تحریر: آدم پال:-
پاکستان میں غیر معمولی واقعات بھی معمول بنتے جا رہے ہیں۔ ملکی تاریخ کی بد ترین مہنگائی، بیروزگاری اور غربت ہر روز اضافے کے ساتھ نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے ۔ ساتھ ہی معیشت کے اعداد و شمار تاریخ کے بد ترین زوال کی نشاندہی کرتے چلے جا رہے ہیں ۔ لیکن سب سے حیران کن بات ہے کہ اس ملک کے حکمران طبقات اس کا نہ تو ذکر کرتے ہیں اورنہ ہی کوئی اپوزیشن پارٹی اس کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اپنا متبادل حل دیتی ہے۔
حکمران طبقے کے سیاست دانوں کی عوام کی حالت زار کی جانب بے حسی کا اندازہ لگانے کے لیے چند اعداد و شمار ہی کافی ہیں۔25مارچ2008ء کو جس دن یوسف رضا گیلانی نے وزیر اعظم کا حلف لیا اس دن وزیر اعظم سیکرٹریٹ کا خرچہ 6لاکھ روپے روزانہ ، سال کے ہر ایک دن تھا ۔اب یہ 137فیصد اضافے کے بعد 15لاکھ روپے روزانہ ہے۔ تین سال قبل کابینہ ڈویژن ایک دن میں 40لاکھ روپے ہضم کرتی تھی جو اب 80لاکھ روپے روزانہ ہے۔2009-10ء میں کابینہ ڈویژن کے الاؤنس 7کروڑ روپے تھے جو اب 170 فیصد اضافے کے بعد 20 کروڑ روپے ہیں۔ کابینہ ڈویژن کی جانب سے معاف کیے گئے قرضے دو سال قبل دس لاکھ روپے کی مالیت کے تھے جو اب 2ہزار فیصد اضافے کے بعد2.5کروڑ روپے ہیں۔اس طرح ایوان صدر، وزیراعظم ، کابینہ سیکرٹریٹ سمیت سرکاری اداروں کے اخراجات ملا کر صرف سیاسی حکمرانی کے لیے ایک کھرب روپے سالانہ درکار ہیں۔
لیکن ان تمام اخراجات اور ان حکمرانوں کی عیاشیاں برداشت کرنے کے باوجود معیشت بہترہونے کے بجائے مسلسل زوال کی جانب گامزن ہے۔ڈالر کی قدر تاریخ کی بلندترین سطح پر پہنچ چکی ہے جب بدھ 14دسمبر کے روزایک ڈالر کی تجارت 90روپے کے قریب پہنچ گئی۔اس میں بھی مزید اضافے کا امکان ہے۔
ایسے میں حکمران اور ان کے میڈیا کے لیے سب سے اہم بحث یہ ہے کہ صدر زرداری ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں یا نہیں۔ جب ملک کی معیشت انہدام کے قریب پہنچ چکی ہے اور ہزاروں لوگ غربت اور بیماری کے باعث مر رہے ہیں اس وقت صدر کی صحت اور تندرستی کے حوالے سے تبصرے اور تجزیے کیے جارہے ہیں اور ایسی فضا بنانے کی کوشش کی جا رہی جیسے سیاسی طور پر تبدیلی کا کوئی بہت بڑابھونچال آنے والا ہے۔
اس میں یقیناًیہ کرائے کے تجزیہ نگار اور مبصرین عوام کے رد عمل اور انقلابی سر کشی کے امکان کے بارے میں نہیں سوچتے بلکہ فوجی جرنیلوں یا عدلیہ کے ججوں کی’’ عظیم حب الوطنی ‘‘ کے نتیجے میں عوامی خدمت کے لیے اقتدار پر براجمان ہونے کے امکان کو زیر غور لاتے ہیں۔
میمو گیٹ سکینڈل میں بحث کا مرکز یہ تھا کہ صدر زردار ی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے خوفزدہ ہیں اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے امریکی امداد طلب کر رہے ہیں۔اس کے بعد عمر وڑائچ کے حالیہ انکشافات کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا صدر زرداری سے چھٹکارا حاصل کرنے کے خواہشمند تھے اور اس کے لیے مختلف عرب ریاستوں کا دورہ کر کے مشورے کر رہے تھے۔اسی طرح ہر روز کوئی نیا سکینڈل اسی حوالے سے سامنے آتا رہتا ہے جس میں محلاتی سازشوں کے انکشافات ہوتے ہیں اور حکمران طبقات کی باہمی نفرت، عیاری،مکاری اور ایک دوسرے کے لیے حسد سامنے آتا ہے۔اسی بنیاد پر آئے روز بہت سے نئے قصے اور افواہیں بھی معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔
لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ سب ایک دوسرے سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن کامیاب کیوں نہیں ہو پارہے؟اور یہ کہ مستقبل میں کیا کچھ ہونے کے امکانات ہیں؟ اس میں مختلف کالم نگار اور دانشور اپنی رائے زنی کرتے رہتے ہیں جن میں اعلیٰ حکام اور خفیہ ایجنسیوں سے روابط کی روشنی میں تجزیہ کرتے ہیں۔لیکن سب سے اہم ترین سوال ہے کہ سماج میں وہ کون سے عوامل ہیں جن کے باعث حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔
پاکستان کا وجود کسی انقلاب کے نتیجے میں نہیں آیا بلکہ ایک رد انقلاب ، سمجھوتوں اور سازشوں کا نتیجہ تھا۔یہاں کے حکمران کبھی بھی عوام کو بہتر معیار زندگی نہیں دے سکے اور نہ ہی یہاں بنیادی انفرا اسٹرکچرتعمیر کر سکے، بلکہ انگریز کے دور کے سامراجی مقاصد کے لیے بنائے گئے ڈھانچے کو بھی اپنی دولت کی ہوس میں کھا گئے۔ایسے میں یہ حکمران اپنے جنم سے لے کرآج تک عالمی سامراج کے گماشتے کا کردار ادا کرتے رہے۔ایسے میں انہیں جہاں سے بھی مراعات، پیسے یا امداد ملتی رہی یہ انہی لوگوں کے تلوے چاٹتے رہے۔اس لیے یہ قطعاً حیران کن نہیں کہ ایک دھڑا امریکہ سے اقتدار کی بھیک مانگ رہا ہے اور دوسرا عرب حکمرانوں سے ، گو کہ خود عرب حکمران امریکہ کے غلام ہیں۔ اس کے علاوہ چین کے حکمران طبقے کی غلامی کرنے کی تگ و دو بھی تیزی سے جاری ہے اور ریاست کے مختلف دھڑے اس مقابلے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
افغانستان میں جاری امریکہ اور نیٹوکی جارحیت کے باعث عالمی سامراج کے لیے ان غلام حکمرانوں کی اہمیت کچھ بڑھ گئی جس کے باعث یہ پھولے نہیں سماتے اور مختلف حربوں سے اپنی قیمت بڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔لیکن امریکی سامراج سمیت دوسری سامراجی طاقتیں طوائف سے بدتر یہاں کی فوجی اور سیاسی قیادت کا مزہ چکھ چکی ہیں لہٰذا انہیں بھی اب ان میں کوئی زیادہ کشش نظر نہیں آتی۔دوسری جانب یورپ اور امریکہ کا معاشی بحران وہاں کے حکمرانوں کواس استعمال شدہ طوائف پر زیادہ مال لٹانے کی اجازت نہیں دیتا۔اس ناجائز رشتے کو پاک امریکہ تعلقات کے نام سے پیش کیا جاتا ہے اور اس پر گھنٹوں تبصرے اور اخباروں میں لمبے لمبے تجزیے کیے جاتے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ سامراجی طاقتوں کے لیے بھی کسی نئی طوائف کو ڈھونڈنا اور پالنا مشکل ہے اور اس طوائف کے لیے بھی نئے گاہک ڈھونڈنا آسان نہیں۔
ایسے میں یہ پیشن گوئی کرنا کہ آنے والے عرصے میں کون شخص حکمرانی کرے گا اور اور وہ وردی میں ملبوس ہو گا یا نہیں اہم نہیں رہتی کیونکہ ہر دو صورتوں میں وہ عالمی سامراجی طاقتوں ، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سرمایہ دارانہ نظام کا طوق اپنی خوشی سے پہن کر ہی آئے گا۔
دوسری جانب جس اہم ترین عنصر کو زیر بحث نہیں لایا جاتا وہ سرمایہ دارانہ نظام کا زوال ہے۔اور اس زوال کے نتیجے میں بڑھنے والے سماجی معاشی تضادات ہیں۔ان تضادات کو تجزیوں، تبصروں، ٹاک شوز یا افواہوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ان تضادات کی بنیادی وجہ معاشی بنیادوں کی خستہ حالی اور زوال پذیری ہے جس میں بہتری کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔برآمدات میں مسلسل کمی ہو رہی ہے ۔ ملکی معیشت غیر ملکی قرضوں کے بعد اب اندرونی قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہی ہے۔سٹیٹ بینک نے ملکی بینکوں کی جانب سے حکومت میں سرمایہ کاری کے رجحان کو معیشت کے لیے ناقابل برداشت قرار دیا ہے۔ اندرونی قرضوں کا حجم اکتوبر کے اختتام تک 6.23کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
عالمی سرمایہ داری کے گہرے ہوتے بحران میں یہ توقع رکھنا کہ یہاں کے حکمران اور معیشت دان کسی معجزے کے ذریعے بہتری لے آئیں گے انتہائی بیوقوفانہ سوچ ہو گی۔اور معیشت کی اس ڈولتی کشتی کے اوپر قائم عدالتی، پارلیمانی ، عسکری اور دوسرے ڈھانچوں کے استحکام کی توقع رکھنا بھی دیوانے کا خواب ہے۔
آنے والے دنوں میں اس عدم استحکام میں اضافہ ہو گا۔ریاست جو پہلے ہی مختلف دھڑوں میں بٹ چکی ہے مزید دھڑوں میں بکھرتی چلی جائے گی۔ہر کوئی ایک دوسرے کے خلاف سازش کرے گا، اس کو گرانے کی کوشش کر ے گا۔ اقتدار اور دولت کی ہوس میں نفرت ، حسد، انتقام کے جذبات مزید بھڑکیں گے اور اس کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جائے گا۔عالمی سامراجی طاقتیں بھی اپنے بحران کے باعث کوئی فیصلہ کن کردار مسلسل ادا نہیں کر پائیں گی جس کے نتیجے میں سازشیں اور منصوبے تو بہت سے بنیں گے لیکن منطقی نتیجے تک شاید کوئی بھی نہ پہنچ پائے۔لیکن حکمرانوں کے یہ تضادات اسی شکل میں زیادہ عرصے تک بھی نہیں رہ سکتے یہ نیچے کی جانب سفر کریں گے اور مختلف مراحل اور شکلیں اپناتے ہوئے زوال کی شدت میں مزید اضافہ کریں گے۔ تبدیلی کے امکانات بڑھیں گے ، لیکن محض چہروں کی تبدیلی کے امکان کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچنا انتہائی کٹھن ہے۔جس کی بنیادی وجہ تمام فریقین کی اپنی کمزوری ہے۔اگر ایسی کوئی کوشش کامیاب ہوتی بھی ہے تو سماج میں موجود طبقاتی تضادات کا لاوا سلگ سکتا ہے اور تضادات سے بھرپور یہ ریاست، یہ سماج ، یہ نظام ایک آتش فشاں بن سکتا ہے ۔
محنت کش طبقے کے لیے یہ عمل مسلسل تکلیف، اذیت اور مصائب و مشکلات کا باعث بنے گا۔لیکن یہ صورتحال اس طبقے کے شعور پر اہم اثرات مرتب کر رہی ہے جس میں وہ اہم نتائج اخذ کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔اس میں سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ اس نظام میں اس کی مشکلات کا کوئی حل موجود نہیں۔وہ جلد یا بدیر اس ناکارہ نظام کے خلاف ایک احتجاجی تحریک میں اپنے غم و غصے کا اظہار کرے گا۔ ایسی تحریک جو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی طبقاتی کشمکش کو تمام سیاسی سرگرمی کا محور بنا دے گی۔ایسے میں اگر سوشلسٹ نظریات سے لیس ایک منظم تنظیم محنت کشوں کو ان کی اذیتوں سے نجات کا رستہ دکھاتی ہے تو یقیناًایک حقیقی تبدیلی کی جانب بڑھا جا سکتا ہے۔حقیقی تبدیلی صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے جب ان گماشتہ حکمرانوں کا خاتمہ کر کے، ان کی تمام دولت اور جائداد پر قبضہ کرکے، عالمی سامراجی طاقتوں کی غلامی کا طوق پھینک کر ، سرمائے کی زنجیروں کو توڑ کر آزادی کا نعرہ بلند کیا جائے گا۔یہ آزادی، یہ انقلاب پوری انسانیت کے ایک غیر طبقاتی، غیر استحصالی نظام کی جانب سفر کا آغاز ہو گا۔