تحریر:جارج مارٹن:-
(ترجمہ :اسدپتافی)
قدامت پسند اسلامی پارٹی النہدانے تیونس کے 23 اکتوبرکو ہونے والے آئین ساز اسمبلی کیلئے انتخابات میں 217میں سے90سیٹیں جیت کراکثریت حاصل کرلی ہے۔ اس نتیجے نے لیفٹسٹوں کی بھاری تعدادکوسخت کنفیوژن میں ڈال دیا ہے اور کئیوں کے نزدیک تو یہ دائیں بازوکی طرف مراجعت ہے۔ جبکہ کئی یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ کیونکر تیونس کا انقلاب دائیں بازو کی فتح پر منتج ہو سکتاہے!کئی جدت پسندوں نے تو یہ تک کہہ دیاہے کہ یہ الیکشن ہی ڈھکوسلا تھے ۔مغربی ذرائع ابلاغ نے الیکشن بارے متعصبانہ اور گمراہ کن رویہ اختیار کیاہے ۔ یہاں تک کہ ابھی الیکشن کے نتائج بھی سامنے نہیں آئے تھے کہ اس قسم کی شہ سرخیاں لگادی گئیں کہ ’’الیکشن میں ٹرن آؤٹ90فیصد سے بھی زائد رہاہے‘‘’’ الیکشن میں لوگ ووٹوں کیلئے ٹوٹ پڑے‘‘’’تیونس کا الیکشن ووٹروں کی بھاری اکثریت کو نکال لارہاہے ‘‘’’تیونس کے الیکشن کا ٹرن آؤٹ توقعات سے کہیں زیادہ رہے گا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
عوام کی اکثریت کی عدم شمولیت
آخر کار ایک طویل انتظار اور کئی بار ملتوی ہونے والی پریس کانفرنسوں کے بعد عبوری الیکشن نتائج کا سرکاری سطح پر اعلان کیا گیا تو پتہ چلا کہ جو کہا گیاتھا ویسا کچھ بھی نہیں تھا۔7,569,824 افراد ووٹ ڈالنے کے اہل تھے جن میں سے 4,123,602افراد(54.7فیصد)نے ہی ووٹ رجسٹرڈ کروائے اور ان میں سے 3,205,845 نے (77.75فیصد) اپنا ووٹ کاسٹ کیا ۔ جبکہ 496,782 مزید غیر رجسٹرڈ ووٹروں نے بھی اپنا ووٹ کاسٹ کیا ۔ یوں کل 3,702,627 ووٹروں نے اپنا ووٹ ڈالاجو کہ42فیصد ٹرن آؤٹ بنتاہے ۔یہ اعدادوشمار ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر جشن منانے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں اور جس کے بارے مغربی ذرائع ابلاغ اس قدر واویلا بھی کرتے رہے ۔جس 90فیصد ٹرن آؤٹ کا شور ڈالاجارہاتھا اس کا نصف ہی سامنے آیا۔
تیونس کے لوگوں کی بھاری تعدادکے الیکشن کے عمل سے باہر رہنے کی وجہ صاف عیاں ہے ۔انقلاب کے نومہینوں کے بعد کہ جس نے بن علی کی آمریت کو اکھاڑ پھینکا تھا،تیونس کے لوگوں کی اکثریت یہ سمجھ رہی ہے کہ اب جبکہ وہ جمہوریت سے بھی مالا مال چکے ہیں اورلیکن کسی قسم کی معمولی سی حقیقی تبدیلی بھی سامنے نہیں آئی ہے ۔17دسمبر2010ء کو سیدی بوزید سے شروع ہونے والے انقلاب نے جنوری 2011ء میں بن علی کی حکومت کو اکھاڑ پھینکا تھا۔ یہ ایک ایسی جدوجہد تھی جو کہ سیاسی مطالبات ،آزادی ،جمہوریت اور بدعنوانی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ سماجی اور معاشی مطالبات ،روزگار کی فراہمی ،نوجوان نسل کیلئے بہتر مستقبل ،تعلیم،زرعی اصلاحات اور حکمران طبقے کی لوٹ مار کے خاتمے پرمحیط تھی ۔ان میں سے کسی ایک سماجی سیاسی اور معاشی مطالبے پر کان تک نہیں دھرے گئے ۔اور نہ ہی لوگوں کو ا س بات پر کوئی یقین یا بھروسہ ہے کہ ملک میں موجود کوئی بھی سیاسی پارٹی ان مطالبات پر کوئی توجہ دے گی ۔تیونس کے ڈاٹا پروسسنگ انسٹیٹیوٹ برائے پولنگ و شماریات (ISTI)کے اگست میں کئے گئے ایک سروے نے اس کیفیت کو واضح کر دیاتھا۔ 60فیصد سے زائد لوگوں نے ملکی معاشی صورتحال پر اپنے ’’عدم اعتماد‘‘ کا اظہار کیا،اپریل میں یہ تعداد57فیصد تھی۔ جبکہ70فیصد لوگ سیاسی پارٹیوں کی کارکردگی سے غیر مطمئن تھے ،اپریل میں یہ تعداد64فیصد تھی۔جب یہ پوچھا گیا کہ اپنی پسندیدہ پارٹی کا نام بتائیں تو57فیصد لوگوں نے جواب دیا کہ’’کوئی بھی نہیں ‘‘۔65فیصد لوگوں نے یہ کہا کہ ہم نے فیصلہ ہی نہیں کیا کہ کس پارٹی کو ووٹ دینا ہے اور جن47فیصد نے کہا تھاکہ وہ ووٹ دیں گے لیکن اب وہ یہ کہہ رہے تھے کہ وہ شاید اپنا فیصلہ تبدیل کرلیں ۔
لوگوں کے غم وغصہ اور اضطراب ‘ جو انقلاب کا باعث بناتھا ‘کا زیادہ تر مرکز ومحوراندرون ملک کے شہر تھے اور سب سے زیادہ ، سب سے بڑھ کر بیروزگاری کا شکارنوجوانوں کے اندرتو یہ کیفیت لاوا بن کر سامنے آئی تھی اور وہ اس انقلاب میں سب سے زیادہ پرجوش اور سرگرم رہے تھے ۔
فرانس کی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان جریدےL1 Humanit کے نمائندوں نے جنوب مغربی تیونس کے مختلف شہروں اور قصبوں میں عوام کے اس موڈ کو بہت ہی مناسب انداز میں پیش کیاہے۔سیدی بوزید میں انہوں نے 24سالہ دجمائی باؤلاگ سے بات کی جو کہ بو عزیزی کی طرح کا ہی ایک ٹھیلہ لگانے والا نوجوان ہے کہ جس نے خود کو آگ لگا کر تیونس میں انقلاب کے شعلے کو بھڑکا دیاتھا ۔اس نے کہا کہ ’’ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 14جنوری کے بعد سے مجھے اظہار کی آزادی توملی ہے لیکن میری صورتحال قطعی طورپر نہیں بدلی ہے اور میری زندگی پہلے ہی کی طرح سخت اور کٹھن ہے ۔ میں ووٹ نہیں ڈالوں گا،مجھے کسی پارٹی پر اعتبار نہیں اورمیں کسی ضمانت کے بغیر کسی وعدے پر اعتماد کیلئے راضی نہیں ہوں‘‘۔ایک اور بیروزگار نوجوان نادر ہمدونی ‘جو کہ الیکشن میں آزادالیکشن لڑنے والوں کی فہرست میں سرفہرست تھا نے‘ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’سیدی بوزید میں جو کچھ ہواتھا ،وہ انقلاب نہیں ایک سماجی سرکشی تھی،لیکن اس کے بعد کچھ بھی تو نہیں بدلاہے ۔ نوجوان ابھی تک مایوسی ،بے دلی اور بے بسی کی کیفیت میں ہیں‘‘۔انقلاب کے ایک اور گڑھ رغیب میں بھی ایسی ہی کہانی ہے ۔نعمان بن محمد قدری جو کہ 34سال کا ہے اور جو محض 45یورو ماہانہ کماتا ہے اور جو تین افراد پر مبنی کنبے کا کفیل ہے ۔ اس کے30یورو اس کے بیمار والد کے علاج پر خرچ ہوجاتے ہیں ۔جس کے بعد ان کے پاس روزانہ فی کس 12سینٹ بنتے ہیں ۔اس نے پچھلے دو سو دنوں سے اپنے لئے روزگار کے مطالبے پرٹاؤن ہال سے باہر کیمپ لگایا ہواہے ۔اس نے بھی کہا کہ وہ ووٹ ڈالنے نہیں جائے گا ۔اس نے کہا کہ ’’تیونس کا انقلاب ،سماجی نابرابری کے حوالے سے کوئی بھی تبدیلی نہیں لا سکا ہے۔جب تک مجھے میرا روزگار کا حق نہیں ملتا ہے میں اپنا ووٹ کا حق استعمال نہیں کروں گا ‘‘۔ایسے ہی ایک ہوٹل پر نجی سیکورٹی افسر کا عارضی کام کرنے والے نیمری بسام نے کہا کہ ’’جب تک ہمیں روزگار نہیں مل جاتا ،انقلاب نامکمل رہے گا‘‘۔
الیکشن سے باہر رہنے کے اس رویے کے پیچھے سیاست سے بے نیازی کا عنصر نہیں بلکہ یہ دراصل سبھی موجود سیاسی پارٹیوں کو مسترد کرنے اور اس ادارک کا نتیجہ ہے کہ انقلاب اپنے ہدف اور مقصد تک نہیں پہنچ سکاہے ۔نیمری کے دوست صفین جو کہ ایک بے روزگار ڈیکوریٹر ہے ،نے حرف آخر کے طور پر کہا ’’ اس وقت جتنی بھی سیاسی پارٹیاں کھمبیوں کی طرح سے نکل کر سامنے آرہی ہیں وہ سب کی سب کٹھ پتلیاں ہیں اور جو ہمارے مسائل کے نام پر اپنے اپنے الو سیدھے کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ الیکشن کا جو بھی نتیجہ آئے ،یہ بات یقینی ہے کہ ہمیں ایک اور انقلاب کرناہوگا‘‘۔
سیکولرازم یا سماجی مسائل؟
اس قدر الیکشن سے بیزاری اپنی جگہ لیکن الیکشن کے نتائج ایک اوردلچسپ کہانی بھی سامنے لائے ہیں۔روایتی لیفٹسٹ پارٹیوں نے توقع سے کہیں زیادہ بد تر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک ایکاتل(ڈیموکریٹک فورم فار لیبر اینڈفریڈم) نے صرف21سیٹیں حاصل کی ہیں ۔ماؤسٹ سنٹر لیفٹ پروگریسوڈیموکریٹک پارٹی نے17جبکہ سابقہ کمیونسٹ پارٹی سمیت قائم ہونے والے اتحاد ماڈرنسٹ پول نے صرف 5سیٹیں لیں۔یہ سب کی سب پارٹیاں ،بن علی کے دور میں قانونی بھی تھیں اور انہوں نے جمہوریت کا روپ دھارا ہواتھا۔انہوں نے انقلاب کے دوران کوئی رول بھی ادا نہیں کیاتھا ۔اور یہ سب کی سب بن علی کے بعد قائم ہونے والی مختلف عبوری حکومتوں میں شرکت کرتی رہیں۔لیکن جو عوامی سرکشی کی موجودگی میں ایک کے بعد ایک کر کے گرتی رہیں۔
حقیقت میں الیکشن میں جس پروگریسوپارٹی نے درحقیقت کچھ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ CPRکانگریس فار ریپبلک تھی،جس پر بن علی کے عہد میں پابندی لگی رہی تھی ، اور جس کی قیادت ملک بدر کر دی گئی تھی اور جس نے عبوری حکومتوں میں شمولیت کی پراگندگی بھی نہیں کی تھی ۔اس پارٹی نے 30سیٹیں حاصل کیں ۔اس نے النہدا کے بعد دوسری پوزیشن لی ہے ۔ جن پارٹیوں نے سابقہ حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کا ساتھ دیا اور اس کی معاونت کرتے رہے ،انہیں ووٹروں نے سخت سزا دی۔ان لیفٹسٹوں نے کسی طور بھی سابقہ RCDکی راکھ سے نئی پارٹی قائم کرنے کی کوشش نہیں کی ۔سب سے بھیانک بات یہ ہے کہ ان سبھی ترقی پسندوں نے اپنی الیکشن مہم کا مرکز و محور’’ اسلام ازم‘‘ کے خطرے کو بنائے رکھا،جس کی نمائندگی النہدا کر رہی تھی ۔اور جو اپنا نشانہ ’’ماڈرن ازم ‘‘ اور ’’سیکولرازم‘‘ کو بنائے ہوئے تھی ۔کسی ایک بھی پارٹی نے ان سبھی سماجی معاشی اور سیاسی مسائل کو اپنا مرکز و محور نہیں بنایا کہ جن کی وجہ سے انقلاب برپاہوا تھا ۔اور جو ابھی تک تیونس کے عوام کیلئے سب سے بڑی اور اولین ترجیح ہیں ۔تیونس کے لوگوں کیلئے النہدا کے خلاف ماڈرن ازم اور سیکولرازم کے حق میں واویلا کرنا سوائے شعلہ بیانی کے کوئی معنی اور حیثیت نہیں رکھتا تھا جو کہ بن علی اور بورقیبہ کا ہی طرز عمل چلا آرہاتھا۔
تیونس کی عمومی آبادی کیلئے بیروزگاری کی شرح 18فیصد جبکہ تیونس کی نوجوان نسل کیلئے یہ شرح37فیصد تک پہنچی ہوئی ہے۔تیونس میں180000 یونیورسٹی گریجوایٹس روزگار سے محروم چلے آرہے ہیں۔ایک ویب سائیٹ’’ نوواتس‘‘ میں ایک مضمون نگار نے لکھا ہے کہ ’’تیونس کے عوام اس لئے سڑکوں پر نکلے تھے کہ انہیں وراثت کے حقوق میں برابری چاہئے تھی یا پھر انہیں آرٹسٹوں کیلئے اظہار کی آزادی کا حق درکار تھا ۔رغیب میں انقلاب کیلئے سڑکوں پر آنے والوں کو کام کرنے کے مواقع میں برابری کا حق درکار تھا ۔دوسرے لفظوں میں ایک معیار ی زندگی کیلئے لوگ سڑکوں پر نکلے تھے ۔تیونس کے عوام متمنی اور منتظر تھے کہ روزگار ،سماجی برابری ،اور معاشی سدھارکاکوئی ماڈل یہ ترقی پسند لیفٹسٹ پارٹیاں سامنے لے کر آئیں گی ،لیکن عوام کی حسرتیں حسرتیں ہی رہیں ‘‘۔غیر طبقاتی ماڈرن ازم کی سب سے بڑی نمائندہ دوپارٹیاں پی ڈی پی اور پی ڈی ایم جو کہ النہدا کے خلاف سب سے زیادہ سخت گیر موقف اپنائے ہوئے تھیں،ان کو الیکشن میں سب سے زیادہ ہزیمت کا سامنا کرنا پڑاہے ۔اگر عوامی مطالبات پر مبنی پروگرام مرتب کر کے پیش کیا جاتا تو لیفٹ کی پارٹیاں بلاشبہ الیکشن میں بہت بڑی کامیابی حاصل کر سکتی تھیں ۔اور ان لوگوں کے ووٹوں کا بھی بڑا حصہ لے لیتیں جنہوں نے النہدا کو ووٹ دیے ۔الیکشن کا موضوع ہی ’’ماڈرن ‘‘اور ’’عربی واسلامی‘‘تیونس رکھا گیا جو کسی طور بھی عوام کیلئے پر کشش نہیں تھا ۔اس کا واضح ثبوت ہمیں اریدھا چھابیہ (Popular Petition) کی کامیابی سے ہو جاتاہے ،جیسے لندن میں کام کرنے والے ایک تاجر اور ایک ٹی وی چینل کے مالک ہاشمی حامدی جو کبھی انہداکا بھی ممبر رہاتھا ، کی غیر متوقع کامیابی سے ہوتا ہے کہ جس نے ایک عوامی پروگرام پیش کیا جس میں سب لوگوں کو مفت علاج فراہم کرنے ، عمر رسیدہ افراد کو مفت سفر کی سہولت ،تیونس کی معاشی خوشحالی اور سب سے بڑھ کر بیروزگاروں کو 200دینار دینے کا وعدہ کیا۔اس نے اپنی الیکشن پروفائل کو سیدی بوزید سے تعلق رکھنے والے امیدوار کے طورپر بھی متعارف کروایانہ کہ کسی خوشحال امیر علاقے سے۔اگرچہ اس کی فہرست میں سے چھ امیدواروں کو بے ضابطگیوں کے تحت خارج کردیاگیا ہے تاہم اس کے باوجود اس کی پارٹی ایردھا نے28سیٹیں جیت لی ہیں اور وہ تیسری بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے ۔سیدی بوزید جہاں سے انقلاب پھوٹا تھا ،میں یہ پہلے نمبر پرسب سے زیادہ ووٹ لینے والی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے ۔جہاں اسے ڈالے جانے والے ووٹوں کا 59فیصد ملاہے ،اس پارٹی کو مجموعی طورپر19سیٹیں ملیں گی ۔
النہداکی بڑے کاروباروں اور سامراج کو یقین دہانیاں!
اس قسم کی الیکشن کمپئین کی موجودگی میں النہدا جس نے کہ انقلاب میں کسی بھی قسم کا کوئی کردار ادا نہیں کیاتھا،کو کھل کھیلنے اور اپنے پتے مہارت سے استعمال میں لانے کا موقع مل گیا ۔یہ وہ پارٹی تھی جو کہ بن علی کے دور میں انڈرگراؤنڈ تھی اور جسے اس دور میں بن علی کی سختیوں کو جھیلناپڑاتھااور جسے تیونس کی ماڈرنسٹ دولتمند اشرافیہ کے مسلسل جبرو تشدد،طعن وتشنیع کا سامنا رہا۔یہ پارٹی ’’حجاب پہننے‘‘ کے حق میں جدوجہد کر رہی تھی ،جسے فرانس کی تقلید کرنے والے سیکولرسٹوں کی جانب سے نافذ کرنے کی باتیں کی جارہی تھیں ۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ پارٹی ملک بھر میں ایسے سرگرم کارکنوں پر مبنی تھی کہ جو ورکنگ کلاس اور غریب علاقوں میں متحرک رہے اور یہ پہلی پارٹی تھی جو سبھی انتخابی حلقوں میں سب سے پہلے پہنچی سوائے سیدی بوزید کے ۔اسے تاجروں اور مڈل کلاس طبقوں کی جانب سے بھاری فنڈز بھی ملے جبکہ ساتھ ہی اسے قطر میں سے موثر پبلسٹی بھی میسر رہی جن میں الجزیرہ چینل بھی شریک تھا۔اسے مبینہ و ممکنہ طورپر سعودی عرب کی بھی معاونت حاصل رہی ۔علاوہ ازیں اسے اپنے سیاسی پروپیگنڈے کیلئے مساجد بھی میسر رہیں ۔ اس سب کے ساتھ ساتھ اسے اپنے پیش کردہ پروگرام کی وجہ سے بھی غریب علاقوں کی توجہ اور حمایت حاصل ہوسکی جس میں یہ وعدہ کیاگیاتھا کہ روزگار پیدا کیا جائے گا بلکہ ملک کے مختلف علاقوں کے مابین فرق اور تفاوت کا بھی خاتمہ کر دیاجائے گا۔
اس کے ساتھ ہی النہدا کو پڑنے والا ووٹ کسی حد تک اس بیزاری اور اکتاہٹ کی بھی نشاندہی کرتاہے جو آبادی کے ایک حصے کو لپیٹ میں لئے ہوئے ہے ۔مسلسل ایک سال کے طویل دباؤ اور جدوجہد نے نارمل زندگی کو اتھل پتھل کر دیا ہوا تھا۔جس میں سارے عوام متحرک تھے ، جس دوران لڑائیاں ہوئیں وغیرہ وغیرہ۔اور اس اتھل پتھل اور اس جدوجہد نے کوئی بھی ایک سماجی مسئلہ حل نہیں کیا نہ تو روزگار کی کوئی شکل سامنے آئی ،نہ ہی تعلیم کا کچھ بنا اور نہ ہی معیارزندگی میں بدلاؤاور بہتری کی کوئی امید امکان بن سکی۔لیفٹ کی طرف سے کوئی بھی پروگرام سامنے نہیں آیا کہ جن میں ان سبھی مسائل کیلئے کوئی حل یا متبادل سامنے لایاگیا تھا۔چنانچہ سماج کے کم سیاسی عوامل وعناصر یقینی طورپر نارمل زندگی کی طرف پلٹنے کوہی مناسب سمجھنے لگے ۔
ایک اور اہم عنصر جس کی طرف ہم نشاندہی کرنا چاہتے ہیں وہ اس فہرست کی ہے جو کہ مختلف امیدواروں اور پارٹیوں کی تھی جو کہ الیکشن میں حصہ لے رہے تھے ۔ 655 آزاد، 830سیاسی پارٹیاں اور 34اتحاد اس الیکشن میں حصہ لے رہے تھے ۔الیکشن کا طریقہ اورمرحلہ بھی انتہائی پیچیدہ و پرپیچ رکھاگیا تھا جس کے مطابق1,392,657 ووٹ سیاسی پارٹیوں کے لئے مختص کر دیے گئے ،جو کہ ڈالے گئے ووٹوں کا37.6فیصد بنتے ہیں جبکہ وہ فہرستیں جو کسی کے نمائندہ بھی نہیں تھیں ، ان میں اتنے ہی ووٹ شامل ہیں جتنے کہ النہدا کو حاصل ہوئے ۔
آئین ساز اسمبلی میں 41فیصد سیٹیں جیتنے کے فوری بعد ہی النہدا کی قیادت نے بڑے تاجروں اور سامراجیوں کو اپنی مکمل حمایت وخدمت کا یقین و اعتبار دلانا شروع کردیا۔پارٹی کے قائد نمناؤشی نے تیونس سٹاک ایکسچینج کے ایک وفد سے ملاقات کی جس میں اس نے وفدکویقین دلایا کہ مزیدریاستی ادارے بھی ان کی خدمت میں پیش کئے جائیں گے یعنی ان کی نجکاری کی جائے گی ۔ملاقات کے بعد ماہر معیشت اور گھناؤشی کے بیٹے معاذنے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم انہیں یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور تیونس کی معیشت کے سلسلے میں ہم ان سے ہر ممکن تعاون کریں گے ‘‘۔پارٹی قائد سے ملاقات کے بعد سٹاک مارکیٹ میں تیزی آگئی ۔اس کے بعد پارٹی کی طرف سے وزیر اعظم کے امیدوار حمدی جبالی نے مالکان کی تنظیم UTICA کے نمائندگان سے ملاقات کی ۔اور انہیں یقین دلایا کہ اس قسم کا کوئی اسلامی قانون نافذ نہیں کیا جائے گا کہ جس سے ہمارے ملک کی انتہائی طاقتور سیاحت کی صنعت کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہوگا۔ اس نے کہا کہ ’’منڈی کی قدر وقیمت کا احساس ہماری پارٹی کا بنیادی فلسفہ ہے،جس کا اندازہ ہمارے پارٹی پروگرام سے بھی لگایا جاسکتاہے ‘‘۔اسی دوران ہی النہدا جسے اسمبلی میں بھاری اکثریت حاصل نہیں ہے ،CPRاورEttatakol.کو مخلوط حکومت قائم کرنے کی دعوت بھی دے دی ہے ۔
تیونس کے سرمایہ دار اور سامراجی الیکشن کے نتائج سے چنداں پریشان نہیں ہوئے ۔سچ تو یہ ہے کہ وہ سبھی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ تعلق واسطہ قائم رکھے ہوئے تھے ۔ان میں النہدا بھی تھی ۔الیکشن سے کچھ پہلے ہی النہدا کے مرکزی جنرل سیکرٹری نے امریکہ کا بھی دورہ کیا اور وہاں سینیٹرزجان مکین اورلائبر مین سے ملاقاتیں کیں۔بلاشبہ ان ملاقاتوں میں پارٹی کی طرف سے مغربی جمہوریت اور منڈی کی معیشت کے ساتھ مکمل وابستگی کے وعدے وعید کئے گئے ۔خبر رساں ادارے رپورٹرز کو دیے گئے ایک انٹرویومیں ایک مغربی سفارتکار نے کہا ہے کہ ’’یہاں جو کچھ بھی ہوگا ،ہم اس پر گہری نظر رکھیں گے لیکن جہاں تک معیشت کا تعلق ہے ، اس بارے ہمیں کوئی تشویش یا پریشانی نہیں ہے ۔ہماری سب سے بڑی تشویش اور ترجیح حکومت سازی کے عمل میں طوالت و تاخیر ہے ۔جیتنے والوں کے پیچھے کاروبار کرنے والوں کی اکثریت ہے اور جو ایک لبرل معاشی پالیسی کے حق میں ہے۔اور یہ لوگ ایک ایسے سنجیدہ معاشی پلان رکھتے ہیں جس سے سابقہ حکومت کی پالیسیاں جاری رکھی جاسکیں گی ‘‘۔حقیقت یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے ہی سے سامراج ،خاص طورپرفرانس، النہدا کے ساتھ رابطہ رکھے ہوئے تھا ۔جس کے تیونس کی معیشت اور سیاست کے ساتھ اہم مفادات وابستہ چلے آرہے ہیں۔فرانس اس اسلامی پارٹی کے ساتھ نہایت سنجیدگی اور شدومدسے معاملات نمٹا رہاتھا۔
L1 Humanitمیں شائع ہونے والے ایک تجزیے میں بھی اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ صدارتی محل اور وزارت خارجہ میں اسلام پسندوں اور بڑے تاجروں کے مابین دعوتوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ بہت دنوں سے جاری و ساری تھا۔لیکن الیکشن سے قبل کے آخری دنوں میں تو یہ سلسلہ زوروں پر پہنچ گیااور فرانس نے بالآخر النہدا کے حق میں ووٹ دے دیا۔ فرانس شمالی افریقہ کے اس ملک میں اپنا حلقہ اثر ازسرنو بحال کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہاہے جو کہ بن علی کے عہد میں بلندی پر تھا،اور اب فرانس النہدا کو اپنے مفادات کا بہترین نگہبان و نگران سمجھ رہاہے ۔
ہڑتالیں اور سماجی احتجاج
اب النہدا اور اس کی مخلوط حکومت کو ان سبھی معاشی و سماجی مسائل کا سامناکرناپڑے گا کہ جن کے باعث آج سے ایک سال قبل انقلاب پھوٹ پڑاتھا۔یہ مسائل و مصائب اب اور بھی شدیدو تلخ ہوچکے ہیں اور جن کا سرمایہ دارانہ نظام کے ہوتے ہوئے کوئی مداوا کوئی حل ممکن نہیں ہوسکتا ہے ۔اور یہ سب کچھ انہیں ایک ایسی کیفیت میں برداشت کرناہوگا کہ جب تیونس کے لوگوں کوکسی بھی سیاسی پارٹی پر قطعی کوئی اعتماد اور بھروسہ نہیں ہے ۔اور جو یہ سمجھ رہے ،سیکھ رہے ہیں کہ ان سے ان کا انقلاب چھین لیا گیااور انہیں گمراہ کردیا گیاہے ۔لیکن جو یہ بھی جان چکے ہیں کہ ان کے ہی ہاتھوں میں کتنی طاقت اور شکتی ہے۔ پچھلے نوماہ سے تیونس میں ہڑتالوں اور مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہے جو ابھی تک جاری وساری ہے ۔بینکنگ کے شعبے ، ٹیکسٹائل کارخانوں ،پوسٹ آفس ، ریلویز ،ہوائی اڈوں،ججوں ، پولیس افسروں سمیت کئی پرتیں اس عمل میں منظم و متحرک چلی آرہی ہیں ۔یہ سب بدعنوان و مطلق العنان مینیجروں کی برطرفی ،اجرتوں میں اضافوں اور حالات کار میں بہتری کے مطالبات پر احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں ۔دوسری طرف یونیورسٹی کا نیا تدریسی سال شروع ہوتے ہی مظاہروں اور دھرنوں کا ایک سلسلہ شروع ہوچکاہے جن میں ریکٹروں اور ڈائریکٹروں کو برطرف کئے جانے کے مطالبات کئے جارہے ہیں ۔جن میں سے اکثریت سابق RCDحکومت کے لگائے ہوئے ہیں۔ابھی الیکشن ہوئے کچھ ہی دن گزرے کہ پوسٹ آفس کے محنت کشوں کی تین روزہ ہڑتال کے ساتھ ہوٹل اور ٹورسٹ ایجنسیوں کے ورکروں کی ہڑتال سامنے آئی جنہوں نے ملک کے کئی شہروں میں انتہائی پرجوش مظاہرے کئے ہیں ۔تیونس کی بریوری اور ریفریجریشن کمپنی کے ورکروں نے بھی ہڑتال شروع کر دی ہوئی ہے ۔جبکہ اطالوی تیل کمپنی ENIکے ورکروں نے بھی خود کو مستقل کروانے کیلئے ہڑتال شروع کررکھی ہے ۔تیونس کے محنت کش اور نوجوان اپنے اندر اعتماد اور طاقت کے احساس سے سرشاراور لیس ہوکر اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ اپنے اہداف کو ممکن بنا سکیں۔ان میں وہ بیروزگار گریجوایٹس بھی شامل ہیں کہ جنہوں نے انقلاب برپاکرنے میں کلیدی کردار اداکیاتھا ۔ ابھی حال ہی میں ان نوجوانوں کی یونین (The Union of Unemployed Graduates (UDCنے ساؤسے میں اپنی قومی میٹنگ منعقد کی جس میں پانچ سو سے زائد مندوب شریک ہوئے ۔اور جو ملک کے لاکھوں نوجوانوں کی نمائندگی کر رہے تھے ۔ 15اگست کو تیونس کے دارالحکومت میں 10000سے زائد افراد نے روزگار،سماجی برابری اور سابق حکومتی عہدیداروں کو سزائیں دینے کیلئے مظاہرہ کیا۔
ایک ایسی معیشت جو کہ مسلسل منجمدہونے کی کیفیت میں ہے ،براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 28فیصد گراوٹ،عالمی سرمایہ داری خصوصاً یورپ میں جاری معاشی بحران ،جو کہ تیونس کی برآمدات اور تیونس کی مالیات و سیاحت کا مرکزو محور چلا آرہاہے‘ایسی حالت میں النہدا کو انتہائی سخت بلکہ ناممکن حالات کا سامناکرناپڑے گا۔
نئے تصادم اور تنازعات ناگزیر ہیں ۔جن کے نتیجے میں طبقاتی سوال ابھر کر سامنے آئے گا ۔قیصرین سے تعلق رکھنے والے اور النہدا کو ووٹ دینے والے ایک27سالہ بیروزگارنوجوان نے L1 Humanit کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’ اگرنمناؤشی نے روزگار کیلئے کچھ بھی نہیں کیا تو اس کا بھی وہی انجام ہوگا جو کہ بن علی کا ہوا ‘‘۔ اور النہدا کی قیادت اس خدشے اور خطرے سے بخوبی آگاہ بھی ہے ۔اور اسی تشویش کے باعث ہی وہ ایک مخلوط حکومت کے قیام کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے ۔ایسا اس لئے کہ وہ جو کچھ کرنے جارہے ہیں اس کی ذمہ داری اکیلے ان کے سر نہ آسکے۔
متبادل انقلابی رحجان کی کمی
اس وقت اور اب سے کچھ وقت پہلے جس عنصر کی کمی ہے وہ ایک ایسے انقلابی متبادل کی ہے کہ جو انقلاب کو درپیش مسائل و مطالبات کیلئے کوئی ٹھوس پروگرام سامنے لا سکے تاکہ انقلاب کے معاشی اور سیاسی اہداف کو حاصل اور مکمل کیا جائے۔یہ عمل بڑے کاروباروں اور سامراجی مفادات کو بے دخل اور سابقہ حکمرانی اور سرمایہ داری سے مکمل نجات حاصل کر کے ہی کیا جاسکتا ہے۔تیونس کی سب سے ایڈوانس لیفٹسٹ پارٹیاں جن میں تیونس ورکرز کمیونسٹ پارٹی(PCOT)اور عرب نیشنلسٹ موومنٹ آف ڈیموکریٹک پیٹریاٹس نے بالترتیب تین اور دو سیٹیں جیتیں ہیں ۔PCOTکے ساتھ مسئلہ یہ رہاہے کہ یہ انقلاب کے تاریخ ساز عمل کے دوران کوئی واضح پوزیشن نہیں سامنے لائی ۔ تب ،جب طاقت سڑکوں پر لوگوں کے ہاتھوں میں تھی اور پے درپے عبوری حکومتیں قائم ہو رہی اور گرتی چلی جا رہی تھیں ،ہر طرف عوام نے انقلابی کمیٹیاں قائم کی ہوئی تھیں،ایسے میں موقع تھا کہ یہ پارٹی ان انقلابی کمیٹیوں کی ایک قومی سطح کی میٹنگ کا اہتمام کرتی اور اقتدار کو حاصل کرنے کی کاوش کرتی۔ اس کی بجائے ہوا یوں کہ سرمائے کی قوتوں نے انقلاب کے دفاع کے نام پر کمیٹیاں قائم کرنا شروع کر دیں اور جنہوں نے بلند و برتر مقصد کے نعرے کے تحت ماحول کو سازگار کرنا شروع کردیا یعنی ایک آئین ساز اسمبلی کاقیام ۔تاکہ بورژوا اقتدارواستحکام کو قائم ودائم رکھا جاسکے ۔
PCOTنے الیکشن میں کئی ایک ترقی پسندانہ مسائل پر موقف رکھا لیکن یہ کسی طور سوشلزم کیلئے درکار جدوجہد کے پروگرام کا عمومی حصہ نہیں تھیں ۔اس وقت پارٹی ،معیشت کے سٹریٹجک حصوں کی نیشنلائزیشن کا پروگرام پیش کرتی ہے ،اور انہیں ورکروں کے جمہوری کنٹرول میں دیے جانے کی بجائے یہ پارٹی ساتھ ہی ساتھ معیشت کے مرکزی شعبوں کو متوازن کرنے اور رکھنے کی بھی پوزیشن اپنائے ہوئے ہے۔مسئلہ اور معاملہ یوں ہے کہ معیشت کی منصوبہ بندی صرف اسی صورت ہی ممکن العمل ہوتی اور ہو سکتی ہے کہ جب معیشت کے بنیادی و مرکزی شعبوں کو پبلک کی ملکیت کرلیا جائے ۔اور پارٹی صرف اتنا قرار دیتی ہے کہ وہ تیونس کے لوگوں کی ضروریات اورقومی ترقی کے تقاضوں کا مکمل احترام کرتی ہے اور یہ کہ پیداوار کی ترقی،روزگار کی فراہمی ،ورکروں اور ملازمین کے حقوق، اورماحولیات کا احترام کرتی ہے ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ماتحت کمپنیاں صرف اور صرف منافع خوری کیلئے ہی کام کرتی ہوتی ہیں نہ کہ تیونس کے لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ۔واحد طریقہ یہی ہے کہ دوسرا راستہ اختیار کیاجائے کہ کمپنیوں کو قومی تحویل میں لے کر ورکروں کے جمہوری کنٹرول میں دیاجائے۔اور یہ وہ پوزیشن ہے کہ جسے کھلے عام ببانگ دہل بیان کیا جانالازمی ہے ۔
براہ راست اور بر سرعام سوشلزم کی بات کہنے کی بجائے ایک محب الوطن اور لوگوں کی تمناؤں کے مطابق معیشت کی بات کرنے ،پارٹی کے نام سے کمیونسٹ کا لفظ ہٹادینے اور الیکشن میں انقلابی متبادل کے نام سے حصہ لینے اور پارٹی کے معروف نام کو چھپانے کی کوشش‘ یہ سب سٹالنزم کی دان کردہ تنگ نظری کا ہی شاخسانہ ہے ۔یہ نظریہ یا تصور کہ انقلاب میں ترقی پسندی،حب الوطنی اورجمہوریت کے الگ الگ مراحل بھی ہوا کرتے ہیں اور یہ سب سوشلزم کیلئے جدوجہد سے پہلے طے کئے جانے ضروری ہوتے ہیں ۔اور اس کاا ظہار ہمیں پارٹی کے سیاسی پروگرام میں بھی نظر آتا ہے کہ جب ایک جدید جمہوری ، ریپبلکن اور عوامی حکومت کے قیام کو انقلاب کا بنیادی مقصد قراردیاگیاہے ۔اور جس کاحصول ایک متوازن نمائندگی کی حامل پارلیمانی حکومت سے ممکن ہوگا ،جو کہ عدلیہ کو آزاد کرے گی‘مذہب کو ریاست اور سیاست سے الگ کرے گی اورجو انفرادی حقوق کو یقینی بناتے ہوئے انسانی حقوق کے احترام کا مظاہرہ کرے گی ۔دوسری معنوں میں یہ سب ایک بورژوا جمہوریت کے ذریعے اور طفیل ہوگا۔
جس بات اور حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ تیونس کے انقلاب کے سماجی و جمہوری مطالبات کیا ہیں! آزادی، روزگار،سماجی انصاف وغیرہ وغیرہ۔اور ان میں سے کوئی ایک بھی سرمایہ دارانہ نظام اور بورژواجمہوریت کے ہوتے ہوئے حاصل نہیں ہوسکتا ۔بن علی کی آمریت کسی طور ایک عام سادہ آمریت نہیں تھی بلکہ یہ ایک مالیاتی آمریت تھی ایک سرمایہ دارانہ آمریت تھی جو کہ ملکی و عالمی اجارہ داریوں کے منافعوں کو یقینی بنائے ہوئے تھی ۔تیونس کے عوام کے مطلوبہ انقلاب کیلئے اور حقیقی جمہوری آزادی کیلئے لازم ہے کہ معیشت کو لوگوں کی ملکیت میں دے دیا جائے ۔اور معیشت کو اس کے ورکروں کے جمہوری کنٹرول میں چلانے کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ اسے اجتماعی مفاد کیلئے بروئے کار لا سکیں ۔ یہ بنیادی جمہوری مطالبہ سرمایہ دار طبقہ کے مفادات سے متصادم ہونا مانگتاہے ۔
تیونس کے انقلاب کے قومی اور جمہوری تقاضے ناگزیر طورپر سوشلسٹ اور انٹرنیشنلسٹ تقاضوں سے جڑے ہوئے ہیں‘ خالص جمہوریت کی ابتداحکمران طبقے کی دولت کی ضبطگی سے ،بن علی کے دور کے بدمعاشوں کو کھونٹی سے ٹانگنے سے‘عالمی اجارہ داریوں کے مفادات کو بے دخل کرنے سے اور غیر ملکی قرضے کو ضبط کرنے سے ہی ہوگی ۔
جو آئین ساز اسمبلی بنائی اور سامنے لائی گئی ہے ،اس قسم کا پروگرام اس کے بس کی بات نہیں ہے ۔یہ تو قائم ہی حکمران طبقے کی مرضی ومنشاسے ہوئی ہے ۔جس کا مقصدہی تیونس میں سے انقلاب کے جوش و جذبے کو اکھاڑ پھینکنا اور بورژواجمہوری اداروں کی حاکمیت کو ازسرنو بحال اور مسلط کرناہے ۔
آنے والے دنوں میں تیونس کے نوجوانوں اور محنت کشوں کا النہدا کی مخلوط حکومت کے ساتھ تصادم شروع ہوگا جو کہ انقلاب کے ایک نئے مرحلے کا باعث بنے گا۔مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اس نئے انقلابی ابھار کی جستجواور جدوجہد کے مقاصد کو سمجھنے اور ممکن بنانے والا انقلابی متبادل سامنے لایاجائے ۔