| تحریر: لال خان |
کراچی سمیت بر صغیر کے کئی شہروں میں موت کا ناچ جاری ہے۔ یہاں کے باسیوں کو اور کتنے ستم جھیلنے ہوں گے؟ ان کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو جہنم کس نے اور کیوں بنا دیا ہے؟
اب تک گرمی، لوڈ شیڈنگ اور پانی کی عدم دستیابی سے صرف کراچی میں 500 سے زائد افراد (حکومتی اعداد و شمار کے مطابق) جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔ چند ماہ پیشتر گرمی کی ایک لہر ہندوستان میں ہزاروں افراد کو لقمہ اجل بنا گئی۔ اس طرح کی ’’قدرتی آفات‘‘ ہوں یا جنگوں اور دہشت گردی کی تباہ کاریاں، عجیب و غریب تبصرے سننے کو ملتے ہیں۔ ملاں اس سب کو ’’قہر خداوندی‘‘ قرار دیتے ہیں۔ لبرل تجزیہ نگار فروعی نکات میں الجھاتے ہیں۔ میڈیا پر انتظامیہ کی نا اہلی کا شور مچتا ہے اور ’’گڈ گورننس‘‘ پر زور دیا جاتا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے وظیفہ خوار ایک دوسرے پر بہتان تراشی کرتے ہیں۔ ایسا تبصرہ کم ہی ہوتا ہے جس میں اس قدرتی یا مصنوعی تباہ کاری سے مرنے والے سینکڑوں، ہزاروں یا لاکھوں انسانوں کا باہمی رشتہ اور ناطہ آشکار ہو۔
عام طور پر یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ مرنے والے انسان ’’کوئی بھی‘‘ ہو سکتے ہیں۔ یہ ادھورا سچ ہے۔ یہ درست ہے متاثرین شیعہ بھی ہو سکتے ہیں اور سنی بھی، پنجابی ہوسکتے ہیں، کشمیری، پٹھان، بلوچ اور مہاجر بھی، بچے بھی ہوسکتے ہیں بزرگ بھی، خواتین اور مرد بھی۔ معاشرے پر حکمران طبقے کے مسلط کردہ تعصبات کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو برباد ہونے والوں کا مشترکہ پہلو کبھی سامنے نہیں آ سکتا۔ لیکن ایک اشتراک اور تعلق ان انسانوں میں بہرحال ہوتا ہے، طبقے کا تعلق!
اگر ہم گرمی سے ہونے والی حالیہ ہلاکتوں کا جائزہ لیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ مرنے والے تمام افراد معاشی طور پر سماج کی پست اور غریب پرت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ذمہ دار کون ہے؟ کیا سورج کا قہر اس قدر متعصب ہے کہ صرف غریبوں پر ہی برستا ہے؟ مسئلہ اوپر سے نازل ہونے والے قہریا عذاب کا نہیں، اس زمین پر انسانوں کی طبقاتی تقسیم کا ہے۔ طبقاتی سماج میں امارت اور غربت کی تفریق زندگی کے ہر پہلو میں نمایاں ہوتی ہے، زندگی گزارنے کے ہر معیار کا تعین کرتی ہے۔ اگر ملاؤں کے اس فتوے کا جائزہ لیا جائے کہ قدرتی آفات قہر خداوندی ہیں تو یہ ملاں آخر کس کو مجرم ٹھہراتے ہیں؟
ان بربادیوں کا ذمہ دار کوئی اور نہیں اس سماج اور اس پر مسلط نظام کے آقا ہیں جو محنت کشوں کا لہو پی پی کر، ان کا استحصال در استحصال کرکے اتنی غربت پھیلاتے ہیں کہ آبادی کی بھاری اکثریت کے پاس زندگی کی بقا کے وسائل ہی باقی نہیں رہتے۔ کیا مذہب کے یہ زر خرید ٹھیکیدار ظلم کا ذمہ دار مظلوم کو ٹھہرا کر سرمائے کے آقاؤں کو تحفظ فراہم نہیں کرتے؟ کیا یہ لبرل اور سیکولر دانش ور سارا ملبہ ’’بدانتظامی‘‘ پر ڈال کر ہمیں یہ باور نہیں کرواتے کہ اس متروک اور دیوالیہ نظام میں بھی اصلاحات کی جاسکتی ہیں؟ ان سیاستدانوں کی بہتان تراشیاں کیا عوام کی توجہ حقیقی وجوہات سے ہٹانے کے لئے نہیں ہیں؟ یہ کارپوریٹ میڈیا دن رات کیا یہ باور نہیں کرواتا کہ سامراجیوں، مقامی سرمایہ داروں، جاگیر داروں، ملاں اشرافیہ، بد عنوان و زنگ آلود سویلین و عسکری ریاستی مشینری کے ہاتھوں نچڑ جانے والی اس لاغر معیشت میں ’’گڈ گورننس‘‘ کے ذریعے کوئی بہتری لائی جاسکتی ہے؟ حکمران طبقے کے یہ سب ادارے، سب نمائندے کیا شعوری طور پر محنت کش عوام کے ساتھ فریب نہیں کر رہے ہیں؟ یہ جلاد بھلا اپنی مکروہ حقیقت آشکار کر بھی کیسے سکتے ہیں!
ایسی ’’قدرتی آفات‘‘ یا حادثات میں ’’مخیر حضرات‘‘ کی بھی خوب چاندی ہوتی ہے۔ ان کی نمائشی خیرات ان کی پاکیزگی اور ’’انسانی ہمدردی‘‘ کی تشہیر بن جاتی ہے جس کی آڑ میں وہ استحصال اور لوٹ مار کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔ دولت لوٹتے چلے جاتے ہیں، تجوریاں بھرتے رہتے ہیں اور چند سکے لٹنے والوں کی طرف اچھال کر پارسا بھی بن جاتے ہیں۔ خیرات سے کسی معاشرے میں بھلا غربت کم ہوئی ہے؟ جہاں انسانوں کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیا جائے، اور مجبور کر دینے والے ہی ان ہاتھوں پر خیرات دھرنے والے ہوں، ایسا معاشرہ کیا انسانی سماج کہلانے کے لائق ہو سکتا ہے؟ دنیا بھر میں خیرات سرمایہ داروں، امرا اور شہرت یافتہ شخصیات کے کاروباری اور مالیاتی معاملات کا ناگزیر حصہ ہوتی ہے۔ اسے ’’پی آر‘‘ کے لئے استعمال کر کے اپنا عمومی تاثر بہتر بنایا جاتا ہے۔ دنیا کی بڑی اجارہ داریاں خیرات کے ذریعے سینکڑوں ارب ڈالر کی ٹیکس چوری کرتی ہیں۔
پھر لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ہے کہ بجلی کی قیمتوں کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ کراچی کی صورتحال نجکاری اور نجی شعبے کی ’’کاری گری‘‘ کو بھی خوب عیاں کر رہی ہے۔ بجلی کے نائب وزیر عابد شیر علی نے فرط جذبات میں بیان دے دیا ہے کہ Kالیکٹرک کی نجکاری غلط تھی اور اس کو دوبارہ نیشنلائز کیا جاسکتا ہے۔ اس بیان پر بجلی کے سینئر وزیر خواجہ آصف تڑپ اٹھے کیونکہ ان کے نائب وزیر نے نجکاری کی شان میں گستاخی کر ڈالی تھی۔ لیکن مشرف نے تو بجلی کی ایک کمپنی کو پرائیویٹائز کیا تھی۔ بجلی کے شعبے میں نجی IPPs کی بینظیر لوٹ مار کا راستہ تو پہلے کی ’’جمہوری‘‘ حکومتوں نے ہی کھولا تھا۔ اور اب یہ جمہوریت کیا کر رہی ہے؟ بڑے سرکاری ادارے تو بعد کی بات، سکول اور ہسپتال تک پرائیویٹائز کئے جار ہے ہیں۔ نجکاری کے خلاف بات کو ہی گناہ کبیرہ بنا دیا گیا۔
بجلی بنانے کی یہ نجی کمپنیاں بجلی بنائیں نہ بنائیں، 1990ء کی دہائی کے معاہدوں کے تحت ان کے ہوشربا منافعوں کا حصول یقینی بنایا گیا ہے۔ یہ پلانٹ عوام کے پیسے سے لگے تھے، ان کا سود آج تک عوام بھر رہے ہیں، ملکیت اور منافع سرمایہ داروں کے لئے ہے۔ کس ریٹ پر بجلی بن رہی ہے، کس پر فروخت ہو رہی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہر حکومت اس لوٹ مار میں حصہ داروں کی ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق IPPs کی شرح منافع 50 فیصد تک ہے۔ ہر سال یہ کمپنیاں اربوں ڈالر ملک سے باہر بلا روک ٹوک منتقل کر رہی ہے۔ عوام کا کام ہے کہ مسلسل بڑھتے ہوئے بل اپنے پیٹ کاٹ کر ادا کریں، اور پھر گرمی اور لوڈ شیڈنگ سے مریں۔ یہی نجکاری کے فضائل ہیں!
انفراسٹرکچر کی حالت اس ملک میں یہ ہے کہ پورے کراچی میں ایک سرکاری مردہ خانہ نہیں ہے۔ یہاں موت کے بعد بھی سکون نہیں ملتا۔ حادثات اور تباہ کاری سے لبریز اس سماج میں ’’ریسکیو‘‘ بھی ایک سیاسی اور مالیاتی کاروبار بن گیا ہے۔ یہ سارے کا سارا ہی نجی شعبے کے پاس ہے۔ اس بکھرتی ہوئی ریاست سے بنیادی فلاحی امور کی صلاحیت ہی مرتی ہوئی سرمایہ دارانہ معیشت نے چھین لی ہے۔
پہلے کہا جاتا تھا کہ اس معاشرے میں غریبوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ آج بحران کی شدت یہاں آن پہنچی ہے کہ غریبوں کے لئے مرنا بھی محال ہو گیا ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہروں میں قبرستان چھوٹے پڑ گئے ہیں۔ رہی سہی کسر قبضہ مافیا نے پوری کر دی ہے۔ امیروں کے عالی شان محل نما مقبرے بنتے ہیں۔ ان کی قبریں بھی وی آئی پی ہیں۔ غریبوں کی پرانی قبروں میں نئے غریب مردوں کو دفنایا جا رہا ہے۔ تدفین اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ رشتہ دار موت کا غم بھول کر اخراجات کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کے بقول
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں!
جہاں مرنے والے کو عزت سے دفن کرنامحال ہو جائے، ایسے نظام کے جواز گھڑنا، مظلوموں کی خوش فہمیاں اس سے وابستہ کروانا اور اس کے خلاف اٹھنے والی بغاوت کی آواز کو سبوتاژ کرنے سے بڑا جرم بھلا کیا ہوسکتا ہے!
متعلقہ: