تحریر:ایلن وڈز:-
(ترجمہ: اسد پتافی)
یوروزون اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے شدیداور سنجیدہ ترین بحران سے گزر رہاہے ۔یونان کے بعد اب اٹلی کی باری لگ چکی ہے ۔اس سے یورو کے مستقبل پر سوالیہ نشان آچکاہے ۔ہم نے بہت عرصہ پہلے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ جونہی کوئی سنجیدہ بحران سامنے آئے گا تو سبھی ملکوں کے باہمی تضادات ابھر کر سامنے آجائیں گے ۔اور اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ یونان ،فرانس‘ جرمنی اور اٹلی کے مابین تعلقات تنازعات کی لپیٹ میں آچکے ہیں ۔یورپی یونین اس وقت ٹوٹ پھوٹ کی کیفیت میں ہے ۔2008ء کے انہدام کے بعد سے ارباب اختیار اب تک کھربوں ڈالراپنے مالیاتی نظام کو بچانے ا ور سنبھالنے پرخرچ کر چکے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔بورژوازی بھرپور کوشش کرچکی اور کر رہی ہے کہ وہ بینکنگ نظام کو بچا لے لیکن یہ سب ریاستوں کے دیوالیہ ہونے اورملکوں کے منہدم ہونے کی قیمت پرہورہاہے ۔ آئس لینڈ کی مثال ہمارے سامنے ایک عبرت کے طور موجود ہے ۔
اس قسم کے شدید ترین اقدامات سے سرمایہ داری کو1929ء کے بحران سے بچاکرنکالنے کیلئے بھی استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اس سے کوئی کامیابی نہیں مل سکی تھی ۔اب بھی یہی اور ایسا ہی ہورہاہے اورمعاملہ حل ہو نا تو درکنار،البتہ نت نئے اور ناقابل حل تضادات، ان اقدامات کے نتیجے میں سامنے آتے چلے جارہے ہیں۔انہوں نے پرائیویٹ مالیاتی نظام کو بلیک ہول میں گرنے سے بچانے کیلئے پبلک مالیاتی نظام کو ہی بلیک ہول میں گرانے کا تہیہ کر لیا ہے ۔
2008ء کے انہدام کے بعدسے سرمایہ دار،بحالی کی امیدوں اور امنگوں کے ذریعے خود کو اور لوگوں کو بہلانے اور آسرا دینے کی کوشش کرتے آرہے ہیں۔لیکن یہ بحالی تاریخی طورپر کمزور ترین ہے ۔کہیں سے بھی افزائش اور نشوونما کے اشارے سامنے نہیںآرہے۔حکومتوں کی طرف سے اندھادھندطور پررقم انڈیلے جانے کے باوجود معیشت سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔عالمی معیشت ابھی تک گراوٹ سے نہیں نکل سکی ہے ۔یورپی کمیشن یوروزون کی معیشت کی درجہ بندی کوکم تر کرتا آرہاہے۔اور اب یہاں ایک انجماد کی سی کیفیت پیداہوچکی ہے ۔اس تعطل اور جمود کو اس وقت ایک خوش آئند حالت قرار دیا جارہاہے۔ہر کاروائی اور کارکردگی اب 2007ء اور 2008ء کی نسبت زیادہ تیزی سے نیچے کی طرف لڑھکتی جارہی ہے۔
خوف اور اضطراب جو کہ اپنا اظہار سٹاک مارکیٹوں کے وحشیانہ اتار چڑھاؤکی شکل میں کررہاہے ۔اور یہ کیفیت امریکہ سے لے کر سارے یورپ میں گل کھلا رہی ہے۔یہ ایک مہلک وبا ہے کہ جس نے یورپ کی معیشتوں کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیاہے ۔عالمی سطح پر ملکوں کی معیشتوں کو درپیش مسلسل بحران زدگی نے سرمایہ داروں کی نیندیں اڑادی ہیں ۔درجہ حرارت ہر وقت تپاہواہوتاہے ۔یہ ایک ایسا تھرمامیٹر بنے ہوئے ہیں کہ جوہر وقت تیزٹمپریچر کی نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں ۔بورژوا ماہرین بیمار معیشت کے بستر کے سرہانے کھڑے ہوئے ہیں ،اپنے سرہلائے جارہے ہیں کیونکہ کوئی بھی دوائی کارگرنہیں ہوپارہی ۔
پچھلے دو سالوں سے مارکیٹیں ،مضبوط یورپی معیشتوں جرمنی اور اس کے حواری ملکوں اور کمزور یورپی معیشتوں یونان ،اٹلی ،آئر لینڈ اورسپین کے مابین فرق اور تفاوت روارکھتی آرہی تھیں ۔آخر الذکر ممالک کو مالیاتی منڈیوں میں سے قرضے لینے پر سخت قسم کی بندشوں اورسختیوں کا سامناکرناپڑرہاہے ۔ان کی وجہ سے ان قرضوں کا بوجھ روز بروز بوجھل اور ناقابل برداشت ہوتا چلاجا رہاہے ۔حتیٰ کہ یہ ناقابل ادائیگی ہوتے جا رہے ہیں۔چنانچہ جب موڈیز جیسی ریٹنگ ایجنسیاں کسی ملک کی کریڈٹ ریٹنگ کو کم کرتی ہیں تو اس سے ہر کوئی اپنی جگہ پیشین گوئیاں اور چہ میگوئیاں کرنا شروع کر دیتا ہے ۔
اس کیفیت نے یوروزون کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیاہے ۔یورپین سنٹرل بینک شاید کسی نہ کسی طرح یونان کو چلتے رہنے کے قابل رکھ سکے لیکن یہ امر انتہائی مشکوک ہے ۔اس نے آئر لینڈ اور پرتگال کو بھی بیل آؤٹ کے ذریعے سنبھالا دینے کی کوشش کی تھی لیکن کوئی مسئلہ بھی حل نہیں ہوسکا۔لیکن سپین اور اٹلی جیسے ملکوں کو بیل آؤٹ دینے کیلئے بینک کے پاس رقم ہی نہیں ہے ۔اس قسم کی کاوش بینک کی تجوریوں کو خالی کر دے گی ۔
اگر آپ منڈی کی معیشت کی فرمانبرداری کریں گے تو آپ کو لامحالہ اس کے قوانین کا بھی سامناکرناپڑے گا اور یہ قوانین کسی طوربھی جنگل کے قوانین سے مختلف نہیں ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کرنااور اس کے پیداکردہ عذابوں کا شکوہ شکایت کرنا بالکل نامناسب اوربدتہذیبی رویہ ہے ۔ سرمائے کی ایک بہت بڑی مقدار اس وقت دنیا بھر میں گھوم پھر رہی ہے ایسے ہی جیسے شکاری بھیڑیوں کا کوئی گروہ کمزورترین جانوروں کو جھپٹنے اوردبوچنے کیلئے منڈلارہاہوتا ہے۔اور اس وقت تو خیر سے جنگل میں کمزور جانوروں کی تعداد بھی زیادہ ہورہی ہے ۔
یونان کو نیچے زمین پر لٹانے اور دبوچنے کے بعد اب ان کی نظر کرم اٹلی پر جمی ہوئی ہے ۔جس پر بے انت و بے حساب قرضوں کا بوجھ لداہواہے ۔جو کہ اس کی مجموعی قومی آمدنی کے120فیصدتک پہنچ چکاہے۔یونان کے بعد یہ یورپ کی سب سے بڑی شرح ہے ۔ستم بالائے ستم یہ کہ اٹلی کو اگلے سال کیلئے335بلین یوروکا مزید قرضہ بھی درکار ہوگا۔جو کہ یونان کو درکار قرضے سے کہیں زیادہ ہے ۔اسے ہر بار ہر نئے موقع ہر نئے قدم پر ادھار کی ضرورت پڑے گی اور اسے کہا جارہاہے کہ وہ قرضے حاصل کرے اور سرمایہ دار حیران وپریشان ہیں کہ کیا یہ بھاری بھرکم قرضے واپس ادا بھی ہوں گے کہ نہیں ؟
اٹلی
سرمائے کا ترجمان جریدہ اپنی تازہ ترین اشاعت میں بورژوازی کی پریشانی کو اس طرح بیان کرتاہے ’’جب دنیا کی تیسری بڑی بانڈز مارکیٹ کو دھچکالگتاہے تو تباہی اپنا منہ کھولے سامنے آنے لگتی ہے ۔اور یہ صرف اٹلی ہی نہیں ہے بلکہ سپین ، پرتگال ،آئرلینڈ،یورو،یورپی یونین کی واحد معیشت ،عالمی بینکنگ نظام ،عالمی معیشت ،سمیت اور بھی بہت کچھ جو آپ سوچ سکتے ہیں، داؤ پر لگ چکاہے ۔یونان یوں اہم ہے کہ اس کی وجہ سے،اس کے قرضوں اور ان کی ادائیگی کی نسبت سے یورو کا مقدر جڑاہواہے ۔اور اٹلی کا مسئلہ یوں گھمبیر ہے کہ یہ یونان کی بہ نسبت کہیں زیادہ وسیع و عریض ہے۔اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اٹلی ایک ایسا امتحان بن چکاہے کہ جس سے یہ سامنے آجائے گاکہ یہ بچتا ہے کہ بربادی اس کا مقدر بنتی ہے !صرف چند ہی ہفتے پہلے یہ محسوس ہورہاتھا کہ اٹلی شایدا س کٹھن امتحان سے بچ جائے گالیکن اب امتحان کی یہ گھڑی سر پر آن کھڑی ہوئی ہے ۔اگر یوروزون اپنی کرنسی کو بچاناچاہتاہے تو اسے خوف و ہراس کی صورتحال کو ختم کرناہوگااور اسے اٹلی کی سیاست کی بدحالی کوقابل اعتبار بناناہوگا۔یہ دونوں عمل ابھی تک یورپ نے کرنے ہیں ۔مسئلے کے حل کیلئے یوروزون کی ہر کاوش مزید خرابی کو جنم دے رہی ہے حکومت کو تبدیل کرنے کو حل سمجھا جارہاہے اور مالیاتی منڈیوں میں مداخلت سے ہچکچاہٹ کے باعث ہدف کا حصول زیادہ مشکل اور زیادہ مہنگا ہوتا جارہاہے ۔کیفیت جس طرح سامنے آتی جارہی ہے ایسے لگتاہے کہ یورو کیلئے امکانات دور سے دورترہوتے جارہے ہیں‘‘۔
اکانومسٹ باربار یہ قرار دیتاچلا آرہاتھا کہ اٹلی نہ تویونان ہے نہ ہی پرتگال۔اور یہ بھی اٹلی کی معاشی بنیادیں اتنی بھی کمزور نہیں ہیں ۔ممکن ہے اس کا یہ فرمانا درست ہولیکن جو حالات چل رہے ہیں اور معاملات جس طرح سے چلائے جارہے ہیں لازمی نہیں کہ منڈی کے پریشان حال ان داتا اس پر اعتباربھی کریں ۔ ان کی بے اعتباری کو روم میں موجود حکومت آگ بگولا کررہی تھی ۔حکومت کے مستحکم ہونے بارے وسوسے اور ملک کی معیشت بارے تذبذب آخرکار برلسکونی کا دھڑن تختہ ہی کر گیا ۔لیکن پھر محض ایک وزیر اعظم کی تبدیلی سے اٹلی بارے تاثرات و تحفظات میں بدلاؤ نہیں آئے گا ۔منڈیاں اور بھی دباؤ بڑھائیں گی کہ اٹلی اپنے اعتبار کی بحالی کیلئے مزید کٹوتیاں کرے ۔کوریرے ڈیلا سیرا نے اپیل کی ہے کہ ’’کسی قسم کا شورشرابا نہ کیا جائے ۔زیادہ باتیں کرنے سے عالمی سٹہ بازوں کا کچھ نہیں جاتا ۔اگر ہم سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو ہمیں کسی قسم کے خوف کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔بدقسمتی سے ہم نے ابھی تک سنجیدگی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا ‘‘۔ سوال یہ ہے کہ آخراٹلی والے ،منڈیوں کے ساتھ، کس طرح سے اور کس طرز کی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہ رہے ہیں ؟اس کا جواب یونان نے دیاہے اور وہ یوں کہ معیار زندگی میں شدیداور بدترین کٹوتیاں کی جارہی ہیں ۔آج ہی اٹلی کی سینیٹ نے انتہائی سخت کٹوتیوں کی منظوری دے دی ہے لیکن اس سے قرضوں کے بوجھ میں کم ہی کمی ہوئی ہے اور یہ اب بھی 6.88فیصد ہے جوکہ ایک ناقابل حل سطح ہے۔ اٹلی کی حکومت ابھی تک بحران میں دھنسی ہوئی ہے ۔ایک غیرمستحکم حکومت کی موجودگی میں سنیچر کے دن دوبارہ مذاکرات کیے جائیں گے ۔منڈی کے ناخداؤں نے صورتحال پر اپنی نظریں اور اپنے دانت بدستور گاڑے ہوئے ہیں اور مزید سخت اقدامات کا دباؤ ڈالے ہوئے ہیں ۔جلد ہی وحشت کا یہ عمل خوف میں بدلنے والا ہے اور جو مناظر ہم نے یونان میں دیکھے ہیں وہ اٹلی میں دیکھیں گے ۔قیادت کی تمام تر کوششوں کے باوجود کہ ایسا نہ ہو لیکن اٹلی میں طبقاتی جدوجہد شدومد کے ساتھ سامنے آئے گی۔
ایک نیا یوروزون؟
یورپ کا ہر ایک ملک اس بحران کی طرف کھنچا چلا آئے گا لیکن ایسا بیک وقت نہیں ہوگا۔ابھی تک جرمنی کے سرمایہ دار بہت اچھے جارہے تھے ،اور وہ اپنی اس خوش قسمتی میں اپنے قریبی ساتھی ملکوں فن لینڈ‘ ہالینڈاور آسٹریاکو بھی شریک کئے ہوئے تھا۔ لیکن پھر جرمنی کی ساری طاقت و ہیبت کا دارومدار اس کی صنعتی قوت پر تھا اور جس کا سارا انحصار یورپ کو برآمدات پر تھا۔اور جس کی نشوونما کسی طور بھی جرمنی کے کنٹرول میں نہیں ہے ۔جرمنی کی طاقت مصنوعی زیادہ ہے اور یہ حقیقی نہیں ہے۔ جرمنی کی قسمت کا معاملہ اس بات سے اٹکاہواہے کہ باقی یورپ کی کیا صورتحال ہے ۔اگر یورو منہدم ہوتاہے تو اس کے تباہ کن اثرات جرمنی کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے ۔
جرمنی سے یہ توقع وابستہ ہو چکی ہے کہ وہ سارے یورپ کا بوجھ اپنے کندھوں پر ڈال لے گا۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اٹلی کے کندھے چھوٹے اور اس کے اوپربوجھ زیادہ ہے۔جرمنی نے کیونکر یونان اور آئرلینڈ کا قرضہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا ؟ جرمنی نے عروج کے دوران یونان کو قرضہ دیاتھا ۔جرمنی والے یونان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اس لئے نہیں کہ وہ بچ جائے بلکہ اس لئے کہ اس کے بینک بچ جائیں۔جرمنی والے امید میں ہیں کہ تباہی کی یہ وبا دیگر ملکوں کا رخ نہیں کرے گی ۔جرمنی کے بینکوں کا یونان کے پاس 17بلین یوروپھنساہواہے ۔جبکہ اٹلی کے ساتھ معاملات کیلئے ان بینکوں کو 116بلین یورو درکارہیں۔جرمنی کو ہر ممکن طورپر یونان کو بچانا ہے کیونکہ اگر یونان ڈوبتاہے تو یہ اپنے ساتھ جرمنی اور فرانس کے بینکوں کو بھی لے ڈوبے گا۔اسی طرح سے جرمنی، سپین یا اٹلی کے دیوالیہ ہونے کو بھی نہیں برداشت کر سکتا لیکن اس کے ساتھ ہی جرمنی کسی طرح بھی ان ملکوں کو بیل آؤٹ بھی نہیں کر سکتا۔یونان کو بہت بھاری رقم فراہم کیے جانے کے باوجود وہ اسے بحران سے نہیں بچاسکے ہیں ۔اور حالت یہ ہے کہ Bundesbankکے پاس سپین اور اٹلی کو دینے کیلئے مطلوبہ رقم ہی نہیں ہے ۔
اپنی اس مشکل کی وجہ سے ہی جرمنی یوروبانڈز کی مخالفت کررہاہے ۔کیونکہ سارے بل جرمنی ہی کو بھرنے ہیں۔اس کیلئے یورپ کو ایک نئے معاہدے کیلئے بات چیت کرنی ہوگی جو کہ ایک سخت اور تلخ عمل اور مرحلہ ہوگا۔اور ایسا ہواتو یہ بجائے یورپ کو ایک لڑی میں پرونے کے اس کے ملکوں کے مابین تضادات و تنازعات کو ابھارکر سامنے لے آئے گا جو کہ سطح کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔یہ معاہدہ یورپ کو متحد کرنے اور رکھنے کی بجائے اس کا شیرازہ بکھیر دے گا ۔برلن میں یہ اندیشہ زور پکڑتا جا رہاہے کہ بحران کی شدت اور تسلسل جرمنی کو بھی نیچے کی طرف دھکیل دے گی ۔یوروزون کی ازسرنو تشکیل پر بہت ہی سٹے بازی ہورہی ہے جو کہ جرمنی میں موجود ایک گروپ کررہاہے ۔مرکل اور سارکوزی اس قسم کی تجویز کی بظاہر تردید کررہے ہیں ۔اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ بات سچ ہے ۔اکانومسٹ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتاہے ؛
’’سچ یہ ہے کہ یوروزون کے منتشر ہونے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں۔جی20کانفرنس میں جرمنی کی چانسلر مرکل اور فرانس کے صدر سارکوزی نے کہاہے کہ وہ دونوں اس بات پر سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ یونان کو اس کے حال پر چھوڑدیاجائے۔جو ہوتا ہے ہونے دیاجائے ۔ان لیڈروں کی طرف سے کی گئی یہ بات ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جو کہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ وہ کسی بھی حالت میں کسی بھی قیمت پر یوروزون کی اکائی اورایکتاکو متاثر نہیں ہونے دیں گے ۔ یہ لو گ ایک ایسا یوروکلب قائم کرنا چاہ رہے ہیں کہ جو آرام وسکون سے قواعد وضوابط کے مطابق کام کر سکے۔ جبکہ باقی ملکوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیاجائے گا۔اس قسم کی گفتگو یورپین بینک ECBکو مشکل میں ڈال دے گی اور وہ منڈیوں کویہ اعتبار نہیں دے سکے گا کہ یوروکو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے‘‘۔
تاہم اس قسم کا جرمن بلاک قائم کرنا یورپ کیلئے ڈرامائی نتائج وعواقب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔لگ یہ رہاہے کہ کمزور معیشتوں کو الگ تھلگ رکھنے کا سوچاجارہاہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ ایسے کون سے ملک ہیں؟یونان کو بے دخل کرنے کا اشارہ پہلے ہی سامنے آچکاہے،اس کے بعد کون ؟آئرلینڈ؟پرتگال؟ سپین ؟اٹلی؟پھر بلجیم اور فرانس کا کیا بنے گا !بلجیم کے مالی معاملات بھی اٹلی سے کسی طور بہتر اور صحتمند نہیں ہیں۔اور اسی طرح منڈیوں نے ابھی سے فرانس کے بینکوں کی کیفیت اور حالت بارے بھی سوال اور سوچ بچارکرناشروع کر دیا ہے۔کیونکہ یہ یونان کے ساتھ مکمل طورپر جڑے ہوئے ہیں ۔یونان کیلئے فرانسیسی بانڈز کی قیمت میں3.46فیصد اضافہ ہوچکاہے اور سٹینڈرڈ اینڈ پورز نے اس کی ریٹنگ میں’’ غلطی سے‘‘ کمی کر دی ہے ۔اگر ان مذکورہ بالا ملکوں کو یورو نکالادیاجاتا ہے تو یوروزون میں بہت کچھ نہیں رہے گا۔اور جیسے حالات اس وقت چل رہے ہیں یہ بات اپنی جگہ خودہی مشکوک ہو چکی ہے کہ یورپی یونین خود کو برقرار بھی رکھ سکے گی ۔ان حالات کے نتیجے میں سامنے آنے والی گراوٹ یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لی گی اور جرمنی اپنے قریبی دوست ملکوں سمیت اس سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔کیونکہ اس کی ساری برآمدات یورپی ملکوں کو ہی جاتی ہیں۔
توقعات کے بالکل برعکس جرمنی کی قیادت میں قائم ہونے والا کوئی بھی پسندیدہ اندرونی محاذکسی طور بھی جرمن سرمایہ داری کو محفوظ نہیں رکھ سکے گا بلکہ اس پر انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے ۔ Bundesbankکی پشت پناہی سے اور سخت گیر مالیاتی ڈسپلن کا حامل‘‘نیو یورو‘‘ویسے ہی ڈوب جائے گا جیسا کہ دوسری کرنسیوں کے ساتھ ہوگا۔اس سے جرمنی کی برآمدات کا دھڑن تختہ ہوجائے گا ۔جو کہ ماضی میں اس کے معاشی استحکام کا باعث چلی آرہی ہیں۔ایساہی کچھ سوئس فرانک کے ساتھ حال ہی میں ہوچکاہے ۔
جوں جوں بحران کی شدت اور گہرائی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ،توں توں پروٹیکشن ازم کے رحجانات میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔اور جن کی وجہ سے آزادانہ تجارت کرنے والوں کیلئے مسائل بڑھتے چلے جائیں گے ۔اور یہ وہ رحجان ہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے عالمی معیشت کو چلائے رکھنے والا انجن بناہواتھا۔یوروکا انہدام پروٹیکشن ازم کی طرف رغبت کیلئے کافی طاقتور محرک ثابت ہو سکتاہے ۔اس بات نے بورژوازی کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجانی شروع کر دی ہیں۔معاشیات کے ماہرین اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ پروٹیکشن ازم ہی تھا کہ جو 1929ء کے انہدام اور1930ء کے عظیم زوال کا سبب بنا تھا ۔تاریخ کی ایک بہت ہی بری عادت یہ ہے کہ یہ خود کو دہراتی رہتی ہے ۔
تباہی کے گڑھے کی طرف پیش قدمی
ٹراٹسکی نے1938ء میں لکھاتھا کہ ’’سرمایہ دار اپنی آنکھیں موندے ہوئے تباہی کے گڑھے کی طرف بڑھتے چلے جارہے ہیں ‘‘۔ہم اس بیان میں صرف اتنا اضافہ کرنا چاہیں گے کہ ’’سرمایہ دار اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہوئے تباہی کے گڑھے کی طرف بڑھتے جارہے ہیں‘‘۔وہ دیکھ سکتے ہیں کہ کیا کچھ اور کیسے کیسے ہورہاہے ۔وہ دیکھ سکتے ہیں کہ یورو کے ساتھ کیا بیت رہی ہے اور کیا ہونے والاہے ۔وہ دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ میں خسارے کا کیا نتیجہ سامنے آنے والا ہے ۔
ہم نے یورو کو شروع کئے جانے سے بھی بہت پہلے لکھا تھا کہ مختلف سمتوں اور جہتوں کی حامل معیشتوں کو ایک کرنا اور ان کا ایک رہنا ناممکن عمل ہے ۔اب بورژوازی کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ جس قسم کا دباؤ ہو اور جیسی کیفیت چل رہی ہے وہ اس مشترکہ واحد کرنسی کے انہدام کا باعث بن سکتی ہے ۔پہلی بار ایسا ہورہاہے کہ اس کرنسی کے ختم ہونے کی باتیں ہر طرف گردش کررہی ہیں۔نہ صرف یہ کہ یورو نہیں رہے گا بلکہ یہ بھی کہ خود یورپی یونین بھی ۔یورو کا یہ بحران یورپی ملکوں کے داخلی اور ناقابل حل تضادات کا واضح اظہارہے ۔
یونان کے بحران کی شدت نے یورپی یونین کے بحران کو مزید بھڑکادیاہے۔یونانی بحران کی ابتدا میں بورژوازی خود کو تسلی دیے ہوئے تھی کہ اس سے صرف یورپ کی ریاستوں ہی کو دھچکالگے گا۔لیکن منڈیوں کا تصور اس سے کہیں زیادہ مختلف ہے‘ ان کے نزدیک خدشات زیادہ گہرے اور وسیع ہیں ۔اور جو کہ دن بدن مزید بڑھتے چلے جارہے ہیں۔یورپ کی سٹاک مارکیٹیں نئی اور گہری گراوٹوں کے تجربوں سے گزر رہی ہیں لیکن یونان کے گرد ایک مضبوط حفاظتی دیوار کھڑی کرنے کی سبھی تدابیر ناکام اور الٹی ثابت ہو رہی ہیں ۔
یہ تصور اور خیال کہ آپ یونان کو الگ تھلگ کر کے یا کسی بھی اور ملک کو الگ کرکے بحران سے بچ سکتے ہیں ،انتہائی بیہودہ ہے۔یہ سب ایک ہی رسے کے ساتھ ویسے ہی جڑے ہوئے ہیں جیسے کہ کوہ پیما افراد پہاڑوں کی چڑھائی کے دوران ۔جب ان کوہ پیماؤں میں سے کوئی ایک بھی لڑھکتااور گرتاہے تو وہ سب کو اپنے ساتھ نیچے لے جاتاہے ۔یونان پر مرتب ہونے والے اثرات محض یونان تک ہی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیں گے بلکہ یہ باقی ملکوں کوبھی نیچے کی طرف لڑھکائیں گے ۔اس نے براہ راست اٹلی کو گھسیٹا ہے اور جس کی وجہ سے یورواور یورو زون دونوں داؤ پر لگتے جا رہے ہیں ۔اٹلی میں بحران کی شدت کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کئے جائیں گے ۔صورتحال کی سنجیدگی کی وجہ سے اس سے نظر چرانامشکل ہوچکاہے ۔اٹلی ،یونان نہیں ہے ۔یہ دنیا کے سات بڑے صنعتی ملکوںG7میں سے ایک ہے۔ اور یوروزون کی تیسری سب سے بڑی معیشت ہے ۔اٹلی کا بحران سارے یورپ میں تباہ کن اثرات مرتب کرے گا ۔اٹلی کے بارے کہا جاتاہے کہ یہ اتنا بڑا ہے کہ یہ ناکام ہو ہی نہیں سکتا لیکن یہ اتنا بڑاہونے کے باوجود بچ بھی نہیں پائے گا۔
امریکیوں کو یورپ کے بحران نے سخت تشویش میں مبتلاکر رکھا ہے ۔وہ یہ سمجھ رہے ہیں اور درست سمجھ رہے ہیں کہ یورپ کا بحران دنیاکی معیشت کو لے ڈوبے گا ۔یورپ کے بحران کی طوفانی لہریں اٹلانٹک میں سے گزرتی ہوئی ان معاشی چٹانوں کو بھی ہلا کے رکھ دیں گی جو مستحکم سمجھی جارہی ہیں۔امریکی حکومت کو اس وقت1.5ٹریلین ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا ہے ۔اسے ابھی اپنے ٹریژری بلوں،بانڈز اور ضمانتوں کی بھی ادائیگی بھی کرنی ہے ۔پبلک خسارہ اس سال مئی میں14.3ٹریلین تک پہنچ چکاہے جو کہ اوبامہ کے اقتدار سنبھالتے وقت10.6ٹریلین ڈالرز تھا۔بہت سا قرضہ پبلک کے ذمے ہے جبکہ باقی امریکی ریاست کے کھاتوں میں ہے ۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ خود امریکہ بہادر بھی اسی سال جون میں اپنے 14.3ٹریلین کے خسارے کے ضمن میں دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکاتھا ۔اس بحران کی وجہ سے ریپبلکن اور ڈیموکریٹس میں سخت ٹھن گئی۔ابھی تک کوئی بھی امریکہ کے بھاری بھرکم قرضوں بارے کوئی بھی بات نہیں کررہاتھا لیکن اب کیفیت تبدیل ہو گئی ہے ۔ جب سے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ AAAسے کم کر رہی ہے ،کیونکہ اس بات کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں کہ امریکہ اپنے قرضوں کی ادائیگی کے سلسلے میں دیوالیہ بھی ہوسکتاہے ۔
کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا ہے کہ اوبامہ یورپیوں کو کہتا آرہاہے کہ وہ کچھ کریں اور بحران پر قابو پائیں۔وہ ڈانٹ ڈپٹ بھی کر رہاہے کہ آپ یورپیوں کی وجہ سے ساری عالمی معیشت بے چینی اور پریشانی کی زد میں آئی ہوئی ہے ۔اوبامہ اپنے ملک کے بھاری بھرکم قرضوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے اسے معمولی بات سمجھ رہاہے ۔ریپبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں اپنے ملکی بحران سے نمٹنے میں ناکام و نااہل ہورہے ہیں۔
امریکی جرمنی پر خاص طور پر سخت دباؤ ڈالے ہوئے ہیں کہ وہ یورپ کو گرنے سے بچائے ۔جرمنوں کو ہر حال میں ٹیکسوں میں کٹوتیاں کر نی چاہئیں ؛انہیں ہر حال میں معیشت کو اوپر اٹھانا چاہئے ؛انہیں لامحالہ طورپر شمالی یورپ کو سنبھالا دینے کیلئے قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے ؛ جرمنی کو یہ کرنا چاہئے ؛جرمنی کو وہ کرنا چاہئے ۔لیکن امریکی کون ہوتے ہیں ایسی ہدایت کرنے والے !
جی ہاں یہی یورپی کہتے ہیں لیکن اس سب کی قیمت کون بھرے گا ؟اس کا جواب ایک ہی ہے کہ جرمنی اور فرانس ؛ان میں سے بھی جرمنی ۔جو کہ یورپ کے بینکاروں کی آخری آرام گاہ ہے ۔وہ سبھی جو کہہ رہے تھے کہ یونان کیلئے ایک مارشل پلان تیار کیا جائے اب ہر کوئی ہر ایک سے کہہ رہاہے کہ وہ اپنے اپنے منہ کا نوالہ بھی اس کار خیرمیں ڈالیں۔لیکن کوئی ایک بھی اپنی جیب میں ہاتھ ڈالنے کیلئے راضی نہیں ہورہاہے۔ مرکل صاحبہ کیلئے اٹلی اور سپین کیلئے قرضوں کی سہولت سیاسی خود کشی ثابت ہوگا۔ وہ بھی اٹلانٹک کی دوسری جانب کے ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کی طرح جھجھک رہی ہے اور کچھ کرنے کے موڈ میں نہیں ہے ۔
اورپھرجرمنی میں اتنا پیسہ ہے بھی نہیں کہ وہ ان ملکوں کو دے سکے ۔برطانیہ اور فرانس جرمنی پر زور ڈالے چلے آرہے ہیں کہ وہ یورپین سنٹرل بینک کے قواعد وضوابط میں نرمی کرے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ یہ ملک اپنی اپنی مقداری آسانی کا خود ہی اہتمام کریں یعنی خود کرنسی چھاپنا شروع کر دیں ۔Dutch Rabobank(جسے دنیا کا محفوظ ترین بینک سمجھا جاتا ہے)کے مالیاتی حکمت سازرچرڈ میک گوئرے نے کہا ہے ’’یورپی مرکزی بینک کے سامنے یہ راستہ ہے کہ یا تو وہ کرنسی چھاپنے کی اجازت دے دے یاپھر ایک انتہائی ناخوشگوار صورتحال کیلئے تیار ہوجائے ۔جس کے بعد بڑے ملکوں کے ڈیفالٹ کرنے کے امکانات ممکن ہوتے جائیں گے ‘‘۔
مقداری آسانی ،جسے کرنسی چھاپنا کہا جاتا ہے ،ایک مایوس کن کوشش ہو گی ۔اس سے افراط زر ایک آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑے گا۔جو مستقبل میں بحران کو اور بھی شدید اور بھی گہرا کردے گا۔مختصر یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا راستہ اور طریقہ ایسا نہیں ہے کہ جس کے ذریعے بورژوازی اس بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو سکے ۔یونان کو بچانے کیلئے کیا جانے والاEFSFمعاہدہ کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکا ۔اور اسے منسوخ کرنا پڑگیا ہے۔اکانومسٹ اس ساری کیفیت پر اپنی انتہائی بدگمانی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے ؛
’’کوئی بھی تدبیر اٹلی کو گراوٹ سے نہیں بچا سکتی۔قرضے لینے کی قیمتیں بحران سے پہلے کی حالت کی بہ نسبت بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں ۔ مالیاتی سرمائے کی صنعت کسی طرح سے بھی اپنے انتہائی غیر معمولی مارجن کو کم کرنے یا واپس کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں ۔اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو بھی سرمایہ کاری کرنے والے کسی طرح اٹلی کے قرضوں کو ’’رسک فری‘‘ سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ریٹنگ ایجنسیاں یقینی طورپر اس کی ریٹنگ کو کم تر کریں گی ۔اگر اٹلی کا قرضہ نیچے کی طرف لڑھکتا ہے تو اٹلی کو بانڈز کی منڈی سے باہر نکال دیا جائے گا ۔اس کے بینک کسی جوگے نہیں رہیں گے ۔کیونکہ ان کے کھاتے دار اور ساہوکار یہ سمجھ چکے ہیں کہ اٹلی کی ریاست نادہندگی کی حالت میں ہے ۔ وبا وحشی ہو چکی ہے اور یہ جلد ہی سارے یورو زون میں پھیل جائے گی۔نتیجہ بہت جلد آپ اور ہم سب کے سامنے آنے والاہے ‘‘۔