سرائیکی قومی مسئلہ اور اسکا حل!

تحریر۔قمرالزماں خاں:-
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے جنوبی پنجاب کی علیحدہ تنظیم کی تشکیل کرنے کا اعلان کیاہے۔شریک چیئرپرسن کی صدارت میں کراچی میں ہونے والے اجلاس کے بعد عید سے دوروز قبل ضلع رحیم یارخاں سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے جاگیردار اور گدی نشین مخدوم شہاب الدین سہروردی کوجنوبی پنجاب کا صدر مقرر کرکے پیپلز پارٹی نے گویا پنجاب کی تقسیم اور نئے صوبے کی تشکیل کی اپنی پارٹی کی حد تک توثیق کردی ہے۔یہ فیصلہ کئی اعتبار سے پیپلزپارٹی کی حالیہ قیادت کی نظریاتی کمزوری،سیاسی بصیرت کی کمی اور سرائیکی وسیب کو درپیش سنجیدہ مسائل پر اس کے غیر سنجیدہ نقطہ نظرکی وضاحت کرتا ہے۔

دیگر گدی نشین سیاسی خانوادوں کی طرح دربارماؤ مبارک کی گدی کا وارث مخدوم شہاب الدین سہروردی کا خاندان ہمیشہ سے حکمران طبقے کا ایک اہم اور لازم حصہ رہا ہے ، مارشل لاء ہو یا سرمائے کی جمہوریت مخدوم خاندان ہمیشہ اقتدار کی غلام گردشوں میں پایا جاتا ہے۔پاور پالیٹیکس میں انتہائی مہارت رکھنے والا اورملک کی ’’ اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا انتہائی قابل اعتماد مخدوم خاندان یہ سونگھنے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ الیکشن کے بعد حکومت کس کی بننی ہے اس لئے خصوصی طور پر مخدوم خاندان کے اس فرد کی جیت کو حتمی بنایا جاتا ہے جس نے مستقبل کی فاتح پارٹی کا جھنڈا تھاما ہو۔انتخابات میں متحارب امیدواروں(چاچا بھتیجا۔کزن ۔بھائی بھائی۔باپ بیٹا) کا انتخابی ہیڈ آفس ایک ہی جگہ ہوتا ہے یہ میاں والی قریشیاں میں مخدوم شہاب الدین سہروردی کی رہائش گاہ ہوتی ہے جس کی چار دیواری میں جیتنے اور ہارنے والے دونوں امیدواران ایک ایک دن کی باری سے اپنی انتخابی مہم کے لئے نکلتے ہیں،گاڑیاں بھی سانجھی ہوتی ہیں بس ہر روزان پر لگنے والے جھنڈے بدلے جاتے ہیں۔یوں ہرکابینہ میں میاں والی قریشیاں کا وزیرضرور ہوتا ہے۔
کیا سرائیکی قوم کو درپیش مسائل کی نوعیت اتنی سادہ اور معمولی ہے کہ جس بے ڈھب طریقے سے اس کو موجودہ قیادت ڈیل کررہی ہے ! یہ ایک افسوس ناک صورتحال ہے۔ پاکستان کے سنجیدہ مسائل کے حل کے لئے پی پی پی کی قیادت کا موجودہ اقدام ایسے ہی ہے جیسے نام نہاد’’آغاز حقوق بلوچستان پیکج ‘‘ کے ذریعے بلوچستان کے خون آلودہ مسئلے کو حل کرلینے کا دعوی کیا جاتا ہے،آٹھویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو وسائل کی تقسیم اور انکے مسائل حل کرنے کی بات کی جاتی ہے یا مفاہمتی پالیسی کے ذریعے تمام قاتلوں اور مقتولوں کو ایک ہی طبیلے میں باندھ کرکامیابیوں کے جشن منائے جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہوگی جو پاکستان پیپلز پارٹی کی تنظیم کو دو حصوں میں بانٹ دینے کو سرائیکی کاز کی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہوں گے مگر ایسے لوگ تو یہ بھی کہتے پائے جاتے ہیں کہ بجلی کی بندش کا گلہ کرنے کی بجائے بجلی کے آنے کا شکر ادا کرنا چاہیے، خوشامدیوں کا ایک ٹولہ اس وقت تعریفوں کے ڈونگرے بجاتا نہیں تھک رہا ہے،جب کہ مخدوم شہاب الدین کے جنوبی پنجاب کے صدر بنانے سے نہ تو عام سرائیکی کو کوئی ریلیف ملنے کا امکان ہے اور نہ ہی ان محرومیوں کے خاتمے کی طرف پیش رفت ہوگی جن کا شکار یہ خطہ ہے۔اول تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ سرائیکی زبان بولنے والی آبادی کے اکثریتی علاقے کے وہ کون سے مسائل ہیں جن کی وجہ سے اس کے بیشتر حصے اکیسویں صدی میں بھی قرونِ وسطیٰ کے دور کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔اس معاملے کو پاکستان کے دیگر پسماندہ حصوں اور دیگر مظلوم قوموں کے استحصال سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا کیوں جہاں کچھ چیزوں کو مخصوص علاقوں کے حوالے سے اہمیت دی جاتی ہے تو وہاں بہت سے بنیادی اور کلیدی نوعیت کے معاملات مشترک ہیں۔آج مرحلہ وار انقلاب اور تبدیلی کی گنجائش ختم ہوچکی ہے ۔صنعتی انقلابات مکمل نہ کرپانے والے ممالک کا قومی حکمران طبقہ محض سامراج کے دم چھلے کا کردار ادا کرسکتا ہے اس میں کسی بھی نوعیت کا جداگانہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت موجود ہی نہیں ہے ۔ عالمگیر سرمایہ دارانہ معیشت اور اسکی بنا پر ہونے والی سیاست‘منڈی کی معیشت سے فروغ پانے والی تجارت اور اس پر استوار کی گئی ثقافت اور پھر فی الوقع مواصلاتی انقلاب نے مسائل اور انکے حل کا ایک دوسرے سے گہرا رشتہ بنا دیا ہے۔ایک بات طے ہے کہ آج سرمایہ دارانہ نظام کے ناقابل حل بحران نے نظام سے وہ کوائف ہی چھین لئے ہیں جن سے بعض اوقات وقتی اور عارضی طور پر حل دئے جاسکتے تھے۔آج دنیا میں مارشل پلان جیسا کوئی حل موجود نہیں ہے اور نہ ہی ماضی میں چین کے انقلاب کو روکنے کے لئے چند جزیروں پر مشتمل ایشین ٹائیگر بنانے جیسی استطاعت ہے۔اسی طرح خصی پن اور نااہلیت کے ساتھ مالیاتی سرمائے کی فیصلہ کن اتھارٹی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی بنا پر کسی قومی لڑائی میں متذکرہ قوم کے حکمران طبقے کا کوئی قوم پرستانہ ،حریت پسندانہ کردار محض یوٹوپیائی خواب ہے۔
دوم، سرائیکی علاقے کے بے شمار حکمران خاندان کسی نہ کسی کلیدی وزارت پر بغیر کسی توقف اور حکومتوں کی تبدیلی (فوجی سویلین حکومتوں کی تخصیص کے بغیر) فائز آرہے ہیں۔ان کے منصب سے سرائیکی وسیب کے عام آدمی کے بنیادی مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ بے روزگاری کا ہے۔ اس کی شرح پاکستان کے دیگر حصوں کی نسبت (خاص طور پر آبادی کے گنجان ہونے کی وجہ سے) جنوبی پنجاب یا سرائیکستان میں بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ کروڑوں سرائیکی نوجوان مر د وخواتین بے روزگاری کا شکار ہیں جن کوکٹوتیوں کے ذریعے چلائے جانے والے فرسودہ سرمایہ داری نظام کے تحت اب روزگار دینا ناممکن ہے۔ٹوٹتے بکھرتے اور قرضوں کا کشکول اٹھائے قومی ادارے کس بات کی دلالت کرتے پائے جاتے ہیں؟ صوبے تو درکنارمملکت کے لئے ممکن نہیں رہا کہ وہ ریاست کی بقاء اور جواز کے لئے ضروری ادارے تک قائم رکھ سکے۔ پاکستان میں تریسٹھ فی صد بیماریوں کی حقیقی وجہ کچھ اور نہیں صرف غربت ہے۔ پچھلے دنوں ڈینگی کے جان لیوا مرض نے بطور خاص وسطی پنجاب کو اپنے لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔حکمرانوں کے دعوؤں کے برعکس اس کا خاتمہ تو شاید آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے ہورہا ہے مگر اس مرض کا واویلہ بہرحال موثر انداز میں کیا گیااور اس واویلے کی آڑ میں کئی لوگوں نے مزید اربوں روپے کی بدعنوانی کی ہے ۔مگر ایک اور مرض جسکا شکار خاص طور پر جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقے ہیں وہ ہیپا ٹائیٹس ہے۔اس مرض کی بڑی وجہ انسانی فضلا ملا پینے کا پانی ہے جو کروڑوں لوگ پینے پر مجبور ہیں کیوں کہ ان کو صاف پینے کا پانی میسر نہیں ہے۔اس مرض کے پھیلاؤ کی دیگر وجوہات کا تعلق بھی جہالت،پسماندگی اور غیر صحت مندانہ حالات زندگی ہے، ایک اندازے کے مطابق اس موذی مرض جس کی لپیٹ میں پورا ملک ہی ہے مگر صرف جنوبی پنجاب میں ہر سال دس ہزار کے قریب لوگ اس مرض کی لپیٹ میں آتے ہیں اور عام طور پر مرض کا پتا لا علاج ہونے پر چلتا ہے مگر اس مرض کا علاج اتنا مہنگا ہے کہ آبادی کا 90فی صد حصہ ہیپا ٹائیٹس کا علاج کرانے کی استطاعت ہی نہیں رکھتا، یوں لوگ خون تھوکتے تھوکتے ایڑیاں رگڑ رگڑکر مر جاتے ہیں۔سرائیکی بولنے والا صدر،وزیر اعظم،(موجود اور خارج شدہ)وزیر خارجہ،وفاقی وزیر صحت اور دیگر درجنوں سرائیکی وزیروں کو کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ اس جان لیوا مرض کا باعث بننے والی وجوہات کے خلاف عملی جنگ کا آغاز کرسکیں اور صحت یابی کے لوازمات کو عام آدمی کی رسائی تک پہنچانے کے لئے کسی مہم کے لئے خود کو وقف کرسکیں۔غربت ،گہری پسماندگی ،بے روزگاری‘ مضر رساں پینے کا پانی ،ناقص انفراسٹرکچراور بیماریوں کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب میں ناخواندگی کا عفریت نسل در نسل جہالت کو فروغ دے رہا ہے۔تعلیم کا مسئلہ معاشی صورتحال سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ایک تو تعلیم اتنی مہنگی ہوچکی ہے کہ اس کو حاصل کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں رہا دوسراجس خاندان پر روزانہ خوراک کا بندوبست پہاڑ جیسے مسئلے کے طورکھڑا ہو وہاں وہ اپنے ننھے منے بچوں کو سکولوں کی بجائے ورکشاپوں،ہوٹلوں اور گھریلوچاکری کرانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔سرائیکی وسیب کی نوعمر بچیاں کراچی کے کھاتے پیتے گھرانوں میں ’’ماسیاں‘‘ کہلاتی ہیں جہاں وہ اپنے اور خاندان کی بھوک کے بدلے میں اپنی جوانی اور خواب ریزہ ریزہ کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔سرائیکی علاقوں کے بچوں کو ہمارے ’’عظیم اسلامی دوست ممالک ‘‘کے بدو حکمران اور ان کے حمایت یافتہ اونٹوں کی دوڑ کے منتظم چند سکوں کے عوض لے جاتے ہیں۔ ان بچوں کو زندگی بھر کے لئے مردانہ اوصاف سے محروم کردئے جانے کا المیہ بھی ان سب سرائیکی حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے ہوتا چلاآرہا ہے مگراپنے طبقاتی مفادات اور چاپلوسی کی وجہ سے ان حکمرانوں میں اس مسئلے پر محض لب کشائی کرنے کی ہمت تک موجود نہیں ہے۔سرائیکی قوم کا بنیادی مسئلہ قومی استحصال کے ساتھ ساتھ اس معاشی اور اقتصادی گراوٹ کے ساتھ جڑا ہوا ہے جس کی لپیٹ میں آنے کے لئے کسی خاص ثقافت اور زبان کی پابندی نہیں ہے۔پھرسب سے اہم اور نہ بھولنے والی بات ہے کہ کوئی بھی قوم ایک وحدت نہیں ہوتی۔یہاں پہلی اور بنیادی تفریق طبقات کی ہوتی ہے ۔ہر قوم میں ایک بڑی اکثریت محنت کش طبقے کی ہوتی ہے جن کے حالات اور زندگی کا سب کچھ اسی قوم کے دوسرے حصے یعنی حکمران طبقے سے قطعی طور پر مختلف ہوتاہے۔بھوک،افلاس،لوڈشیڈنگ،بے روزگاری، جہالت، بیماریاں، زبان اور شناخت کا مسئلہ،ثقافتی معاملات جو عام سرائیکی کے عام مسائل ہیں ان کا اسی علاقے کے مخادیم، قریشیوں، نوابوں، مزاریوں، لغاریوں، رئیسوں،گورچانی اور دیگر سرداروں ‘تمن داروں ،گدی نشینوں اور جاگیرداروں سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔سرائیکی وڈیروں کی اکثریت تو اپنے گھروں میں سرائیکی زبان تک نہیں بولتی ان میں سے زیادہ تر انگلش ،فرنچ اور کم ترین سطح پر اردو بولتے ہیں۔ دونوں طبقوں کا سب کچھ ہی مختلف ہے اور ترجیحات بھی۔ اس لحاظ سے سرائیکی قومی استحصال اور پسماندگی کا مسئلہ سیدھا سیدھا طبقاتی تفریق کا شکار ہے۔سرائیکی وڈیرہ جو ہمیشہ ’’تخت لاہور‘‘ کے نیچے ایک مضبوط ستون کی طرح ایستادہ ہوتا ہے وہ اس تخت پر جلوہ افروز بھی ہوتا رہتا ہے مگر عام سرائیکی کا چھوٹے سے چھوٹامسئلہ بھی کبھی حل نہیں ہوتا۔پنجاب کے دو حصے کرنے اور ایک کو جنوبی پنجاب،سرائیکستان یا کسی بھی نام سے پکارنے اور حتی کہ اس علاقے کو علیحدہ صوبائی درجہ دینے سے اس استحصالی نظام کا تو کچھ بھی نہیں بگڑے گا جس کی بنا پر 99فی صد کام کرتے اور زمین پر موجو د تمام پیداوار کا موجب بنتے ہیں اور باقی ایک فی صد اس محنت کو غصب کرکے اپنی عیاشیوں کے معیار‘دولت اور اثاثوں کو اور بھی بلند کرتا رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت ایک سرائیکی صدر ہے ، وزیر اعظم ہے ، گورنر پنجاب ہے اور ملک کی نام نہاد خارجہ پالیسی کی ذمہ داری بھی ایک سرائیکی خاتون کے ذمے ہے مگر ان تمام منصبوں کے سرائیکی ہاتھ میں ہوتے ہوئے آخر عام سرائیکی کی قسمت کیوں نہیں بدل رہی؟؟؟ کیا اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حکمران طبقے کی تمام پرتوں کے طفیلی پن، عالمی سرمایہ داری نظام جو اپنی آخری منزل ’’سامراجیت‘‘ پرحالت نزع میں ہے ، کے استحصال اور اسکے انہدام کے مضمرات کو صرف نظر کیا جاسکتا ہے؟ کیا سرائیکی صوبے کی اقتصادیات، عالمی بنک اور انٹرنیشنل مانٹیری فنڈز اور دیگر سامراجی استحصالی اداروں کے چنگل سے آزاد ہوگی؟ منڈی کی معیشت کے ہوتے ہوئے اگر ایک امریکی، برطانوی‘ جرمن، فرانسیسی محنت کش(چاہے وہ اپنے ملک میں اکثریتی قوم کا حصہ کیوں نہ ہو) استحصال اور اسکے نتیجے میں بدحالی سے محفوظ نہیں رہ سکتا تو سرائیکی صوبہ بنانے سے محض یہ ہوگا کہ بھارت کی طرح مصنوعات کے نام بد ل دئے جائیں گے۔ہنڈا کا نام ’’جند وڈا‘‘ رکھ دیا جائیگا، سوزوکی کا نام’’ اللہ وسائی‘‘کسی جیپ کا نام ’’دراوڑ‘‘ رکھا جاسکتا ہے اور اسی طرح کی فضول شاونسٹ ترکیبوں سے مالیاتی استحصال کو اور ضربیں لگا کر محنت کش طبقے کو اور نچوڑا جائے گا۔کیا صوبہ سرحد کا نام خیبر پختون خواہ رکھنے سے عام پختوں محنت کش کا پیٹ بھر دیا گیا ہے ؟کیا’’تخت لاہور‘‘کے وسطی اور بالائی حصوں میں روز لوگ بھوک اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر خود سوزیاں نہیں کررہے ہیں؟ کیا وہاں جہالت،افلاس اور پسماندگی نہیں ہے؟ آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ مشرقی پاکستان جو کہ شدید قومی استحصال کا شکار تھا ،کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بھی اکثریتی بنگالی محنت کش طبقہ غربت کی لکیر سے اوپر نہیں آسکا؟بلوچستان صوبہ ہے بلوچ قوم کا نام استعمال کرتے ہوئے صوبے کا نام انکی کلغی تو بلند کررہا ہے مگر انکا قومی استحصال شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے،ماضی میں ان کا استحصال اگر پاکستانی ریاست کررہی تھی تو اب امریکہ،چین ،سعودی عرب اور ایران نے اس صوبے کو خون میں ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ وسائل ،معدنیات اور قدرتی نعمتوں سے مالا مال دھرتی کا عام بلوچ تن پر چیتھڑے باندھے دشت وصحرا میں بھوک سے نڈھال پھر رہا ہے۔مظلوم قومیتوں کے حقوق آج کسی طبقاتی سماج میں حاصل کرنا ناممکن ہیں اور طبقاتی جنگ کو کسی ایک دائرے میں رکھ کر لڑا ہی نہیں جاسکتا ہے۔سرائیکی قومی مسئلے کو طبقاتی جنگ سے علیحدہ کرنے سے اور اسکی منزل محض ایک صوبے کے حصول تک محدود کردینے سے اس ساری جدوجہد اور کاوش کا نتیجہ سرائیکی اور غیر سرائیکی (وسیب میں بسنے والے ) جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے لئے ارتکاز دولت اور حکمرانی کے لئے من مرضی کی حلقہ بندیوں تک محدود ہوجاتا ہے۔موجودہ سیاسی نظام میں عام سرائیکی محنت کش (ہر پانچ سال بعد بد ل بدل کر استحصال کرنے والے لٹیروں کا )صرف ووٹر ہی بن سکتا ہے ووٹ لینے کا جدی پشتی حق وڈیروں اور اہل زر کو حاصل ہے جو اپنے جبر اور قبائلی،مذہبی اورجاگیردارانہ بندشوں کے ساتھ سرمائے کا بے پناہ استعمال کرسکتے ہیں۔اسی طرح تعلیم اگر بکنے والی جنس بن چکی ہے تو ڈگری عام سرائیکی سے کئی لاکھ روپے کی دوری پر ہی رہے گی چاہے صوبہ بن ہی کیوں نہ جائے۔ پھرجن وڈیروں کے ہاتھوں مقامی آبادی دھرے تہرے استحصال سے سسک رہی ہے ان کو ’’مسیحا ‘‘ کا عنوان دے دینے سے سرائیکیوں کے زخموں کو کینسر میں تو تبدیل کیا جاسکتا ہے مگر ان کے دردمیں معمولی کمی بھی نہیں لائی جاسکتی۔
سرائیکی وسیب کی قومی‘ لسانی اور ثقافتی ‘آزادی اور ترقی کے لیے وسائل اس نظام میں موجودہی نہیں ہیں انتظامی تبدیلیوں سے بنیادی نظام کی بیماری دور نہیں ہوسکتی۔ محنت کش اور غریب سرائیکی بھوک‘ننگ ‘افلاس ‘بے روزگاری اور ذلت ورسوائی سے آزاد ہو کر ایک بہتر معیار زندگی حاصل کرکے ہی وہ ثقافتی آسائش حاصل کرسکتے ہیں جس سے ان کو کئی نسلوں سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس نظام میں99فی صد محنت کش طبقے پر ایک فی صد وڈیروں،گدی نشینوں ،جاگیرداروں،چوہدریوں اور اہل زر کاتسلط جاری رہے گا۔ جو کسی طور اکثریتی محنت کش طبقے کی نمائندگی نہیں کرتے اور نہ ہی انکے مسائل سے ان کو دلچسپی ہوسکتی ہے۔ پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی جس بحران کا شکار ہے اس کا حل کسی اور کے پاس نہیں ہے صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیادی دستاویزات اور 1970ء کے منشور پر عمل کرکے اس بحران کو حل کیا جاسکتا ہے۔ جس نظام کے تحت ملک کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اس نظام کے خلاف امریکہ اور یورپ جیسے علاقوں میں بغاوت کی لہر تیزی سے پھیل رہی ہے ۔امریکہ اور یورپ میں سرمایہ داری نظام کی ناکامی بری حکمرانی کی وجہ سے نہیں بلکہ برے نظام کے انجام پر پہنچنے کی وجہ سے ہے۔دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔تیونس کی تحریک اور نعرے مصر سے اسرائیل تک پہنچ چکے ہیں اسی طرح اب لندن سے وال سٹریٹ تک ہر جگہ سرمایہ داری نظام کو مسترد کیا جارہا ہے جبکہ چے گویرا کے پوسٹر اور’’ التحریر سکوائر‘‘ دنیا بھر کے براعظموں اور ممالک میں روایت اور استعارے بن چکے ہیں ۔سرمایہ داری مخالف تحریکوں نے ممالک کی سرحدوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔پوری دنیا پر منڈی کی معیشت کی تاریکی کے خاتمے کا عزم راج کررہا ہے۔اس عزم کو اب کسی عارضی تبدیلی اور حکمران طبقے کی جعل سازیوں سے شکست نہیں دی جاسکتی ۔جھوٹے پراپیگنڈے کو پچھاڑتے ہوئے عالمی سوشلزم آج پھر دنیا کی تبدیلی کا نمبر ایک ایجنڈ ا بن رہا ہے۔اسی ایجنڈے پر عمل کر کے نا صرف عالمی سامراج اور اسکے مقامی گماشتوں کو شکست دی جاسکتی ہے بلکہ طبقاتی نظام کا خاتمہ کرکے ایسی برابری قائم کی جاسکتی ہے جو سب سے پہلے تمام مظلوم قومیتوں،نسلوں ،مذہبی اقلیتوں، خواتین کے حقوق کی ضمانت مہیا کرتے ہوئے استحصال کی تمام شکلوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹا دے۔سرائیکی قومی مسئلے سمیت پاکستان جو مظلوم قوموں کا جیل خانہ ہے، اس کی تمام مظلوم قوموں کو اپنی لڑائی کا نقطہ آغاز طبقاتی جدوجہد کو بنانا ہوگا ورنہ غلامی کی ایک شکل کسی دوسری شکل میں تبدیل تو
ہوسکتی ہے مگرحقیقی نجات نہیں مل سکتی۔