روس: بالشویک میراث کی نئی اٹھان

تحریر:ایلن وڈز:-
(ترجمہ:اسدپتافی)

روس میں تحریک
ہفتہ 11دسمبر کو ماسکو میں 50ہزار افراد نے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف مظاہرہ کیا۔کچھ اندازوں کے مطابق یہ تعداد ایک لاکھ تک تھی۔ پیٹرز برگ میں12ہزار افراد نے مظاہرہ کیا جو 1995ء کے بعد سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ نزنی نووگوروڈ،کراسنویارسک، ولادی ووستوک اور دوسرے شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے لیکن ان میں تعداد چند ہزار تک تھی۔یہ ظاہر کرتا ہے کہ روس میں موڈ میں تبدیلی آ رہی ہے ۔ ایک ایسا موڈ جسے جبر اور سرکاری جھوٹ کے ذریعے بدلا نہیں جا سکتا۔پہلے حکام نے مظاہروں پر پابندی لگانے کی کوشش کی اور پولیس تشدد کے ذریعے اسے توڑنے کی کوشش کی۔ طوائفوں سے بدتر میڈیا جو کریملن کی جیب میں ہے ، اس نے تحریک کو خاموشی کی چادر میں دبانے کی کوشش کی۔لیکن کوئی بھی حربہ کام نہیں آیا۔
ہفتے کے روز تک تحریک بہت زیادہ آگے بڑھ چکی تھی، خاص طور پر ماسکو میں، اور میڈیا کے لیے خاموش رہنا ممکن نہیں تھا۔ٹی وی چینل یہ مظاہرے دکھانے پر مجبور تھے کیونکہ ہر کوئی ان کے بارے میں جانتا تھا ۔حکام نے بھی آخر میں پابندی ہٹا لی کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ یہ خونریز تصادم کی شکل اختیار کر جائیں گے اور پورے ملک میں پھیل جائیں گے۔
یہ کس قسم کی تحریک ہے؟
یہ احتجاجی تحریک اس مرحلے پر درمیانے طبقے اور دانشوروں پر مبنی نظر آتی ہے۔اس مرحلے پر محنت کش زیادہ تعداد میں نہیں لیکن بہت سے نوجوان، طلباء اور سکولوں کے بچے ہیں۔اس سے ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔تحریکوں کا آغاز ہمیشہ طلباء سے ہی ہوتا ہے۔مئی 1968ء میں فرانس میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔روس میں 1900-01ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جو 1905ء کے انقلاب کا پیش خیمہ تھا۔
اس تحریک کی ابتدا لبرل پارٹیوں کے لیڈروں کی جانب سے نظر آتی ہے جن کا ان انتخابات میں صفایا ہو گیا ہے۔لیکن ان مظاہروں میں صرف یہی عناصر شامل نہیں۔روس میں ہمارے نمائندوں کے مطابق ان مظاہروں میں سرخ بینروں کا ایک سمندر ہے۔ماسکو میں کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن CPRFنے ان مظاہروں میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا (گو کہ پیٹرز برگ میں شاید ایسا نہیں)۔ بہت سی چھوٹی کمیونسٹ پارٹیاں بھی شریک ہیں اور ساتھ ہی انارکسٹ بھی۔
پیوٹن کے خلاف غصہ درمیانے طبقے تک محدود نہیں۔محنت کش ان واقعات کو دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔وہ پیوٹن کو پسند نہیں کرتے لیکن وہ لبرل سمیت تمام سیاستدانوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ پیوٹن انتہائی برا ہے لیکن کیا یہ لبرل ہی نہیں تھے جنہوں نے سرمایہ داری اور ’’آزاد منڈی کی معیشت ‘‘ کی جانب واپس جانے کی وکالت کی تھی، جس نے گزشتہ دو دہائیوں سے ان کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔
روس کے مارکسسٹوں نے ایک لیف لیٹ شائع کیا ہے جس میں مندرجہ ذیل مطالبات کیے گئے ہیں۔
1۔ سیاسی مطالبات کو معاشی مطالبات کے ساتھ جوڑا جائے۔
2۔ ان مطالبات کے گرد محنت کش طبقے کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔
3۔ پیوٹن کی حکومت کے خلاف فیصلہ کن حملے کے لیے ایک عام ہڑتال کی جانب بڑھو!
احتجاجی تحریک کا آغاز درمیانے طبقے اور دانشوروں کی جانب سے ہوا ہے، لیکن یہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ایک دفعہ روسی محنت کش متحرک ہو گئے ، ہرشے چوبیس گھنٹوں میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
غیر ملکی سازش
کریملن کے کٹھ پتلی میڈیا کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ یہ مظاہرے غیر ملکی سازش ہیں۔ ان الزامات کو تقویت اس وقت ملی جب ہیلری کلنٹن اور دوسرے امریکی سیاستدانوں نے روس کے پارلیمانی انتخابات کی شفافیت پر شک کا اظہار کیا۔ یہ بات واضح ہے کہ واشنگٹن روس میں مداخلت کی کوشش کر رہا ہے۔ سی آئی اے نے وہاں این جی اوز سمیت بہت سی تنظیمیں بنا رکھی ہیں۔اور آزاد ٹریڈ یونینوں میں بھی فریڈر ک ایبرٹ فاؤنڈیشن جیسی تنظیموں کے ساتھ مداخلت کرتا ہے۔
لیکن پیوٹن کے خلاف عوامی تحریک کو غیر ملکی سازش قرار دینا بچگانہ بات ہے۔اس حکومت کی بد عنوانی کے خلاف نفرت باہر سے نہیں آئی۔ یہ عوام کی کئی سالوں کی معاشی مشکلات کا نتیجہ ہے جس میں بزنس مینوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت ریاست کو لوٹ کر امیر ہوتی رہی۔
اور پیوٹن؟ وہ ان اچانک واقعات سے دلبرداشتہ نظر آتا ہے۔گزشتہ کچھ دنوں سے وہ بالکل نظرنہیں آرہا۔وہ قومی ٹی وی پر بھی نہیں آیا تا کہ قوم کو اپنے نظریات کی وضاحت کر سکے۔لیکن یہ مظاہرے مکمل طور پر حیران کن بھی نہیں۔حکام نے انتخابات سے پہلے پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ کیا تھا،جو محض اتفاق نہیں۔لیکن مظاہروں کا حجم اور ان کی رفتار یقیناًایک جھٹکا ہیں۔حکام اگلے برس مارچ میں صدارتی انتخابات کے موقع پر ان مظاہروں کی توقع کر رہے تھے۔ابھی بھی یہ اندازہ درست ثابت ہو سکتا ہے۔اگلے اتوار18دسمبر کونئے مظاہرے ہونگے اور اس دفعہ حکام ان پر پابندی نہیں لگا سکیں گے۔وہ اس ہفتے ہونے والے مظاہروں سے بڑے ہونگے۔
اگر یہ حکومت مظاہروں کی اس لہر میں قائم رہ پاتی ہے (جس کا قوی امکان ہے) تو مارچ میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں سیاسی سرگرمی اور انقلابی اٹھان کہیں زیادہ ہو گی۔ہمیں اقتدار کی ایک حقیقی کشمکش نظرآئے گی جو صرف بیلٹ باکس یا کریملن کی گزر گاہوں میں ہونے والی سازشوں تک محدود نہیں رہے گی۔ روسی عوام جاگنا شروع ہو گئے ہیں اور روسی محنت کش طبقے نے ابھی حتمی لفظ ادا نہیں کیا۔
پارلیمانی انتخابات میں دھاندلی
4Protesters, during a mass rally to protest against the vote rigging in Russia's parliamentary elections, in Moscow, on December 10, 2011. The "146%" refers to a screen capture from a Russian news broadcast that spread across the internet, appearing to show total votes for all of the parties adding up to 146% (as well as the Occupy Wall Street movement's "We are the 99%")دسمبراتوارکو ہونے والے عام انتخابات وزیر اعظم پیوٹن کی مقبولیت کا امتحان ثابت ہوئے ہیں ۔جس نے اگلے سال مارچ میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں بھی حصہ لینا ہے ۔عام الیکشن پیوٹن کیلئے ایک کٹھن کیفیت سامنے لائے ہیں۔سرکاری نتائج کے مطابق جوکہ بلاشبہ بدترین دھاندلی سے ترتیب دیے اور اعلان کیے گئے ہیں،پیوٹن کی پارٹی یونائٹڈرشیا نے اہل ووٹروں کے نصف سے بھی کم ووٹ حاصل کیے ہیں جس کی بدولت اسے ریاستی ڈوما کے اندر معمولی اکثریت ملی ہے ۔روس کے یہ پارلیمانی الیکشن ملک کے 27ریجنوں میں مقامی الیکشن کے ساتھ ہی منعقد ہوئے ہیں۔
لینن اکثر زوردیاکرتا تھاکہ ہراس معمولی سی بات اور اعدادوشمار پر توجہ دی جانی لازمی ہے کہ جو طبقاتی شعورکے ارتقا میں ممدومعاون ثابت ہورہی ہوتی ہے ۔ وہ خودبھی چھوٹے سے چھوٹے الیکشن پر مکمل نظر رکھتا تھا اور طبقاتی جدوجہد کے ضمن میں ان کی اہمیت سمیت پارٹیوں ا ور طبقات کے مابین تعلقات و تضادات کی کیفیت و نوعیت میں بدلاؤ کو جانچتاپرکھتاتھا۔چنانچہ یہ ضروری ہو جاتاہے کہ ہم دیکھیں پرکھیں اور سمجھیں کہ روس کے یہ الیکشن کیا معنی رکھتے ہیں اور ان کے بعد روس میں کیا کیا ہوگا کیاکیا ہوسکتاہے !
ا س بات کے عام ہونے کے بعد کہ کریملن نے ان میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کی ہے ،ان الیکشن کی ایک اپنی ہی اہمیت بن چکی ہے ۔یہ قابل فہم ہے کہ روسیوں کی اکثریت الیکشن کے حوالے سے مشکوک اور متذبذب ہو چکی ہے ۔اس کے ساتھ ہی ساتھ روسی پارلیمنٹ ڈوما کے حوالے سے یہ الیکشن صورتحال میں نمایاں تبدیلی کی غمازی کرتے ہیں۔2007ء کے ڈوما کیلئے الیکشن میں یونائٹڈرشیا کو64فیصد ووٹ ملے تھے۔ڈوماکے حالیہ الیکشن روس کے مستقبل کیلئے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوں گے ۔آئندہ مارچ میں ہونے والے صدارتی الیکشن کا نتیجہ واضح ہے اور پیوٹن نیا صدر بن جائے گا۔لیکن کریملن کو ڈوما میں موثر فیصلہ سازی کیلئے 66فیصدسیٹیں یا پھر62فیصد ووٹ درکار تھے جو وہ حاصل نہیں کر سکا اوربمشکل ایک عددی اکثریت کو قائم رکھاجا سکا۔ حکمران پارٹی اپنی دوتہائی اکثریت سے ہاتھ دھو بیٹھی کہ جس کی بنیاد پر وہ آئین میں من مانی ترامیم اور تبدیلیاں کرتی چلی آرہی تھی ۔
کل 450سیٹوں کیلئے سات پارٹیوں نے حصہ لیا اور جن کیلئے ملک بھر میں کم از کم سات فیصد ووٹ لینا لازم ہے۔ اس کا مقصد چھوٹی موٹی پارٹیوں کو الیکشن سے دور رکھنا ہے۔ اس کا مطلب یوں بھی نکلتا ہے کہ الیکشن میں چارپارٹیوں کو ہی حصہ لینے کا موقع میسر آیا۔ان میں پیوٹن کی یونائٹڈرشیا ،کمیونسٹ پارٹی(KPRF)،جسٹ رشیا(Spravidlivaya Rossiya)اور غلط طورپر نام رکھنے والی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی(LDPR)شامل ہیں جس کی قیادت دائیں بازو کا زیرونووسکی کررہاہے ۔مرکزی الیکشن کمیٹی کے روبرو الیکشن کمپئین کے شروع میں ہی معیارپر پورا اترنے والی پارٹیوں کے امیدواروں کو مطلوبہ سیٹوں کیلئے نامزد کردیاگیا تھا۔سوموار کی صبح کو جاری کئے جانے والے نتائج کے مطابق 95.71فیصد گنے جا چکے ووٹوں کے بعد جو پوزیشن سامنے آئی ہے وہ کچھ یوں ہے ‘ یونائٹڈ رشیا49.54فیصد،کمیونسٹ پارٹی 19.16 فیصد، جسٹ رشیا13.22فیصد،لبرل ڈیموکریٹک پارٹی 11.11 فیصد،یابلوکو3.3فیصد،پیٹریاٹس آف رشیا0.97فیصد،رائٹ کاز 0.59فیصد ووٹ لے سکی۔اس کے مطابق ڈوما میں سیٹوں کی ترتیب کچھ یوں تشکیل پائی ۔یونائٹڈ رشیا 238 (2007 میں315)‘کمیونسٹ پارٹی 92 (57)‘جسٹ رشیا64(38)‘لبرل ڈیموکریٹک پارٹی 56 (40)۔
یونائٹڈ رشیا پارٹی کوپوٹن کے قدکاٹھ کو بلند رکھنے کیلئے قائم کیا گیا تھالیکن اب اس کی اتھارٹی شدید مجروح ہو چکی ہے اور آگے چل کر اس کی بحالی انتہائی مشکل ہو چکی ہے ۔اس سے عیاں ہوتا ہے کہ اس کی تائید و حمایت میں خاصی کمی واقع ہو چکی ہے ۔اس سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ روسی رائے عامہ میں بڑی اور اہم تبدیلی آچکی ہے ۔روسیوں کی ایک بڑی تعدادپیوٹن کو بے تحاشا بدعنوانی،معیارزندگی میں گراوٹ اورمنجمدہوتی معیشت کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔اب اس پارٹی کو روس میں چوروں اور ٹھگوں کی پارٹی قرار دیا جا رہاہے ۔اس کے باوجود کہ لوگوں کو پارٹیوں سے کوئی توقع نہیں تھی تاہم لوگ جانتے تھے کہ یونائٹڈرشیا کو ہی فاتح قراردیا جائے گا ۔لیکن ووٹروں نے پھر بھی سوچا کہ پوٹن کو جاتے جاتے ایک کک ہی رسیدکردی جائے اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے ۔انہوں نے پوٹن کی حمایت سے دستبرداری کر لی ۔اور اس کی پارٹی کو ولادیوسٹوک جو کہ روس کا بحر الکاہلی دارالحکومت ہے ،اور ماسکو سے سات مشرقی ٹائم زون کے فاصلے پر ہے سے پارٹی کو شکست ہوئی ،یہ علاقہ اب تک پوٹن کی حمایت کا سب سے مضبوط گڑھ چلے آرہے تھے ۔دہائی بعدیہاں کے ووٹروں نے پارٹی کے خلاف اپوزیشن کی پوزیشن لی ہے ۔ماسکو کے باہر واقع صنعتی علاقے نوجنسک میں پوٹن کی پارٹی کو سب سے کم ووٹ25.5فیصد پڑے ہیں ،یہاں سے کمیونسٹ پارٹی کو کامیابی ملی ہے ۔سینٹ پیٹرز برگ کے وسطی انتخابی علاقے میں یونائٹڈ رشیا پارٹی کو27.7فیصد ووٹ پڑے اور اس نے انتہائی سخت مقابلے کے بعد جسٹ رشیا کو شکست دی جو اپنے کو ایک سوشلسٹ پارٹی قرار دیتی ہے ۔فن لینڈ کی سرحد کے قریب واقع علاقے کیریلیا میں بھی یونائٹڈ رشیا کو کم ووٹ 32.3فیصدپڑے جبکہ آرخینجلسک میں بھی اسے 31.8 فیصد،پرائمورسکی کرائی اور دیگر ساحلی علاقوں میں 33.4 فیصدووٹ پڑے۔علاوہ ازیں ماسکو ریجن کے دیمتروف علاقے سے متصل صنعتی مرکزکمیونسٹ پارٹی نے یوپی کے برابر29فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں ۔
حکمرانی اور حکومت کا بحران
فوربز نے ابھی حال ہی میں روس کے صدر پیوٹن کو دنیا کا دوسرا بڑا موثر ترین فرد قراردیاتھا ۔اس سے پہلے نمبر پر امریکی صدر اوبامہ تھا۔اب اچانک ہی اس کی حالت ایک ایسے دیو کی جیسی ہو چکی ہے جس کے پاؤں ریت کے ہوتے ہیں ۔بارہ سال پہلے جب پوٹن پہلی بار صدر بناتھا اور جب مغرب کے چہیتے بورس یلسن کے اقتدار کا سورج غروب ہو چکاتھاتب سے اب تک پیوٹن مقبولیت کے مزے لوٹتا آرہاتھا۔اس نے اقتدار کے بعد یلسن کے دور میں کمائی کرکے اپنی توندیں موٹی کرنے والوں سے وصولیاں کر کے اور پھر اپنے جذباتی قوم پرستانہ نعرے ’’کہ ہمیں یورپی معیارکو پیچھے چھوڑنا ہے ‘‘نے بھی اس کی مقبولیت کا گراف بلند کئے رکھا ۔لیکن ان سب سے بڑھ کر معاشی استحکام سب سے اہم عنصر تھا جس نے اس کے اقتدار کو مضبوط و مستحکم رکھا ۔جو کہ 1998ء کے بعد سے شروع ہوا تھا۔اس سال روس کی مجموعی قومی آمدنی میں 1.9ٹریلین ڈالرز کا اضافہ ہواتھاجبکہ اس سے اگلے سال کی آمدنی 200بلین ڈالررہی ۔یوں یہ ایک عارضی ریلیف تھا ۔
اب یہ سارا دور ایک خواب ہو چکاہے ۔امیدیں وسوسوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔روس کے لوگوں کو یہ ادراک ہوچکاہے کہ یہ سب محض ایک کھلواڑتھا اور نئے لٹیروں نے پچھلے لٹیروں سے مال بٹور کر اپنی تجوریاں بھرلی ہیں۔جبکہ اس سارے کھیل میں عام روسیوں کی زندگی میں کوئی بہتری اور تبدیلی نہیں آسکی ۔عالمی معاشی بحران نے روس کی حالت کو اور بھی زبوں حال کر کے رکھ دیاہے۔پیوٹن کو اب عام طور پر ایک آمر سمجھا جارہاہے اور بہت سے ووٹریہ سمجھ رہے ہیں کہ روس بدعنوانی کی دلدل میں دھنس چکاہے۔
روس کے حالیہ الیکشن پیوٹن اوراس کی حکمران پارٹی کیلئے ایک ریفرنڈم ثابت ہوئے ہیں ۔پارلیمنٹ کے سپیکر اور پارٹی کے سربراہ بورس گرزلوف نے دلیل دی ہے کہ اس کی پارٹی نے یورپ کی پارٹیوں کے مقابلے میں ان سے کہیں زیادہ بہتر نتائج حاصل کئے ہیں۔ لیکن اس قسم کی دلیلوں سے کسی کو بھی بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ پوٹن کی پارٹی ووٹروں کی اکثریت کا اعتماد گنوا چکی ہے ، خاص طورپر روس کے شہری علاقوں میں۔ یہ نتائج میدیدیوف کیلئے بھی شدید خفت کا باعث ہے جو کہ حکمران پارٹی کی طرف سے وزیر اعظم کا امیدوار تھا اور وہی الیکشن کیلئے پارٹی کا نظریاتی نگران بھی تھا ۔’’ہمیں ڈوما کو مشکلات سے نکالنا ہے اور اس کیلئے مختلف ایشوز پرکئی معاہدے اور اتحادکرنے ہوں گے ،یہی پارلیمانیت ہوتی ہے اور یہی جمہوریت کا مقصد بھی ہوتا ہے ‘‘۔
روس جیسے ملک میں پارلیمانیت اور جمہوریت بارے بحث کرنا ایک بدذوق مذاق کے علاوہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔روس کے لوگ بخوبی جان چکے ہیں کہ ڈوما کریملن کی کٹھ پتلی کے سوا کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں رکھتی ۔تاہم اگر حکمران پارٹی ڈوما میں اپنی اکثریت سے محروم ہوتی ہے صورتحال بدل سکتی ہے۔ کریملن میں براجمان لوگ یقینی طورپر دیگر پارٹیوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی طرف جائیں گے ۔مارچ کا صدارتی الیکشن جو کہ اب تک پیوٹن کیلئے تر نوالہ سمجھا جا رہاتھا اب وہ گلے کی پھانس بنتا دکھائی دے رہاہے ۔
روس کا آئین یہ قرار دیتا ہے کہ سبھی اختیار واقتدار ڈوما کے پاس مرتکز رہنا چاہئے کیونکہ یہ ایک منتخب ادارہ ہوتا ہے ۔لیکن اس کے برعکس اختیار واقتدار کا حقیقی مرکز و محور ڈوما نہیں بلکہ کریملن ہے ۔پوٹن2000ء سے 2008ء تک ملک کا صدر رہا لیکن پھر چونکہ آئین کے مطابق وہ مسلسل تیسری بار کیلئے صدر کا امیدوار نہیں ہوسکتا تھا۔ اس مرحلے سے پوٹن ایک صاف شفاف سازش کے تحت گزرا اور اس نے صدارت سے الگ ہوکر اپنے ایک کٹھ پتلی میدیدیوف کو صدر بنوا دیا لیکن اس نے سب کچھ اپنے ہی ہاتھوں میں مرکوز رکھا ۔یہ شروع ہی سے سب پر واضح تھا کہ پوٹن ، صدارت کے منصب پر واپسی کیلئے بیتاب تھا۔میدیدیوف نے اپنے آقا کی خوشنودی کیلئے سارا زور صرف کیا اور اسے توقع تھی کہ اس کے بدلے پوٹن اسے روس کا وزیر اعظم بنا ئے گا۔پوٹن کا ارادہ یہی نظر آرہاہے کہ وہ اگلی دو بار کیلئے یعنی2024ء تک کیلئے صدر بن جائے گا لیکن پھر جیسا کہ رابرٹ برنز نے بہت عرصہ پہلے کہا تھا ’’کہ بسا اوقات بہت ہی خوبصورت منصوبے بہت ہی بدصورت کیفیتوں کی شکل میں سامنے آجاتے ہیں ‘‘۔
ذہین لوگوں کی بیوقوفیاں!
ابراہام لنکن نے کہا تھا کہ’’ تم سبھی لوگوں کو کچھ وقت کیلئے بیوقوف بنا سکتے ہو‘کچھ لوگوں کو ساری عمر بیوقوف بنا سکتے ہو لیکن سبھی لوگوں کو ساری عمر بیوقوف نہیں بناسکتے ہو‘‘۔حکام جس طرح اور جس قدر بھی جھوٹ بولیں اب لوگ ان کا اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔الیکشن بارے بھی بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیداہوچکے ہیں۔صرف یہی نہیں کہ حکمران پارٹی کے خراب نتائج نے صورتحال کو خراب کیا ہے بلکہ عمومی نتائج نے بھی اسے مزید خراب کیا ہے ۔ایسی کئی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن کے مطابق بیلٹ پیپرز چھینے گئے ،ووٹروں کو ڈرایادھمکایاکیاگیا اور مبصروں کوہراساں کیاگیا۔اسی دوران ایسی بھی اطلاعات ملی ہیں کہ چھپائی کے وقت بھی بہت سی ہیراپھیریاں کی گئی ہیں ۔اور بھی کئی بیہودگیاں ہیں جو کہ کریملن والوں نے کی ہیں ۔
کمیونسٹ پارٹی کے نائب سربراہ ایوان میلنکوف نے بتایاہے کہ ہمیں اپنے علاقائی دفاترسے ہزاروں کالیں موصول ہوئیں جن سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ وسیع پیمانے پر دھاندلی کی گئی اور قوانین کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔سارا دن ایسی رپورٹیں آتی رہیں کہ جیسے یہ کسی محاذ جنگ سے آرہی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ گناڈی زگانوف نے واضح کہا کہ الیکشن چوری کئے گئے ہیں اور یہ کہ یہ دھوکہ دہی ہے اور پولیس نے ملک بھر میں بیشتر پولنگ سٹیشنوں پر ہمارے کارکنوں کو روکے رکھا۔بہت سے بیلٹ پیپرز ایسے بھی ہاتھ لگے ہیں کہ جن پر پولنگ سے پہلے ہی ٹھپے لگے ہوئے تھے ۔کئی شہروں میں کام کرنے والوں نے شکایت کی کہ ان کے مالکان ان پر دباؤ ڈالے ہوئے ہیں کہ وہ حکمران پارٹی کو ووٹ دیں۔بصورت دیگر ان کی تنخواہیں بند کر دی جائیں گی یاپھر انہیں کام سے نکال دیا جائے گا ۔کلاسوں میں اساتذہ نے اپنے طالب علموں کی ڈیوٹیاں لگائیں کہ وہ حکمران پارٹی کیلئے خالی بیلٹ پیپروں پر ٹھپے لگائیں۔بے شمار عمارتوں کے مکینوں کو بتایا گیا کہ ان کے تو ووٹ ہی کہیں درج نہیں ہیں۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ماسکو کی ریاستی یونیورسٹی کے ماسکو سے باہر کے کسی سکالراستاد یا طالب علم کو ووٹ نہیں ڈالنے دیے گئے ۔انہیں اس کیلئے اپنے اپنے علاقوں میں جانے پر مجبورکیاگیا۔تشدد لڑائی جھگڑے کی بھی بہت سی رپورٹیں سامنے آئی ہیں ۔بیلوگراڈ میں کمیونسٹ پارٹی کے ایک ڈپٹی کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا۔پرم کے علاقے میں اپوزیشن کے ایک کمپئین انچارج کو نامعلوم افراد نے لاٹھیوں سے مارا پیٹا۔ارکوتسک کے علاقے براتسک میں نامعلوم افراد نے کمیونسٹ پارٹی کے مقامی قائد کی سولہ سالہ بیٹی کو اغوا کرلیا اوراس پیغام کے ساتھ چھوڑگئے کہ آپ لوگ الیکشن سے دستبردار ہو جائیں ورنہ ہم دوبارہ اغواکرلیں گے اوربچی کو غائب کر دیں گے ۔کامرسینٹ اور نیوٹائمز جیسی کئی معتبر نیوز ایجنسیوں اور معروف ومقبول ریڈیو سٹیشنوں نے کہا ہے کہ ان کی ویب سائٹس کو اس وقت کریش کردیاگیا کہ جب پولنگ کی ابتداہونے والی تھی ۔ایسا اس لئے کیا گیا تاکہ جو کچھ ہوا اور کیا جارہاتھا اس کی رپورٹنگ نہ ہونے دی جا سکے ۔
اس کے بعد ماسکو سمیت کئی شہروں میں مظاہرے ہونے شروع ہو گئے جس کے بعد کریملن اور ریڈ سکوائرکی طرف جانے والے سبھی راستوں کو پولیس اور فوج نے گھیر تے ہوئے بند کردیا۔اکانومسٹ نے لکھا ہے کہ اس دن کا نعرہ یہ تھا کہ’’ جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالو‘‘’’اس دن سفید لباس پہنے کئی لوگ پولنگ سٹیشنوں کے اردگرد دیکھے گئے اور ان میں سے ہر ایک درجنوں بار ووٹ ڈالتارہا۔ایسے کئی گروپس مختلف فاصلوں پر موجود پولینگ سٹیشنوں پر یہی کام کرتے رہے‘‘۔کئی علاقوں میں تو ساری پارٹیوں کو پڑنے والے ووٹوں کی شرح 140فیصد تک بھی پہنچ گئی ۔چیچنیا جہاں پر پیوٹن کے ایک کٹھ پتلی رمضان قادریوف کی حکومت ہے ،میں حکومتی پارٹی کو کل ووٹوں کا99.5فیصد ملا۔یہ کیفیت سابقہ سوویت یونین کی جیسی ہی ہے جب ایسے ووٹ پڑتے ہوتے تھے ۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ماسکو کے نفسیاتی ہسپتال میں بھی حکمران پارٹی کو اسی تناسب سے ووٹ ڈالے گئے ہیں ۔
روسی اچھی طرح جانتے ہیں کہ زیرینو وسکی کی LDPRاور جسٹ رشیا دونوں پارٹیاں کریملن کی جیب کے سکے ہیں اور یہ ڈوما میں یونائٹڈ رشیا کو ہی ووٹ دیں گی ۔جسٹ رشیا جو اپنے آپ کو ایک سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے طورپر پیش کرتی ہے ،کو پیوٹن نے ہی قائم کروایا تھا تاکہ وہ کمیونسٹ پارٹی کے ووٹ توڑ سکے ۔پارٹی کے ایک سینئرقائدگناڈی گڈکوف نے اپنے بیان میں اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہم اپنے ووٹروں کا اعتماد کھوتے جارہے ہیں اور وہ کمیونسٹ پارٹی کو لوٹ رہے ہیں۔کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم لوگ اس طرح سے حکمرانوں کی اپوزیشن کا رول نہیں نبھا پائے جیسا کہ کمیونسٹ پارٹی کرتی آئی ہے ۔ہم بدقسمتی سے ایسا نہیں کر پائے ہیں‘‘۔پارٹی کے سربراہ میاروف نے پولنگ شروع ہونے سے قبل ہی کہہ دیاتھا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس کی پارٹی حکمران پارٹی کے ساتھ اتحاد کرلے ۔ایسے ہی بیان دیگر رہنماؤں نے بھی جاری کئے ۔ان کیفیات سے صاف نظر آجاتا ہے کہ روس میں حکمرانی اورجمہوریت کے نام پر کیا کیا گند مچایا اور پھیلایا جا رہاہے ۔
تمام تر دھاندلیوں اور بدعنوانیوں کے باوجود کریملن کی جانب سے حکمرانی کو برقرار رکھنے کے سبھی داؤ پیچ غلط اور الٹ ثابت ہونے شروع ہوگئے ہیں۔سبھی منصوبے جن کے ذریعے پپوٹن کو دوبارہ مسند صدارت پر پہنچاناتھا ،اپنے نتائج سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی
تاریخ جن المیوں سے مالا مال ہے انہی میں سے ایک بیس سال قبل سوویت یونین کا انہدام بھی شامل ہے ۔اس کے باوجوداتوار کے دن ہونے والے الیکشن کی مرکزی فاتح کمیونسٹ پارٹی ہی ہے ۔اور یہ کسی طور نہ تو حادثہ تھا نہ اتفاق۔معروف خبر رساں ادارے رپورٹرزنے اپنے ایک مضمون کمیونسٹ پارٹی کی نمایاں کامیابی‘پیوٹن کی پارٹی کی پسپائی میں لکھا ہے کہ ’’ بیس سال پہلے یوں لگتا تھا کہ کمیونسٹ متروک ہو چکے اور تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالے جا چکے ہیں ۔بہت سے روسی لوگوں کیلئے کمیونسٹ پارٹی کاتصور پرانے فوجی جنگجوؤں یاپھر بوڑھے پنشنروں کا رہاہے اور یوںیہ روسی ایک نئے روس کے خواب میں غلطاں چلے آرہے تھے ۔ لیکن اس الیکشن میں یوں ہوا کہ بھاری تعداد میں روسی شہری سرخ پرچم اٹھائے اور درانتی ہتھوڑا لہراتے ہوئے نظر آئے‘‘۔
یوں سبھی تناظر اور تجزیے الٹ چکے۔ اورتو اور کمیونسٹ پارٹی کوخود بھی اپنے تخمینوں سے دوگنا ووٹ پڑے ہیں اور وہ ڈوما کی دوسری بڑی پارٹی بن کے سامنے آچکی ہے ۔لیکن یہ سب زگانوف کے ارادوں اور جذبوں کی نمائندگی نہیں کرتا۔بہت سے لوگ اس کے ماضی کے حوالے سے پارٹی پر اعتماد نہیں کرتے ہیں ۔اور زگانوف کی چالاکیوں کے باعث اس سے نالاں ہیں۔چنانچہ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پھر کمیونسٹ پارٹی کو پڑنے والے اس قدر ووٹوں کا مطلب کیا نکلتا ہے ؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا چنداں مشکل نہیں ہے ۔یہ ووٹ ان پریشانیوں اور بیتابیوں کا سیاسی اظہار ہے کہ جو پچھلے بیس سالوں کے دوران روسی سماج میں سطح کے نیچے پنپ رہی تھیں۔
روس کا انہدام ایک بہت بڑامعاشی زوال بھی سامنے لایا جس کے بعد سے بڑے کاروباروں اور کاروباریوں نے ریاست اور سماج میں سے سب کچھ ہڑپ کرنا شروع کردیاتھا۔ ۔انتہائی دولتمند اشرافیہ اس کے نتیجے میں اقتدار پر قبضہ کرتی چلی گئی اور جو روس کے عوام سے ہتھیائی گئی رقم کو اینٹھنے کیلئے باہم دست وگریبان چلی آ رہی ہے ۔ 1998ء کے معاشی زوال کے بعد کے ابھار میں وہاں تیل اور گیس کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔جس کی وجہ سے کچھ افراد کی آمدنیاں مبالغے کی حد سے بھی بڑھتی چلی گئیں۔اور جن کی وجہ سے روسیوں کی بھاری تعداد غربت کی زد میں آتی چلی گئی۔نابرابری کی شرح انتہاؤں کو پہنچتی چلی گئی ۔2008ء کے معاشی بحران نے بھی روس کو بہت متاثر کیا تھا لیکن اب معیشت بحالی کی طرف جارہی ہے ۔اور توقع کی جارہی ہے کہ اس کی معیشت اس سال 4.45فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی ۔لیکن روس کے 143ملین عوام کی اکثریت ،ترقی کی ان ساری حالتوں اور برکتوں سے مکمل محروم چلی آرہی ہے ۔ان کے معیار زندگی بلندسے بلندتر ہوتی مہنگائی ، کم سے کمتر ہوتی اجرتوں،فلاحی ریاست میں کٹوتیوں اور بیروزگاری میں اضافے کے ہاتھوں دن بدن گرتے ہی چلے جارہے ہیں۔وہ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ان کی زندگیاں ابتر اور اشرافیہ کی زندگیاں برتر ہوتی جارہی ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ حکمرانوں کی بدعنوانی اور سماجی نابرابری میں روزبروز کس طرح اور کس قدر اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے ۔
روس کی ترقی کے سبھی ثمرات کریملن میں براجمان ٹولہ ہی اپنے لئے بٹورتااور سمیٹتاچلا آرہاہے ۔روس کے عوام اب باقی ماندہ دنیا کی بدترین کیفیات سے بیک وقت نبرد آزماہیں‘ انتشار‘استحصال‘سرمایہ داری کی پیداکردہ نابرابری اور اسی کے ساتھ ساتھ بدعنوان ،مطلق العنان اور افسرشاہانہ حکومت کہ جو سٹالنزم کے انہدام کے بعد سے ان پر مسلط چلی آرہی ہے۔ روسی بلاگ رائٹرز پیوٹن کی پارٹی کو سٹالنسٹ دور کی قدیم CPSUکے ساتھ متشابہ قرار دے رہے ہیں ۔روس میں ایک مقبول ترین تصویری خاکے میں دکھایا گیاہے کہ کس طرح سے پیوٹن کی شکل و صورت روس کے سابق صدر لیونڈ برزنیف کے ساتھ ملتی جلتی ہیں۔روس کے لوگ حکمرانوں کے خلاف لڑنے کی جستجو بھی رکھتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی انتخاب ہی نہیں ہے۔حکمران دھڑا ایسا قانونی و آئینی اہتمام یقینی بنا چکاہے کہ چھوٹی جماعتیں الیکشن ہی میں حصہ نہ لے سکیں۔ چنانچہ رشین کمیونسٹ ورکرز پارٹی (RKRP) الیکشن سے باہر کی جاچکی ہیں ۔جسٹ رشیاکو کریملن کی دم چھلہ پارٹی سمجھاجاتاہے ہر چند کہ اس نے پیٹرز برگ میں کمیونسٹ پارٹی سے زیادہ ووٹ لئے ہیں۔کمیونسٹ پارٹی کو اتنی پذیرائی ملنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اور کوئی سامنے موجود ہی نہیں ہے ۔
بدترین بدعنوانی سے اکتائے اور امیروغریب کے مابین تفاوت میں ہوشربااضافے سے تنگ روسیوں کے نزدیک کمیونسٹ پارٹی ہی پیوٹن کی اپوزیشن بنتی ہے ۔بظاہر یہ سوال تنظیمی برتری کا حامل ہے ۔روس کے انہدام کے وقت سے پارٹی کی ملک بھر میں تنظیمیں اور ڈھانچے موجود چلے آرہے ہیں۔ اس کے برعکس باقی پارٹیاں محض نام کی پارٹیاں ہیں۔قوم پرست LDPRصرف اورصرف ایک ہی فرد ،ولادیمیر زینیرووسکی کے گرد قائم ودائم ہے جو کہ دائیں بازو کا نمائندہ ہے۔ دوسری پارٹیاں بھی قومی سطح کے ڈھانچوں سے محروم ہیں ۔
رپورٹرز نے ماسکو میں متعین ایک مغربی بینکار کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’صرف کمیونسٹ ہی یہاں حقیقی پارٹی ہیںیونائٹڈ رشیا ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے،جسٹ رشیا بھی مذاق ہی ہے، LDPRبھی مذاق ہے اور مزے کی بات یہ کہ بہت سے لوگ اس بات کو جانتے سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے کمیونسٹوں کو ووٹ دیے کہ یہی لوگوں کے نزدیک حقیقی اپوزیشن ہوسکتے ہیں ‘‘۔ماسکو سے تعلق رکھنے والے 19سالہ فزکس کے طالبعلم الیگزینڈرکروف نے رپورٹرزسے بات کرتے ہوئے کہا ’’یونائٹڈ رشیا نے ہر شہری کو غصے میں مبتلا کر دیاہے اور اب لوگ متبادل کی فکر میں ہیں ۔مجھے شاید ذاتی طورپر کمیونسٹ اچھے نہیں لگتے لیکن ان کے علاوہ کوئی متبادل بھی نہیں نظر آرہامجھے اپنا ووٹ ضائع بھی نہیں کرنا اور اپنا ووٹ چوری بھی نہیں ہونے دینا ،یہ سابقہ سوویت وقتوں کی نسبت ایک مختلف پارٹی ہے ‘‘۔ماسکو کی ریاستی یونیورسٹی کی مکینکس کی ایک اکیس سالہ طالبہ اینا نے کہا کہ میرے بہت سے ساتھی طالب علم کمیونسٹ پارٹی کے ایکٹوسٹ ہیں اور یہ پارٹی مقبول ہوتی جارہی ہے ‘‘۔
حالت یہ ہو چکی ہے کہ مڈل کلاس اور پیشہ ورانہ پرتیں بھی پیوٹن اینڈ کمپنی اور کریملن مافیاسے سخت بیزار ہوچکی ہیں اور وہ بھی کمیونسٹ پارٹی کی طرف رغبت کررہی ہیں ۔یوریلیا سرپیکووا نامی ایک فری لانس فلم جرنلسٹ خاتون کے حوالے سے رپورٹرزلکھتاہے کہ ’’مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ کیسے میں اپنے دادا کی حالت دیکھ کر کہتی تھی کہ میں کبھی بھی کمیونسٹوں کو ووٹ نہیں دوں گی لیکن اب مجھے انتہائی دکھ کے ساتھ اپنا یہ وعدہ توڑتے ہوئے ووٹ ڈالتے وقت کمیونسٹ پارٹی کو ووٹ ڈالنا پڑاہے ‘‘۔
کمیونسٹ پارٹی کی یہ کامیابی بلاشبہ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ لوگ پوٹن اور اس کی پارٹی سے مایوس اور الگ تھلگ ہو رہے ہیں ۔لیکن پھر یہ صرف کہانی کا ایک ہی حصہ ہے۔ روس کے بہت سے ورکروں کیلئے آج کے روس سے ماضی کا روس کہیں زیادہ بہتر تھا ۔یہ سوچ اب بہت ہی عام ہوتی چلی جارہی ہے خاص طورپر ماسکو اور پیٹرز برگ سے دور علاقوں میں یہی کیفیت ہے کہ معاملات آج کی نسبت پہلے بہت بہتر ہواکرتے تھے ۔یہ موڈ پرانے ورکروں میں تو اور بھی پھیلاہواہے ۔لیکن نوجوانوں میں اس قسم کی سوچ کا پیداہونا ایک ابتداہے اور ایک بروقت و موثر ابتداہے ۔کمیونسٹ پارٹی کے چیٹ فورم میں ہمیں ایک نوجوان کا ایک نیا گیت سننے کو ملتاہے جو کہ بہت دلچسپ ہے اور جس کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں؛
میں اس طرف واپس جانا چاہتاہوں جو کہ مجھ سے پہلے چھین لیا گیا
مجھ سے مفت تعلیم چھین لی گئی ،مفت کھانا چھین لیاگیا
اورہاں یہ بھی جان لو کہ مفت علاج بھی میرا حق ہے
لیکن تمہیں اس سے کیا غرض،اس کی کیا پرواہ!
تمہاری کیا سوچ ہے کیا ارادے ہیں؟
کیاتم اپنے ملک کی مددکرنا چاہتے ہو!
لیکن یہ ہماری اپنی جستجواپناانتخاب ہے
ہم اپنا ووٹ کمیونسٹ پارٹی کو دینے جارہے ہیں۔۔۔
تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہوئی تبدیلی
اپنے دیرپا اثرات کی مناسبت سے روس کے یہ الیکشن روسی سیاست میں دوررس تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔ بہت دھیمے مگر ایک یقینی انداز میں روس کا محنت کش طبقہ ماضی کی خفت‘ تھکاوٹ‘ اکتاہٹ اور بے نیازی کی حالت سے باہر نکلنا شروع ہوگیاہے ۔جس نے اسے سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے اپنے شکنجے میں لیا ہواتھا۔سطح کے نیچے ایک شدید اضطراب ،شدید بے چینی و سرکشی موجود ہے جو کہ اپنے اظہار کیلئے سرگرداں ہورہی ہے ۔حکمران طبقات کے خلاف شدید نفرت کا لاوا ابل رہاہے، اشرافیہ جس نے لوگوں کو لوٹ لوٹ کھایاہے ،کے خلاف حقارت سرکش ہوتی جارہی ہے ۔
روس کی قسمت اب عالمی منڈیوں میں آئے ہوئے بھونچالوں کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہے ۔منڈیوں کا یہ بحران اب آئے روز نیچے کی طرف ڈوبتا جارہاہے۔یورپ اور امریکہ میں طلب (Demand)کے منہدم ہونے کی ایک نئی کیفیت کے سامنے آتے ہی تیل اور گیس سمیت دیگر خام مال کی قیمتوں میں تیز کمی واقع ہو گی ۔ اور ان سب کا روس کی معیشت میں بنیادی کردار ہے ۔معیارز ندگی میں مزید گراوٹ اور بیروزگاری میں اضافہ پہلے سے موجود غم و غصے کیلئے جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔ماسکو سے شائع ہونے والے اپوزیشن کے ایک معروف جریدے نیو ٹائمزکے ایڈیٹر انچیف یوگینیاالباٹس کے مطابق ’’روس کے لوگ اب پیوٹن سے اکتاچکے ہیں اور اس سے سخت نالاں ہوچکے ہیں ،وہ ٹی وی کھولیں تو پیوٹن بند کر کے کھولیں تو پیوٹن پھر بند کر کے کھولیں تو پھرپیوٹن ہی سکرین پر موجود ہوتا ہے۔دوسری طرف لوگ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ان کی زندگیاں کسی طور بہتر ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں ۔غصہ بڑھتا چلا جارہاہے اوراب یہ اپنا جراتمندانہ اظہار بھی کر رہاہے ۔ماسکو میں مارشل آرٹس کے ایک مظاہرے کے دوران لوگوں نے پیوٹن کو گھیر لیااور اس پر چڑھ دوڑے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگ اب کریملن کے مرد آہن کے ڈر سے نکل چکے ہیں ۔یہ آئیڈیا کہ پیوٹن ناقابل شکست ہے ،اب اس کی ہوا نکل چکی ہے ۔اور یہی نہیں بلکہ کمیونسٹ پارٹی ایک متبادل کے طور پر ابھر کر سامنے بھی آچکی ہے ۔کمیونسٹ پارٹی کے ایک ڈپٹی چیف نے اس کامیابی کو ایک نئی سیاسی حقیقت قراردیاہے ۔اس حقیقت کو ابھی اپنا اظہار کرناہے ۔کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن کو ابھی اپنی اہلیت اور صلاحیت کو سامنے لانا اور ان کا لوہا منواناہے ۔اسے ایک سچی اپوزیشن پارٹی کا کردار اداکرناہوگا۔لیکن زگانوف کی پالیسیوں کی موجودگی میں یہ تبدیلی محض اتنی ہی رہے گی کہ اس کے سوا کوئی اور نہ رستہ ہے نہ متبادل ۔
پیوٹن کیلئے آئندہ صدارتی الیکشن اس واسطے آسان نہیں رہے کہ اتوار کے حالیہ الیکشن اس کی مقبولیت اور قبولیت کیلئے سوال بن کر سامنے آچکے ہیں ۔الیکشن نتائج کے بعد میدیدیوف نے کہا ہے کہ وہ لوگوں کے اس حق کی بحالی کو دوبارہ لاگو کر سکتے ہیں کہ وہ ’’سب کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں‘‘۔اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ اپوزیشن کی سبھی پارٹیوں کو پڑنے والا ووٹ روکا جاسکے جس میں کمیونسٹ پارٹی بھی شامل ہے ۔ یہ حکمران طبقے کی بوکھلاہٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔کریملن بلاشبہ ہر وہ کوشش کرے گا کہ جس سے حقیقی اپوزیشن پیدا ہی نہ ہونے دی جائے اور ان کے کسی امیدوا رکو رجسٹر ہی نہ ہونے دیا جائے ۔لیکن اگر وہ اقتدار سے چمٹے رہنے کیلئے دھونس دھاندلی کا راستہ اپنائے رکھیں گے تو اس کے ان کیلئے انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے ۔آنے والے دنوں میں حکمرانوں کا بحران زیادہ شدت سے سامنے آئے گا یونائٹڈرشیا کے لیڈر صاحبان بلیوں کی طرح آپس میں لڑیں گے ۔پیوٹن کوشش کرے گا اور کر بھی رہاہے کہ ہر کمی اور کجی کا الزام دوسروں کے سر منڈھ دے۔ حکمران طبقات کی یہ باہمی سرپھٹول نیچے سماج میں موجود شدیدتناؤ کی عکاسی کرتی ہے ۔ان کے تنازعات اور سماجی دباؤ میں آگے چل کر مزید شدت آتی چلی جائے گی ۔
کچھ دن پہلے ہی فنانشل ٹائمز نے روس کے بارے ایک خاصا طویل مضمون شائع کیا ہے ۔اس میں آج کے رو س کے حالات کا بیس سال کے پہلے کے روس کے حالات کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے ۔یعنی سوویت یونین کے منہدم ہونے کے فوری بعدکے روس کے ۔بیس سالوں کی غنڈہ و مافیا سرمایہ دارانہ طرز معیشت نے لوگوں کی اکثریت کو منڈی کی معیشت کے لطف و اکرام سے محظوظ نہیں ہونے دیا ۔پچھلے اتوار کو پڑنے والا ووٹ اس کیفیت کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ثابت ہواہے۔ نہ صرف پیوٹن اور کریملن بلکہ سارے کے سارے معاشی و سیاسی نظام کے خلاف عدم اعتماد۔
یہ الیکشن لوگوں کے اندر موجود غم وغصے کا ایک انتہائی خاموش اظہار تھے ۔ جو کہ اب پھٹنے کیلئے رستے اور مواقع تلاش کر رہاہے ۔مغربی مبصرین پریشانی میں ہیں کہ جلد یا بدیر یہ غم وغصہ روس کی سڑکوں پر اپنا اظہار شروع کر دے گا۔جریدہ بزنس نیو یورپ ان وسوسوں کا اظہار ان الفاظ میں بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’صدارتی طریقے سے روس پر حکمرانی کرنے کیلئے پارٹیوں کے مابین بحث میں سے کسی انقلاب کی چاپ صاف طورپر سنائی دے رہی ہے کیونکہ لوگ مکمل طورپر سیاسی عمل سے باہر ہوچکے ہیں اور ان کا غم وغصہ کہیں بھی نہیں ٹک پا رہاہے اور یہ سڑکوں میں اتر اور پھیل سکتاہے ‘‘۔ حکمرانی کا بحران ،سیاسی چالبازیاں اور انتخابی دھونس دھاندلیاں ،یہ سب سماجی تضادات کے ناقابل حل ہونے کا ظاہری اظہارہیں جو نیچے سماج میں پھل پھول رہے ہیں ۔جتنا بھی پیوٹن اور اس کے گماشتے اقتدار سے چمٹے رہنے کی تگ ودو کریں گے اتنا ہی نیچے کے یہ تضادات شدت اور حدت اختیار کرتے جائیں گے اور پھر جو کچھ تیونس اور مصر میں ہوا وہی کچھ یہاں روس میں بھی ہو سکتاہے ۔