انٹرویو: صدر پیرا میڈیکل ایسوسی ایشن سدھنوتی سردار جمشید خان

انٹرویوو اہتمام : سعدجمال /وحید عارف:-

سردار جمشید (صدر پیر ا میڈیکل ایسوسی ایشن سدہنوتی) کا تعلق پلندری آزاد کشمیر کے نواحی علاقہ سے ہے اور وہ DHQپلندری میں کافی عرصہ سے ملازمین کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ گزشتہ پیرا میڈیکل ایسوسی ایشن میں وہ ڈیموکریٹک پینل کی طرف سے ’’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ‘‘کے نعرے پر صدارت کے الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔
سوال 1:پیرا میڈیکل ایسوسی ایشن کے بنیادی مسائل کیا ہیں ؟
جواب : حکومت کی مزدور دشمن پالیسیاں اور بیورو کریسی کے حکومت کے ساتھ مل کر نچلے درجہ کے ملازمین پر جو حملے کیے گئے اُن کے نتیجے میں پیرا میڈیکس کے ملازمین انتہائی بری طرح متاثر ہوئے۔ آج ملازمین کو بیشمار مسائل میں دھکیلا جا رہا ہے۔ جس میں عملاً چار آدمیوں کی جگہ ایک آدمی کام کرتا ہے۔ ملازمین کی 24,24گھنٹے ڈیوٹی، خصوصاً درجہ چہارم کے ملازمین سے چوبیس گھنٹے کام لیا جا تا ہے۔ اور اُن کے بدلے میں اُنھیں کسی قسم کی اضافی مراعات نہیں مل رہی ۔فرسٹ ایڈ پوسٹ کی صورت میں ضلع سدہنوتی میں 70مختلف مراکز میں سے سیاسی فوائد کی غرض سے کام لیا جا رہا ہے۔ جبکہ اُن میں سے 43مراکز کا ریکارڈ ہی موجود نہیں ۔ اور وہ بھی اضافی ڈیوٹی کی صورت میں ملازمین پر مسلط کیے جا رہے ہیں ۔
سوال 2:پیرا میڈیکس کے ملازمین کو کیا سہولیات حاصل ہیں؟
جواب:پیرا میڈیکس ملازمین کو دی جانے والی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں پلندری ہسپتال ڈسٹرکت لیول کے کوٹہ میں آتا ہے۔ جبکہ اس ہسپتال میں تحصیل لیول کی سہولیات بھی میسر نہیں ۔اضافی کام ڈیوٹی کے اوقات کار میں اضافہ ہے جبکہ ملازمین کو کسی قسم کے الاؤنسز یا دیگر ملازمین کے برابر بھی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔
سوال 3:ہسپتال میں ادویات و دیگر سہولیات کی عدم دستیابی کیا ان مراکز کو نجکار ی کی طرف لیجانے کی کوشش ہے؟
جواب:کچھ عرصہ قبل سیکرٹری صحت اور ڈی۔ایچ۔اوز نے حکومت کے ساتھ ملی بھگت کر کے RHC،DHQاور ڈسپنسریز کو نجی شعبہ میں دینے کی کوشش کی تھی جس پر ملازمین نے بھر پور مزاحمت کی اور وقتی طور پر یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہے لیکن یہ ملازمین کے سروں پر آج بھی لٹکتی تلوار کی طرح ہے اور کسی بھی وقت اسے نجی شعبہ میں دیا جا سکتا ہے۔ ہم نہ صرف ملازمین بلکہ عوام میں اس سارے کھیل کا پردہ فاش کر رہے ہیں اور ہم عوام کے ساتھ اور دیگر محنت کشوں کے ساتھ ملکر نجکار ی اور چھانٹی جیسے کسی بھی اقدام کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے ۔
سوال 4:مختلف محکمہ جات کے اندر عام ملازمین کے بڑھتے ہوئے مسائل کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب:ہم ریلوے،پی۔آئی۔اے،کے۔ای۔ایس۔سی ، پاکستان پوسٹ اور دیگر تمام اداروں میں جاری ملازمین کی تحریکوں کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں اور اُن کی اس جدوجہد کو اپنی جدوجہد سمجھتے ہیں اور اُنھیں پیغام دیتے ہیں کہ تمام مسائل کا حل ایک ہی صورت میں نکل سکتا ہے جب ہم ان اداروں کی تحریکوں کو جوڑتے ہوئے ایک تحریک کی صورت میں آگے بڑھیں اور ہم ماضی میں جدوجہد کے ذریعے حاصل کی گئی مراعات کو چھیننے نہیں دیں گے بلکہ اجتماعی طور پر ڈٹ کر مقابلہ کریں گے ۔
سوال 5:اس وقت آپ کے فوری طور پرکیا مطالبات ہیں؟
جواب:۱۔عام ملازمین کو ڈاکٹرز کی طرز پے الاؤنسز اورسہولیات دی جائیں۔
۲۔ایڈمنسٹریشن کے اندر ڈاکٹرز کے ساتھ سٹاف کو بھی شامل کیا جائے ۔
۳۔میڈیکل کالجز کے اندر ملازمین کے بچوں کو بھی ڈاکٹرز کے بچوں کی طرح کوٹہ دیا جائے۔
۴۔اضافی ڈیوٹی کی صورت میں نائیٹ الاؤنس اور رسک الاؤنس دیا جائے۔
۵۔انتقامی تبادلہ جات و سیاسی تقرریوں کا سلسلہ بند کیا جائے ۔
۶۔360کنٹریکٹ ملازمین کو فارغ کر دیا گیا ہے اُنھیں فوری طور پر مستقل بنیادوں پر بحال کیاجائے اور اُن کی گزشتہ تنخواہ بھی ادا کی جائے۔
۷۔ملازمین کی تنخواہ کی بندش اور نامناسب رویہ کا سد باب کیا جائے۔
آخر میں جمشید خان نے دیگر اداروں کے ملازمین کو یہ پیغام دیا کہ تمام مسائل کا حل ناقابل مصالحت جدوجہد سے کیا جا سکتا ہے اور ’’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ ‘‘پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کا وقت آگیا ہے۔