شاعری: ہم اس دنیا سے آگے اور دنیا سوچ لیتے ہیں

یہاں سے بھی نکل جانے کا رستہ سوچ لیتے ہیں
ہم اس دنیا سے آگے  اور دنیا سوچ  لیتے   ہیں

ہمارے  سامنے  جب  بھی  کوئی  دیوار آتی  ہے
ہمارے  ہاتھ اس  میں در دریچہ سوچ  لیتے  ہیں

یہاں سے ایک دن ہو جائے گا جو الوداع ہم سے
اسی   کو ہم   ہوا  کا   ایک جھونکا  سوچ  لیتے   ہیں

اگر  مایوسیاں  ہم پر  مسلط  ہو  بھی  جائیں  تو
تمہاری  جستجو  کا   ایک  صحرا  سوچ  لیتے  ہیں

درِ ادراک کی وسعت سمٹ جاتی ہے پل بھر میں
ہم  اپنی   ذات  کا  ایسا  بھی  نقطہ سوچ   لیتے   ہیں

عجب امّید کی بستی میں دن کٹنے لگے اسودؔ
کبھی  جگنو  کبھی  کوئی  ستارہ سوچ  لیتے ہیں

سعداللہ اسودؔ