ایم کیو ایم: جب بات بگڑ جائے!

| تحریر: لال خان |
قیام کے67 سال بعد بھی’’ نظریہ پاکستان‘‘ پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔ یہ تذبذب ابھی چل رہا ہے کہ آخریہ ہے کیا؟23 مارچ کو جو ’’ یومِ پاکستان‘‘ کا تماشا رچایا جاتا ہے اور اک بھونڈا جشن منایا جاتا ہے۔ بانی پاکستان ’’قائد اعظم‘‘ محمدعلی جناح نے مئی 1946ء کو ’’ کیبنٹ مشن پلان‘‘ کو تسلیم کرکے ’’ قرار دادِ پاکستان‘‘ کی خود نفی کردی تھی۔
67mqm army cartoon سال پہلے کہا جاتا ہے کہ ایک ’’قوم‘‘ ایک ملک تلاش کررہی تھی آج ایک ملک کسی قوم کو تلاش کررہا ہے۔ پاکستان کے قوم نہ بن سکنے کی سب سے واضح اور خونریز مثال اس کا سب سے بڑا شہر کراچی ہے۔ جہاں’’مہاجر‘‘ ابھی تک ’’مہاجر‘‘ ہی بنے ہوئے ہیں۔ حکمرانوں کی رجعتیت اس امر سے ہی بے نقاب ہوتی ہے کہ وہ ’’پاکستانی قوم‘‘ کو یکجا بنانے اور جدید قومی ریاست تشکیل دینے کی بجائے انہیں نسلی‘ قومی‘ لسانی‘ مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو ابھار کر عام انسانوں کو اس قتل وغارت کا شکار کرکے محنت کشوں کی تقسیم کے ذریعے اپنی حاکمیت کو طوالت دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن بھی اس انتشار کو مٹانے کی بجائے اس کو بھڑکانے کا موجب ہی بنے گا۔
لیکن جن کا سب کو پتہ ہے ان کی بے نقابی کیسی؟ جس وحشت سے کراچی خونریز ہوتا رہا اس کو منظرِ عام پر لانا اب کیوں؟ جن کو عوام کی نمائندگی کا شرف بخشا گیا اب ان کی غنڈہ گردی اور دہشت سے حاصل کردہ انتخابی کامیابیوں کو اب جعلی قرار دینے کا مقصد کیا ہے؟جن سے سب پارٹیاں الحاق کرتی رہیں اب وہ دہشت گرد کیوں بنا دیئے گئے؟ جن اداروں نے ان کو پالا پوسہ ان کو شہری سندھ کا ان داتا بنایا اب انہی کے ہاتھوں ان کی سرکوبی کیوں؟ حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کی سیاست وریاست میں تنازعات اور تصادم کے معرکے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ معاشرے کی کوکھ میں سماج کی گہرائیوں میں سلگتی ہوئی خاموشی روح اور احساس کو تڑپا رہی ہے۔ لیکن نیچے جتنا سناٹا ہے او پراتنا ہی شور اور خلفشار ہے۔ میڈیا کے دیوتا یہ سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں کے ان تنازعات میں محنت کش عوام کو ذہنی طور پر الجھا کر ان کی گروہ بندی کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ سنسنی خیز’’انکشافات‘‘ کی ایک یلغار چل رہی ہے۔ الزامات اور جرائم کی بے نقابی کی ایک بوچھاڑ برسائی جارہی ہے۔ اس سے درمیانے طبقے کے ٹیلی ویژن ناظرین تو شاید متاثر ہوتے ہونگے لیکن عوام شعوری یا لاشعوری طور پر ان سے ناآشنا بھی نہیں ہیں اور ان خونی ناٹکوں کی سنسنی سے انہوں نے مرعوب ہونا بھی چھوڑ دیا ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ دنیا کے سیاسی انتشار کے شکار 33 ملکوں میں سیاست میں عوام کی دلچسپی وشراکت کی تعداد سب سے کم پاکستان میں 12 فیصد ہے۔ عوام نہ صرف اس سیاست کی اہلیت جان چکے ہیں بلکہ اپنے دشمنوں کو پہچان بھی رہے ہیں۔ میڈیا کی بریکنگ نیوز عوام کے لیے پرانی گھسی پٹی خبریں بن چکی ہیں۔ ظلم اور دہشت گردی جب کسی معاشرے کا معمول بن جائے تو اس سے صدمہ کیسا؟ دکھ کیسا؟ کرب کیسا؟ اس کا احساس کیسا؟
عوام حکمرانوں کی معاشی قتل وغارت سے اتنے مجروع اور گھائل ہوچکے ہیں کہ اب چھوٹے موٹے زخموں اور ’’المناک‘‘ واقعات کے اثرات ان کو نہ دہلا سکتے ہیں نہ کسی کسک میں مبتلا کرسکتے ہیں۔ لیکن حکمرانوں کی یہ لڑائیاں جہاں عوام کو ذہنی طور پر منتشر اور کرب میں مبتلا کرکے ان کو کمزور کرنے کے لیے ہیں وہیں یہ لڑائیاں لوٹ کے عمل میں باہمی ٹکراؤ کا نتیجہ بھی ہیں۔ یہ لڑائیاں سنجیدہ بھی ہیں اور ان سرکاری اداروں اور سیاسی گروہوں کے جرائم میں مافیا گینگز کی باہمی حصہ داری کی غارت گری کی غمازی بھی کرتی ہیں۔
جب کسی ملک کی معیشت کا دوتہائی سے بھی زیادہ حصہ کرپشن اور جرائم پر مبنی ہو وہاں کی مروجہ غالب سیاست میں اصول کیسے؟ ضمیر کیسے؟ نظریات کیسے؟ سچ کیا اور جھوٹ کیا؟ اسی معاشی واقتصادی جرائم زدہ سماج پر مسلط ریاست کا کردار بھی اس کی سیاست سے مختلف نہیں ہوسکتا۔ سیاست سے لے کر صحافت تک ہر شعبے میں دخل اندازی کرنے پر ریاست مجبور ہے۔ اور پھر جہاں ہر سیاسی پارٹی کے اپنے مفادات اور دھڑے ہیں وہاں اس کھلواڑ میں ریاست کے اداروں کے بھی سیاسی اور مافیائی پیادے ہیں۔ جہاں ریاست میں وفاداریاں بدلتی ہیں وہاں ریاست کے تخلیق کردہ گروہ بھی کبھی قابلِ اعتبارنہیں رہتے۔ بعض اوقات یہ پالتو گروہ اپنے آقا کے ہاتھوں کو بھی کاٹ لیتے ہیں۔ پھر ریاست سے بڑی تو کوئی دہشت نہیں ہوتی۔ ان غداری کرنے والے پالتو سیاسی گروہوں کو عبرتناک انجام سے دوچار کرنا اسکی ضرورت بن جاتی ہے۔
جہاں سیاست‘ مخلوط حکومتوں اور ’’ نظریہ مصالحت‘‘ (Reconciliation) کے ذریعے لوٹ مار کی انارکی کو منظم انداز میں بانٹنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں اس نظامِ زر کے استحصال کو مسلط کرنے والی ریاست کو بھی اپنے اوزاروں میں تبدیلیاں لانی پڑتی ہیں۔ آج کراچی میں یہی آپریشن تھوڑے بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ لیکن اس سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ جب ایک غدار دھڑے کی سرکوبی کی جائے تو اس لوٹ مار کے نظام میں ایسے ہی دوسرے جرائم کے ماہر دھڑے کے لیے جگہ خالی ہوگی۔
مسئلہ اس نظام کو چلانے کا بنایا اور دکھایا جاتا ہے۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ تاریخی طو ر پر متروک یہ سرمایہ دارانہ نظام پاکستان میں جس نہج پر پہنچ چکا ہے‘ جس حد تک گل سڑ چکا ہے اس کے اس ناسور زدہ وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اس کے پاس کرپشن‘ جرائم‘ دہشت گردی اور قتل وغارت اور غنڈہ گردی کے علاوہ اور کوئی طریقہ واردات ہی نہیں ہے۔ بھتہ خوری‘ کرائے کے قتل‘ اغوا برائے تاوان‘ بلیک میلنگ‘ ڈاکہ زنی‘ منشیات کے کاروبار اور دوسرے جرائم کے بغیر منافع خوری کا یہ نظام چل ہی نہیں سکتا۔ لیکن ہمارے عالم اور مبلغ کبھی نیکی کی تلقین کرکے اچھا بننے کا سبق دیتے ہیں۔ کبھی دیانتداری کا درس دیا جاتا ہے اور کبھی اصولوں‘ آئین کی بالاستی اور قانون کی حکمرانی کا نسخہ پیش کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قانون کا فعال ہونا‘ سیاست کا شفاف ہونا اور انسان کا دیانتدار ہونا اسی وقت ممکن ہے جب معاشرے میں سلگتی ہوئی محرومی نہ ہو ‘جب سماج معاشی اور اقتصادی اور معاشرتی بربادیوں کا شکار نہ ہو۔ لیکن اس نظام کے کردار اور اسکی موجودہ سرطان زدہ کیفیت کا ذکر کرنا بھی محال بنا دیا گیا ہے۔ ساری سیاست‘ ریاست‘ صحافت ‘ ثقافت‘ مذہب اور فرقے اس دولت اور سرمائے کی جکڑ میں مقید ہیں۔ اس سے باہر ان کے مفکر اور دانشور نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سوچ سکتے ہیں۔ ایک اندھی دوڑ لگی ہوئی ہے جس میں وفاداریوں کے ساتھ ساتھ غداریاں بھی بکتی ہیں۔ منڈی کی اس سکڑتی ہوئی معیشت میں اتنی مندی ہے کہ بڑے سے بڑے ضمیر بھی کوڑیوں کے بھاؤ نیلام ہوجاتے ہیں۔ سیاست محض اس منڈی میں ہونے والا کاروبار ہے۔ ریاست اس نظام کا تحفظ کرتے کرتے خود اس میں غرق ہوگئی ہے۔
کراچی میں کتنے آپریشن ہوئے ہیں؟ کچھ حل نہیں ہوا۔ کتنے اور بھی ہوجائیں تنزلی اور تاریخی متروکیت کے اس نظام میں جتنی گراوٹ آتی ہے ہوسِ زر اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ غربت کے اس بحرمیں امارت کے پرتعیش جزیرے ہیں جن کی خواہشات اور عیاشی کی بے ہودہ ضروریات لاامتناعی ہیں۔ یہ ’’ضروریات‘‘ 20 کروڑ انسانوں کی ضروریات کو گدوں کی طرح نوچ کر ہی پوری کی جاتی ہیں۔ اس بالادست طبقے ‘جس کی شکل مذہبی عقیدہ پرستی کے نقاب میں ہو یا مغرب زدہ لبرل ازم کی’’آزادی‘‘ کے روپ میں ہو‘ کی ہوس بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ معیشت میں دم نہیں‘ صنعت بند ہورہی ہے۔ اسکی تعلیم آبادی کے بھاری حصے کو ناخواندہ کررہی ہے۔ اس کا علاج غریبوں کو مزید بیمار کرتا ہے۔ اس نظام میں عام انسانوں کی زندگی موت کے رحم وکرم پر چل رہی ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا کہ جمہوریت‘ آئین ‘فوجی آپریشنوں اور ریاست کی کاروائی سے اس نظام کی دہشت گردی سے لے کر کرپشن تک کے جرائم کی علامات کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے محض دھوکہ اور فریب ہے۔ جب تک بیماری اور زخم نہیں جاتے درد ختم نہیں ہوتے تب تک تکلیف سے نجات نہیں ملتی۔ کبھی علامات کو ٹھیک کرکے بھی بیماریوں کا علاج ہوسکتا ہے؟ لیکن آج جس آپریشن کی ضرورت حکمرانوں کو پڑگئی ہے اس سے کہیں وہ اپنے پاؤں پر ہی کلہاڑی تو نہیں مار رہے؟ اپنے ہی اوزار اور آلہ کار کو ہی کہیں تباہ تو نہیں کررہے؟ اور اگر کررہے ہیں تو کیا اس کا متبادل اس قابل ہوگا کہ پاکستان کے پرولتاریہ کے گڑھ کراچی میں وہ دہشت اور وحشت پھیلا سکے جس سے ایک عرصے تک محنت کشوں کی یکجہتی کو توڑنے کا عمل جاری رکھا جاسکے؟ ان کی تحریک کو لاامتناعی طور پر کچلا جاسکے؟ حکمرانوں کے لیے صورتحال کافی سنگین ہے۔ یہ آپریشن ان کو مہنگا نہ پڑ جائے۔ مذہبوں‘ قوموں‘ نسلوں‘ زبانوں ‘فرقوں اور عقیدوں سے بٹا ہوا منتشر کیا گیا یہ محنت کش طبقہ اگر ان بڑے دھماکہ خیز واقعات کے دھچکوں سے عوام کی سلگتی خاموشی کا سناٹا ٹوٹا اور اگر محنت اور سرمائے کی اس جنگ میں یکجا ہو کر مزدور تحریک ابھر پڑی تو یہ اس درندہ حاکمیت کے لیے موت کا پیغام بنے گی۔ لیکن حکمرانوں کا یہ نظام تو عام انسانوں کو مار مار کر بھی نہ خود مرتا ہے نہ عام انسانوں کو جینے دیتا ہے۔
ایم کیو ایم اس معاشرے پر 1947ء کے خونی بٹوارے کا وہ سلگتا ہوا زخم ہے جس سے پیپ اور خون آج بھی رس رہی ہے۔ یہ پاکستان کے ایک قوم بننے کی ناکامی کا عبرتناک انجام ہے۔ اس ملک میں قومی مسئلہ اور استحصال حکمران طبقات اور ان کے نظام کی تاریخی واقتصادی متروکیت کا ثبوت ہے۔ اس ملک کی سیاست ‘ثقافت اور معیشت پر مسلط مذہبیت بالادست طبقات کی قدامت پرستی اور رجعتیت کی آئینہ دار ہے۔ مفلسی‘بھوک ننگ‘ بیماری ‘ بیروزگاری‘ ناخواندگی اور ذلت ورسوائی اس نظامِ زر کے خلاف دُہائی دیتے ہیں۔ سیاست میں وحشت ‘ریاست کی درندگی‘ اسلامی بنیادپرستی کی دہشت گردی اور بربریت اس نظام کے خونی اور وحشیانہ کردار کی غمازی کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے پاکستانی پرولتاریہ کے مسکن کراچی کو برباد کرکے اجاڑ دیا ہے تو باقی سارا ملک بھی اس حاکمیت نے تاراج کردیا ہے۔ ’’آزادی‘‘کے یہ جشن‘ جشن نہیں غریبوں اور محنت کشوں کی ذلتوں کا تماشا ہیں۔ ان کی تضحیک ہے۔ آزادی سرمائے کی ہے غلامی سارے سماج اور محنت کشوں کے نصیب میں ان ناخداؤں نے لکھ ڈالی ہے۔ لیکن ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ ایم کیو ایم کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے آپریشن نہیں ہورہا۔ اسکی جگہ زیادہ تابع ناسور اگایا جارہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف وزیر ستان میں آپریشن کا مقصد مذہبی جنونیت کا خاتمہ کرنا نہیں ہے بلکہ پرانے پاگل ہوجانے والے درندوں کی جگہ نئے تابعدار ریاستی دہشت گردوں کے لیے جگہ بنانے کی غرض سے ہورہا ہے۔ اس حاکمیت کے اب صرف یہی کام رہ گئے ہیں۔ اور یہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ لیکن ان کو جس عوامی غیض وغضب کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑنے والا ہے اس کی ٹکر سے یہ ریاست اور سیاست اور نظام پاش پاش ہوجائے گا۔ محنت کشوں کا یہ آپریشن فوجی نہیں انقلابی ہوگا!
محنت کشوں کی اس نظام سے باغی تحریک ہی وہ انقلابی جراحی کرسکتی جس سے اس ناسور کو کاٹ پھینکا جاسکتا ہے جو اندر ہی اندر اس سماج کے جسم کو چاٹ رہا ہے‘ گھائل کررہا ہے‘ پھاڑ رہا ہے۔  انسان تب ہی سکھ کا سانس لے سکے گا۔

متعلقہ:

سانحہ بلدیہ ٹاؤن: لہو سستا ہے مزدور کا!

مافیا کی سیاست

ایم کیو ایم کی بے چینی

شناخت کا ابہام

کراچی: شہرِ بے اماں۔۔۔