں ہو گی جسے کرپٹ افسر شاہی کنٹرول کرتی ہے۔ کوئی جہاز اڑے گا ، نہ کوئی راستہ کھلے گا۔ پیشگی فرار ہو جانے والوں کوبھی پاتال سے نکال کر حساب لیا جائے گا۔ اپنے مظالم کو عوام کی ’’بدنصیبی‘‘ اور ’’مقدر‘‘ قرار دینے والوں کے مقدر کا فیصلہ اسی عوام کے انقلابی ٹربیونل کریں گے۔حکمرانوں کی بدنصیبی اس دن شروع ہو گی!

متعلقہ:

دبئی: رنگینیوں میں سلگتی بغاوت

جیسے لوگ ویسے حکمران؟

کارپوریٹ گدھ

حکمران سیاست سے بیزاری

لبرل ازم اور قدامت پرستی